www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حکومت شام کا تختہ الٹنے اور امریکہ کو اس پر حملہ کرنے پر اکسانے میں ناکامی کے بعد 17 سعودی شھزادوں نے القاعدہ سمیت

 دنیا بھر کی دھشت گرد تنظیموں کے سعودی کمانڈر، بندر بن سلطان کے خلاف ایک تحریری شکایت بادشاہ کے دفتر بھجوائی ہے۔
سعودی مجلس امن کے سیکریٹری اور آل سعود کی انٹیلجنس و سیکورٹی سروس کے سربراہ بندر بن سلطان بن عبدالعزیز آل سعود کے اقدامات اور ناکامیوں کے بعد 17 نوجوان سعودی شھزادوں نے اس کی کارکردگی کو آل سعود کی عظیم شکست کا سبب گردانتے ھوئے، اس سعودی اھلکار کے خلاف تحریری شکایت سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود کے پاس بھجوائی ہے۔
اس شکایت نامے میں کھا گیا ہے کہ بندر بن سلطان حکومت شام کا تختہ الٹنے میں دھشت گردوں کی حمایت میں ناکام ھوچکے ہیں؛ امریکہ کو اکسانے اور شام پر عسکری یلغار کرانے میں شکست کھا چکے ہیں اور علاقائی طور پر آل سعود کی بدنامی اور رسوائی کا سبب بنے ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت شام کا تختہ نھیں الٹ سکے ہیں۔
سعودی بادشاہ طویل عرصے سے علیل ہیں جبکہ ولیعھد سلمان بن عبدالعزیز بھی بوڑھے اور بیمار ہیں جس کی وجہ سے سعودی شھزادوں کی تحریر شکایت بادشاہ کے دفتر کے سربراہ کے پاس پھنچائی گئی ہے اور وہ جو فیصلہ کریں گے وھی آل سعود کا آخری فیصلہ سمجھا جائے گا۔
اگرچہ بندر بن سلطان کنیز کی فرزند ھونے کے ناطے کسی صورت میں سعودی بادشاھت کے امیدوار نھیں ھوسکتے لیکن مجموعی طور پر اس کی کارکردگی آل سعود کے لئے بھت اھم رھی ہے۔
علاقے میں اگر ایک طرف سے تیز رفتار تبدیلیاں جاری ہیں تو بندر بن سلطان ھمیشہ ان تبدیلیوں میں مغربی اور صھیونی محاذ میں فعال رھے ہیں اور خطے کے عرب ممالک ـ شام اور عراق ـ میں خون کی ھولی کھیل رھے ہیں جبکہ جنوب ایشیا میں بھی اس کے خونی قدموں کے نشان بخوبی نظر آرھے ہیں گوکہ وہ عراق میں امریکہ کو باقی رکھنے اور شام کو امریکی حملے کا نشانہ بنوانے میں ناکام رھے ہیں اور یہ بات اسرائیل اور امریکہ کے وفادار سعودی شھزادوں کے لئے ناقابل قبول ہے۔
بندر بن سلطان 1983 سے 2005 (22 سال کے عرصے تک) واشنگٹن میں آل سعود کے سفیر تھے، واپسی پرکچھ عرصے تک باپ کی ولیعھدی کے دور میں، ان پر حکومت کے خلاف سازش کا الزام لگا اور کچھ عرصہ لاپتہ رھے اور 2010 میں دوبارہ ظاھر ھوئے جس کے بعد نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکریٹری اور 19 جولائی 2012 کو عبداللہ بن عبدالعزیز کی طرف سے سعودی انٹیلجنس ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل بنے۔
کوئی بھی عرب حکمران اور کوئی بھی سفیر بندر بن سلطان کی طرح امریکیوں کے ھاں با اثر نھیں ہے۔ اس شخص نے اپنی سفارتکاری کا آغاز 1978 سے کیا تھا جب انھوں نے امریکی کانگریس کو ترغیب دلائی کہ وہ آل سعود کے ساتھ ایف پندرہ لڑاکا طیاروں کی فروخت کا بل منظور کرے اور یہ بل منظور ھوا۔
بندر نے اپنی سفارتکاری کے دوران 5 امریکی صدور، 10 وزرائے خارجہ، 11 نیشنل سیکورٹی کے مشیروں اور کانگریس کے 16 اجلاسوں اور سینکڑوں امریکی سیاستدانوں کے ساتھ رابطہ برقرار کیا۔
شھزادہ بندر بن سلطان کے تعلقات امریکی صدور میں جارج بش (father) اور جارج واکر بش (son) سے قریبی رابطہ برقرار کیا یھاں تک کہ انھیں Bandar Bush کھا جانے لگا۔ جیمز بیکر، ڈک چینی، جنرل کالین پاول اور بش انتظامیہ کے اعلی اھلکاروں سے ان کا رابطہ سفارتی حدود سے کھیں زیادہ قریبی تھا۔
بندر بش اپنی سفارت کے دوران بغیر کسی رکاوٹ کے وائٹ ھاؤس میں آیا جایا کرتے تھے اور کھا جاتا ہے کہ وہ پھلے عرب سفیر تھے جو حتی امریکی وزارت خارجہ کی سیکورٹی تفصیلات تک رسائی رکھتے تھے۔ اور امریکیوں نے ان کو یہ سھولت اس لئے دی تھی کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کے لئے خود امریکیوں سے بھی زیادہ مخلص تھے۔ ورنہ ھم سب جانتے ہیں کہ امریکی کسی پر اعتماد نھیں کیا کرتے۔
 

Add comment


Security code
Refresh