اپنے شوھر کے ھاتھوں بیک وقت طلاق حاصل کرکے ایک خفیہ حلالہ سینٹر پھنچنے والی ایک پاکستانی مسلمان عورت کا کھنا ہے کہ
ایک نام نھاد مولوی نے اسے کئی مردوں کے پاس بھیج کر اس کا حلالہ کردیا اور جب وہ تنگ آگئی اس نے مولوی کی بات ماننے سے انکار کردیا اور واپس اپنے شوھر کے پاس چلی گئی مگر مولوی نے اس کے ذھن پر اس قدر منفی اثرات ڈالے کہ وہ نفسیاتی مریضہ بن گئی۔
پاکستان سے شادی کرکے مڈلینڈز میں سیٹل ھونے والی اس عورت نے اپنی جی پی کو بتایا کہ اس کے شوھر نے غصے میں آکر اسے تین طلاقیں دے دی تھیں۔ چونکہ اس نے پاکستان میں اپنے والدین سے سن رکھا تھا کہ شوھر اگر تین بار طلاق کھہ دے تو طلاق ھوجاتی ہے۔
چنانچہ وہ اپنا شک دور کرنے کے لئے ایک اور پاکستانی عورت کی مدد سے خفیہ حلالہ سینٹر پھنچ گئی جھاں پر بیٹھے ھوئے نام نھاد مولوی نے اس سے کھا کہ اب وہ اپنے شوھر پر حرام ھوچکی ہے اور اسے حلالہ کرنا ھوگا۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنے شوھر کے گھر کو چھوڑ کر اپنی ایک دوست کے ساتھ رھنے لگی تھی کیونکہ وہ سمجھنے لگی تھی کہ اب اس کا شوھر اس کے لئے غیر مرد بن گیا ہے۔ حالانکہ اس کے شوھر نے اسے بارھا سمجھایا اور ایک فتویٰ بھی لاکر دکھایا کہ ان کی طلاق نھیں ھوئی مگر اس نے اپنے شوھر کی بات نھیں سنی بلکہ مولوی کے کھنے میں آکر اس نے مولوی کے بتائے ھوئے ایک مرد کے ساتھ ایک رات کے لئے حلالہ کرلیا تاھم جب وہ کچھ دن بعد وہ اسی مولوی کے پاس دوبارہ گئی تو اس نے اسے بتایا کہ اس کا حلالہ موثر نھیں ھوا۔ لھذا اسے ایک مرتبہ پھر حلالہ کرنا پڑے گا۔
اس عورت کی داستان سننے والی جی پی نے ذرائع کو اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ چونکہ یہ سادہ لوح عورت مولوی کے چنگل میں پھنس گئی تھی اس لئے مولوی نے خود بھی اس کے ساتھ ایک رات کے لئے حلالہ کیا اور اس کی عزت کو مذھب کی آڑ میں تار تار کیا گیا۔ اس کے بعد یہ عورت سمجھتی ہے کہ اس کی سخت توھین کی گئی ہے۔ اس لئے اس کو ڈپریشن ھوگیا ہے اور وہ دل ھی دل میں یہ سمجھتی ہے کہ اب وہ اپنے شوھر کے ساتھ دھوکہ کررھی ہے جسے اس کے حلالوں کے بارے میں کچھ علم نھیں ہے۔ حلالہ کا شکار ھونے والی عورتوں کے ساتھ کام کرنے والی ایک پاکستان نژاد برطانوی سوشل ورکر نے بتایا کہ ان کے پاس اس قسم کے بھت زیادہ کیس آتے ہیں۔
انھوں نے کھا کہ اکثر اوقات ان کے پاس ایسے سادہ لوح جینوئین افراد آتے ہیں جو بعض مولویوں کے ھاتھوں لٹ چکے ھوتے ہیں اور ان کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کے لئے مشورہ مانگتے ہیں مگر قانون ان کی اس لئے مدد نھیں کرسکتا کہ چونکہ حلالہ کرانے والی عورت خود اپنی اور اپنے شوھر کی مرضی سے حلالہ مولوی کے ساتھ نکاح کرتی ہے۔ چونکہ اس کو ریپ نھیں کھا جاسکتا اس لئے پولیس اس پر کارروائی نھیں کرتی۔
انھوں نے کھا کہ ویسے بھی یہ لوگ اپنی عزت کے ڈر سے معاملے کو زیادہ اچھالنا نھیں چاھتے۔ انھوں نے کھا کہ ان کے پاس ایک ایسی عورت بھی آئی تھی جس کے شوھر نے اسے غصے میں طلاق دے دی مگر بعد میں وہ سخت نادم ھوا اور وہ دونوں ایک مولوی کے پاس گئے۔ مولوی نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ کسی سے حلالہ کرالیں مگر انھوں نے اپنی بدنامی سے بچنے کے لئے مولوی کو حلالہ کرنے کی درخواست دی۔ مولوی نے وعدہ کیا کہ وہ اگلے ھی روز اس عورت کو طلاق دیدے گا۔ ان کا کھنا تھا کہ جب اگلے روز اس عورت کا سابق شوھر آیا مولوی سے طلاق کا تقاضا کیا تو اس نے صاف انکار کردیا اور کھا کہ وہ اپنی بیوی کو کسی بھی صورت میں طلاق نھیں دے گا۔ اس شخص نے مولوی کی بھت منتیں کیں مگر وہ نہ مانا۔ چنانچہ اس کے شوھر کو اس معاملے میں محلے اور مسجد کے دوسرے لوگوں کو ملوث کرنا پڑا۔ انھوں نے کھا کہ لوگوں کو مولوی کو مارپیٹ کر طلاق پر آمادہ کیا۔
اس سوشل ورکر نے کھا کہ بعض نام نھاد مولوی نو مسلم عورتوں کو سخت پریشان کرتے ہیں اور حلالہ کے نام پر ان کا سخت جنسی استحصال کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ نومسلم عورتیں معلومات نہ رکھنے کی وجہ سے ھر چھوٹی موٹی بات پوچھنے مولویوں کے پاس جاتی ہیں مگر ان میں سے بعض مولوی ان کی کم علمی کا فائدہ اٹھا کر انھیں داغ دار کردیتے ہیں۔ انھوں نے کھا کہ ان کے پاس کئی نومسلم عورتیں آئی ہیں جنھوں نے اپنے ساتھ ھونے والے سلوک پر شکایت کی ہے۔ ان میں سے بعض عورتیں اب اسلامی فلاحی اداروں میں بھی مقیم ہیں۔ جھاں ان کی بحالی کا کام ھورھا ہے۔
لندن سے تعلق رکھنے والے ایک سنگل مدر نے اپنا نام افشاء نہ کرنے کی شرط پر ذرائع کو بتایا کہ وہ دو مردوں کے درمیان پنگ پانگ بن گئی تھی جس کے بعد اس نے شادیوں سے توبہ کرلی ہے۔ اس کا کھنا تھا کہ وہ اپنے شوھر کے ساتھ ھنسی خوشی زندگی گزار رھی تھی کہ اس کے اپنے شوھر کے ساتھ اختلافات ھوگئے اور انھوں نے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرکے طلاق لے لی۔
اس نے بتایا کہ کچھ عرصہ بعد اس نے ایک اور مرد کے ساتھ شادی کرلی مگر ایک دن اس نے غصے میں آکر اسے طلاق دے دی جس کے بعد وہ سخت پریشان بھی ھوا اس نے بتایا کہ وہ اپنے اس شوھر کو نھیں چھوڑنا چاھتی تھی چنانچہ وہ ایک مفتی کے پاس پھنچ گئی جس نے اسے مشورہ دیا کہ اگر وہ اپنے پھلے شوھر کے ساتھ دوبارہ شادی کرکے اس سے طلاق لے لے تو اس کا حلالہ ھوجائے گا اور پھر وہ اپنے دوسرے شوھر کے ساتھ دوبارہ شادی کرسکتی ہے۔ اس کا کھنا تھا کہ اس نے ایسا ھی کیا اور اپنے پھلے شوھر کو دوبارہ شادی اور طلاق دینے پر آمادہ کریں۔ جب وہ طلاق لے کر دوسرے شوھر کے پاس آئی تو اس نے اسے دوبارہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ جب وہ پھر مفتی کے پاس گئی تو اس نے کھا کہ اگر اب وہ اپنے پھلے شوھر کے ساتھ تیسری مرتبہ شادی کرنا چاھتی ہے اسے کسی اور کے ساتھ حلالہ کرنا پڑے گا۔
اس نے بتایا کہ وہ حلالوں سے تنگ آگئی ہے اور اب اس نے کسی سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ چاھتی ہے کہ اس کا چھوٹا بیٹا اپنی ماں کو شوھر تبدیل کرتے ھوئے دیکھ کر بڑا نہ ھو۔ حلالہ کے حوالے سے مختلف مکاتب فکر کا نکتہ نظر ایک ھی ہے کہ حلالہ محض اس لئے نھیں کیا جاسکتا کہ اس عورت کی اپنے شوھر کے پاس جانے کی خواھش ھوتی ہے اور وہ اس سے دوبارہ نکاح کرنا چاھتی ہے۔ بلکہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ طلاق کے بعد اگر کوئی عورت حلالہ کے ارادے کے بغیر کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی کرلے اور کچھ عرصے بعد ان دونوں میں طلاق ھوجائے تو وہ دوبارہ شادی کرسکتے ہیں۔ تاھم حلالہ کے نام پر شادی کرنے کی اسلام میں اجازت نھیں دی گئی۔
اس بارے میں برطانیہ کے مقتدر علماء کرام کا کھنا ہے کہ بعض نام نھاد مولویوں اور مفاد پرستوں نے مذھب کے نام پر دوکانیں لگا رکھی ہیں اور لوگوں کی بھاری اکثریت ان کے چنگل میں پھنس جاتی ہے۔ ان علماء نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ انھیں نکاح، شادی، طلاق، خلع وغیرہ کوئی مسئلہ درپیش ھو تو وہ صرف مستند اداروں میں ھی جائیں اور ایسے لوگوں کے ھتھے نہ چڑھیں جو عورتوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔
واضح رھے کہ سینٹر کے اندر حلالہ کے حوالے سے جنگ لندن میں ایک سنسنی خیز رپورٹ شائع ھوئی ہے جس میں معروف عالم دین مولانا شفیق الرحمن اپنی رائے کا اظھار کرتے ھوئے اس مسئلے کو انتھائی سنگین قرار دیا تھا اور کھا تھا کہ اس سے برطانوی مسلمانوں کے ھزاروں گھر تباہ ھورھے ہیں۔