۵۔ تشدد کی بحث کے مقابلہ میں غیر ذمہ دارانہ رویہ
گذشتہ جلسہ میں تشدد کے سلسلہ میں مطالب بیان کرنے کے بعد بعض مغرب پرست اخباروں نے ھمارے اوپر اعتراضات کئے اور بھت سے مقالات اخباروں میں چھپے حقیر اس سلسلہ میں ان تمام افراد کا شکر گذار ھے جنھوں نے ھماری موافقت یا مخالفت میں گفتگو کی یا مقالہ لکھا کیونکہ ھمارا تو یہ نظریہ ھے کہ اخباروں میں اس طرح کی باتوں پر نقد وتنقید کوئی نقصان دہ نھیں ھوتی؛ بلکہ اس طرح سے بات بالکل صاف ھوجاتی ھے تاکہ عوام الناس اپنے عقائد کو راسخ تر کرلیں، اور اپنے وظیفہ کو بھتر طور پر سمجھ لیں لیکن شرط یہ ھے کہ ایک طرف کی بات سن کر فیصلہ نہ کیا جائے اور دونوں طرف کی مکمل باتوں کو پیش کیا جائے لیکن افسوس کے ساتھ عرض کیا جاتا ھے کہ بعض لوگوں نے ھماری باتوںکو کاٹ چھانٹ کر بعض عھدہ داروں تک پھنچائی جن کی وجہ سے وہ پریشان ھوگئے اور جلد بازی میںھمارے خلاف فیصلہ کرنے لگے۔
ھمیں ددسروں سے یہ امید نھیں ھے کہ وہ ھماری باتوں کی تائید کریں اسی طرح ان سے کسی طرح کا کوئی خوف بھی نھیں ھے ھم اپنی شرعی اور الٰھی ذمہ داری پر عمل کرتے ھیں، اگر کسی کو اچھا لگے تو بھتر، ورنہ ھم نے اپنی ذمہ داری پر عمل کردیا ھے اور خدا پر بھروسہ کیا ھے، ھمیں کسی کی توھین یا دھمکی کا کوئی خوف نھیں ھے لیکن جو لوگ دعویٰ کرتے ھیں کہ سب کی باتوں کوکشادہ دلی کے ساتھ سننا چاھئے؛ ان سے یہ امید تھی کہ ھماری باتوں کو سنتے اور شاید ھماری پوری بات کو سننے کے بعد ان کو مان بھی لیتے اور اگر ھماری بات کو قبول بھی نہ کرتے تو اس کا جواب دلیل و منطق اور اصول کے تحت دیتے، نہ یہ کہ نامناسب الفاظ سے ھمیں نوازا جاتا۔
افسوس کہ ھمارے پاس اتنا وقت نھیں ھے کہ ھم ان تمام لوگوں کو تحریری جواب دیں جنھوں نے تقریروں، اخباروں اور مقالوں میں اظھار محبت کی اور ھمارے نفع یا ھمارے نقصان میں کچھ بیان کیا اوران دو ھفتوں میں سیکڑوں مقالے لکھے، اسی طرح ان سب کو الگ الگ زبانی جواب دینے کی بھی فرصت نھیں ھے لھٰذا ان کو جواب نھیں دیتے ، ھمیں امید ھے کہ ان سب کا یہ کام خوشنودی خدا کے لئے ھوگا۔
ھم اپنی ذمہ داری سمجھتے ھیں کہ اسلامی معاشرہ کے لئے ضروری چیزوں کو دلائل اور برھان کے ساتھ بیان کریں ، لیکن اگر کسی کو اچھا نہ لگے تووہ منطق اور دلیل کے ساتھ اس کا جواب دے۔
۶۔ قرآن مجید میں لفظ ” تشدد“ کے ھم معنی لفظ کی تحقیق
قارئین کرام ! ھم یھاں پر ضروری سمجھتے ھیں کہ تشدد کے سلسلہ بیان شدہ باتوں کا خلاصہ کریں: ”تشدد“ عربی لفظ ھے اور فارسی زبان میں بھی استعمال ھوتا ھے، جس کے معنی سختی سے پیش آنے کے ھیں، اس کے مقابلہ میں لفظ ”لیّن“ ھے جس کے معنی ”نرمی “ کے ھیں قرآن مجید میں لفظ ”لیّن“کے مقابلہ میں لفظ ”تشدد“ کا استعمال نھیں ھوا ھے، بلکہ لفظ ”غلظت“ استعمال ھوا ھے؛ جب کہ حقیقت یہ ھے کہ یہ دونوں (تشدد اور غلظت) مترادف (ھم معنی) الفاظ ھیں جیسا کہ فارسی (یا کسی دوسری زبان ) میں مترادف الفاظ ھوتے ھیں، اسی طرح عربی زبان میں بھی بھت سے مترادف الفاظ ھوتے ھیں، قرآن مجید میں کبھی ان دو مترادف الفاظ میں سے ایک لفظ استعمال ھوا ھے اور کبھی کبھی دونوں الفاظ استعمال ھوئے ھیں، اور کبھی دو الفاظ میں سے ایک خاص معنی میں استعمال ھوا ھے، مثال کے طور پر لفظ ”قلب“ سے ایک معنی مراد ھوتے ھیں اور لفظ ”فوٴاد“ سے دوسرے معنی، (جبکہ دونوں کے معنی ”دل“ کے ھیں) اور کبھی کبھی ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ استعمال ھوا ھے قرآن مجید میں لفظ ”لیّن“ (نرمی) کے مقابلہ میں لفظ ”غلظت“ استعمال ھوا ھے، جیسا کہ خداوندعالم نے پیغمبر اکرم سے خطاب فرماتا ھے:
( فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ لِنْتَ لَھمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ ) (۵)
” پیغمبر یہ اللہ کی مھربانی ھے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم رھو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ھوتے تو یہ لوگ تمھارے پاس سے بھاگ کھڑے ھوتے “
فارسی میں لفظ” غلظت “ سختی کے معنی میںاستعمال نھیں ھوتا، بلکہ ھماری زبان میں اس لفظ کو ”بھنے والی “ چیزوں میں استعمال کیا جاتا ھے، مثلاً کھا جاتا ھے کہ خرمے کا رس ”غلیظ“ ھے ، یعنی سخت ھے، اور لفظ ”غلظت“ جس کے مقابلہ میں لفظ ” لیّن“ ھے؛ اس کے ھم معنی لفظ ”تشدد“ ھے جس کے سلسلہ میں ھم نے بحث کی ھے،اور کھاکہ تشدد مطلق طور پر مذموم نھیں ھے، بلکہ بعض مواقع پر نہ صرف یہ کہ مذموم نھیں ھے بلکہ ضروری اور واجب بھی ھے۔
۷۔مغربی اور اسلامی نظر میں تحمل اور ٹولرانس کے معنی
قارئین کرام ! ھم نے آزادی کے سلسلہ میں عرض کیا کہ ھمارے سیاسی اور ادبی معاشرہ میںکئے جانے والے آزدای کے معنی لفظ لبرلیزم " Liberalism" کا ترجمہ ھے جس کا رواج مغربی ممالک میں بھت زیادہ ھے اسی طرح لفظ ”تحمل“ (کسی کی بات کو برداشت کرنا) جو لفظ ”تشدد“ کے مقابلہ میں استعمال کیا جاتا ھے یہ انگلش لفظ ٹولرانس "Toleranec" کے ھم معنی ھیں جس کے معنی تحمل اور برادشت کرنا ھیں بھر حال چونکہ یہ دونوں الفاظ مغربی ممالک میں بھت زیادہ رائج ھیں البتہ اس چیز میں کوئی ممانعت بھی نھیں ھے کہ اگر کسی دوسری زبان کا لفظ واضح اور شفاف معنی رکھتا ھو تو اس کو ”ھو بھو“ یا اس کے ھم معنی کوئی دوسرا لفظ اپنی ادبیات میں شامل کرلیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں البتہ اس نکتہ پر توجہ رھے کہ کبھی کبھی دوسری زبان کے یہ الفاظ بھت سی حد و قید رکھتے ھیں اور خاص الخاص معنی رکھتے ھیںنیز اسی زبان کے ماحول سے اس کے معنی کئے جاتے ھیں یعنی جب کسی زبان میں کوئی لفظ استعمال ھوتا ھے تو اس کے مثبت یا منفی معنی ھوتے ھیں لیکن اگر اسی کو کسی دوسری زبان میں لے جاکر معنی کئے جائیں تو اس کے معنی بدل جاتے ھیں یا اس کے معنی بالکل برعکس ھوجاتے ھیں، مثال کے طور پر:
یھی لفظ ” آزادی“جو مغربی تمدن سے ھماری زبان میں وارد ھوا ھے ؛ مغربی ممالک میں اس کے بھت زیادہ وسیع معنی ھیںاور جنسی مسئلہ میں کسی قسم کی روک ٹوک نہ ھونے کے معنی میں بھی استعمال ھوتا ھے جب کہ ھمارے معاشرہ میں ایسا نھیں ھے، ا ور یہ معنی ھمارے معاشرہ بلکہ دوسرے اسلامی معاشرہ میں بھی قابل قبول نھیں ھیں، لھٰذا ھم اسلامی اور قومی اقدار کی بنا پر مجبور تھے کہ اس آزادی میں کچھ قید وشرط کا اضافہ کریں اور جائز آزادی نیز اسلامی قوانین کے مطابق آزادی کو قبول کرلیں، لھٰذا واضح طور پر یہ اعلان کرتے ھیں کہ ھم ”مطلق آزادی“ کو نھیںمانتے اسی طرح ”تشدد“ کے وہ معنی جو ھماری زبان میں وارد ھوگئے ھیں اور مغربی ممالک میں اس کو مطلقاً قابل مذمت گردانتے ھیں؛ جب کہ ھم اس کو بطور مطلق ضدّ اقدار نھیں سمجھتے، جس طرح سے مطلق آزادی کو نھیں مانتے بلکہ ھم منطق اور اصول سے خالی تشدد جوانسانی اخلاق کے مخالف ھو؛اس کو مذموم مانتے ھیں ، اور ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ بعض مواقع پر تشدد ؛ عقل کا تقاضا اور معاشرہ کے منافع کو پورا کرنے والی ھے، لھٰذا اس وقت اس میں کوئی نقصان بھی نھیں ھے۔
لھٰذا جب لفظ ٹولرانس "Toleranec" انگلش سے نکل کر ھماری زبان میں داخل ھوا ، تواس کو مطلق طور پر قبول کرنے سے پھلے اس کے صحیح معنی پر توجہ کریں اور یہ دیکھیں کہ مغربی ممالک میں اس کے کیا کیا مثبت یا منفی پھلو ھیں، اور اس کے پشت پردہ کیا راز پوشیدہ ھے اور کس مقصد کے تحت ھماری سیاسی ادبیات میں داخل ھوا ھے؟ نیز یہ دیکھیں کہ اس کے منتقل ھونے کے بعد اس کے معنی میں کیا کچھ تبدیلی پیدا ھوئی ھے یا نھیں؟
لفظ ٹولرانس کا مفھوم مغربی ماڈرن تمدن کا ایک تحفہ ھے جو ” رنسانس“کے زمانہ بعد سے آھستہ آھستہ رائج ھوتا چلا گیا ھے اور آج کل مغربی ممالک میں بے دینی تمدن کی ایک واضح پھچان ھے (توجہ رھے کہ ھم نے اس سے پھلے بھی عرض کیا ھے کہ جب ھم مغربی تمدن کا نام لیتے ھیں تو اس سے مراد ان ممالک میں رھنے والے تمام لوگوں کا تمدن نھیں ھے؛ کیونکہ وھاں پر بھت سے دیندار مسلمان بھی موجود ھیں، بلکہ ھماری مراد مغربی ممالک میں حکمراں تمدن ھے جس کے مخالف بھی خودانھیں ممالک میں بھت زیادہ پائے جاتے ھیں۔)
اس لفظ ٹولرانس "Toleranec" کی تحقیق کے سلسلہ میں مزید عرض کرتے ھیں:
اولاً: مغربی ممالک میں حکمراں تمدن میں تمام اقدار (چاھے وہ اخلاقی اقدار ھوں یا اجتماعی اقدار یا حقوقی اور سیاسی) اعتباری امور ھیں اور ان کی کوئی عقلائی اور واقعی حققت نھیں ھے دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ اقدار کا تعلق عوام الناس کی مرضی اور ان کے سلیقہ پر ھوتا ھے کیونکہ کسی چیز پر اعتقاد رکھنا سب کے لئے اور سب جگہ پر اقدار نھیں کھلاتا بلکہ مغربی ممالک کی نظر میں اقدار اس وقت اقدار ھے جب معاشرہ اس کو قبول کرے، لیکن اگر ایک زمانہ میں عوام الناس کا سلیقہ بدل جائے تو یھی اقدار ضد اقدار میں بدل جائے گا۔
ثانیاً : یہ لوگ اسلامی اعتقاد کو اسی اعتباری اقدار کے ھم پلہ قرار دیتے ھیں، اورانسان کو یہ اختیار دیتے ھیں کہ چاھے وہ ان کو قبول کرے یا ترک کردے، گویا دینی عقائد کو بھی ایک سلیقہ کی طرح قرار دیتے ھیں:
جس طرح انسان اپنے سلیقہ کی بنا پر اپنے لباس کا رنگ اختیار کرتا ھے مثلاً کوئی نیلا رنگ پھننا چاھتا ھے اور کوئی کالا رنگ ، جبکہ کسی کو یہ نھیں کھا جاسکتا کہ تم اس رنگ کو کیوں انتخاب کرتے ھو؟! اور نہ ھی اس کے اس کام پر مذمت کی جاسکتی ھے کیونکہ ھر شخص اپنے سلیقہ میں مختار اور آزاد ھے، اسی طرح یہ لوگ دین کوبھی اپنے سلیقہ کی بنا پر اختیار کرتے ھیں، اس کے بارے میں یہ نھیں کھا جاسکتا کہ تو نے اس دین کو کیوں انتخاب کیا اور اس دین کو کیوں انتخاب نھیں کیا، اور کیوں فلاں دینی عقیدہ کی توھین کرتے ھواور اس کو نفی کرنے کی کوشش کرتے ھو اور اس سے بھی بالاتر اگر کسی نے اپنے دینی اعتقادات کوبالائے طاق رکہ دیا اور کسی دوسرے مذھب میں داخل ھوگیا تو اس کی بھی مذمت نھیں کی جاسکتی ، کیونکہ عقیدہ بدلنا بھی ایک سلیقہ کی طرح ھے جو کسی بھی وقت بدلا جاسکتا ھے!
لیکن اسلامی نقطہ نظر سے دینی مقدسات اور اسلامی اقدار ؛جان ومال اور ناموس سے بھی زیادہ مھم ھے وہ اسلام جو ھمیں اس بات کی اجازت دیتا ھے کہ مال کی حفاظت کے لئے جان کی حد تک دفاع کرسکتے ھیں ( یعنی جب تک جان جانے کا خطرہ نہ ھو اس وقت تک اس کی حفاظت ضروری ھے، لیکن اگر مال کی خاطر جان جانے کا خطرہ ھو تو اس وقت اس مال کو جان پر قربان کردیا جائے) کیا وہ اسلام دینی مقدسات کے دفاع کی اجازت نہ دے گا؟ (اگر چہ شورایٰ شھر تھران کے ایک نمائندہ نے اس بات کی بھی اجازت دیدی ھے کہ خدا کے خلاف بھی مظاھرہ کیا جاسکتا ھے) لیکن تمام مراجع تقلید کے فتوایٰ کی بنا پر اور شیعہ و سنی اجماع کی بنا پرتمام مسلمان اس بات پر متفق ھیں کہ اگر کوئی شخص ایک جنگل اور بیابان میں کہ جھاں پر کوئی موجود نہ ھو ؛خدا، رسول ، مقدسات اسلامی اور دین اسلام کی ضروریات کی توھین کرے ، اوراس کو پولیس یا عدلیہ کے حوالہ کرنے کا کوئی امکان نہ ھو تو ھر مسلمان پر واجب ھے کہ اس کو اسلامی مقدسات کی توھین کی بنا پر قتل کردے اور اسی اسلامی نظریہ کی بنا پر حضرت امام خمینی (رہ) نے مرتد سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ صادر فرمایاجس کی تمام شیعہ سنی علماء نے تائید کی مغربی تمدن سے ھمارا نقطہ اختلاف یھی ھے جس کو اسلام قبول کرتا ھے لیکن مغربی کلچر نھیں مانتا۔
ھمارا دینی وظیفہ اور دینی غیرت اس بات کی اجازت نھیں دیتی کہ ھم اسلامی مقدسات کی توھین ھوتے ھوئے خاموش بیٹھے دیکھتے رھیں، اسلام نے دینی مقدسات کی توھین کے مقابلہ کے لئے تشدد کو جائز قرار دیا ھے جب اسلام ھمارے نزدیک اپنی جان و مال اور اولاد سے بھی زیادہ عزیز ھے تو ھم اس کی حفاظت اور دفاع کے لئے اپنی جان کو بھی خطرہ میں ڈال سکتے ھیں لھٰذا اگر کوئی اسلامی مقدسات کی توھین کرے تو ھر انسان اس کو سزا دے سکتا ھے یھاں تک کہ اگر اس کو یہ بھی احتمال ھو کہ کل اسے (اسی قتل کی بنا پر) گرفتار بھی کیا جاسکتا ھے اور اس کے خلاف کاروائی کی جاسکتی ھے کہ تجھے اس قتل کا کوئی حق نھیں تھا ، اور وہ مقتول کے ”مھدور الدم“ ( یعنی قتل جائز )ھونے کو ثابت نہ کرسکتا ھو جس کے نتیجہ میں اس پر قصاص یا سزائے موت کا فیصلہ دیا جائے، تو اس صورت میں بھی وہ اپنے دینی وظیفہ پر عمل کرسکتا ھے اور اسلام کی توھین کرنے والے کو سزائے اعمال تک پھنچا سکتا ھے ، مگر یہ کہ اس کے قتل کرنے سے مزید فساد پھیلنے کا خطرہ ھو۔
حوالے:
(۱) مشروطیت اس شاھی حکومت کو کھتے ھیں جس میں قوانین کے تحت کام کیا جائے (مترجم)
(۲) طرفداران انسانیت، تھذیب ، اخلاق اور انسانی فکری رشداور مذھبی اختلافات کو دور کرنے والوں کو فرامانسون کھا جاتا ھے (مترجم)
(۳( سورہ مائدہ آیت33 .
(۴ ) سورہ انفال آیت60 .
(۵)سورہ آل عمران آیت 159 .
- << Prev
- Next