شام اس وقت اھم تبدیلیوں سےدوچار ہے۔داخلی صورت حال کےساتھ ھی علاقائی سطح پر بھی حساس حالات کاسامنا ہے
عرب لیگ کے وزرائےخارجہ نے قاھرہ میں ایک اجلاس میں یہ دعوی کرتے ھوئےکہ شامی حکومت ھی کیمیاوی ھتھیاروں کےاستعمال کی اصلی ذمہ دار ہے عالمی برادری اوراقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ عرب لیگ کے بیان میں اس کی جن ذمہ داریوں کی طرف توجہ اشارہ کیاگیا ہے ان پر عمل کرے۔
البتہ اس طرح کی اپیل، شام پرحملےکے لئے امریکہ کو ھری جھنڈی دکھانے کے مترادف ہے؛ جویقیناتمام عرب ممالک کامطالبہ نھيں ہے۔
الجزائرسمیت عرب لیگ کے بعض اراکین نےاعلان کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کےآخری نتائج کاانتظارکریں گے۔
لبنان اورعراق نے بھی عرب لیگ کی اس درخواست پرتنقیدی موقف اختیارکیا ہے۔ مصرکےوزيرخارجہ نبیل فھمی نے تاکید کےساتھ کھا ہے کہ ان کا ملک سیاسی طریقہ کار اور جینیوا ٹو کانفرنس کےذریعے بحران شام کاحل چاھتا ہے۔
سعودی وزیرخارجہ سعودی الفیصل نے ایک بیان میں شام میں بیرونی ممالک کی مداخلت کی بھرپور حمایت کافیصلہ کرنے کامطالبہ کرتے ھوئے دعوی کیا ہےکہ شامی حکومت عرب دنیا میں اپنی قانونی حیثیت کھوچکی ہے اور اس نے کیمیاوی ھتھیاراستعمال کیا ہے۔
سعودی وزيرخارجہ نے اس امر کی جانب اشارہ کرتے ھوئےکہ شام میں کیمیاوی ھتھیاروں کےاستعمال کی مذمت کافی نھيں ہے دعوی کیا کہ سعودی عرب ملت شام اورمخالفین کےاتحادی رھنماؤں کاحامی ہے اورشامی حکومت کی سرکوبی کےلئے غیرملکی مداخلت کی حمایت کاخیرمقدم کرتا ہے۔ ملت شام کےساتھ سعودی عرب کی دوستی کا دعوی ایسے عالم میں سامنےآرھا ہے کہ شامی عوام سعودی عرب ، قطر اور متحدہ عرب امارات پیٹروڈالر سے خریدے ھوئےان ھتھیاروں کا نشانہ بن رھے ہیں جو ان ملکوں نے انتھا پسند تکفیری گروھوں کو دیئے ہیں۔ تکفیری دھشتگردوں کےانھیں ھتھیاروں سے شام کےبےگناہ عوام ، خواتین اوربچوں کا روزانہ قتل عام ھورھا ہے۔
شام پرحملے کےلئےامریکہ اورسعودی عرب کےدباؤ نےثابت کردیا کہ سعودی عرب اس موقف پر زور دے رھا ہے جو عرب اوراسلامی ممالک کےموقف کےبرخلاف ہے۔سعودی عرب ، قطر، ترکی اور امریکہ ایک منصوبے کےتحت شام کےخلاف فوجی کاروائی کی کوشش کررھے ہيں لیکن اس کےمقابلے میں روس اورچین سلامتی کونسل کےدومستقل رکن کی حیثیت سے فوجی کاروائی کےمخالف ہیں۔
شام کےسابق صدر مرحوم حافظ اسد کےبعد بشاراسد کےبرسر اقتدار آنے کےبعد سے ھی سعودی عرب ، شام کےسلسلےميں منفی رویہ اختیارکئے ھوئے ہےکیونکہ بشاراسد پوری طرح خودمختاراورآزاد پالیسی کے حامل ہیں جبکہ اسرائیلی مفاد میں امریکی اھداف کے پیش نظر، مشرق وسطی ميں واشنگٹن اور ریاض کےکےمشترکہ مفادات ، شام کےکردار سے میل نھيں کھاتے لھذا مشرق وسطی ميں امریکہ کی جیواسٹریٹیجک دلچسپی کے پیش نظر وہ شام میں فوجی مداخلت کا شدت سےخواھشمند ہے تاکہ عرب لیگ کی حمایت کےسھارے شام میں فوجی مداخلت کے منصوبے پرآسانی سےعمل کرسکے۔ البتہ اس میں کوئی شک نھيں کہ شام کوآج بالخصوص انسانی لحاظ سے المیہ کاسامنا ہے لیکن اس المیےکاذمہ دار کون ہے ؟ اورشام کےبارے میں اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ منظرعام پرآنے سےپھلے عرب لیگ کا یہ موقف کس ھدف کوبیان کرتا ہے؟
ایران کی وزارت خارجہ کےترجمان مرضیہ افخم نے شام کےسلسلے میں عرب لیگ کےبیان پرتنقید کرتے ھوئے سعودی وزیرخارجہ کےبیان کو بھی غیرمنطقی اور یکطرفہ تجزیوں اور اطلاعات کاسرچشمہ قراردیا اوراس طر ح کی اپیلوں کوپھلے سےطےشدہ فیصلہ اورسیاسی قراردیا۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس حقیقت کی یاد دھانی کراتے ھوئے کہ شام کےخلاف ھرطرح کا ممکنہ اقدام پورے مشرق وسطی کواپنی لپیٹ میں لےلےگا کھا کہ اسلامی جمھوریہ ایران کاخیال ہے کہ جوبھی بیان دیا جائے یا بین الاقوامی قدم اٹھایاجائے وہ بحران کوپھیلنےاورعلاقے کوایسے مرحلےميں داخل ھونےسے روکنے پرمرکوز ھوناچاھئے جسےختم کرنا قابل تصور نھيں ہے۔اس بنا پر ایساطریقہ کار اختیار کرنا چاھئے جس سے منظم دھشتگردی کابھرپورمقابلہ کیاجاسکے اوربعض ممالک کےحمایت یافتہ دھشتگردگروھوں پرتوجہ دی جائے۔