فروشگاه اینترنتی هندیا بوتیک
آج: Wednesday, 12 February 2025

www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

صھیونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نتن یاھو نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل کے سعودی عرب اور خلیج فارس کے

 علاقے کے بعض ممالک کے ساتھ خفیہ تعلقات ہیں۔
 نتن یاھو کا یہ بیان گذشتہ دنوں صھیونی حکومت کی پارلیمنٹ میں سامنے آیا اور نتن یاھو نے دعوی کیا کہ عرب ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل ان کا دشمن نھیں ہے اور یھی موضوع اس بات کا سبب بنا ہے کہ وہ اسرائیل و عرب ممالک کے درمیان خفیہ تعلقات سے پردہ اٹھارھے ہیں۔
خفیہ تعلقات کے نیٹ ورک وہ ممالک شامل ہیں کہ جن کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات نھیں ہیں۔ قطر و سعودی عرب ، خلیج فارس کے علاقے کے ان عرب ممالک میں شامل ہیں کہ جو اسرائیل کے ساتھ خفیہ و آشکارہ تعلقات میں پیش پیش رھے ہیں۔
عرب و اسرائیل مذاکرات کا پھلا دور اکتوبر 1991 میں اسپین کی میزبانی میں منعقد ھوا اور امریکہ نے ان مذاکرات کی نگرانی کی تھی اور اس مذاکرات کے ایجنڈے میں اسرائیل کے ساتھ عربوں کے تعلقات کی برقراری پر عائد پابندی کو منسوخ کرنے کا مسئلہ سرفھرست تھا۔
امریکہ کے اس وقت کے حکام نے ان مذاکرات میں بھت زیادہ کوشش کی کہ اسرائیل و عربوں کے مذاکرات کے طلسم کا توڑنے کے ساتھ ، اسرائیل کو چالیس سال بعد ، مشرق وسطی کے علاقے میں سیاسی و اقتصادی گوشہ نشینی سے باھر نکال دے۔ اس روسے امریکہ کے اس وقت کے صدر جارج بش نے عرب دنیا سے وعدہ کیا کہ اسرائیل و عربوں کے درمیان مذاکرات کے پھلے دور میں عرب رھنماؤں کے شرکت کی صورت میں نہ صرف فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لئے راستہ ھموار ھوگا بلکہ عرب – اسرائیل کے درمیان تجارتی و اقتصادی راھیں بھی کھل جائیں گی اور علاقے میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ھوں گی۔ اس لحاظ سے ، دو جابنہ مذاکرات کے ساتھ ساتھ ، عربوں اور صھیونی حکومت کے درمیان مختلف مسائل منجملہ اقتصادی و تجارتی شعبوں اور مھاجرین و پانی کے حوالے سے چند جانبہ مذاکرات بھی منعقد ھوئے تاکہ عربوں و صھیونی حکومت کے درمیان سفارتی تعلقات کی برقراری کے لئے زمینہ ھموار ھو۔
عرب ممالک میں اردن ، قطر اور سعودی عرب ، صھیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کی برقراری میں پیش پیش رھے ہیں۔ اس روسے ان ممالک و صھیونی حکومت کے درمیان پس پردہ مذاکرات کا آغاز ھوا تا کہ عرب – اسرائیل مذاکرات کے علنی ھونے کی تکمیل ھوسکے۔ اردن نے پی ،ایل ، او کے بعد 1994 میں صھیونی حکومت کے ساتھ باقاعدہ طور پر سفارتی تعلقات برقرار کیئے اور قطر 1990 کی دھائی میں صھیونی حکومت کے ساتھ مشترکہ تجارتی چیمبر کے افتتاح کے ساتھ اس حکومت کے قریب ھوا۔
ھرچند کہ سعودی عرب نے صھیونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو ھمیشہ خفیہ رکھا ہے اور کبھی بھی عوام کے ردعمل کے ڈر سے ان تعلقات کو برملا کرنے پر آمادہ نھیں ھوا۔
صھیونی اخبار ھآرتص نے اس سے قبل بھی اپنی ایک رپورٹ میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی برقراری میں سعودی عرب کے دلی جھکاؤ کے حوالے سے پردہ اٹھایا تھا۔
اس صھیونی اخبار نے لکھا تھا کہ سعودی عرب کے ایک جنرل نائب بن احمد آل سعود نے اس سے قبل کھا تھا کہ اگر اسرائیل ، امیر عبداللہ کے سازشی منصوبے کے مطابق عمل کرے تو سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی برقراری کے حوالے سے اپنی آمادگی کا اعلان کردے گا اور سعودی عرب کا یہ عمل دنیا کے دیگر عرب ممالک پر اثراندار ھوگا۔
تجربہ سے نشاندھی ھوتی ہے کہ علاقے میں رونما ھونے والی تبدیلیوں اور انقلابات کے رونما ھونے کے بعد سعودی عرب نے بحران کھڑا کرنے کے ساتھ صھیونی حکومت کے فائدے میں ، بحرین و یمن میں اپنی فورسز بھیج کر اور مصر میں مالی امداد دے کر ان ملکوں میں رونما ھونے والی صورت حال کو تبدیل اور رونما ھونے والے انقلابات کو منحرف کرنے کی کوشش کی ہے اور بلآخر شام میں بحران کو ھوا دینے کے ساتھ ، صھیونی حکومت کا ھمنوا بن گیا ہے۔
عرب ممالک کے حکمران برسوں سے علاقے میں صھیونی حکومت کے اھداف و مقاصد کے دائرے میں دوھری و تفرقہ انگیز پالیسیوں پر عمل کررھے ہیں، ان کی یہ پالیسیاں علاقے میں بدامنی و بحران کھڑا ھونے کا باعث بنی ہیں۔
عراق میں رونما ھونے والے دھشتگردانہ حملوں میں سعودی عرب کے کردار کو بھی نظرانداز نھیں کیا جاسکتا ، عراق کے اکثر سیاسی حلقے اس ملک میں رونما ھونے والے دھشتگردانہ واقعات کے تانے بانے آل سعود کی حکومت سے جوڑتے ہیں کیونکہ کہ عراق میں دھشتگردانہ کاروائیاں کرنے والے گروھوں کو سعودی عرب ہی سے مالی امداد ملتی ہے۔
ایک عراقی سیاسی تجزیہ نگار کا کھنا ہے کہ آیندہ انتخابات منعقد کرانے اور انتظامی امور میں عراقی حکومت کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگانے کی غرض سے سعودی عرب اور بعض علاقائی ممالک دھشت گرد گروھوں کی ملک میں پر تشدد کارروائیوں کے لیے حمایت کر رھے ہیں۔
پریس ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں عراق کے سیاسی تجزیہ نگار سعد المطلب نے عراق میں حالیہ مھینوں دھشت گردانہ حملوں کی لھر کی مذمت کرتے ھوئے کھا کہ ملک کی کچھ سیاسی پارٹیاں ان سازشوں میں ملوث ہیں، ان پارٹیوں کو سعودی عرب اور قطر کی حمایت حاصل ہے۔
مطلب نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ھوئے کھا کہ عراق میں جاری تشدد کے سازشکاروں کا مقصد حکومت کو کمزور کرنا اور موسم بھار میں ھونے والے عام انتخابات ميں شرکت سے عوام کو دور رکھنا ہے۔
انھوں نے کھا کہ عراقی عوام اس سازش سے آگاہ ہیں اور گزشتہ انتخابات کی طرح اس بار بھی سعودی سازشوں پر پانی پھر جائے گا۔
اقوامِ متحدہ کا کھنا ہے کہ رواں سال کے دوران عراق میں پانچ ھزار سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں جن میں صرف اگست میں 800 سے زیادہ افراد جاں بحق ھوئے ہیں۔
عراق میں موجود القاعدہ نے حالیہ مھینوں میں بڑے پیمانے پر ھونے والے دھشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، ان حملوں کا بنیادی ھدف شیعہ آبادی، سکیورٹی حکام اور حکومتی تنصیبات رھی ہیں۔
 

Add comment


Security code
Refresh