www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

اسلام كى نظر ميں ماں باپ كا مقام بہت بلند ہے ۔ خداوند عالم، رسول اكرام (ص)اور آئمہ معصومين عليھم السلام نے اس بار ے ميں بھت تا كيد كى ھے اور اس سلسلے ميں بھت سى آيات اور روايات موجود ھیں کہ ماں باپ سے حسن سلوك كو بھترين عبادات ميں سے شمار كيا گيا ھے۔

ارشاد رب العزت ھے:

"وقضى ربك الا تعبد و االا اياہ و بالوالدين احسانا"(۱)

اورتيرے رب نے فيصلہ كرديا ہے كہ صرف اسى كى عبادت كرو اور والدین كے ساتھ حسن سلوك اختياد كرو ۔

امام صادق عليہ السلام نے فرمايا :

تين چيزين بھترين عمل ھیں:

۱۔ پابندى وقت كے ساتے نماز پنجگانہ کی ادائیگی۔

۲۔ ماں باپ كے ساتھ حسن سلوك۔

۳۔راہ خداميں جھاد۔(۲)

اب يہ سوال پيدا ھوتا ہے كہ ماں ماپ كو یہ تین مقام كيوں ملا ہے ؟ كيا اللہ تعالى انے انھيں يہ مقام بلا وجہ عطا كرديا ہے يا ان كے كسى قيمتى عمل كى وجہ سے ؟ ماں باپ بچے كے ليے كون سابڑا كام انجام ديتے ہيں كہ جس كے باعث وہ اس مقام ومنزلت كے لائق قرارپاتے ہيں۔ باپ نے ايك جنسى جذبے كی تسكين كے ليے ايك خليہ حيات رحم مادر ميں منتقل كيا ہے ۔ يہ سيل ماں كى جانب سے ايك اور سيل كے ساتھ مل كرمركب ھو جاتا ہے جو ايك نئے وجود كے طور پر رحم مادر ميں پرورش پاتا ہے ۔ جونوماہ كے بعد ايك ننھے منے بچے كى صورت ميں زمين پر قدم ركھتا ہے ۔ ھاں اسے دودھ اوردوسرى غذا ديتى ہے ۔اسے كبھى صاف كرتى ہے كبھى كپڑ ے بدلتى ہے اس كى ترى اور خشكى كا خيال ركھتى ہے ان مراحل ميں باپ خاندان كے اخراجات پورے كرتا ہے اوران كى ديكے بھال كرتا ہے۔ كياماں باپ كى ان كاموں كے علاوہ كوئي اور ذمہ دارى نہيں ؟ كيا انھى كاموں كى وجہ سے ماں باپ كو اس قدر بلند مقام حاصل ہے ؟ كيا صرف ماں باپ اپنى اولاد پر حق ركھتے ہيں اور اولاد اپنے ماں باپ پر كوئي حق نھيں ركھتى ؟ ميرے خيال ميں ايسا يك طرفہ حق تو كوئى بھى قبول نہيں كرتا ۔ احاديث معصومين عليھم السلام ميں ايسے حقوق اولاد بھى بیان فرمائے ھيں كہ جن كى ادائيكى ماں باپ كى ذمہ دارى ہے ۔ان ميں سے چند احاديث ھم ذيل ميں ذكر كر تے ھیں:

۱۔ پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا:

چنانچہ جس طرح تيرا باپ تجھ پر حق ركھتا ہے تيرى اولاد بھى تم پر حق ركھتى ہے۔(۳)

۲۔ پيغمبر اكر م صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے فرمايا:

"جيسے اولاد اپنے ماں باپ كس نا فرمانى كى وجہ سے عاق ھو جاتى ہے اسى طرح سے ممكن ہے ماں باپ بھى اپنے فريضے كى عدم ادائيگى كے باعث اولاد كى طرف سے عاق ھو جائيں" ۔(۴)

۳۔ رسول كريم صلى اللہ عليہ وآلہ و سلم نے فرمايا:

"خدا ايسے ماں باپ پر لعنت كرے جو اپنى اولاد كے عاق ھونے كا باعث بنيں"۔(۵)

۴۔اما م سجّاد عليہ السلام نے فرمايا:

"تير ى اولاد كا حق يہ ھے كہ تو اس پر غور كر كہ وہ برى ہے يااچھى ہے بھر حال تجھى سے وجود ميں آئي ہے اوراس دنيا ميں وہ تجھى سے منسوب ہے اور تيرى ذمہ دار ہے كہ تو اسے ادب سكھا، اللہ كى معرفت كے ليے اس كى راھنمائي كر اور اطاعت پروردگار ميں اس كى مددكر، تيرا سلوك اپنى اولاد كے ساتھ ايسے شخص كاساھونا چاھيے كہ جسے يقين ھوتا ہے كہ احسان كے بدلے ميں اسے اچھى جزا ملے گى اور بد سلوكى كے باعث اسے سزاملے گى ''۔(۶)

۵۔امير المؤمنين على عليہ السلام نے فرمايا:

''كھيں ايسا نہ ھو كہ تيرى وجہ سے تيرا خاندان اور تيرے اقربا بدبخت ترين لوگوں ميں سے ھوجائيں ''۔(۷)

۶۔ پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا:

''جو كوئي بھى يہ چاھتا ھو كہ اپنى اولاد كو عاق ھونے سے بچائے اسے چاھيے كہ نيك كاموں ميں اس كى مدد كرے''۔(۸)

 ۷۔پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا:

''جس كسى كے ہاں بيٹى ھو اور وہ اسے خوب ادب و اخلاق سكھائے ، اسے تعليم دينے كے ليے كوشش كرے، اس كے ليے آرام و آسائشے كے اسباب فراھم كرے تو وہ بيٹى اسے دوزخ كى آگ سے بچائے گى ''۔(۹)

سب سے بڑھ كر يہ كہ اللہ تعالى قرآن مجيد ميں ارشاد فرماتا ہے:

يا ايھا الذين آمنوا قواانفسكم و اھليكم ناراً وقودھا الناس و الحجارة"

اے ايمان والو اپنے آپ كو اور اپنے اھل و عيال كو اس آگ سے بچاؤ كہ جس كا ايندھن انسان اور پتھر ہيں ۔(۱۰)

بچے زندگى كے بارے ميں كوئي راستہ متعين نھيں کرتے اور سعادت و بدبختى دونوں كى اس ميں قابليت ھوتى ہے اس سے ايك كامل انسان بھى بنايا جا سكتا ہے اور ايك گھٹيا درجے كا حيوان بھى ۔ ھر انسان كى سعادت اور بدبختى اس كى كيفيت تربيت سے وابستہ ہے اور اس عظيم كام كى ذمہ دارى ماں باپ كے كندھوں پر ڈالى گئي ہے ۔ اصولاً ماں باپ كا معنى يھى ہے ۔ ماں باپ يعنى انسان ساز اور كمال بخشنے والے دو وجود عظيم ترين خدمت كہ جو ماں باپ اپنى اولاد كے ليے انجام دے سكتے ہيں وہ يہ ہے اسے خوش اخلاق ، مھربان، انسان دوست ، خيرخواہ، حريت پسند، شجاع ، عدالت پسند، دانا، درست كام كرنے والا، شرافت مند ، با ايمان فرض شناس ، سالم ، محنتى ، تعليم يافتہ ، اور خدمت گزار بننے كى تربيت ديں۔

ماں باپ كو چاھيے كہ اپنے بچے كو اس طرح سے ڈھاليں كہ وہ دنيا ميں بھى سعادت مند ھو اور آخرت ميں بھى سرخرو۔ ايسے ھى افراد در حقيقت ماں باپ كے عظيم مرتبے پر فائز ھو سكتے ہيں نہ وہ كہ جنھوں نے ايك جنسى جذبہ كے تحت اولاد كو وجود بخشاھے اور اسے بڑا ھونے كے لئے چھوڑديا ہے كہ وہ خود بخود تر بيت پائے۔

پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا:

باپ جو اپنى اولاد كو بھترين چيز عطا كرسكتا ہے وہ اچھا ادب اور نيك تربيت ہے ۔(۱۱)

خصوصاً ماں كى اس سلسلے ميں زيادہ اھميت ہے ۔ حتى كہ دوران حمل بھى اس كى خوراك اور طرز عمل بچے كى سعادت اور بدبختى پر اثر انداز ھوتا ہے۔

پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا:

خوش نصيب وہ ہے كہ جس كى خوش بختى كى بنياد ماں كے پيٹ ميں پڑى ھو اور بدبخت وہ ہے جس كى سعادت كا آغاز شكم مادر سے ھوا ھو ۔(۱۲)

رسول اكرم (ص) نے فرمايا:

"الجنة تحت اقدام الامھات " (۱۳)

جو ماں باپ اپنى اولاد كى تعليم و تربيت كى طرف توجہ نھيں كرتے بلكہ اپنى رفتار و كردار سے انھيں منحرف بناديتے ہيں وہ بھت بڑے جرم كے مرتكب ھوتے ہيں ايسے ماں باپ سے پوچھنا چاھيے كہ كيا اس بے گناہ بچے نے تقاضا كيا تھا كہ تم اسے وجود بخشو كہ اب وجود ميں لانے كے بعد اسے تم نے گائے بچھڑے كى طرح چھوڑديا ہے ۔ اب جب كہ تم اس كے وجود كا باعث بن گئے ھو تو شرعاً اور عقلا ً تم ذمہ دار ھو كہ اس كى تعليم و تربيت كے ليے كوشش كرو ۔ لھذا تعليم و تربيت پر ماں باپ كى عظيم ترين ذمہ داريوں ميں سے ايك ہے۔

اس كے علاوہ ماں باپ معاشرے كے سامنے بھى جواب وہ ہيں ۔ آج كے بچے ھى كل كے مرد او رعورت ہيں۔ كل كا معاشرہ انھيں سے تشكيل پاناہے ۔ آج جو سبق سيكھيں گے كل اسى پر عمل كريں گے ۔ اگر ان كى تربيت درست ھوگی تو كل كا معاشرہ ايك كامل تراور صالح معاشرہ ھوگا اور اگر آج كى نسل نے غلط پروگرام كے تحت اور نادرست طور پر پرورش پائي تو ضرورى ہے كہ كل كا معاشرہ فاسدتر اور بدتر قرارپائے ۔ كل كى سياسى ، علم اور سماجى شخصيات انھيں سے وجود ميں آئيں گى ۔ آج كے بچے كل كے ماں باپ ہيں ۔آج كے بچے كل كے مربّى قرار پائيں گے ۔اور اگر انھوں نے اچھى تربيت پائي ھوگى تو اپنى اولاد كو بھى ويسا ھى بناليں گے اور اسى طرح اس كے برعكس ۔ لہذا اگر ماں باپ چاھيں تو آئندہ آنے والے معاشرہ كى اصلاح كرسكتے ہيں اور اسى طرح اگرچاھيں تو اسے برائيں اور تباھى سے ھمكنار كرسكتے ہيں ۔ اس طرح سے ماں باپ معاشرے كى حوالے سے بھى ايك اھم ذمہ دارى كے حامل ہيں ۔ اگر وہ اپنے بچوں كى صحيح تعليم و تربيت كے ليے كوشش كريں تو انھوں نے گويا معاشرے كى ايك عظيم خدمت انجام دى ہے او روہ اپنى زحمتوں كے صلے ميں اجر كے حقدار ہيں اور اگر وہ اس معاملے ميں غفلت اور کوتاھی سے كام ليں تو نہ صرف اپنے بے گناہ بچوں كے بارے ميں بلكہ پورے معاشرے كے ليے خيانت كے مرتكب ھوتے ہيں اور يقينى طور پر بارگاہ الھى ميں جواب وہ ھوں گے۔

تعليم و تربيت كے موضوع كو معمولى نھيں سمجھنا چاھيے ۔ ماں باپ اولاد كى تربيت كے لئے جو كوشش كرتے ہيں اور جو مصيبتيں اٹھاتے ہيں وہ سينكڑوں استادوں ، انجينئروں ، ڈاكٹروں اور عالموں كے كاموں پر بھارى ہيں ۔ يہ ماں باپ ہيں جو انسان كامل پروان چڑھاتے ہيں اور ايك لائق و ديندار استاد، ڈاكٹر اور انجينئر وجود ميں لاتے ہيں۔

خاص طور پر مائيں بچوں كى تربيت كے بارے ميں زيادہ ذمہ دارى ركھتى ہيں اور تربيت كا بوجھ ان كے كندھوں پر ركھا گيا ہے ۔ بچے اپنے بچپن كا زيادہ عرصہ ماؤں كے دامن ميں ھى گزارتے ہيں ۔ اور آئندہ زندگى كے رخ كى بنياد اسى زمانہ ميں پڑتى ہے ۔ لہذا افراد كى خوشبختى اور بدبختى اور معاشرے كى ترقى اورتنزل كى كنجى ماؤں كے ھاتھ ميں ہے ۔عورت كا مقام وكالت وزارت ، اور افسرى ميں نھيں يہ سب چيزيں مقام مادر سے كھيں كم تر ہيں ۔ مائيں كامل انسانوں كى پرورش كرتى ہيں اور صالح وزير، وكيل ، افسر اور استاد پروان چڑھاتى ہيں اور معاشرے كو عطا كرتى ہيں۔

جو ماں باپ پاك، صالح اور قيمتى بچے پروان چڑھاتے ہيں نہ صرف يہ كہ وہ اپنى اولاد اور معاشرے كى خدمت كرتے ہيں بلكہ خود بھى اسى جھان ميں ان كے وجود كى خير وخوبى سے بھرہ مند ھوتے ہيں ۔ نيك اولاد ماں باپ كى سرافرازى كا سرمايہ ھوتى ہے اور ناتوانى كے زمانے ميں ان كا سھارا ھوتى ہے۔ اگر ماں باپ ان كى تعليم و تربيت كے ليے كوشش كريں تو اسى دنيا ميں اس كا نتيجہ ديكھيں گے اور اگر اس معاملے ميں غفلت اور کوتاھی سے كام ليں تو اسى دنيا ميں اس كا ضرر بھى ديكھ ليں گے ۔

حضرت على عليہ السلام نے فرمايا:

"برى اولاد انسان كے ليے بڑى مصيبتوں ميں سے ہے "(۱۴)

حضرت على عليہ السلام نے يہ بھى فرماياہے:

"برى اولاد ماں باپ كى آبروگنواديتى ہے اور وارثوں كو رسوا كرديتى ہے "۔(۱۵)

پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:

"خدا رحمت كرے ان ماں باپ پر جنھوں نے اپنى اولاد كو تربيت دى كہ وہ ان كے ساتھ حسن سلوك كريں "

لھذا جو ماں باپ بن جاتے ہيں ان كے كندھے پر ايك بھارى ذمہ دارى آن پڑتى ہے اوريہ ذمہ دارى خدا كے حضور بھى مخلوق كے روبرو بھى اور اولاد كے سامنے بھى ہے ۔ اگر انھوں نے اپنى ذمہ دارى كو صحيح طريقے سے ادا كرديا تو ان كے لئے ايك عظيم خدمت انجام دى ہے ، وہ دنيا و آخرت ميں اس كا نيك صلہ پائيں گے ۔ ليكن اگر انھوں نے اس معاملے ميں كوتاھى كى تو خود بھى نقصان اٹھائيں گے اور اپنى اولاد اور معاشرے كے ساتھ بھى خيانت اور ناقابل بخشش گناہ كے مرتكب ھوں گے۔

حوالہ:

۱۔ بنى اسرائيل ۲۳۔

۲۔ اصول كافى ج ۲ ص ۱۵۸۔

۳۔ مجمع الزوائد ، ج ۸ ، ص ۱۴۶۔

۴۔ بحار ، ج ۱۰ ،ص ۹۳۔

۵۔ مكارم الاخلاق ، ص ۵۱۸۔

۶۔ مكارم الاخلاق ص ۴۸۴۔

۷۔غررالحكم ص ۸۰۲۔

۸۔مجمع الزوائد، ج ۸ ص ۱۴۶۔

۹۔مجمع الزوائد ،ج ۸، ص ۱۵۸۔

 ۱۰سورہ تحريم ، آيہ ۶۔

۱۱۔مجمع الزوائد ،ج ۸،ص ۱۵۹۔

۱۲۔ بحار الانوار، ج ۷۷ ، ص۱۱۵۔۱۳۳۔

۱۳۔مستدرك ، ج ۲ ، ص ۶۳۸۔

۱۴۔غرر الحكم ، ص ۱۸۰۔

۱۵۔غررالحكم ،۷۸۰۔

۱۶۔ مكارم الاخلاق، ص ۵۱۷۔

۵۔ بحار الانوار ، ج/۷۴ص/۸۴۔

۶۔ بحار الانوار ، ج/۷۴ص/۴۹۔

۷۔کنزالعمال ، ج/۱۶ص/۴۶۶۔

۸۔بحار الانوار ، ج/۷۴ص/۴۵۔

۹۔بحار الانوار ، ج/۷۴ص/۴۹۔

۱۰۔ بحار الانوار ، ج/۷۴ص/۷۹۔

۱۱۔بحار الانوار ، ج/۷۴ص/۴۹۔

۱۲۔بحار الانوار ، ج/۷۴ص/۴۶۔

۱۳۔بحار الانوار ، ج/۷۴ص/۵۶۔

۱۴۔بحار الانوار ، ج/۷۴ص/۷۲۔

۱۵۔کنزالعمال ، ج/۱۶ص/۴۶۸۔

۱۶ ۔اصول کافی ،ج/۲ص / ۳۴۸۔

۱۷۔ اصول کافی ،ج/۲ص / ۳۴۹۔

۱۸۔اصول کافی ،ج/۲ص / ۳۴۹۔

۱۹۔بحار الانوار ، ج/۷۴ص/۶۴۔

۲۰۔بحار الانوار ، ج/۷۴ص/۶۴۔

Add comment


Security code
Refresh