اسلامی جمھوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کھا ہے کہ امریکی حکام کو حقیقت پسندانہ پالیسیوں کے مطابق ھی
ایران کے ساتھ پیش آنا چاھیئے اور ملت ایران سے عزت مندانہ طریقے سے بات کرنی چاھیئے۔
ترجمان وزارت خارجہ مرضیہ افخم نے آج اپنی ھفتہ وارانہ پریس بریفنگ میں امریکی صدرکے اس بیان کے بارے میں کہ ایران کے خلاف فوجی آپشن بدستور باقی ہے کھا کہ آج امریکہ ایک بڑے امتحان سے گذر رھا ہے اور یہ امتحان اس بات سے عبارت ہے کہ وہ کس قدر جنگ پسندوں کے مقابل پائداری کرسکتا ہے۔
انھوں نے کھا کہ امریکہ کی یہ پائداری جس قدر زیادہ رھے گي اتنا ھی امریکہ کے ساتھ تعاون کا امکان بڑھ جائے گا اور تعمیری رویّوں کی طرف پیش قدمی کا جائزہ لیا جائے گا۔
واضح رھے کہ امریکی صدر نے صھیونی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات میں کھا تھا کہ ایران کے خلاف فوجی آپشن اب بھی موجود ہے۔
انھوں نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ایران، پانچ جمع ایک کے ساتھ صرف ایٹمی معاملے پر گفتگو کرے گا یا باھمی تعلقات کے بارے میں بھی گفتگو ھوگي کھا کہ جس ایجنڈے کے بارے میں مفاھمت ھوئي ہے یہ ہے کہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے درمیاں ایٹمی معاملے پر گفتگو ھوگي۔
مرضیہ افخم نے کھا کہ یہ ایران کا حق ہے کہ وہ پرامن ایٹمی پروگرام رکھے اور اپنی سرزمیں پر یورینیم کی افزودگي کا عمل انجام دے۔ انھوں نے کھا کہ یورینیم کی افزودگي پر مذاکرات نھیں ھوسکتے اور تھران، جینوا مذاکرات میں مکمل ایجنڈے کےتحت مذاکرات کا خواھاں ہے۔
مرضیہ افخم نے کھا کہ بحرین میں آل خلیفہ کے وزیر خارجہ کی جانب سے حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ کو قتل کئے جانے کے بیان کے بارے میں سامنے آنے والی رپورٹوں کو نھایت حیرت انگيز قراردیا اور کھا کہ ایک ملک کے سرکاری عھدیدار کی طرف سے لبنان کی ایک معروف اور علاقائي قوموں کی حمایت یافتہ شخصیت کے بارے میں اس طرح کا بیان ریاستی دھشتگردی کے زمرے میں آتا ہے۔