امریکی صدرباراک اوبامہ نےتوقع کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنےخطاب میں بعض اھم بین الاقوامی مسائل کاجائزہ لیا۔
باراک اوبامہ نے اپنے بیان کی بنیاد شام میں کیمیاوی ھتھیاروں کے کنٹرول کےلئے بین الاقوامی کوششوں اور مشرق وسطی میں فلسطین اوراسرائیل کےدرمیان صلح اور ایران کوایٹمی ھتھیاروں کےحصول سےروکنے پررکھی ۔
امریکی صدر باراک اوبامہ کےبیانات کا ایک اھم محور شام کاموضوع اوراس کےکیمیاوی ھتھیار تھے۔ انھوں نےسلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ مطمئن ھوناچاھتے ہيں کہ اگرشام اپنے کیمیاوی ھتھیار حوالے کرنے میں کسی طرح کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے سنگین نتائج کاسامناکرناپڑےگا۔
درحقیقت اوبامہ چاھتے ہيں کہ جس طرح بھی ممکن ھو سلامتی کونسل یا جنرل اسمبلی سے شام کےخلاف یہ قرارداد منظور کرالیں کہ اگر دمشق روس کی تجویزکی پابندی نھيں کرےگا تو اس کےخلاف عملی اقدامات کئےجائيں گے۔
اس سلسلے میں اوبامہ نے کھا کہ اگرسلامتی کونسل شام کےخلاف ایک قرار منظورکرانے میں کامیاب نھیں ھوتی تو اس کامطلب یہ ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین پرعمل درآمد کرانے پرقادر نھيں ہے۔
امریکی صدر نے شامی حکومت کی جانب سے کیمیاوی ھتھیار استعمال کئےجانے کےسلسلے میں ھرطرح کےشکوک وشبھات کومسترد کردیا اور مجبورا مغرب کی جانب سے شامی باغیوں کی حمایت کی جانب بھی اشارہ کیا۔
اوبامہ نےاعتراف کیا کہ شام میں اعتدال پسندوں کومستحکم کرنے کےلئے امریکی اقدامات کےباوجود شام میں انتھاپسندوں کی سرگرمیاں بڑھی ہیں۔اگرچہ باراک اوبامہ نے شامی عوام کےکردار کےعملی جامہ پھننے پرتاکید کی لیکن پوری طرح واضح ہے کہ شام کی داخلی جنگ میں مخالفین کوبشاراسد کی حکومت گرانے کے لئے امریکہ کی پوری حمایت حاصل ہے ۔
باراک اوبامہ نے کھا کہ کیمیاوی ھتھیاروں کےبارے میں اتفاق رائے کےساتھ ھی سیاسی راہ حل کی کوششوں میں بھی اضافہ ھوناچاھئے۔ باراک اوبامہ نےکھا کہ مجھے نھيں لگتا کہ شام کےباھرسے غیرملکی فوجیوں کےذریعے یا شام کےاندر سے فوجی کاروائی پائدار امن پرمنتج ھوگی اوبامہ نےایسے عالم میں یہ باتیں دھرائیں کہ دوسری جگہ اپنے بیان میں کھل کراعلان کیا کہ امریکہ اپنے مفادات کےلئے فوجی کاروائی کےلئے تیار ہے۔
اوبامہ کے یہ بیانات شام میں مغرب اور اس کےاتحادیوں کی موجودہ پالیسیوں کےبرخلاف ہیں جس نے شام ميں ظالم تکفیریوں کو ملسح کرکے عملی طور پرشامی عوام کےظالمانہ قتل عام کی زمین ھموار کردی ہے ۔ اوبامہ ایسے عالم میں علویوں کےزندہ رھنے کےحق کی بات کررھے ہيں کہ اس وقت تکفیری گروھوں کوعلویوں کےقتل عام کابھترین موقع مل گیا ہے۔
اوبامہ کےبیانات کا دوسرا محور فلسطینیوں اوراسرائیل کےدرمیان نام نھاد امن مذاکرات تھے ۔اوبامہ نے دعوی کیا کہ وہ خودمختار فلسطینی مملکت کی تشکیل کی حمایت کرتے ہيں امریکی صدر نے فلسطین اور اسرائیل کے اختلافات کےحل پرتاکید کی اورعلاقے کےممالک سےمطالبہ کیا کہ امن کی راہ میں قدم اٹھانے والے اسرائیلی اورفلسطینی رھنماؤں کی مدد کریں جبکہ یہ بیان بھی اسرائیل کےبارے میں امریکہ کی اعلانیہ پالیسی کےبرخلاف ہے ۔
صھیونی حکومت نام نھاد امن مذاکرات کےساتھ ھی فلسطینی زمینوں پر صھیونی کالونیوں کی تعمیر کاسلسلہ جاری رکھنےسے بھی دستبردار نھيں ھورھی ہےاور غیرجانبداری کا دعوی کرنے والا امریکہ ، فلسطینیوں پراسرائیل کے مظالم کا سلسلہ روکنے کےلئے معمولی قدم اٹھانے کےلئے بھی تیار نھيں ہے۔
اوبامہ نےاپنےبیان میں القاعدہ کا بھی ذکر کیا انھوں نےاس سلسلے میں کھا کہ القاعدہ علاقائی نیٹ ورک میں تبدیل ھوگیا ہے اور پوری دنیا کےلئے خطرہ شمار ھوتا ہے۔
اوبامہ نے افغانستان میں بارہ سالہ جنگ کی جانب اشارہ کرتے ھوئے کھاکہ امریکی فوج آئندہ برس اس ملک سے باھر نکل جائےگی۔
اوبامہ نےمصر کےبارے میں دعوی کیاکہ وہ اس ملک میں جمھوریت کےحامی ہيں جبکہ حالیہ واقعے میں اوبامہ نےفوجی مداخلت کی حمایت کی حتی امریکی امداد تک روکنے کےلئے تیار نھيں ھوئے۔
مجموعی طور پرامریکی صدر کےبیانات کو مختلف مسائل کے سلسلے میں امریکی موقف کی تکرار سے تعبیرکیاجاسکتاہے اورایران کےایٹمی معاملے کے سلسلے میں ان کے بیان کےسوا، اوبامہ کی جانب سے کوئی نیا بیان سامنے نھيں آيا۔