اخبار نے لکھا: جو کچھ سابق صدر جیمی کارٹر نے مشرق وسطی میں شروع کیا تھا اوباما اس کو ختم کرنے والے ہیں۔ امریکہ کے لئے مشرق وسطی میں
بدبختیوں سے نکلنا صرف تھران کے توسط سے ھی ممکن ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے اپنے ایک مضمون میں 1980 کے عشرے کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ھوئے لکھا: ایران میں شاہ کی حکومت کے خاتمے اور افغانستان پر سوویت روس کے حملے کی وجہ سے جیمی کارٹر نے ایک ایسی عسکریت پسندی کا آغاز کیا جو آج تک جاری ہے۔
مضمون کے اھم نکات:
۱۔ خطے میں امریکی عسکری موجودگی میں کمی آرھی ہے، اوباما نے امریکہ سرمایہ اور امریکیوں کی جانوں کو خرچ کیا لیکن وہ امریکی عوام کو کچھ زیادہ بھتر نتائج نہ دکھا سکے۔ جنگ میں یہ سرمایہ کاری اب اختتام پذیر ھورھی ہے۔
۲۔ اوباما کے پاس بھی کارٹر کے پاس کم ھی متبادلات (Alternates) موجود ہیں۔ اندرونی سطح پر غم و غصہ اور خوف و ھراس نے کارٹر کو مجبور کیا کہ اپنی قوم کو مشرق وسطی میں زيادہ بڑی جنگ کے لئے تیار کرے؛ کارٹر نے ورثے میں پینٹاگان چھوڑ رکھا ہے اور یہ ادارہ مصر سے پاکستان تک مسلسل مداخلتوں کی قوت بڑھانے میں مصروف ہے۔
۳۔ آج جنگوں یا تقابلات کی وجہ سے جو وسیع مایوسیاں امریکیوں کا گریبان پکڑ چکی ہیں انھوں نے اوباما کو نئی جنگ میں کودنے سے روک لیا ہے۔ مسلسل عسکری ناامیدیاں ـ جن میں سے سب کے ذمہ دار اوباما نہ تھے ـ افواج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے اوباما کے اختیار کی سرکوبی کا سبب بنیں چنانچہ اوباما ان فیصلوں کی منظوری دیتے رھے جو دوسرے اداروں سے آیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر اوباما نے دھمکی دی تھی کہ وہ شام پر حملہ کریں گے لیکن اوباما نے رائے عامہ اور کانگریس کی رائے کا حوالہ دیا۔ امریکی عوام مزید کسی بھی جنگ کا اشتیاق کھوگئے ہیں۔
۴۔ امریکی عوام جنگوں سے اکتا چکے ہیں؛ افغانستان سے انخلا کے وعدے دیئے گئے ہیں اور کھا گیا ہے کہ امریکہ ایک ھی علاقے میں پوری قوت صرف کرنے کا روادار نھيں ہے لیکن ان ساری باتوں کا مفھوم یہ نھیں ہے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کی جنگ اختتام پذیر ھوئی ہے۔
۵۔ امریکی ڈرونز کے حملے جاری ہیں، میزائل حملے؛ چاھے وہ پاکستان یا افغانستان میں ھوں یا پھر یمن اور صومالیہ میں؛ لیکن ان تمام حملوں کا کوئی بڑا تزویری مقصد نھيں ہے۔
۶۔ تھران میں دائمی جنگ سے باھر نکلنے کے لئے ایک راستہ موجود ہے۔ ھم اگر اسلامی جمھوریہ ایران کو تسلیم کریں تو وہ بھی علاقے کی موجودہ صورت حال کو قبول کریں گے جس کے بعد ھمیں اپنے ان زخموں پر مرھم رکھنے کا موقع ملے گا جو ھم نے خود اپنے پیکر پر لگائے ہیں۔
۷۔ ایران کے جوھری پروگرام کے سلسلے میں مذاکرات ایک عظیم تر ھدف کے حصول کے لئے راستہ ھموار کردیتے ہیں؛ ایسی کوئی مفاھمت قطعی طور پر سعودی عرب اور اسرائیل کو ناراض کرے گی کیونکہ وہ ایران کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں؛ ممکن ہے کہ اوباما انھیں اس مسئلے کے سامنے غیظ و غضب ظاھر کرنے کی اجازت دیں۔
۸۔ امریکہ کے مزید آل سعود کے سامنے گھٹنے نھیں ٹیکنے چاھئے۔ شمالی امریکہ کے تیل اور گیس کے ذخائر چند سال قبل کی نسبت بھت زيادہ وسیع و عریض ہیں۔ حالات ماضی کی طرح نھیں ہیں اور اب سعودی امریکی اتحاد کا تحفظ چندان ضروری نھیں ہے اور آل سعود کو خوش رکھنا اب امریکہ کے لئے ھرگز اھمیت نھیں رکھتا۔
۹۔ اسرائیل کے بارے میں بھی یھی مسئلہ صادق ہے۔ اسرائیل اپنی سلامتی کو ھر دوسری چیز پر ترجیح دیتا ہے، گوکہ یہ اس کا حق ہے، تاھم ضرورت اس امر کی ہے کہ واشنگٹن اسرائیل کے ان اقدامات کو نظر انداز کرے اور اھمیت نہ دے جو امریکہ کے مفادات کو دیوار سے لگا دیتے ہیں؛ جس طرح کہ اسرائیل مغربی کنارے میں نوآبادیاں تعمیری کرنے کے سلسلے میں امریکی مخالفت کو نظر انداز کررھا ہے۔ چنانچہ امریکہ بھی اسرائیل کو اپنی پالیسیوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کی اجازت نہ دے۔
واشنگٹن پوسٹ نے آخر میں لکھا: امریکہ کے لئے مشرق وسطی میں بدبختیوں سے نکلنا صرف تھران کے توسط سے ھی ممکن ہے۔