آٹھ ذوالحجۃ الحرام یوم ترویہ ہے؛ ترویہ کے معنی پانی ذخیرہ کرنے کے ہیں۔ اس دن بیت اللہ الحرام کے
زائرین و حجاج کرام مکہ سے منی کا سفر اختیار کرتے ہيں جھاں ایک رات ٹھہر کے انھیں عرفات جانا پڑتا ہے اور وھاں انھیں عرفات جانے کی تیاری کرنا پڑتی ہے۔
چونکہ قدیم زمانے میں عرفات میں پانی ناپید تھا اسی لئے حجاج منی کے خاص اعمال انجام دینے کے ساتھ اس روز عرفات اور اس کے بعد مشعر الحرام میں ٹھہرنے کے لئے پانی فراھم کرتے تھے چنانچہ اس کو یوم الترویہ کا نام دیا گیا۔ یوم الترویہ یعنی آب رسانی کا دن۔
اس روز حجاج حج تمتع کی نیت سے احرام باندھ کر مکہ سے منی کی طرف عزیمت کرتے ہیں، رات وھیں بسر کرتے ہیں اور صبح عرفات پھنچتے ہیں۔ یہ دن روز عرفہ کے اعمال کے لئے ابتدائیہ ہے اور یھیں عرفہ کے اعمال کی تیاری ھوتی ہے۔
یوم الترویہ حضرت ابراھیم اور حضرت اسماعیل علیھما السلام کے حج کی یادگار ہے کیونکہ جبرائیل نے انھیں بتایا کہ عرفات، مشعر اور منی کے لئے پانی بھی ساتھ لے جائیں۔ نیز اسی دن حجۃالوداع کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا قافلہ مکہ سے نکل کر منی پھنچا تھا اور وھیں سے عرفات روانہ ھوا تھا۔
یہ دن ذوالحجہ کے اھم دنوں میں سے ایک ہے اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقولہ حدیث کے مطابق اس دن کو روزہ رکھنا انسان کا ساٹھ سال کا کفارہ ہے۔ (1)
ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت ابراھیم علیہ السلام کو تعمیر کعبہ کا حکم ملا تو انھیں کعبہ کا اصل مقام معلوم نہ تھا چنانچہ جبرائیل نے اللہ کے حکم سے وہ مقام انھیں بتا دیا اور خداوند متعال نے کعبہ کے ستون بھشت سے نازل کئے اور حجرالاسود بھی نازل ھوا۔ ابراھیم علیہ السلام نے کعبہ کے لئے دو دروازے قرار دیئے ایک مشرق کی جانب اور دوسرا مغرب کی جانب۔ جس کو مستجار کھا جاتا ہے۔ جب تعمیر کعبہ کا کام مکمل ھوا تو حضرت ابراھیم اور اسماعیل علیھما السلام نے حج کی نیت سے طواف کیا اور آٹھ ذوالحجۃ الحرام کو جبرائیل نازل ھوئے اور ان سے کھا کہ اٹھیں اور پانی اکٹھا کریں کیونکہ زمین عرفات میں پانی نھيں ہے۔ اسی وجہ سے اس دن کو یوم الترویہ (پانی جمع کرنے) کا دن کھا گیا۔
ارشاد ربانی ہے:
"وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـَذَا بَلَداً آمِناً وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ"۔ (سورہ بقرہ آیت 126 )
"اوروہ وقت جب حضرت ابراھیم علیہ السلام نے کھا اے میرے پرور دگار اس کو امن والا شھر بنا اور اس میں رھنے والوں کو پھلوں سے روزی عطا کر، انھیں کہ جو ان میں سے اللہ اور آخرت پر بھی ایمان لائیں۔ ارشاد ھوا کہ اور جو کفر اختیار کرے گا میں اسے بھی کچھ دن تو مزے اٹھالینے دوں گا۔ پھر اسے بہ جبردوزخ کے عذاب کی طرف لے جاؤں گا اور وہ کیا برا ٹھکانا ہے"۔
اللہ اور خلیل اللہ کے درمیان یہ مکالمہ تعمیر کعبہ کے بعد انجام پایا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ثمرات اور پھلوں سے روزی پانے اور بھرہ مند ھونے سے مراد ثمرات قلوب یعنی لوگوں کی محبت اور مکہ کی جانب ان کا مائل ھونا ہے تکہ وہ اس کی طرف سفر اختیار کریں۔ (2)
عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کررھے ہیں "فأصبح بروی یومه أجمع" پس وہ صبح کو اٹھے اور پورا دن سوچتے رھے کہ کیا یہ خواب اللہ کا حکم ہے یا نھیں؟، چنانچہ اس دن کو ترویہ کا دن کھا گیا اور جب دوسری رات بھی وھی خواب دیکھا "فلّما أصبح عرف أنّه من الله" پس جب صبح ھوئی تو سمجھ گئے کہ یہ اللہ کا حکم ہے چنانچہ اس دن کو "یوم عرفہ" کا نام دیا گیا۔ (3)
یوم الترویہ کی منزلت
یوم الترویہ زمانے کے قابل قدر ترین ایام میں شمار کیا گیا ہے جس کے اپنے آداب و اعمال ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: خداوند تبارک و تعالی ھر چیز میں سے چار چیزیں منتخب کردیں: فرشتوں میں سے جبرئیل و میکائیل و اسرافیل و عزرائیل تلوار کے ساتھ جھاد کرنے کے لئے چار انبیاء کو منتخب کیا: ابراھیم، داؤد، موسی علیھم السلام اور مجھے؛ چار خاندانوں کو دوسرے خاندانوں میں سے چن لیا: خاندان آدم، خاندان نوح، خاندان عمران؛ اور شھروں میں سے چار شھروں کو چن لیا اور تین و زیتون اور طور سینین اور "اس بلد امین" کی قسم کھائی پس تین سے مراد مدینہ ہے، زیتون سے مراد بیت المقدس، طور سینین سے مراد کوفہ اور بلد امین سے مراد مکہ ہے؛ اور خواتین میں سے چار خواتین کو منتخب کیا: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد (سلام اللہ علیھن)؛ اور اعمال حج میں سے چار اعمال کو منتخب کیا: قربانی دینا، لبیک کے ساتھ آواز بلند کرنا، احرام اور طواف؛ اور مھینوں میں سے چار مھینوں کو حرام قرار دیا: محرم، رجب، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ اور ایام میں سے چار کو منتخب کیا: روز جمعہ، یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ)، روز عرفہ (نو ذوالحجہ) اور عید الضحی (دس ذوالحجہ)۔ (4)
شیخ صدوق نے امالی میں نقل کیا ہے کہ حج کے مستحب اعمال میں سے ایک یہ ہے کہ یوم الترویہ کو زوال شمس سے لے کر رات تک کا ادراک کرے اور جو ایسا کرے اس نے پورے حج تمتع کا ادراک کیا ہے۔ (5)
اس روایت کے مطابق یوم ترویہ کی منزلت اس قدر ہے کہ اس کا ادراک پورے حج کا ادراک سمجھا گیا ہے کیونکہ ترویہ کا دن درحقیقت عرفات اور عید الضحی میں داخل ھونے کی تیاری کا دن ہے۔
اس دن کے اعمال
محمد بن عمیر نے ایک واسطے سے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ روز ترویہ کا روزہ ایک سال کے گناھوں کا کفارہ ہے اور عرفہ کا روزہ دو سالوں کے گناھوں کا کفارہ ہے۔ (6)
محدث شیخ عباس قمی نے مفاتیح الجنان میں اس دن کے روز کو ساٹھ برسوں کے کفارے کے برابر قرار دیا اور نقل کیا ہے کہ شیخ شھید نے اس دن کے غسل کو بھی مستحب قرار دیا ہے۔
اس دن کے واقعات:
اس دن امام حسین علیہ السلام نے اھل کوفہ کو خط لکھا جو کچھ یوں تھا:
بسم الله الرحمن الرحیم
حسین بن علی کی طرف سے مؤمن و مسلم بھائیوں کے نام میں منگل از طرف حسین بن علی بسوی برادران مؤمن و مسلمان
سلام علیکم.
... میں منگل آٹھ ذوالحجۃالحرام کو ـ جو یوم ترویہ ہے ـ مکہ معظمہ سے تمھاری طرف روانہ ھوا؛ جب میرا نمائندہ تم پر وارد ھوجائے تو اپنے کام میں عجلت اور کوشش کرو کیونکہ میں ان ھی دنوں تمھارے پاس آؤں گا۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ایک شبھہ اور اس کا جواب
شبھہ مشھور ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے حج کو ناقص چھوڑا اور عراق کی طرف روانہ ھوئے جو ایک غلط بات ہے اور شیعہ فقھاء نے بھی اس کو غلط اور نادرست قرار دیا ہے کیونکہ امام علیہ السلام اٹھ ذوالحجہ (یوم الترویہ) کو مکہ سے عراق روانہ ھوئے ہیں جبکہ حج کا آغاز مکہ میں احرام باندھ کر عرفات میں وقوف سے ھوتا ہے۔
پس حقیقت یہ ہے کہ امام علیہ السلام اصولا حج کے اعمال میں داخل نھیں ھوئے تھے اور حج کو ناقص چھوڑنے کی بات بےجا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے مکہ میں داخل ھونے کے بعد عمرہ مفردہ بجا لایا تھا۔ گوکہ شیخ مفید سمیت بعض علماء نے لکھا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے حج کو عمرہ میں تبدیل کیا اور طواف اور سعی کے بعد احرام سے نکل آئے کیونکہ آپ حج کو مکمل کرنے سے عاجز تھے؛ تاھم یہ رائے بعید از قیاس ہے۔
امام جعفرصادق علیہ السلام سے مروی ہے:
"قَدِ اعْتَمَرَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ عليه السلام فِی ذِی الْحِجَّةِ ثُمَّ رَاحَ یَوْمَ التَّرْوِیَةِ إِلَى الْعِرَاقِ وَالنَّاسُ یَرُوحُونَ إِلَى مِنًى وَلَا بَأْسَ بِالْعُمْرَةِ فِی ذِی الْحِجَّةِ لِمَنْ لَا یُرِیدُ الْحَجَّ"۔ (7)
"امام حسین علیہ السلام ذوالحجہ میں عمرہ بجالائے اور اس کے بعد یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) کو عراق کی طرف عزیمت فرمائی جبکہ لوگ منی جارھے تھے اور جو حج بجا نھیں لانا چاھتا وہ عمرہ بجا لا سکتا ہے اور اس میں کوئی حرج نھیں ہے"۔
مکہ سے خروج کی دو اھم دلائل ھوسکتی ہیں: ایک یہ کہ آپ کو حجاج کے بھیس میں مکہ آنے والے یزیدی دھشت گردوں کی طرف سے جانی خطرہ لاحق تھا اور دوسرا یہ کہ آپ کسی صورت میں بھی حاضر نہ تھے کہ بیت اللہ الحرام کی حرمت شکنی ھو۔
آپ نے عبداللہ بن زبیر سے فرمایا: خدا کی قسم اگر میں ایک بالش برابر مکہ سے باھر مارا جاؤں تو یہ میرے سے اس سے کھیں زيادہ پسندیدہ ہے کہ مکہ کے اندر مارا جاؤں۔ خدا کی قسم! اگر میں جانوروں کے بلوں میں پناہ لوں پھر بھی یزید کے گماشتے مجھے باھر لائیں گے تا کہ حاصل کریں جو وہ حاصل کرنا چاھتے ہیں۔ (8)
حوالے جات:
۱۔علل الشرایع ،ج ،2 ص 399، باب 171 ۔
۲۔ قصص النیاء، ص 193 ۔
۳۔ صحیفه سجادیه ترجمه و شرح فیض الاسلام، ص 322 ۔
۴۔ خصال ترجمه مهری ،ج 1 ،ص 249 ۔
۵۔ امالی شیخ صدوق ترجمه کمره ای ،ص 651، احتجاجات ترجمه ،ج ،4 بحارالانوار ،ج 2، ص 391 ۔
۶۔ ثواب الاعمال ترجمه انصاری، ص 145 ۔
۷۔ الکافی ،ج 4 ،ص 536۔
۸۔ وقعه الطف ،ص 152۔