سعودی اپوزیشن کے ایک راھنما اور "تحریک اسلامی برائے اصلاحات" کے بانی نے سعودی خاندان میں اقتدار کی جنگ
کی نئی وسعتوں کی طرف اشارہ کرتے ھوئے بادشاھت کو امیدواروں کو درپیش چنلنجوں کی وضاحت کی ہے۔
سعودی اپوزیشن کے ایک راھنما اور "تحریک اسلامی برائے اصلاحات" کے بانی "سعد الفقیہ" نے کھا: سعودی خاندان ایک ایسے اسلامی نظام کے قیام سے خوفزدہ ہے جو مشاورت، حساب و کتاب اور شفافیت کے ساتھ کام کرے اور اھل سنت کے مذھب کی بنیاد پر قائم ایک صحیح، جاذب نظر اور اطمینان بخش حکومت کا نمونہ پیش کرے کیونکہ اگر عربی بھار سعودی خاندان تک پھنچ جائے تو آل سعود کی موروثی بادشاھت کے دن گنے جائیں گے۔
الفقیہ نے الیکٹرانک اخبار "حس پریس" کے ساتھ بات چیت کرتے ھوئے سعودی خاندان کے اندر اقتدار کی رسہ کشی کے بارے میں کھا: بادشاہ کے بعد سلمان بن عبدالعزیز ولی عھد ہے جو اقتدار سنبھالنے کی اھلیت نھیں رکھتے کیونکہ وہ الزائمر کے مریض ہیں اور ذھنی لحاظ سے ملک کا انتظآم سنبھالنے کے لائق نھيں ہیں۔ خاندانی اور سرکاری درجہ بندی میں سلمان کے بعد مقرن بن عبدالعزیز ہیں جو بادشاہ کے نائب دوئم اور ولیعھد کے نائب ہیں لیکن وہ بھی بھت کمزور شخصیت کے مالک ہیں اور پیشنگوئی کی جاتی ہے کہ اگر کوئی اختلاف پیش آیا تو وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے (شاید) برسر اقتدار نھیں آسکیں گے اور ان کے وجود کا صرف یھی ایک فائدہ ھوسکتا ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے لئے راستہ بند کرے گا اور عبدالعزیز کا کوئی اور بیٹا اس رسہ کشی میں شامل نھیں ھوسکے گا اور یوں اقتدار شھزادوں کی دوسری نسل یعنی عبدالعزیز کے پوتوں کو منتقل ھوجائے گا۔
واضح رھے کہ اصل جنگ اس وقت چھڑ جائے گی جب اقتدار دوسری نسل کو منتقل ھوگا کیونکہ عبدالعزیز کے سینکڑوں پوتے ہیں اور ان میں سے ھر ایک اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ صاحب حق سمجھتا ہے اور کسی کو بھی اپنے اوپر مقدم نھیں سمجھتا اور کھنا چاھئے کہ سینکڑوں شھزادے اس کے بعد بادشاھت کے امیدوار ھونگے جس کے بعد اختلافات ننگے ھوکر میدان میں آئیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جو بھی بادشاہ بنے گا وہ سب سے پھلے اپنے گرد وپیش کے خطرات یعنی شھزادوں کی اقتدار پسندی کی روک تھام کرنا پڑے گی اور یہ وہ خونی اختلاف ہے جس کی پیشن گوئی کی جارھی ہے۔
آل سعود میں اقتدار کی رسہ کشی
الفقیہ نے کھا: سعودی خاندان میں بادشاہ کے تعین کے لئے کسی قسم کا قانون نھيں پایا جاتا سوائے "بیعت کمیٹی" کے جس کو بادشاہ نے معطل کردیا ہے اور پھلے ولی عھد سلطان بن عبدالعزیز اور دوسرے ولیعھد نائف بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد بادشاہ نے اس کمیٹی کو عملی طور پر ختم کردیا اور اس کو بائی پاس کیا۔
سعد الفقیہ نے کھا: شھزادہ مشعل بھی اس رسہ کشی سے باھر ہیں اور وہ کسی صورت میں بھی دوسرے امیدواروں کے رقیب نھیں ھوسکتے کیونکہ وہ کسی وقت بیعت کمیٹی کے سربراہ تھے جس کا وجود ختم کیا جا چکا ہے اور اس کا کوئی کردار نھيں ہے۔ علاوہ ازیں شھزادہ مشعل تین مرتبہ برطرف کئے جاچکے ہیں۔ وہ عمر کے لحاظ سے اقتدار کی دوڑ میں شامل ھوسکتے ہیں لیکن انھیں بھی بائی پاس کیا جاچکا ہے اور حکمران خاندان میں ان کو بادشاھت کے لائق شخص کی نظر سے ھرگز نھيں دیکھا جاتا کیونکہ وہ لوگوں کی زمینیں اور عوامی حقوق ھڑپ کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔ الفقیہ نے کھا: دوسری نسل کے شھزادے اب پھلی نسل کے شھزادوں کو نظر میں بھی نھیں لاتے اور اس وقت اقتدار کی اصل جنگ متعب بن عبداللہ (یعنی بادشاہ عبداللہ کے بیٹے) اور محمد بن نائف (یعنی سابق ولیعھد نائف کےبیٹے) کے درمیان ہے۔
متعب بادشاہ کے بیٹے اور نیشنل گارڈ کے وزير ہیں اور ھم جانتے ہیں بادشاہ نے ارادی طور پر نیشنل گارڈ کو وزارت میں تبدیل کیا تا کہ اپنے بیٹے کو بادشاھت سے قریب تر کریں۔ متعب کا خصوصی امتیاز یہ ہے کہ وہ دربار شاھی کے سربراہ خالد التویجری کے ساتھ متحد ھوگئے ہیں اور ھم یہ بھی جانتے ہیں کہ ملک کے ستر فیصد امور کا انتظام خالد التویجری کے ھاتھ میں ہے۔ وہ لادین ہیں اور آل سعود کے لبرل اور لادین حلقوں میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور امریکی حکومت کے نزدیک بھی بھت حد تک مقبول ہیں اور اعلانیہ طور پر عملاً ملک کو سیکولرائز کرنے کے درپے ہیں۔
یاد رھے کہ خالد بن عبد العزيز بن عبدالمحسن التويجري سعودی عرب اور امریکہ سے قانون اور سیاست کی تعلیم حاصل کرچکے ہیں اور انھیں سعودی عرب میں "شیڈو کنگ" کھا جاتا ہے۔ اور کچھ عرصے سے بادشاہ کی بیماری کی وجہ سے عملی طور پر اقتدار سنبھال چکے ہیں۔
انھوں نے کھا: متعب کے سامنے محمد بن نائف ہیں جو وزیر داخلہ ہیں اور ملک کے دوسری طاقتور شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا شمار آل سعود کی روایتی شخصیات میں ھوتا ہے اور عوام کے ساتھ نرم طرز سلوک کے حوالے سے مشھور ھوئے ہیں جب تک عوام اقتدار کے بارے میں نہ سوچیں اور اگر عوام بھی اقتدار کے حصول کے بارے میں سوچنا شروع کریں تو وہ انھیں شدت سے کچل دیتے ہیں۔
فقیہ نے کھا: التویجری اور متعب نے اپنے تعلقات علماء حتی کہ درباری علماء کے سے منقطع کردیئے ہیں اور دوسری طرف سے توازن برقرار کرنے کے لئے عشائری اور قبائلی طور پر بھی خاندان پر تسلط نھیں رکھتے۔
الفقیہ کا کھنا ہے کہ بھر صورت اقتدار کی اصل جنگ متعب بن عبداللہ اور محمد بن نائف کے درمیان ہے اور مبھم نکتہ یہ ہے کہ یہ اختلاف کس شکل میں آگے بڑھے گا؟ کیا یہ دو افراد اپنی یہ جنگ اخبارات و جرائد کے میدان میں لڑیں گے یا پھر میدان جنگ میں مسلح جھڑپوں اور خونریزی کی صورت میں؟
الفقیہ نے آخر میں سعودی خاندان اور اپنے ملک کو دنیا بھر میں اھل سنت کے تمام تعمیری منصوبوں کے خلاف لڑنے کا الزام لگایا اور کھا: سعودی خاندان عرب ممالک میں بیداری کی لھر سے خوفزدہ تھا اور افراد خاندان کو تشویش لاحق ھوئی تھی کہ اگر سعودی عرب کا باشندہ آگھی کی اس سطح پر پھنچ جائے کہ وہ حاکم کو منتخب کرنے کا حق رکھتا ہے، حاکم سے بازخواست کرنے کا حق رکھتا ہے اور عام ملکی ثروت میں اس کا اپنا حصہ ہے اور حکومت کو اس کے تشخص کی نمائندگی کرنی چاھئے، تو اس صورت میں آل سعود کی موروثی بادشاھت ختم ھوجائے گی۔
سعد الفقیہ نے بحرین میں آل سعود کی فوجی مداخلت کے بارے میں کھا: یہ حقیقت اظھر من الشمس ہے کہ سعودی حکومت نے بحرین کے حکمران خاندان کو بچانے کے لئے بحرین میں مداخلت کی ہے اور یہ مداخلت اھل سنت کی حمایت کے لئے ھرگز نہ تھی۔