www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

گیارہ ذیقعد فرزند رسول حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے موقع پرضریح مبارک پر نئي چادر چڑھانے اور گنبد پر

 پرچم رضوی کو تبدیل کرنے کی پر وقار تقریب منعقد ھوئي۔
اطلاعات کے مطابق امام رؤف کے چاھنے والوں اور خادمین حرم نےگنبدمبارک پر سبز پرچم لھرایا۔ ائمہ اھل بیت سلام اللہ علیھم اجمعین کی شھادتوں پر گنبد مبارک پر سیاہ پرچم اور ولادتوں کے دنوں کی مناسبت سے سبز پرچم نصب کیاجاتا ہے۔
 گیارہ ذیقعد حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت کا دن ہے، اس مبارک مناسبت سے سارے شھر میں چراغاں کیا گيا ہے اور اس شھر کا گلی کوچہ نور میں ڈوبا ھوا ہے۔
 یکم ذیقعدہ آپ کی ھمشیرہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کا یوم ولادت باسعات کا دن ہے اور اس ماہ کی گیارہ تاریخ آپ کے یوم ولادت باسعادت کی نوید سے معمور و منور ہے چنانچہ ان ایام کو ایران میں عشرہ تکریم کا نام دیا گیا ہے اور ان ایام میں دس روزہ جشن کا اھتمام کیا جاتا ہے۔
یکم ذیقعدہ کو قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے روضے پر جشن کا آغاز اور گیارہ ذیقعدہ کی مناسبت سے مشھد مقدس میں اختتام ایک قابل ستائش اقدام ہے کہ جس میں دنیا بھر کے زائرین بھی شریک ھوتے ہیں۔
چنانچہ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت تیس لاکھ سے زائد دس روزہ جشن کے اختتامی تقریب میں شرکت کے لئے مشھد مقدس میں موجود ہیں جھاں گنبد رضوی پر سبز پرچم لھرانے کی پر وقار تقریب منعقد ھوئی۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام ولادت باسعادت کے بارے میں علماء ومورخین کابیان ہے کہ آپ بتاریخ گیارہ ذی قعدہ ۱۵۳ ھجری ھ یوم پنجشنبہ بمقام مدینہ منورہ پیدا ھوئے۔ اس موقع پر حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام تشریف لائے اور ارشادفرمایاکہ تمھیں خداوندعالم کی یہ عنایت وکرامت مبارک ھو، پھرمیں نے مولود مسعود کوآپ کی آغوش میں دیدیا آپ نے اس کے داھنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کھی اس کے بعد آپ نے ارشادفرمایاکہ اسے لے لویہ زمین پرخداکی حجت ہے اورمیرے بعد حجت اللہ کے فرائض کاذمہ دار ہے۔
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے لوح محفوظ کے مطابق اورتعیین رسول (ص) کے موافق آپ کو"اسم علی" سے موسوم فرمایا، آپ آل محمد کے تیسرے "علی" ہیں ۔ آپ کی کنیت "ابوالحسن" تھی اورآپ کے القاب صابر، زکی، ولی، رضی، وصی تھے اورمشھور ترین لقب رضا تھا۔
آپ کی نشوونمااورتربیت اپنے والدبزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے زیرسایہ ھوئی اوراسی مقدس ماحول میں بچپنااورجوانی کی متعددمنزلیں طے ھوئیں اور ۳۰ برس کی عمرپوری ھوئی اگرچہ آخری چندسال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسی کاظم علیہ السلام عراق میں قیدظلم کی سختیاں برداشت کررھے تھے مگراس سے پھلے ۲۴ یا ۲۵ برس آپ کوبرابراپنے پدربزرگوارکے ساتھ رھنے کاموقع ملا۔
آپ کے پدربزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کومعلوم تھا کہ حکومت وقت جس کی باگ ڈوراس وقت ھارون رشیدعباسی کے ھاتھوں میں تھی آپ کوآزادی کی سانس نہ لینے دے گی اورایسے حالات پیش آجائیں گے کہ آب کی عمرکے آخری حصہ میں اوردنیاکوچھوڑنے کے موقع پردوستان اھلبیت کاآپ سے ملنا یابعدکے لیے راھنما کا دریافت کرنا غیرممکن ھوجائے گااس لیے آپ نے انھیں آزادی کے دنوں اورسکون کے اوقات میں جب کہ آپ مدینہ میں تھے پیروان اھلبیت کواپنے بعدھونے والے امام سے روشناس کرانے کی ضرورت محسوس فرمائی چنانچہ اولادعلی وفاطمہ علیھم السلام میں سے سترہ آدمی جوممتازحیثیت رکھتے تھے انھیں جمع کرکےحضرت امام علی رضاعلیہ السلام کی جانشینی کااعلان فرمادیا۔ ۱۸۳ ھجری میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے قیدخانہ ھارون رشید میں اپنی عمرکا ایک بھت بڑاحصہ گذارکردرجہ شھادت حاصل فرمایا، آپ کی شھادت کے وقت امام رضاعلیہ السلام کی عمر تیس برس تھی یہ وہ وقت تھا جب کہ بغداد میں ھارون رشید تخت خلافت پرمتمکن تھا اوربنی فاطمہ کے لیے زندگی تنگ تھی۔
ھارون کی موت کے بعد اس کے بیٹوں مامون اور امین میں جنگ ھوئی اور مامون نے اپنے بھائی امین کو قتل کرنے بعد اقتدار کو اپنے ھاتھ لے لیا اوراس کے بعد اپنے تمام ممکنہ دشمنوں کو راستے سے ھٹانے کی ٹھانی اور اس مقصد کے لئے ھر جائز و ناجائز حربہ اختیار کیا۔
یہ ایک واضح سی بات ہے کہ جس شخص تخت و تاج کی خاطر اپنے بھائی کا سرکاٹ دیا ھو وہ بھلا وہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کو کیا سمجھےگا لھذا فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو ولیعھدی کی پیش کش اور اس پر مامون کے اصرار کو عوام فریبی اور چالبازی کے سوا کوئی دوسرنام نھیں دیا جاسکتا جسے امام علیہ السلام اکراہ اور خاص شرائط کے تحت قبول کر لیا۔
واقعہ شھادت کے متعلق مورخین نے لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے فرمایاتھا کہ "فمایقتلنی واللہ غیرہ" خداکی قسم مجھے مامون کے سواء کوئی اورقتل نھیں کرے گا اور تاریخ شاھد ہے کہ ایسا ھی ھوا اور آپ کی شھادت کے بعد آپ کو شھر طوس کے مضافات میں واقع سناآباد نامی محلے میں دفن کردیا گیا جو آج مشھد الرضا کے نام سے مشھور، مرجع خلائق بنا ھوا ہے۔
مشھد مقدس کو ایران اسلامی کا معنوی دارالحکومت قرار دیا جاتا ہے جھاں لوگوں کے لۓ شب و روز کوئی معنی نھیں رکھتے۔ سردی گرمی لوگوں کی آمد و رفت میں مانع نھیں ھوتی۔ اس وقت 30 لاکھ کے سے زائد زائرین امام رؤف کے دربار میں اظھار عقیدت کے ساتھ ساتھ مسرت و شادمانی کا اظھار کر رھے ہیں۔
زائرین میں چھوٹے بڑے سبھی شامل ہیں۔ ویل چیر پر سن رسیده اور ضعیف العمرشخص سے لیکر آغوش مادر میں لپٹا ھوا نوزائدہ، اپنے امام کی قدم بوسی کے لئے حاضر ھوا ہے۔ ایک طرف نوبھاتا چوڑے ہیں جو اپنی مشترکہ زندگی کا آغاز اس مقدس مقام سے کر رھے ہیں جھاں دن رات پروردگار عالم کی تسبیح و تمجید کے زمزمے سنائی دیتے ہیں اور لوگ پروانہ وار ضریح مقدس کے گرد گھوم کر اپنی حاجت روائی کا تقاضا کرتے نظر آتے ہیں۔
 

Add comment


Security code
Refresh