روسی وزیر خارجہ نے روسی ٹی وی کے چینل 1 کے ساتھ بات چیت کرتے ھوئے کھا: مغرب علاقے میں اپنی برتری ثابت کرنا چاھتا ہے
ورنہ وہ کسی صورت میں بھی شام کے کیمیاوی ھتھیاروں کا مسئلہ حل نھيں کرنا چاھتا۔
سرگئی لاؤروف نے کھا: مغرب دوسال قبل بشار الاسد کو ھٹانے پر زور دے رھا تھا جس میں وہ ناکام ھوئے لیکن وہ یہ اعتراف کرنے کی جرات نھيں کرسکتے کہ غلطی کے مرتکب ھوئے ہیں۔
انھوں نے لیبیا میں غلطی کا ارتکاب کیا اور اس ملک پر نابودی کی حد تک بم برسائے جس طرح کہ انھوں نے عراق میں غلطی کا ارتکاب کیا؛ اس ملک کو ویران کیا اور بدترین حالت میں چھوڑ کر چلے گئے اور نتیجہ یہ ھوا کہ ھم ھر روز وھاں دھشت گردی کے نتیجے میں بےشمار عراقیوں کے قتل کی خبریں وصول کرتے ہیں۔
سرگئی لاؤروف نے کھا: امریکہ نے ھمیں ڈیڈ لائن دینے کا آغاز کیا ہے اور کھہ رھا ہے کہ جب تک اقوام متحدہ کے منشور کے آرٹیکل 7 کے تحت ایک سخت لب و لھجے والی قرارداد شام کے خلاف منظور نھيں ھوگی وہ شام کے کیمیاوی ھتھیار تلف کرنے کے لئے ابتدائی کام کرنے کے لئے تیار نہ ھوگا۔
انھوں نے کھا: امریکہ اور فرانس نے نتیجہ لیا ہے کہ گویا شام میں میں کیمیاوی ھتھیاروں کے استعمال کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہے ورنہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی رپورٹ میں ایسی کوئی بات نظر نھيں آتی۔
لاؤروف نے کھا: ھمارے لئے یہ بات حیرت انگیز نہ تھی کہ امریکیوں اور فرانسیسیوں نے اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی رپورٹ کے منظر عام پر آتے ھی حکومت شام کو مورد الزام ٹھہرایا حالانکہ اس رپورٹ میں کھا گیا تھا کہ "جو مواد اور گولہ بارود معائنہ کاروں کے ھاتھ لگا ہے اس سے ثابت ھوتا ہے کہ شام میں کیمیاوی ھتھیار استعمال کئے گئے ہیں"، اس رپورٹ میں ھرگز یہ نھیں بتایا گیا کہ یہ ھتھیار کس نے استعمال کئے ہیں چنانچہ اس رپورٹ سے یہ نتیجہ لینا درست نھيں ہے کہ حکومت شام نے کیمیاوی ھتھیار استعمال کئے ہیں۔