عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے کھا: دھشت گردوں نے عراقی قوم کے فرد فرد کے درمیان تفرقہ ڈالا ہے اور سعودی عرب
اور قطر عراق کے مختلف ادیان و مذاھب کر درمیان فرقہ وارانہ منافرت کے لئے فتنہ انگیزی کررھے ہیں۔
عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی نے اپنے ھفتہ وار خطاب میں کھا: دھشت گرد اور فرقہ واریت پھیلانے والے ٹولوں کے سرغنے غیرملکی اداروں کے زیر سرپرستی میں اندرونی شرکاء کی مدد سے عراقی قوم کے فرد فرد ایک دوسرے سے دور کرچکے ہيں اور انھیں الگ الگ گروھوں میں تقسیم کرچکے ہیں اور موجودہ صورت حال میں عراق میں انسانوں اور ان کے تشخص کا قتل عام کیا جارھا ہے۔
عراق کے سیکورٹی اور طبی ذرائع کے مطابق روان ستمبر کے آغاز سے اب تک عراق میں 660 افراد دھشت گردوں کے حملوں اور بم دھماکوں میں قتل کئے جاچکے ہيں اور ان 660 افراد کی اکثریت ان افراد کی ہے جنھیں مجالس عزاداروں کے دوران شھید کیا جا چکا ہے۔
آخری بڑی دھشت گردانہ کاروائی گذشتہ سینچر کے دن بغداد کی صدر سٹی میں ھوئی جس میں شھداء اور زخمیوں کی تعداد 280 تک پھنچی۔ گذشتہ ھفتے ایک وھابی خودکش دھشت گرد نے "الکسرہ" کے علاقے میں جامع مسجد التمیمی کو نشانہ بنایا جس میں 34 افراد شھید اور 100 زخمی ھوئے۔ عراقی انٹیلجنس ایجنسی اور یورپی انٹیلجنس اداروں کی رپورٹوں کے مطابق عراق میں ھونے والی تمام دھشت گردانہ کاروائیوں میں سعودی اور قطری خفیہ ایجنسیوں کا ھاتھ ہے جبکہ آل سعود اور قطر کے آل ثانی کی زیر سرپرستی ھونے والی دھشت گردانہ کاروائیوں میں ان دو خاندانوں کی حمایت یافتہ تنظیمیں "تحریک نقشبندیہ اور دولۃ الاسلامیہ في العراق" نامی دھشت گرد ٹولے ملوث ہیں۔
مذکورہ مغربی اور عراقی ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ دھشت گرد ٹولے اور ان کے عرب آقاؤں کا مقصد یہ ہے کہ عراق میں سیاسی عمل کو سبوتاژ کیا جائے، اس ملک کو تقسیم کی جانب لے جایا جائے اور اس میں چھوٹی چھوٹی اور کمزور سنی ریاستیں قائم کی جائیں جن کو علاقے کے سنی ممالک کی حمایت حاصل ھوگی جبکہ عراق کی حکومت اور ملک و قوم کے وفادار سنی اور شیعہ رھنما ملکی سالمیت اور یکجھتی کے تحفظ کے خواھاں ہیں۔