www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ایران کی کامیاب خارجہ پالیسی نے صھیونیوں کو تشویش میں مبتلا کیا ہے اور ان کی تشویش درست اور بجا بھی ہے

 لیکن آل سعود کی تشویش کچھ زيادہ ھی نظر آتی ہے اور ایک صھیونی ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ سعودی عرب نے بندر بن سلطان سمیت چار شھزادوں کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو اس نئی صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے اندرونی صورت حال اور خارجہ پالیسی کے بارے میں فیصلے کرے گی۔
صھیونی دفاعی ویب سائٹ "دبکا" نے لکھا ہے کہ سعودی حکومت ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی بھتری سے تشویش میں مبتلا ہے جس کے تحت وہ موجودہ تنگ نظری کے رویئے میں نرمی کرکے حکومت کو اصلاح شدہ طریقہ کار پر چلانے کی خواھشمند ہے۔ اور انٹیجلنس کے سربراہ بندر بن سلطان، وزیر داخلہ محمد بن نائف، شاہ عبداللہ کے بیٹے اور نیشنل گارڈ کے سربراہ متعب بن عبداللہ اور دیوان شاھی کے سربراہ خالد التویجری ـ جس کا عھدہ وزیر اعظم کے برابر ہے ـ نے اسی حکمت عملی کو مطمع نظر بنایا ہے۔
یہ چار افراد کیوں؟ اس لئے کہ:
1۔ عبداللہ بن عبدالعزیز کو یقین ہے کہ ان چار افراد میں سے کم از کم دو افراد اپنے سیاسی اور عسکری فیصلوں میں ان سے مشورہ کرتے ہیں اور چونکہ وہ خود کام کاج کرنے سے قاصر ہیں اور عام طور پر ڈاکٹر کے مشورے سے بستر پر آرام کررھے ہیں اسی بنا پر یہ دو افراد ان کی نمائندگی میں اھم فیصلے کریں گے۔
2۔ عبدالعزیز کی وصیت پر مزید عمل کرنا ممکن نھيں ہے اور پھلی نسل کے شھزادے حکومت کرنے کے اھل نھیں رھے ہیں۔ اور بندر بن سلطان کی دیرینہ آرزو یہ تھی کہ یہ قانون ختم کیا جائے تاکہ وہ بھی اقتدار کی دوڑ میں شامل ھوسکے اور اب گویا کہ وہ اس دوڑ ميں شریک ھوچکا ہے گوکہ دوسری نسل کے کئی دوسرے شھزادے بھی شامل ہیں اور یہ کٹھن مرحلہ ہے۔
3۔ تھکے ماندہ ولیعھد سلمان اور سعودی ارب پتی ولید بن طلان بن عبدالعزیز ان چار افراد کے اقدامات کی تائید کرتے ہیں۔
4۔ یہ چار افراد سعودی عرب کے اندر طرز زندگی کی تبدیلی اور خارجہ پالیسی میں تبدیلیوں کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
یہ ٹیم مشرق وسطی میں جاری امریکی پالیسیوں اور دھشت گردی کے خلاف جنگ کی مخالفت کرتے ہیں اور بھت سے مسائل میں ان کی پالیسی روسی پالیسیوں کے قریب ہے۔
5۔ آل سعود کی حکومت ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور اخوان المسلمین کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں اوباما کی پالیسیوں کے خلاف ہے۔
آل سعود کو یقین ہے کہ اخوان المسلمین ایک مؤثر اور طاقتور تنظیم ہے اور اسلام پسند (کھلانے والی) دھشت گرد تنظیموں میں بھی اس کا اثر ورسوخ زيادہ ہے چنانچہ یہ تنظیم سعودی نظام حکومت کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔ چنانچہ آل سعود ھر اس قوت کی مدد کرنے کے لئے تیار ہے جو اخوان المسلمین، نیز اس تنظیم کو تسلیم کرنے کی امریکی کوششوں کا مقابلہ کرنا چاھے۔
اپنے اپنے مفادات کی بنا پر امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات نے مصر کے موجودہ حالات میں اھم کردار ادا کیا ہے۔
اس ٹیم نے قطر کے سابق امیر "حمد بن خلیفہ" اور سابق وزیر اعظم "حمد بن جاسم" آل ثانی کے خلاف فوجی بغاوت کرانے میں مؤثر کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں آل ثانی کی نوجوان نسل نے حکومت سنبھالی۔ یہ افراد مراکش اور تیونس میں بھی کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور شام میں بھی بشار اسد کے خاتمے کی صورت میں ان کی کوشش ھوگی کہ اخوان المسلمین برسراقتدار نہ آسکے۔
یہ چار افراد اس وقت شام کے مسئلے میں اوباما انتظامیہ کا مقابلہ کررھے ہيں اور ان کا خیال ہے کہ وہ اسد حکومت کے خاتمے کے لئے جنگ اور خونریزي کا بازار مؤثر طور پر گرم رکھ سکتے ہیں اور ایران ـ شام ـ حزب اللہ کے محاذ کے خلاف آتش افروزی کرسکتے ہیں۔
6۔ ایران اور شام کے سلسلے میں آل سعود اور روس کے درمیان اختلافات کے باوجود بندر بن سلطان نے جولائی 2013 کے آخر میں ماسکو کا دورہ کرکے صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں کی ہیں اور ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں ان کے درمیان تعاون کا امکان فراھم ھوچکا ھو۔
روس اور سعودی عرب کے درمیان اخوان المسلمین کو اقتدار سے دور رکھنے کے حوالے سے اتفاق پایا جاتا ہے۔
 

Add comment


Security code
Refresh