گذشتہ دنوں پاکستان کے ثقافتی مرکز لاھور میں ایک سیمنار منعقد ھوا جس میں دانشوران قوم نے ملک و ملت کو درپیش صورتحال اور عالم اسلام
کی مشکلات کا جائزہ لیا اور بعض ایسے حقائق پر سے پردہ اٹھایا جو تلخ بھی تھے اور ناگوار بھی۔ اس سیمنار کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں بلا تفریق مذھب و ملت سیاسی و مذھبی شخصیات اور دانشور حضرا ت شریک تھے۔
''مصر اور شام میں امریکی جارحیت کے پس پردہ حقائق'' کے زیر عنوان منعقدہ اس سیمنار سے پاکستان کے سینئر صحافی اور معروف ٹی وی اینکر مبشر لقمان نے کھا ہے کہ کوئٹہ کے سانحے کے شھداء کی ماؤں، بھنوں اور شیعہ قوم کے پرامن احتجاج نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اصل ماجرا کیا ہے، میں نے ھمیشہ کھا کہ اسلام کے اصل دشمن اندر ہیں، اسلام کے اصل دشمن یہ نام نھاد مسلمان ہیں۔
اُنھوں نے کھا کہ مجھے افسوس ہے کہ ھم امریکہ کو برا کھتے ہیں مگر اصل برائی کی جڑ سعودی عرب ہے۔ سعودی عرب خود مسلمانوں کے حقوق کا غاصب ہے۔ مسلمانوں کی معاشی، سیاسی اور اقتصادی بدحالی کا ذمہ دار سعودی عرب ہے۔ عرب لیگ مسلمانوں کی نھیں عربیوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ پوری دنیا مسلمان ممالک کے تیل پر پلتی ہے۔ انھوں نے کھا کہ شام میں جو حالات ہیں، اس پر میں نے پروگرام بھی کیا ہے کہ یہ ثابت ہے کہ کیمیکل ھتھیار کس نے چلائے اور کس سعودی شھزادے نے خریدے اور کس نے فراھم کئے، مگر ابھی بھی ھماری آنکھیں نہ کھلیں تو پھر ھمارا اللہ ھی حافظ ہے۔
اس سیمنار میں اور بھی دیگر موضوعات پرگفتگو ھوئی جن کو بیان کرنے سے اب تک گریز کیا جاتا رھا ہے۔ بلا شبہ مسلمانوں کی معاشی بدحالی، سیاسی پسماندگی، تعصب اور جھالت جیسی تمام برائیوں کی ذمہ داری عالم اسلام کے بڑے، بااثر اور دولت مند ملکوں پر عائد ھوتی ہے۔ اور بھت ھی افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ہے کہ سعودی عرب سمیت علاقے کے سبھی دولت مند عرب ممالک تیل اور گیس کے عظیم ذخائر پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں اور عالم اسلام کی اس خدا داد دولت و ثروت کا سارا فائدہ ان طاقتوں کو پھنچا رھے ہیں جن کی تاریخ اسلام دشمنی اور انسان کشی سے مرقوم ہے۔ مسلم امہ کا درد رکھنے والے اگرچہ ان حالات سے واقف تھے لیکن سیاسی ملاحظات کی بنا پر پرداری کرنے پر مجبور تھے اور چاھتے ھوئے بھی اپنادرد بیان کرنے سے قاصر تھے۔
1979 میں امریکہ کی پٹھو ظالم شاھی حکومت کے خاتمے اور ایران میں اسلامی نظام قائم ھونے کے بعد بیداری کی جو لھر اٹھی تھی اس کو روکنے کے لئے امریکہ اور اس کے قریبی ترین اتحادی کی حثیت سے سعودی عرب کا کردار کسی پر پوشیدہ نھیں ہے۔ اس زمانے میں اسلامی انقلاب کو شیعہ انقلاب قرار دے کر سعودی عرب نے اپنی مخالفت کا جواز ڈھونڈ نکالا تھا لیکن مصر کے حالیہ انقلاب کی مخالفت اس نے کس بنیاد پر کی یہ بات سمجھنے سے مسلم امہ قاصر ہے۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی مخالفت میں میں بھی امریکہ اور سعودی عرب ایک دوسرے کے شا بشانہ کھڑے تھے اور اب مصری عوام کے انقلاب کی مخالفت میں بھی ریاض اور واشنگٹن ایک دوسرے کے معاون مددگار بنے ھوئے ہیں۔ کھیں وہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے طالبان سے مذاکرات کر رھے ہیں تو کھیں القاعدہ سے وابستہ دھشت گردوں سے کام لے رھے ہیں۔
ان کی یہ بے شرمی، ڈھٹائی اور منافقت دیکھ کر اب انصاف پسندوں اور ملت کا درد رکھنے والوں کے لئے خاموشی اور سیاسی ملاحظات کی پاسداری محال نظر آتی ہے لھذا رجعت پسند عرب ممالک اور خصوصا آل سعود پر تنقید کرنے والوں کا حلقہ روز بروز وسیع ھوتا جارھا ہے۔ خاص طور مصر اور شام کے مسئلے میں سعودی عرب کے متضاد روئیے نے سب کی آنکھیں کھول دی ہیں۔سعودی عرب کےاس متضاد روئیے اور امریکہ نوازی کی بھینٹ چڑھنے والی بدنصیب قوم کی حثیت سے افغان عوام کے بعد جو دوسرا نام ذھن میں آتا ہے وہ پاکستان کی مظلوم قوم کاہے جو گذشتہ تین عشروں قربانی دیتی چلی آرھی ہے۔
بادی النظر میں یوں دکھائی دیتا کہ مظلوم وہ ہیں جو مارے جا رھے اور وہ ظالم ہے جو ھتھیار اٹھاکر یا اپنے جسم سے بم باندھ کر دوسرے کلمہ گو مسلمانوں کو مار ڈالتا ہے، لیکن اگر تھوڑا سا غور کریں اور دیکھیں کہ یہ لوگ معاشرے کے کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی ذھنی اپروج کیا ہے تو شاید لوگ ان کی بےچارگی پرترس کھاکر بدعائیں دینے کی بجائے ان کی نجات کی دعا کریں۔ اس لئے کہ ھتھیار باندھ کر نکلنے والے یہ لوگ نہ تو پیشہ ور قاتل تھے نہ چور ڈاکو، یہ تو مدارس اور مساجد کی رونق تھے، منبر و محراب اور موعظہ و نصحیت ان ھی لوگوں سے مختص تھا۔ یہ تو دشمن کے ساتھ بھی مدارا اور حسن سلوک کا درس دیا کرتے تھے، پھر کیا ھوا کہ انھوں نے اپنی ھی تعلیمات کے منافی کام شر وع کردئیے۔؟
خودکشی یا خودکش حملوں کے تعلق سے پولیس حکام اور ماھرین نفسیات کا یہ کھنا ہے کہ یہ کام اس وقت ظھور میں آتا ہے جب انسان اپنی بے چارگی اور بے بسی کا احساس کرے یا دشمن کو ختم کرنے کے لئے کوئی اور راستہ باقی نہ بچا ھو یعنی ایک آسان ھدف کے لئے جان کی بازی لگانا غیر معقول نظر آتا ہے۔ لھذا کسی آسان اور غیر ضروری ھدف کی خاطر جان کی بازی لگانے سے اندازہ ھوتا ہے کہ اس قسم کی کاروائیوں میں ملوث افراد ذھنی طور پر مفلوج ہیں اور ان کو استعمال کیا جارھا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر حملوں میں کمسن و سال بچوں اور جوانوں کو استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی خود کش بمبار کے لئے ایسے حالات مھیا کردئیے جاتے ہیں کہ وہ اپنے سامنے اور کوئی راستہ نھیں پاتا اور ایک روبوٹ کی طرح خود کو دھماکے سے اڑا لیتا ہے۔
خودکش حملہ آوروں کے ذھنوں کو بالکل اسی طرح کنٹرول کیا جاتا ہے جسطرح ایک سافٹ ویر کے ذریعے روبوٹ کو چلایا جاتا ہے اس چلتے پھرتے روبوٹ کا ماسٹر مائنڈ خود بھی دراصل ایک روبوٹ کی طرح عمل کرتا ہے اور اس کو یہ پتہ ھی نھیں ھوتا کہ اس خونی گیم کا اصل خالق کون ہے۔ کس نے اسے بم بنانے، چلانے اور خودکش بمبار تیارکرنے کی تربیت اور ٹریننگ دی ہے وہ ایک روبوٹ کی مانند یہ سوچنے اور سجھمنے صلاحیت ھی نھیں رکھتا کہ وہ کس کے لئے کام کر رھا ہے۔ بس وہ ایک بات جانتا ہے کہ وہ جھاد کر رھا ہے کہ جس کا انجام جنت اور خدا کا دیدار ہے۔
چنانچہ ھم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان روبوٹ ایک شخص کو ذبح کرنے بعد اس کا سینہ چاک کرتا ہے اور اس کا دل نکال کر منہ لے کر اپنے دانتوں سے چباتا ہے اور اس جیسے کئی اور انسان نما روبوٹ اس انتھائی دردناک منظر کی وڈیو بناکر میڈیا پر جاری کر دیتے ہیں۔ پوری دنیا اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے انسانی ضمیر ھل کر رہ جاتا ہے لیکن انسانی حقوق کا علمبردار امریکہ چپ سادھ لیتا ہے اور مغربی میڈیا اسلام کو دھشت گرد اور مسلمانوں کو آدم خور قرار دینے کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے۔ یہ ہے وہ مقدس جھاد جس کا تصور سعودی عرب کے مفتیوں نے پیش کیا ہے اور جس عمل درآمد کے لئے سادح لوح اور بے بضاعت مسلمانوں کو استعمال کی جا رھا ہے۔ ایک سعودی مفتی نے حال ھی میں جھاد النکاح کا فتوی صادرکرکے سادہ لوح مسلمان خواتین کے لئے بھی ایک ایسا راستہ کھولدیا ہے جو بظاھرانھیں سیدھا جنت میں لے جاتا ہے۔
نھیں معلوم اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا جھوٹ کہ پاکستان کی ایک کالعدم دھشت گرد سے واستہ ایک سر کردہ مولوی نےاپنی اھلیہ کو جھاد النکاح کے لئے شام روانہ کیا جھاں مبینہ رپورٹ کے مطابق 13 جھادی کمانڈروں نے ان کے ساتھ جنسی فعل انجام دیا۔ اس سے قبل الجزیرہ ٹی چینل کی ایک معروف اینکر پرسن کے ساتھ جھاد النکاح سے متعلق رپورٹیں منظر عام پر آچکی ہیں جس کا کھنا تھا کہ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے جبکہ جھادی کمانڈروں نے ایک خط کے ذریعے اس کے الزام کی تردید کرتے ھوئے کھا تھا کہ الجزیرہ کی رپورٹر نے برضا و رغبت خود کو جھاد النکاح کے لئے پیش کیا تھا۔
سعودی مفتیوں کے اس طرح کے بے بیناد اور خلاف شرع فتوے ایک طرف اسلام کی بدنامی کا باعث بن رھے ہیں تو دوسری طرف مسلمان گھرانوں کے تباھی اور بربادی کا سامان مھیا کر رھے ہیں چنانچہ پاکستان کے سینئر صحافی اور معروف ٹی وی اینکر مبشر لقمان کے بقول ھم امریکہ کو برا کھتے ہیں مگر اصل برائی کی جڑ سعودی عرب ہے۔ آل سعود نے جو اب کھل کر امریکہ کا ساتھ دے رھے ہیں، اپنے اقدامات سے واضح کردیا ہے کہ سعودی عرب، جمھوریت اور اسلامیت دونوں کا مخالف ہے اور اسلام کو محض اپنے دربار کے تحفظ کے لئے استعمال کررھا ہے۔
لھذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی ممالک کے عوام اور مسلم امہ کو اس کے اثر سے نکا لا جائے اور اس کے سب سے بھاری ذمہ دار علما، دانشوروں اور انصاف میڈیا کی بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو حقائق سے آشنا کریں۔ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف بھی یہ کھہ چکے ہیں کہ خطے میں دھشتگردی ماضی کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ان کا کھنا تھا کہ دھشت گردی سے ھماری معیشت بری طرح متاثر ھوئی، پاکستان کو دھشت گردی سے بھت نقصان ھوا ہے اور بقول ان کے 40 ھزار پاکستانی اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔
نواز شریف کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں سماجی تبدیلی کے نئے فریم ورک کی ضرورت ہے۔بھرحال پاکستانی سیاستدانوں اور حکمران طبقے کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ سیاسی ملاحظات کی بجای اپنے قومی اور ملکی مفادات کو پیش نظر رکھیں اور قلیل المیعاد موثر اقدامات کے ساتھ ساتھ طویل المعیاد منصوبہ بندی کریں خصوصا مسجد و محراب و منبر سے وابستہ افراد کی صحیح تربیت اور نظارت کا مناسب انتظام کریں تاکہ کوئی دوسرا ان کو اپنے ناجائز مفادات کے لئے استعمال نہ کرسکے۔