اسلامی جمھوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ایران کے ٹی وی چینل نمبر دو کو انٹرویو دیتے ھوئے کھا ہے کہ
ایران کا ایٹمی معاملہ یورپ کے لۓ ایک بڑا امتحان ہے۔
محمد جواد ظریف نے اس موقع پر ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے مذاکرات سے متعلق مواقع اور رکاوٹوں کی وضاحت بھی کی۔
ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان مذاکرات چند مھینوں کے وقفے کے بعد چھبیس ستمبر کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزرائے خارجہ کی سطح پر ھوئے تھے ۔ جس کے بعد اعلان کیا گیا کہ ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور اکتوبر کے مھینے میں جنیوا میں ھوگا۔
محمد جواد ظریف نے نیویارک اجلاس کے اختتام پر کھا تھاکہ اگر ایران کے موجودہ حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو ایٹمی معاملہ حل کیا جاسکتا ہے۔
محمد جواد ظریف نے اب بھی اسی سلسلے میں ایٹمی معاملے کے حل کے سلسلے میں فریقین کے رویۓ کو یورپ کے لۓ ایک بڑی آزمائش کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔
محمد جواد ظریف نے اس کےساتھ ساتھ یہ بھی کھا کہ یورپ کے سابقہ رویۓ کے پیش نظر اور اپنے وعدوں پر عمل نہ کرنے اور دوھرا رویہ اختیارکرنے کی وجہ سے ایران کو یورپ کے بھت سے ممالک خصوصا امریکہ پر اعتماد نھیں ہے۔
اس میں شک نھیں کہ ایک منطقی اور قابل قبول حل تک پھنچنے کے لۓ ایران کے ایٹمی حقوق کا تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔
اسلامی جمھوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ھوئے کھا تھاکہ ھم امریکہ کی جانب سے ایک ھی آواز سننے کے منتظر ہیں۔لیکن ابھی تک نہ صرف امریکی حکام کی سطح پر بلکہ حتی امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے بھی ایک ھی آواز سنائی نھیں دی ہے۔ بلکہ حالیہ چند دنوں کے دوران باراک اوباما کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عدم اعتمادی کی ایک وجہ امریکہ کا صھیونی حکومت سے متاثر ھونا ہے۔ یہ حکومت عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دے کر اور اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کر کے اپنے آپ کو دنیا پر مسلط کرنا اور دنیا والوں سے تاوان لینا چاھتی ہے۔ حالانکہ صھیونی حکومت دنیا کے لۓ سب سے بڑا ایٹمی خطرہ شمار ھوتا ہے۔
ایک مسئلہ ایٹمی توانائي کی عالمی ایجنسی آئي اے ای اے کا کردار ہے ۔ ادارے کا کردار ایسا ھونا چاھۓ کہ اس سے اعتماد سازی میں مدد ملے۔ لیکن اس کے بارے میں شکوک و شبھات پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اس ادارے کواپنے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اور اس نے ایران اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے تعلقات کو معمول پر آنے ھی نھیں دیا ہے۔
بھرحال یورپ کو اب ایٹمی معاملے کے حل کے لۓ مفید مذاکرات کی جانب آنا چاھۓ اور صرف اسی صورت میں سفارتی مواقع سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اور ایران اور امریکہ اور بھت سے دوسرے یورپی ممالک کے درمیان پائے جانے والی چونتیس سال پر محیط عدم اعتمادی کے خاتمے کی توقع کی جاسکتی ہے۔