بحرین پر مسلط خاندان آل خلیفہ کے وزیر خارجہ خالد بن احمد آل خلیفہ نے حزب اللہ لبنان اور سید حسن نصر اللہ کو دھشت قرار دیتے ھوئے
دعوی کیا ہے کہ حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ پر قاتلانہ حملہ ایک دینی قومی فریضہ ہے۔
خالد بن احمد نے اس بات کی طرف اشارہ نھیں کیا کہ اس کے خاندان نے گذشتہ کئی عشروں سے ملت بحرین کو یرغمال بنا رکھا ہے اور تین سال کے عرصے میں آل سعود کی مدد سے بحرینی عوام کو ریاستی دھشت گردی کا نشانہ بنا رھا ہے۔
عالم اسلام میں افتاء کے شعبے میں افراتفری کی حالت جاری ہے اور اگر اس سے پھلے دوسرے ملکوں میں دھشت گرد اپنے علماء کو دیوار سے لگا کر قتل کے فتوے دے رھے تھے تو اب بحرین کی آل خلیفہ کے وزیر خارجہ خالد بن احمد آل خلیفہ نے عالم اسلام اور عالم عرب کے ھیرو اور امت کی عظمت رفتہ کی بحالی میں مؤثر کردار ادا کرنے والے سید حسن نصر اللہ کے خلاف فتوی دیا ہے اور کھا ہے کہ ان کا قتل دینی اور قومی فریضہ ہے جبکہ غاصب صھیونی ریاست نے قبل ازیں سید حسن نصر اللہ سے کئی مرتبہ شکست کھانے کی بنا پر ان کے قتل کے احکامات جاری کئے ہیں۔
خالد بن احمد بن آل خلیفہ، جو صھیونی حکام کے ساتھ نھایت قریبی تعلقات کے حوالے سے اسلامی امت میں قابل نفرت سمجھے جاتے ہیں، نے اپنے ٹویٹر پیج پر لکھا ہے کہ "سید حسن نصر اللہ کے خلاف فتوی دیا ہے اور کھا ہے کہ ان کا قتل دینی اور قومی فریضہ ہے"۔
ادھر بحرین کی سرکاری ویب سائٹ "بنا" میں خالد بن احمد کا بیان شائع کیا گیا ہے جس میں دعوی کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان اپنی امت پر بھی رحم نھیں کرتی اور ان کے خلاف اعلان جنگ کرتی ہے!۔
تجزیہ نگاروں کا کھنا ہے کہ سید حسن نصر اللہ اور حزب اللہ اسرائیل اور استکبار کے خلاف اگلے مورچے کی حیثیت سے جھاد میں مصروف ہیں چنانچہ آل خلیفہ سید حسن نصر اللہ، حزب اللہ اور اسلامی مزاحمت محاذ کے خلاف ھرزہ سرائی اور تھمت و افترا کا سھارا لینے کے بجائے اپنے عوام کی جدوجھد کو توجہ دے اور بحرینی عوام کے جائز مطالبات پر عملدرآمد کرکے انھیں ان کے جائز حقوق دیدے۔
خالد بن احمد کے یہ دعوے ایسے حال میں سامنے آئے کہ آل خلیفہ کی حکومت نے بحرینی کے یرغمال بنا رکھا ہے، ان کے حقوق نھيں دے رھی ہے، ان کے حقوق چھین رھی ہے، جائز حقوق کا مطالبہ کرنے والے عوام کا جواب گولیوں سے دے رھی ہے، ان کا روزگار چھین رھی اور غیر ملکی کرائے کے ایجنٹوں کے ذریعے ان کے گھروں پر حملے کروا رھی ہے، ان کے وطن کو آل سعود کے حوالے کئے ھوئی ہے، غیرملکیوں کو بحرین کی شھریت دے کر انھیں اقلیت میں بدلنے کی سازش کررھی ہے، بحرینی راھنماؤں کی شھریت منسوخ کررھی ہے، بچوں اور خواتین سمیت بحرینی عوام کو جیلوں میں بند کرکے انھیں ٹارچر کررھی ہے، ان کی مساجد کو شھید کررھی ہے اور وہ سب کچھ اس ملک کے عوام پر روا رکھ رھی ہے جو کوئی دشمن بھی اپنے دشمن پر روا نھیں رکھتا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ سید حسن نصر اللہ نے اپنی تازہ ترین تقریر میں بحرین کے بارے میں کیا کھا ہے جس کے عوض خلیفی وزیر خارجہ نے ان کے خلاف "قتل کا فتوی" جاری کیا ہے؟
سید حسن نصراللہ نے کھا:
جو کچھ بحرین میں ھورھا ہے، اس کے سامنے بھت سے ممالک نے خاموشی اختیار کی ہے حالانکہ کسی بھی انقلابی دھڑے یا فرد نے بحرین میں عسکریت کا سھارا نھيں لیا ہے بلکہ بحرینی عوام آج بھی اپنے حقوق کے حصول کے لئے پرامن روشوں پر اصرار کررھے ہیں جبکہ ان کے حقوق نہ دینے پر اصرار کرنے والی بحرینی حکومت کو عربوں اور بھت سے دوسری حکومتوں کی حمایت حاصل ہے۔
ایک دن بحرینی حکومت نے لبنانیوں کو اپنی سرزمین سے نکال باھر کیا حالانکہ ان افراد کا حزب اللہ سے کوئی تعلق نھیں تھا۔
سید حسن نصر اللہ نے کھا: بحرین کی حکومت نے منامہ اور بیروت کے درمیان پروازیں معطل کردیں اور دھمکیاں بھی دیں اور یہ سب حکومت بحرین کی کمزوری کی علامت ہے۔
میں بحرینی حکمرانوں سے کھتا ھوں کہ یہ ھمارا دینی اور سیاسی موقف ہے اور جو لوگ بحرین کی مظلوم قوم کی حمایت کرتے ہیں وہ بحرین کے معاملات میں مداخلت نھیں کرتے اور بحرینی عوام اپنے انقلابی فیصلوں میں مستقل اور خودمختار ہیں۔
انھوں بحرینی حکام سے مخاطب ھوکر کھا: تم ھی ھو جو ضعیف اور کمزور ھو اور اپنی قوم کے حقوق دینے کے بجائے اپنی قوم کو کچلنے کے لئے بیرونی ممالک کو مداخلت کی دعوت دیتے ھو۔
میں مسلم علماء، حکومتوں اور عرب ممالک سے مطالبہ کرتا ھوں کہ کم از کم زبانی کلامی طور پر بحرین میں رونما ھونے والے واقعات کے بارے میں واضح موقف اپناؤ جو کچھ وھاں ھورھا ہے بھت خطرناک ہے، بعض علماء کی شھریت منسوخ کی جاتی ہے، مساجد کو شھید کیا جاتا ہے اور دینی و سیاسی راھنما اور علماء کو جیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔
ھم نے اپنی امیدیں ملت بحرین سے وابستہ کی ھوئی ہیں اور ظلم و ستم کے مقابلے میں اس ملت کے صبر و تحمل سے مدھوش ہیں اور شرط لگاتے ہیں کہ یہ شریف قوم اپنی جدوجھد جاری رکھے گی اور ان کمزوروں کو ناامیدی کے سوا کچھ نہ ملے گا۔
چنانچہ خلیفی وزیر خارجہ کا فتوی صھیونی ریاست کی خوشنودی حاصل کرنے کی ایک نئی کوشش ہے۔