www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول متعدد وبے شمار روایات کے مطابق تعداد ائمہ معصومین علیہم السلام ، کہ ان میں سے ہر ایک یکے بعد دیگر ے راہ پیامبر کو آگے بڑھانے والے اور چراغ ہدایت ہیں، بارہ ہے جن میں سے گیارہ ا ئمہٴ طاہرین تشریف لا چکے ہیں اور ظالم وجابر بادشاہان وقت کے ذریعہ پیدا کردہ دشوارترین اور سخت ترین حالات میں دین کی حفاظت جیسے الٰہی وظیفے اور ذمہ داری کو ادا کرچکے ہیں نیز اپنی بیش قیمت زندگیاں فدائے دین کرکے مقام شہادت پر سرافراز ہوچکے ہیں۔


۲۶۰ھجری میں گیارہویں امام کی شہادت کے بعدامت مسلہ کے بارہویں معصوم رہبر، حضرت مہدی عجل الله تعالی فرجہ الشریف کی امامت کا آغاز ہوا اور ابھی تک آپ کی امامت جاری ہے نیز آئندہ بھی جاری رہے گی۔ یہی امر اس بات کا موجب ہے کہ حضرت سے متعلق بعض حقائق پر روشنی ڈالی جائے۔
بارہویں امام۔ حجت خدا۔ نیمہٴ شعبان ۲۵۵ ھجری میں شہر سامراء میں متولد ہوئے۔ آپ کا نام (م۔ح ۔م۔د) بعینہ رسول کا نام نیز آپ کی کنیت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مانند ابوالقاسم ہے۔ اگرچہ حضرت کے اصلی نام کو زبان پر جاری کرنے سے منع کیا گیا ہے لیکن علمائے شیعہ کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ آیا ائمہ طاہرین علیہم السلام نے سیاسی اور فقط غیبت صغریٰ سے مربوط وقتی اقدام کے تحت آپ کا مخصوص نام لینے سے منع کیاہے یا یہ حکم عمومی اور ہر زمانے کے لئے ہے۔
حضرت حجت، قائم، ولیعصر، خلف صالح، صاحب الزمان، بقیة الله مہدی آپ کے القاب ہیں جن میں سب سے مشہور مہدی ہے۔
حضرت مہدی کی غیبت دو طرح کی ہے۔ اول غیبت صغریٰ کہ جس کی مدت مختصر تھی اور دوسری غیبت کبریٰ کہ جس کی مدت طولانی ہے۔ غیبت صغریٰ کا زمانہ آپ کی ولادت کے بعد سے ۳۲۹ ھجری تک کا ہے جب کہ غیبت کبریٰ ۳۲۹ ھجری کے بعدسے آپ کے ظہور اور قیام تک باقی رہے گی۔
احادیث نبوی میں امام مہدی علیہ السلام
کے ظہور سے متعلق بشارت
شیعہ واہل سنت راویوں نے مندرجہ ذیل مضمون کے تحت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متواتر روایات نقل کی ہیں:
آخر زمانے میں مہدی نام کا ایک شخص ظہور کرے گا جو زمین سے جہالت اور ظلم کا صفایا کردے گا نیزاس کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ زمین پر دین خدا کو پھیلا دے گا اگرچہ مشرکین کو یہ بات بری لگے۔
متعدد روایات میں وارد ہوا ہے:
اگر عمر دنیا میں صرف ایک دن باقی رہے تو خداوند عالم اس ایک دن کو میری اولاد میں سے ایک فرزند کے ظہور تک طولانی کردے گا۔وہ زمین کوعد ل و انصاف سے اس طرح پر کردے گا جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی ہوگی۔ (۱﴾
اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر حضرت مہدی سے متعلق شیعہ و سنی روایات کے اعداد وشمار نقل کئے جا رہے ہیں:
۱﴾ ۶۵۷ روایات: ظہور امام مہدی علیہ السلام سے متعلق بشارت۔
۲﴾۳۸۹ روایات: مہدی علیہ السلام اہل بیت پیغمبر سے ہیں۔
۳﴾ ۲۱۴ روایات: مہدی علیہ السلام فرزندان علی علیہ السلام میں سے ہیں۔
۴﴾ ۱۹۲ روایات: مہدی علیہ السلام فاطمہ علیہا السلام سے ہیں۔
۵﴾ ۱۴۸ روایات: مہدی علیہ السلام، امام حسین کی نسل سے نویں فرزند ہیں۔
۶﴾ ۱۸۵روایات: مہدی علیہ السلام، امام زین العابدین علیہ السلام کے فرزندوں میں سے ہیں۔
۷﴾ ۱۴۶ روایات: مہدی علیہ السلام، فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام ہیں۔
۸﴾ ۱۳۲ روایات: مہدی علیہ السلام زمین کو عدل وانصاف سے پر کردیں گے۔
۹﴾ ۹۱روایات: مہدی علیہ السلام کی غیبت طولانی ہوگی۔
۱۰﴾ ۳۱۸ روایات : مہدی علیہ السلام کی عمر طولانی ہوگی۔
۱۱﴾ ۱۳۶ روایات: امام دوازدہم علیہ السلام، ائمہ اہل بیت علیہ السلام میں سے ہیں۔(۲﴾
اہل سنت والجماعت اور حضرت مہدی علیہ السلام
ظہور حضرت مہدی علیہ السلام سے متعلق روایات میں تواتراس قدر واضح ہے کہ بہت سے اہل سنت علماء نے بھی اس کی تصریح کی ہے، من جملہ:
علامہ شوکانی در التوضیح فی تواتر ماجاء فی المنتظر والرجال والمسیح، حافظ، ابو عبد الله گنجی شافعی (م․۶۵۸ ہ) در البیان فی اخبار صاحب الزمان، حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی (م․ ۸۵۲ ہ) در فتح الباری۔
اس سلسلے میں مزید تحقیق ومطالعہ کے لئے آیة الله صافی گلپائیگانی کی تالیف کردہ ”نوید امن وامان“ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔ فاضل مولف کی تحقیق کے مطابق اہل سنت کے ۱۷بزرگ علماء نے تصریح کی ہے کہ ظہور امام مہدی علیہ السلام سے متعلق روایات متواتر ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ظہور امام مہدی علیہ السلام سے متعلق عقیدہ فقط شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ عمومی طور پر اہل سنت بھی اس پر اعتقاد رکھتے ہیں مگر صرف اس فرق کے ساتہ کہ اہل سنت کی اکثریت کا نظریہ یہ ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام ابھی متولد نہیں ہوئے ہیں۔ حتی وہابی، کہ شیعوں سے جن کی مخالفت کسی پر پوشیدہ نہیں ہے، بھی اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکے ہیں۔ ۱۹۷۶ ء میں ”رابطة العالم الاسلامی “کے صادر کردہ اعلانیہ میں کہا گیاہے:
․․․․․․ دنیا میں فساد، کفرا ورظلم کے پھیلنے کے بعد خداوند عالم اس (مہدی) کے وسیلے سے دنیا کواسی طرح عدل و انصاف سے پر کردے گا جس طرح وہ ظلم و ستم سے پر ہوگی۔ وہ بارہ خلفائے راشدین میں سے آخری ہوگا جس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کتب صحاح میں خبر دی ہے۔ مہدی علیہ السلام سے مربوط روایات کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بہت سے اصحاب نے نقل کیا ہے از جملہ: عثمان بن عفان، علی ابن ابی طالب، طلحة بن عبید الله، عبدالرحمٰن بن عوف․․․․“
﴿رابطة العالم الاسلامی“ وہابیت کے عظیم مراکز میں سے ہے جس کا مرکزی دفتر مکہ میں ہے۔ مذکورہ اعلانیہ ظہور حضرت مہدی علیہ السلام سے متعلق سوال کے جواب میں اس مرکز کے جنرل سکریٹری کے دستخط کے ساتہ صادر ہواہے﴾۔
جیسا کہ مذکورہ بالا اعلانیہ میں کہا گیا ہے ، دوسرے بہت سے غیر شیعہ علماء نے ظہور حضرت مہدی علیہ السلام سے متعلق مستقل کتابیں تالیف کی ہیں جیسے ابونعیم: اخبار المہدی، ابن حجر ہیثمی: القو ل المختصر فی علامات المہدی المنتظر، ادریس عراقی: المہدی وغیرہ۔
غیبت حضرت مہدی علیہ السلام
امام مہدی علیہ السلام کی غیبت پرگفتگوکرنے سے پہلے بہتر ہے کہ دیگر ائمہ طاہرین کے حالات پر بھی مختصراً نظر ڈالی جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد اکثر مسلمانوں نے بالترتیب ابوبکر، عمر اور عثمان کی بیعت کرلی تھی۔ عثمان کے زمانے میں حکومت کے ظلم و ستم و مسئولین اور سرکاری افسروں کے غیر ذمہ دارانہ اورتعصب آمیز افعال وحرکتوں کی وجہ سے مسلمان نہایت پریشان ہوگئے تھے جس کی وجہ سے انھوں نے آخر کار عثمان کو قتل کردیا۔ اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ تسلیم کرلیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت چار سال اور چند ماہ سے زیادہ باقی نہیں رہ سکی جس کے دوارن بھی اصحاب جمل، معاویہ اور خوارج کے ساتہ آپ کو تین طویل جنگوں کاسامنا کرنا پڑا۔ بالآخر خوارج میں سے ایک شخص (ابن ملجم) نے آپ کو شہید کردیا۔
امام حسن علیہ السلام نیز معاویہ کے اشارہ پر زہر کے ذریعے شہید کر دئے گئے۔ معاویہ کی موت کے بعد اس کافرزند یزید، تخت خلافت پر پہونچا جو ایک شرابخور اورسگ باز شخص تھا۔ یہ شخص ظاہری طور پر بھی حرمت شریعت کا خیال نہیں رکھتا تھا۔
معاشرہ تدریجاً سنت رسول سے دور ہوتا جا رہا تھا اور آہستہ آہستہ ایسے حالات پیدا کئے جا رہے تھے کہ اسلام کانام و نشان بھی باقی نہ رہے۔ ایسے میں امام حسین علیہ السلام اٹھے، آپ نے قیام فرمایا اور اپنی اور اپنے ۷۱ باوفا ساتھیوں اور اعزاء کی مظلومانہ شہادت کے ذریعہ اسلام کے سر پر منڈلانے والے خطرے کو دور کرکے دین کو زندہٴ جاوید کردیا لیکن اس کے باوجود حکومت عدل اسلامی کے استقرار اورتشکیل کے لئے شرائط اجتماعی فراہم نہ ہوسکے۔ لہٰذا تمام ائمہ معصومین نے ایک تحریک تہذیب وتمدن شروع کی نیز تعلیم وتبلیغ معارف اسلامی کے ساتھ ساتھ ان افراد کی تربیت اور تزکیہٴ نفس کرنا شروع کیا جو تقویٰ اور طہارت نفس کی طرف مائل تھے۔ اسی درمیان ، جہاں تک ممکن ہوسکتا تھا مخفی طور پر لوگوں کو ظالم وجابر حاکم کے خلاف جنگ کے لئے دعوت دیتے اور ان کے دل میں عالمی حکومت اسلامی کی امید بھی جگاتے رہتے تھے۔ آخر کار یہ معصومین بھی یکے بعد دیگرے مقام شہادت پر فائز ہوتے رہے۔
ائمہ معصومین علیھم السلام کی ڈھائی صدی تک مسلسل کوشش وسعی کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ لوگوں کے درمیان تعلیمات واحکام اسلام وسیع پیمانے پر رائج ہوگئے اور دین اسلام مفقود اور نابود ہونے کے خطرے سے باہر آگیا۔
حکومت وقت کو جو چیز اپنے لئے سب سے زیادہ خطرناک اور نقصان دہ نظر آتی تھی وہ حضرت مہدی علیہ السلام سے متعلق کیا گیا وعدہٴ ظہور تھا کیونکہ روایات میں بتایا جا چکا تھا کہ حضرت مہدی علیہ السلام اپنے ظہور کے ساتہ ظلم و ستم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے ہم عصر حکام آپ پرسخت نگاہ رکھتے تھے کہ اگر آپ کا کوئی فرزند پیدا ہوتو اس کو فوراً ہی قتل کردیں۔
امام مہدی علیہ السلام متولد ہوئے لیکن خداوند عالم نے آپ کو دشمنوں کے شر سے اپنے حفظ وامان میں رکھا تاکہ آپ کوجامعہٴ بشریت کے لئے محفوظ رکھا جاسکے۔ اسی وجہ سے امام حسن عسکری کے زمانے یعنی پانچ برس تک چند مخصوص شیعوں کے علاوہ آپ کی پیدائش کے متعلق کسی کو کوئی خبر نہیں تھی۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد شیعہ، نواب اربعہ (عثمان بن سعید، محمد بن عثمان بن سعید، حسین بن روح اور علی بن محمد سمری) کے توسط سے آپ سے رابطہ قائم کرتے تھے لیکن اس کے بعد ایک غیر معینہ مدت کے لئے غیبت کبریٰ کا آغاز ہوگیا۔یہ غیبت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ جامعہٴ بشریت، حضرت مہدی علیہ السلام کی حکومت الٰہی وجھانی کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوجاتا۔ جب ایسا ہوجائے گا توخداوند عالم کے حکم سے آپ ظہور فرمائیں گے۔
اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ کی غیبت کی اصلی وجہ، دشمنوں کے شر اور ظلم وستم سے آپ کی حفاظت ہے تاکہ آپ ایک دن ساری دنیا پر پرچم اسلام لہرا سکیں۔
روایات میں بھی مذکورہ نکتہ بیان کیا گیا ہے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ”امام منتظر اپنے قیام سے پہلے ایک مدت تک لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہیں گے ۔ سوال کیا گیا، کیوں؟ امام نے فرمایا: ان کو اپنی جان کا خطرہ ہوگا۔“ (۳﴾
البتہ غیبت امام کی دوسری علتیں اور وجوہات بھی ہیں جیسا کہ روایات میں اس سلسلے میں بھی بیان ہوا ہے مثلاً یہ کہ شیعوں کا امتحان اور آزمائش اور یہ کہ اتمام حجت کے بعد کسقدر اپنے عقائد پر باقی رہتے ہیں۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں:
”جس وقت میرا پانچواں فرزند غائب ہوجائے، اپنے دین کی حفاظت کرنا، ایسا نہ ہو کہ تم کسی کے بہکاوے میں آکر دین سے خارج ہو جاؤ۔ اس کی غیبت ناگزیر ہوگی۔ اس درمیان بہت سے شیعہ اپنے ایمان وعقائد سے منہ پھیر لیں گے خداوند عالم اس غیبت کے توسط سے اپنے بندوں کا امتحان اور آزمائش کرے گا․․․․․“ (۴﴾
زمانہٴ غیبت میں فوائد وجود امام
یہ بات گذر چکی ہے کہ متعدد روایات میں غیبت حضرت مہدی علیہ السلام سے متعلق رسول خدا نیز دیگر ائمہ طاہرین کے اقوال نقل ہوئے ہیں۔ یہی روایات اس طرح کے سوالات کا مقدمہ بن جاتی ہیں کہ آخر زمانہٴ غیبت میں وجود امام کا فائدہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ضروری ہے لہٰذا رسول اسلام اور دیگر ائمہ ہدیٰ کے ذریعہ دئے گئے جوابات پر ایک سرسری نظر ڈال لینا بہتر ہے۔
”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا گیا: آیازمانہٴ غیبت میں شیعوں کو وجود قائم سے کوئی فائدہ حاصل ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ہاں -!اس خدا کی قسم جس نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے!شیعہ زمانہٴ غیبت میں اس کے وجود اور نورولایت سے اسی طرح مستفید ہوں گے جس طرح بادلوں میں چھپا ہو نے کے باوجود لوگ سورج سے استفادہ کرتے ہیں۔“ (۵﴾
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
”حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قیامت تک زمین ایک دن کے لئے بہی حجت خدا سے خالی نہیں رہی ہے اور نہ رہے گی البتہ اس قید کے ساتہ کہ وہ حجت خدایا ظاہر ہے یاخدا غائب ہے۔ اگر حجت خدا نہ ہو تو خدا کی عبادت وستائش کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ راوی نے پوچھا! غائب اورپوشیدہ امام سے کس طرح استفادہ کیا جاسکتا ہے؟ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جس طرح بادلوں کا پردہ ہوتے ہوئے بھی سورج سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ “ (۶﴾
یہ تشبیہ جو دوسری روایات میں بھی نقل ہوئی ہے، نہایت روشن اورواضح ہے۔ سورج ،بادلوں کے پیچھے سے دکھائی نہیں دیتا ہے لیکن وجود رکھتا ہے۔ زمین کو روشنی وگرمی بخشتا ہے۔ اس کی کرنوں سے نباتات اور حیوانات نیز انسان مستفید ہوتے ہیں۔ اسی طرح زمانہٴ غیبت میں حضرت مہدی علیہ السلام بھی موجودہیں اور دیگر انسانوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ ہمارے ہی ساتہ ہیں لیکن ہم ان کی زیارت نہیں کرپاتے ہیں۔ وہ ہمارے ہی ساتہ ہیں لیکن ہم ان سے غافل ہیں لیکن پھر بھی ہم ان کے وجود بابرکت سے مسلسل فیض وفوائد حاصل کرتے رہتے ہیں۔
ائمہ معصومین علیھم السلام سے وارد شدہ متعدد روایات کے مطابق امام زمانہ علیہ السلام قلب عالم وجود اور مرکز جہان ہستی ہیں۔ ان کے بغیر یہ زمین اور آسمان لمحوں میں فنا ہوجائیں گے۔ امام صادق فرماتے ہیں:
”لو بقیت الارض بغیر امام لساخت“
اگر زمین امام کے وجود کے بغیر باقی رہ جائے تو اپنے اوپر بسنے والوں کو ہڑپ جائے گی۔(۷﴾
امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے:
”یہ ہمارے ہی وجود کی وجہ سے ہے کہ خداوند عالم آسمان کو گرنے سے محفوظ رکھے ہوئے ہے۔ ہمارے ہی وجود کی وجہ سے زمین کو لرزنے سے بچائے ہوئے ہے نیزاس پر بسنے والوں کے لئے ساکن کئے ہوئے ہے۔ ہماری ہی وجہ سے بارش اور اپنی رحمت نازل کرتا ہے نیز زمین کی برکات ونعمات کو زمین سے باہر نکالتا ہے۔ اگر ہم میں سے کوئی فرد زمین پر موجود نہ ہو تو اپنے اوپر بسنے والوں کو نگل جائے گی۔“ (۸﴾
اسی طرح امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت میں بہت سے افراد ، ہر چند گمنام اور غیر مشہور، آپ کی زیارت سے مشرف ہوتے رہتے ہیں اور امام عصر ان لوگوں کی مادی اور معنوی حاجات کی برآوری فرماتے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ، وجودامام زمانہ علیہ السلام لوگوں کی امید اور توقعات کے زندہ رہنے کا موجب بھی ہوتا ہے نیزلوگوں کو آپ کے ظہور کے لئے آمادہ کرتاہے اور تہذیب نفس و خودسازی کے لئے بھی بہترین عامل ہے۔
حوالہ جات
۱۔مسند احمد بن حنبل، ج/۱،ص/۹۹، ج/۳،ص/۱۷
۲۔منقول از محاضرات الالھیات، آیة ا․․․ جعفر سبحانی، ص/۵۶۶
۳۔اصول کافی، ج/۱،ص/۳۳۷
۴۔اصول کافی: ج/۱،ص/۳۳۷، بحارالانوار:ج/۵۱،ص/۱۵۰
۵۔بحارالانوار: ج/۵۲،ص/۹۳
۶۔بحارالانوار: ج/۵۳،ص/۹۲
۷۔اصول کافی: ج/۱،ص/۱۷۹
۸۔امالی، شیخ صدوق: ص/۱۱۲، مجلس/۳۵، اکمال الدین: باب/۲۱،حدیث/۲۲،ص/۲۰۸

 

Add comment


Security code
Refresh