دنیا کے اعلی اقتصادی حکام نے امریکہ کے دیوالیہ ھونے کے منفی اثرات پر انتباہ دیا ہے۔آئی ایم ایف کی سربراہ اور اسی طرح
عالمی بینک کے ڈائریکٹر جنرل نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ اگر سترہ اکتوبر تک اپنے قرضوں کی شرح میں اضافہ نھیں کرتا ہے تو عالمی معیشت، خطرناک مرحلے میں داخل ھوجائے گی۔
ان حکام نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کے دیوالیہ ھونے سے، سب سے زیادہ غریب ملکوں پر منفی اثرات مرّتب ھوں گے۔ قرضوں کے حصول کیلئے امریکی حکومت کی توانائی، آئندہ چھے دنوں میں ختم ھونے والی ہے اور وھائٹ ھاؤس اور کانگریس کے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ نھیں ھوتا تو اّٹھارہ اکتوبر کی صبح سے امریکی حکومت کے پاس اخراجات ادا کرنے کیلئے کوئی پیسہ نھیں ھوگا۔
پوری دنیا کی بیس فیصد ناخالص پیداوار اپنے سے مربوط رکھنے والا ملک امریکہ کا، باضابطہ طور پر دیوالیہ ھوجائیگا جس سے دنیا کے بیشتر ملکوں پر بھت زیادہ منفی اثرات مرّتب ھوں گے۔ گذشتہ دو عشروں کے دوران امریکہ، بیرون ملک سے سرمائے کے حصول اور دوسروں کو منافع ادا کرنے کے ذریعے اپنی معیشت چلانے میں کامیاب رھا ہے تاھم پیدا ھونے والے رخنے سے، اب یہ ملک، جمود کے خطرناک دور میں داخل ھوتا جارھا ہے۔
اس رو سے کہ امریکہ، استعمال کی سب سے بڑی منڈی، شمار ھوتا ہے اقتصادی جمود اور کام کاج کی سرگرمیاں ٹھپ ھوجانے سے، بھت سے تاجروں کو جو برآمداتی امور میں سرگرم عمل ہیں بھت زیادہ نقصان پھنچ رھا ہے۔
چین اور جرمنی جیسے ممالک، جن کی آمدنی کا دارومدار مصنوعات کی برآمدات پر ہے اور اسی طرح ترّقی پذیر ملکوں کی ایک بڑی تعداد، جو تیل کی مانند خام مواد کی فروخت پر منحصر ہیں، امریکہ میں معیشت کا پھیہ جام ھوجانے کے نتیجے میں اپنی منڈی کے ایک بڑے حصے سے ھاتھ دھو بیٹھے گی۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکہ کے دیوالیہ ھونے سے یورپ و ایشیاء کی منڈیوں پر بھی بھت گھرا منفی اثر پڑیگا۔اس وقت چین، جاپان، یورپی یونین کے ممالک، روس اور اوپک کے عرب ممالک، امریکہ کے لون پیپر کے اھم ترین خریدار شمار ھوتے ہیں اور واشنگٹن ان ممالک کو اس حوالے سے ماھانہ ایک بڑی رقم ادا کرنے پر مجبور ہے اور اگر امریکہ، سترہ اکتوبر کے بعد سے اپنے قرضے ادا کرنے کی پوزیشن میں نھیں رھتا ہے تو دنیا کے مختلف ممالک کے سینکڑوں ارب ڈالر کا سرمایہ تباہ ھوجائیگا۔
امریکہ اگر دیوالیہ ھوجاتا ہے تو قرض دھندگان ملکوں کو اپنی نقد رقم میں کمی کا سامنا کرنا پڑ جائیگا جس سے دنیا کے بیشتر ملکوں کی مالی کارکردگی کے طریقے پر منفی اثرات مرّتب ھوں گے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ دنیا کی کوئي بھی اقتصادی طاقت، امریکہ کی ڈوبتی اقتصادی کشتی کو سھارا دینے کی پوزیشن میں نھیں رھے گی۔ یہ ایسی صورت میں ہے کہ امریکہ کی گھٹتی پوزیشن کے پیش نظر واشنگٹن آئندہ قرضوں کے حصول کیلئے مزید سود ادا کرنے پر بھی مجبور ھوجائےگا اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس سے امریکہ کے بجٹ خسارے اور بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا ھی چلا جائیگا۔
چنانچہ امریکہ کی ھٹ دھرمی نے نہ صرف امریکیوں کو مختلف قسم کے مسائل و مشکلات، بلکہ دنیا کے صنعتی اور ترقی پذیر ملکوں کو بھی بحران کے ایک بڑے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ سرمایوں کی تباھی و بربادی، منڈیوں کے مواقع میّسر ھونے کا فقدان، افراط زر میں اضافہ، بڑھتی ھوئی بے روزگاری و غربت، یہ سب ایسے مسائل ہیں کہ جنھیں ذرائع ابلاغ، مالی زمانے آخری سانسوں سے تعبیر کررھے ہیں۔