اڑتیسواں جلسہ
۱۔ تحریک مشروطیت اور مغربی کلچر کا رواج
قارئین کرام! ھم نے ”اسلامی سیاسی نظریات“ کی بحث کے دوران بعض ان مشکلات کی طرف اشارہ کیا جو مغربی ثقافت کے نفوذ کی وجہ سے ھمارے ملک میں پیدا ھوگئی ھیں، اور ھم نے ان اسباب کی طرف بھی اشارہ کیا جن کی وجہ سے یہ مشکلات پیدا ھوئی ھیں تاکہ ھمارے برادران خصوصاً جوانانِ عزیز اور آئندہ انقلاب کے وارث ان مشکلات میں گرفتار نہ ھوں منجملہ ان مشکلات کے جس کو گذشتہ بحث میں بیان کیا آزادی اور ڈیموکریسی کی بحث تھی۔
”تحریک مشروطیت“(۱) کے آغاز سے اس وقت تک ھمارے رابطہ مغربی کلچر سے زیادہ ھوتا گیا ھے، فرامانسون "Francmaconne" (۲) اور مغرب پرست (مغربی کلچر سے متاثر افراد) نے مغربی ممالک میں رائج مختلف کلچر کو اپناتے ھوئے ان کو اسلامی معاشرہ میں رائج کرنا شروع کردیا اگرچہ مختلف وجوھات کی بنا پر بعض چیزوں (جیسے آزادی اور ڈیموکریسی) کے رائج ھونے کا راستہ فراھم تھا، کیونکہ شاہ کے ظلم وستم سے ھمارا معاشرہ پریشان ھوچکا تھا، لھٰذا آزادی کی آواز پر فوراً لبیک کھا اور جب بھی کسی نے آزادی کا نعرہ لگایا اس کا بھت زیادہ استقبال ھوا، جس کا نتیجہ یہ ھوا کہ اس طرح کے نعرے سب کی زبان پر آنے لگے، اور آزادی اور آزادی خواھی کے بھت زیادہ طرفدار بن گئے البتہ اسلامی اقدار کے مخالف ان قید و بند اور ظلم و ستم سے عوام الناس آزادی چاھتے تھے لیکن مغربی تمدن سے متاثر حضرات نے آزدای کا دوسرا رخ پیش کیا یعنی اسلام سے آزادی در حقیقت وہ اس نعرے کے ذریعہ عوام الناس کو اسلام سے دور کرنا چاھتے تھے تاکہ وہ اسلامی قوانین اور اسلامی اقدار کی پابندی نہ کرپائیں۔
اسی طرح وہ عوام الناس جو خان، راجہ اور فئوڈل( اشرافی حکومت، یا جاگیر داری )کی ظالم حکومت سے پریشان تھے، لھٰذا ان کو ڈیموکریسی کا نعرہ اچھا لگا اور ڈیموکریسی حکومت بنانے کی کوشش کرنے لگے، نہ یہ کہ اس طرح کے ظالم و جابر افراد ان کی سر نوشت اور زندگی کے بارے میں منصوبہ بندی بنائیں اسی وجہ سے یہ نظریہ عوام الناس میں قابل قبول تھا لیکن جن لوگوں نے اس معنی کو عام طور پر رواج دیا اور اس مغربی تحفہ کی عبادت وپرستش کرتے ھوئے دوسروں کو بھی اس کی پرستش کی دعوت دی، تو ان کا مقصد ڈیموکریسی کے اس نعرہ سے اسلامی اقدار کو بالائے طاق رکہ دینا تھااور دین کو معاشرہ کی سیاسی زندگی سے ھٹانا تھا، نیز عوام الناس کے نظریات اور ان کی مرضی کو اسلامی اور مذھبی اقدار کی جگہ قرار دینا ان کا مقصد تھا لیکن جو لوگ مغرب پرستوں کے ان ناجائز اھداف سے واقف نہ تھے وہ اس طرح کے مطلق شعار کو قبول کرلیتے تھے؛ لیکن جو لوگ دور اندیش اور ھوشیار تھے انھوں نے اس کے خلاف عکس العمل دکھایا، اور عوام الناس پر اس حقیقت کو واضح کرنے اور دشمن کی سازش کو برملا کرنے کے لئے انھوں نے اپنی جان تک کی بازی لگادی، اور اپنے تمام تر وجود کے ساتھ یہ اعلان کردیا کیا کہ وہ مطلق آزادی اور ڈیموکریسی جو اسلام اور اسلامی قوانین کے مخالف ھو؛ وہ اسلامی لحاظ سے قابل قبول نھیں ھے۔
شھید بزرگوار شیخ فضل اللہ نوری رحمة اللہ علیہ کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے ڈیموکریسی اور مشروطھٴ غربی کی مخالفت کی جو کہ اسلامی اور الٰھی اقدار کے مخالف تھی، اور موصوف نے ”مشروطھٴ مطلقھ“ کے مقابلہ میں ”مشروطہ مشروعہ“ (۱) پیش کی چنانچہ موصوف فرماتے تھے: ھم مشروطھٴ کو مطلق طور پر قبول نھیں کرتے، بلکہ ھم اس مشروطہ کو قبول کریں گے جو اسلام اور قوانین اسلامی کے موافق ھو ، لیکن دوسرے لوگ مشروطہ مطلقہ کا نعرہ لگاتے تھے، کیونکہ ان کی نظر میں اس کا موافق شریعت ھونا یا نہ ھونا کوئی اھمیت نھیں رکھتا تھا؛ لھٰذا اپنے ناپاک اھداف کے تحت اس عالی قدر عالم روحانی کو ظلم و استبداد کی طرف داری اور مشروطہ مطلقہ کی مخالفت کے جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا اور ان کو شھید کردیا اگرچہ ایک طرف سے ”اصول گرایان“ اور ”اسلام خواھان“کے درمیان اور دوسری طرف دگر اندیشان اور مغرب پرستوں میں یہ جنگ و جدال اور کشمش ابھی تک جاری و ساری ھے۔
۲۔ اسلام میں مطلوب اور مقصود آزادی کے نقشہ پر بعض موٴلفین کی نا رضا مندی
قارئین کرام ! ھم نے گذشتہ سال آزادی اور ڈیموکریسی کے سلسلہ میں بحث وگفتگو کی جس میں ھم نے بیان کیا کہ ھمارے معاشرہ میں مطلق آزادی قابل قبول نھیں ھے، اور جیسا کہ اسلامی تمدن اور بنیادی قوانین میں مشروط آزادی مقبول ھے بنیادی قوانین کی اصل نمبر ۴ کی بنا پر : بنیادی قوانین کے اصول، قوانین موضوعہ، پارلیمنٹ کے بنائے ھوئے قوانین،یا دوسرے اداروں کے ذریعہ بنائے جانے والے قوانین اس وقت معتبر ھیں جب وہ دلیل شرعی کے عموم اور اطلاق سے کسی طرح کی کوئی مخالفت اور مغایرت نہ رکھتے ھوں لھٰذا اگر بنیادی قوانین کی ایک اصل بھی آیات و روایات کے عموم اور اطلاق سے مخالفت رکھتے ھوں تو وہ غیر معتبر ھے! ھماری ملت نے اسی بنیادی قوانین کو ووٹ دیا ھے جو اس قدر اسلامی مضبوط پشت پناھی رکھتا ھے لھٰذا اسلام کے احیاء اور زندگی کے لئے انقلاب برپا کرنے والے ھماری ملتبنیادی قوانین میں اسلامی احکام اور اسلامی منزلت کے تحفظ کے طلب گار ھیں، تو پھر وہ غیر اسلامی تمدن کو کیسے قبول کرسکتی ھے؛ لھٰذا ھماری ملت کے نزدیک (جو اسلامی )یعنی وہ مشروطیت جس میں شرعی قوانین کے تحت کام کیا جائے (مترجم)
نظریہ ھے)؛وہ آزادی قابل قبول ھے جو اسلامی احکام اور اقدار کے تحت ھو۔
لیکن ھماری اس بحث کے بعد بھت سے اخبار وں کے مالکان نے ھماری مخالفت شروع کردی، اور بھت سے مقالات ھماری مخالفت میں چھپنے لگے، اور ھم کو آزادی اور ڈیموکریسی کا مخالف اور ظلم وستم کا طرف دار بتایا جانے لگا، یھاں تک کہ بعض لوگوں نے تو یہ بھی کھہ ڈالا کہ فلاں صاحب تو ایران کو پیچھے کی طرف لے جارھے ھیں! اور آخر کار ایک مسلمان اور انصاف پسند مقالہ نگار نے ھماری باتوں کا اعتراف کیا اور کھا: ھمارا معاشرہ اس آزادی کا دفاع کرسکتا ھے جو اسلامی احکام اور قوانین شریعت کے دائرہ میں ھو؛ جبکہ ھمارے حکومتی عھدہ داران نے بھی بارھا اسی مطلب کی طرف اشارہ کیا ھے اور کرتے رھتے ھیں۔
۳۔ مفسد فی الارض کے بارے میں اسلامی حکم
ھم نے گذشتہ بحث میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ عدلیہ کو طاقتور ھونا ضروری ھے تاکہ خلاف ورزی کرنے والوں کو ان کی سزائے اعمال تک پھنچایا جاسکے، اور مجرموں کو سزا مل سکے، اور اس کام کے لئے پولیس اور قدرت کا استعمال کرنا ضروری ھے اور اگر اس طرح کی طاقت اسلامی حکومت میں نہ ھو تو پھر وہ معاشرہ میں اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کی ضامن نھیں ھوسکتی اس چیز کو دنیا بھر کی حکومتوں میں قبول کیا جاتا ھے سوائے ”آنارشیسٹوں“"Anarchistes" ( فساد طلب ) اور حکومت کا انکار کرنے والوں کے، اور سبھی افراد حکومتوں کے لئے طاقت اور پولیس کو لازمی اور ضروری جانتے ھیں لھٰذا اسلامی حکومت کے لئے امن وامان قائم کرنے، معاشرہ میں نظم وضبط برقرار رکھنے،الٰھی احکام اور حدود نیز اسلام کے سزائی قوانین کو نافذ کرنے کے لئے قدرت اور طاقت کا استعمال ضروری ھے اسی طرح اگر کچھ لوگ اسلامی نظام کے خلاف مظاھرہ کرنے لگیں اور معاشرہ میں بد امنی پھیلانے لگیں تو اس وقت اسلامی حکومت کی ذمہ داری ھے کہ وہ اپنی قدرت اور پولیس کے ذریعہ ان کو اپنی جگہ بٹھادے۔
قارئین کرام ! ھم نے عرض کیا کہ بغیر کسی حد اور قید کے مطلق آزادی کو ایک ناقابل انکار ارزش اور اقدار کے عنوان سے بیان کرنے والے اور اس کے مقابلہ میں تشدد اور شدت پسندی کو مطلق طور پر ضدِّ اقدار قلمبند کرنے والے افراد کھتے ھیں : ”یھاں تک کہ نظام اسلامی کے مقابلہ میں قیام کرنے والوںاور تشدد اور شدت پسندوں کے مقابلہ میں ؛ تشدد اور شدت پسندی کا مظاھرہ نھیں کرنا چاھئے، بلکہ پیار و محبت اور الٰھی و اسلامی رحمت کے ساتھ برتاؤ کیا جانا چاھئے۔“
بے شک ان لوگوں کا یہ نظریہ صحیح نھیں ھے، کیونکہ اگر مجرموں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے مقابلہ میں سخت رویہ نہ اپنایا جائے اور ضروری مواقع پر تشدد اور پولیس کا سھارا نہ لیا جائے تو اس طرح کے فتنہ وفساد دوبارہ بھی ھوسکتا ھے یھاں تک کہ ممکن ھے اس طرح کے برتاؤ سے دوسرے بھی ناجائز فائدہ اٹھائیں، کیونکہ اگر اس طرح کا فتنہ وفساد بپا کرنے والوں، مساجد میں آگ لگانے والوں، عورتوں کے سروں سے چادر چھینے والوں اور مختلف مقامات پر آگ لگانے والوں نیزدھشت گردی پھلانے والوں کے مقابلہ میں اگر بیٹھے مسکراتے رھیں اور نرمی کے ساتھ برتاؤ کرتے رھیں تو گویا یہ فتنہ وفساد پھلانے والوں کے لئے ایک سبز چراغ ھوگا اور وہ یہ سوچ سکتے ھیں کہ اس طرح کا کام دوبارہ بھی کیا جاسکتا ھے!! لھٰذا یہ نظریہ بالکل نا درست اور اسلام کے مخالف ھے کیونکہ اسلام کا حکم یہ ھے کہ محارب (لڑائی جھگڑا کرنے والا) اور مفسدفی الارض کے لئے سخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔
عام طور پر حکومتی قوانین کی خلاف ورزی کرنا اور تشدد کا استعمال کرنا دو طریقہ پر ھوسکتا ھے: کبھی تو انفرادی طور پر ھوتا ھے اور کبھی اجتماعی طور پر اجتماعی طور پر اس طرح سے کہ ایک گروہ منصوبہ بندی کے ساتھ حکومت کے خلاف مسلحانہ حملہ کرتا ھے اسلامی فقہ میں اس گروہ کو ”بُغاة“ اور ”اھل بَغی“ (بغاوت کرنے والا) کھا جاتا ھے اسلامی جھاد کی ایک قسم اسی طرح کے لوگوں سے جھاد کرنا ھے اگر کچھ لوگ کسی گروہ کے تحت اسلامی حکومت کے خلاف مسلحانہ قیام کریں توان سے جنگ کرنا ضروری ھے، یھاں تک کہ اسلامی حکومت کے سامنے تسلیم ھوجائیں اور ان سے کسی طرح کی کوئی سازش نھیںکرنا چاھئے لیکن کبھی حکومت کے خلاف اس طرح کا قیام کسی خاص گروہ کے تحت نھیں ھوتا بلکہ ایک یا دو آدمی مسلحانہ حملوں کے ذریعہ معاشرہ میں بد امنی پھیلاتے ھیں اور عوام الناس کی جان ومال او رناموس پر حملہ ور ھوتے ھیں اور دھشت گردی پھیلاتے ھیں شریعت اسلام میں ایسے افراد کو ”محارب“ کھا گیا ھے ایسے افراد کے مقابلہ میں لشکر کشی کی ضرورت نھیں ھوتی، بلکہ ان لوگوں کو اسلامی عدالت کے حوالہ کیا جاتا ھے تاکہ قاضی شرع ان کے بارے میں فیصلہ کرے۔
اور قاضی شرع بھی محارب اور مفسد فی الارض کے سلسلہ میں چار احکام میں سے کوئی ایک حکم لگا سکتا ھے، اور وہ چار حکم درج ذیل ھیں:
۱۔ پھانسی دینا۔
۲۔ تلوار یا بندوق کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دینا۔
۳۔ مختلف سمت سے ھاتہ پیر کاٹ دینا ،(یعنی داھنا ھاتہ اور بایاں پیر ،یا بایاں ھاتہ اور داھنا پیر)۔
۴۔ اسلامی ملک سے نکال دینا۔
چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:
( إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللهَ وَرَسُولَہ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاٴَرْضِ فَسَادًا اٴَنْ یُقَتَّلُوا اٴَوْ یُصَلَّبُوا اٴَوْ تُقَطَّعَ اٴَیْدِیھمْ وَاٴَرْجُلُھمْ مِنْ خِلاَفٍ اٴَوْ یُنفَوْا مِنْ الْاٴَرْضِ ذَلِکَ لَھمْ خِزْیٌ فِی الدُّنیَا وَلَھمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیمٌ (۳)
”بس خدا و رسول سے جنگ کرنے والے اور زمین میں فساد کرنے والوں کی سزا یھی ھے کہ انھیں قتل کردیا جائے یا سولی پر چڑھا دیا جائے یا ان کے ھاتہ پیر مختلف سمت سے قطع کردئے جائیں یا انھیں ارض وطن سے نکال باھر کیا جائے، یہ ان کے لئے دنیا میں رسوائی ھے اور ان کے لئے آخرت میں عذاب عظیم ھے۔ “
لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ جو لوگ اسلامی حکومت اور نظام اسلام کے خلاف فتنہ وفساد برپا کریں وہ محارب اور مفسد فی الارض ھیں اور ان کو اسلام کے مطابق سزا دی جائے، کسی بھی صورت میں اسلامی سزا اٹھائی نھیں گئی ھیں اسلامی تمدن کے مخالف افراد کھا کرتے ھیں کہ اسلامی سزائیں اور اسلام کے احکام تشدد آمیز ھیں اور عام طور پر کسی بھی طرح کی تشدد مذموم ھے اور جیسا کہ ھم نے تشدد کی بحث میں بیان کیا کہ جس طرح مطلق آزادی صحیح نھیں ھے اسی طرح مطلق تشدد بھی محکوم اور مذموم نھیں ھے بلکہ بعض موقع پر تشدد اور غیظ وغضب کا مظاھرہ کرنا جائز اور لازم ھے، اور جو لوگ تشدد اور غیظ وغضب کے ساتھ آگے بڑھتے ھیں ان کے ساتھ میں ویسے ھی تشدد اور قھر و غضب کے ساتھ جواب دیا جائے، ورنہ اگر ان کے ساتھ پیار و محبت کا برتاؤ کیا جائے تو واقعاً یہ ان کے لئے ایک سبز چراغ دکھانے کی طرح ھوگا اور وہ پھر دوبارہ بھی اس طرح کا آشوب برپا کرسکتے ھیں، اور اس طرح دوبارہ فساد پھیلانے کا راستہ ھموار ھوجائے گا۔
۴۔ سخت رویہ نہ اپنانے کا نتیجہ
گذشتہ سال ملک کے بعض مقامات پر مختصر طور پر بدامنی پھیلی ، اور بعض دلائل کی بنا پر حکومتی عھدہ داروں نے یہ مصلحت دیکھی کہ بد امنی پھیلانے والوں کے ساتھ تھوڑی نرمی کے ساتھ برتاؤ کیا جائے، اور سخت رویہ نہ اپنایا جائے؛ چنانچہ آپ حضرات نے دیکھا کہ اسی نرم رویہ اپنانے کا نتیجہ تھا کہ ایک بار پھر بد امنی پھیل گئی، جس کے درد ناک نتائج ناقابل برداشت تھے لھٰذا اگر بد امنی پھیلانے والوں اور مفسد فی الارض کے ساتھ سخت برتاؤ نہ کیا جائے اور اسلامی سزائیں ان کے حق میں جاری نہ کی جائیں تو پھر دوبارہ بدامنی نہ پھیلنے کی کوئی ضمانت نھیں ھے اور یہ بھی ضمانت نھیں ھے کہ ایک بار پھر یونیورسٹی کے ماحول سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے گا بے شک ھمارے یونیورسٹی کے طلباء مسلمان، ھوشیار اور موقع شناس ھیں اور بدامنی اور آشوب پھیلانے سے بری ھیں لیکن بعض افراد ایسے بھی موجود ھیں جو انھیں طلباء کے پاکیزہ احساسات سے ناجائز فائدہ اٹھاکر پھر دوبارہ بد امنی پھیلانا چاھتے ھیں۔
لھٰذا گر بد امنی پھیلانے والوں کے ساتھ سخت رویہ نہ اپنایا جائے اور بعض لوگوں کے مطابق؛ ان کے ساتھ تشدد اور شدت پسندی کا برتاؤ نہ کیا جائے تو پھر دوبارہ اس طرح کی بد امنی نہ پھیلانے کی کیا ضمانت ھے؟ لھٰذا توجہ رھے کہ اگر اسلامی سزائیں سخت ھیں جیسا کہ چور کے ھاتہ کاٹنے کا حکم ھے یا دوسرے جرائم؛ خصوصاً محارب اور مفسد فی الارض کے لئے سخت سے سخت سزائیں معین کی ھیں، تو وہ اس وجہ سے ھیں تاکہ پھر کوئی بد امنی پھیلانے کی جرائت نہ کرسکے ، اور اس طرح کے مجرم سخت سزا سے خوف زدہ رھیں کیونکہ دشمن اور مجرم کو ڈرانے کا مسئلہ اسلام کی ایک بھت بڑی حکمت ھے جس کی طرف قرآن مجید نے اشارہ کیا ھے، مسلمانوں اور سیاسی مسلمانوںکو اس آیت پر توجہ کرنا چاھئے، ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
( وَاٴَعِدُّوا لَھمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھبُونَ بِہ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِینَ مِنْ دُونِھمْ لاَتَعْلَمُونَھمْ اللهُ یَعْلَمُھمْ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ شَیْءٍ فِی سَبِیلِ اللهِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ وَاٴَنْتُمْ لاَتُظْلَمُونَ ) (۴)
” اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن، اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نھیں جانتے ھو اور اللہ جانتا ھے سب کو خوفزدہ کردو، اور جو کچھ بھی راہ خدا میں خرچ کرو گے سب پورا پورا ملے گا اور تم پر کسی طرح کا ظلم نھیں کیا جائے گا۔“
جن مواقع پر عوام الناس کی طرف سے تشدد جائز ھے وہ اس وقت ھے جب عوام الناس کو یہ احساس ھوجائے کہ اسلامی عھدہ داران خطرہ میں ھیں ، اور اسلامی نظام کے خلاف سازش ھورھی ھے ، اور صرف اسلامی حکومت اسلامی نظام کا دفاع کرنے پر قادر نھیں ھے کیونکہ جب اسلامی حکومت کو نظام کے سلسلہ میں کسی سازش کا پتہ چل جاتا ھے تو وہ خود اپنی ذمہ داری پر عمل کرتی ھے، لیکن اگر اسلامی حکومت تنھا کافی نہ ھو تو عوام الناس کا وظیفہ بنتا ھے کہ اسلامی حکومت کی مدد کریں اور اسلامی حکومت کے عھدہ داروں کا دفاع کریں جیسا کہ آپ حضرات نے دیکھا کہ اس سال (تیر ماہ ۱۳۷۸ئہ شمسی ) کے درد ناک حادثہ میں کس طرح کا ماحول پیدا ھوگیا، اس وقت واقعاً اسلامی نظام خطرہ میں تھا، اس وقت حکومتی قدرت اس فساد کی آگ کو بجھانے کے لئے کافی نہ تھی، لھٰذا عوام الناس اور بسیجی ( عوامی رضاکار فوج) اس آگ کو بجھانے کے لئے آگے بڑھے اور اس کو خاموش کردیا؛ جیسا کہ بعض حکومتی بڑے عھدہ داروں نے بھی اس بات کی وضاحت کی کہ اس شعلہ ور آگ کو ھمارے بسیجیوں نے بجھایا ھے۔
لھٰذا اگر اسلامی نظام کے خلاف کوئی سازش ھو (جبکہ بعض لوگ اس سازش سے بے خبر رھتے ھیں) اور ھم واضح اور قطعی طور پر اس سازش کا احساس کرلیں اور اس سازش کو ختم کرنے کے لئے تشدد کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ ھو،تو اس صورت میں تشدد او رشدت پسندی کا اظھار کرنا واجب اور ضروری ھے جیسا کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے فرمایا کہ ”اس موقع پر تقیہ کرنا حرام ھے، اور قیام کرنا چاھئے، ھرچہ بادا باد “(چاھے کچھ بھی ھو) جس وقت خود اسلام خطرہ میں ھو اس موقع پر کسی طرح کا کوئی تقیہ جائز نھیں ھے، اور اسلام کے دفاع کے لئے اٹہ کھڑا ھونا چاھئے، یھاں تک کہ اگر ھزاروں لوگ بھی قتل ھوجائیں، اگرچہ دوسرے افراد کسی وجہ سے اس خطرہ کی طرف متوجہ نہ ھوں یا وہ اس کام میں مصلحت نہ سمجھتے ھوں، لیکن جب یقینی دلائل کے ساتھ واضح ھوجائے کہ واقعاً اسلامی نظام اور اسلامی عھدہ داروں کے لئے خطرہ ھے تو پھر عوام الناس کو ان کا دفاع کرنا واجب ھے؛ لھٰذا یھاں پر تشدد اور غیظ وغضب کا ظاھر کرنا واجب ھے۔
ھماری باتوں کا مطلب یہ نھیں ھے کہ ھر موقع پر تشدد سے کام لیا جائے ، ھم تشدد کے طرفدار نھیں ھیں بلکہ ھمارا اعتقاد تو یہ ھے کہ پیار و محبت اور مھربانی اصل ھے ، اور صرف ضروری مواقع پر تشدد سے کام لیا جائے ھماری عرض تو اتنی ھے کہ جب اسلامی حکومت موجود ھو تو پھر حکومتی متعلق اداروں اور عدلیہ کے فیصلہ کے مطابق کام ھو؛ لیکن اگر کوئی مسئلہ حکومت کے ھاتھوں سے نکل جائے اور اسلام اور اسلامی نظام کی حفاظت کے لئے تشدد کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ بچے تو اس وقت تشدد کا مظاھرہ کرنا واجب ھے۔
۵۔ تشدد کی بحث کے مقابلہ میں غیر ذمہ دارانہ رویہ
گذشتہ جلسہ میں تشدد کے سلسلہ میں مطالب بیان کرنے کے بعد بعض مغرب پرست اخباروں نے ھمارے اوپر اعتراضات کئے اور بھت سے مقالات اخباروں میں چھپے حقیر اس سلسلہ میں ان تمام افراد کا شکر گذار ھے جنھوں نے ھماری موافقت یا مخالفت میں گفتگو کی یا مقالہ لکھا کیونکہ ھمارا تو یہ نظریہ ھے کہ اخباروں میں اس طرح کی باتوں پر نقد وتنقید کوئی نقصان دہ نھیں ھوتی؛ بلکہ اس طرح سے بات بالکل صاف ھوجاتی ھے تاکہ عوام الناس اپنے عقائد کو راسخ تر کرلیں، اور اپنے وظیفہ کو بھتر طور پر سمجھ لیں لیکن شرط یہ ھے کہ ایک طرف کی بات سن کر فیصلہ نہ کیا جائے اور دونوں طرف کی مکمل باتوں کو پیش کیا جائے لیکن افسوس کے ساتھ عرض کیا جاتا ھے کہ بعض لوگوں نے ھماری باتوںکو کاٹ چھانٹ کر بعض عھدہ داروں تک پھنچائی جن کی وجہ سے وہ پریشان ھوگئے اور جلد بازی میںھمارے خلاف فیصلہ کرنے لگے۔
ھمیں ددسروں سے یہ امید نھیں ھے کہ وہ ھماری باتوں کی تائید کریں اسی طرح ان سے کسی طرح کا کوئی خوف بھی نھیں ھے ھم اپنی شرعی اور الٰھی ذمہ داری پر عمل کرتے ھیں، اگر کسی کو اچھا لگے تو بھتر، ورنہ ھم نے اپنی ذمہ داری پر عمل کردیا ھے اور خدا پر بھروسہ کیا ھے، ھمیں کسی کی توھین یا دھمکی کا کوئی خوف نھیں ھے لیکن جو لوگ دعویٰ کرتے ھیں کہ سب کی باتوں کوکشادہ دلی کے ساتھ سننا چاھئے؛ ان سے یہ امید تھی کہ ھماری باتوں کو سنتے اور شاید ھماری پوری بات کو سننے کے بعد ان کو مان بھی لیتے اور اگر ھماری بات کو قبول بھی نہ کرتے تو اس کا جواب دلیل و منطق اور اصول کے تحت دیتے، نہ یہ کہ نامناسب الفاظ سے ھمیں نوازا جاتا۔
افسوس کہ ھمارے پاس اتنا وقت نھیں ھے کہ ھم ان تمام لوگوں کو تحریری جواب دیں جنھوں نے تقریروں، اخباروں اور مقالوں میں اظھار محبت کی اور ھمارے نفع یا ھمارے نقصان میں کچھ بیان کیا اوران دو ھفتوں میں سیکڑوں مقالے لکھے، اسی طرح ان سب کو الگ الگ زبانی جواب دینے کی بھی فرصت نھیں ھے لھٰذا ان کو جواب نھیں دیتے ، ھمیں امید ھے کہ ان سب کا یہ کام خوشنودی خدا کے لئے ھوگا۔
ھم اپنی ذمہ داری سمجھتے ھیں کہ اسلامی معاشرہ کے لئے ضروری چیزوں کو دلائل اور برھان کے ساتھ بیان کریں ، لیکن اگر کسی کو اچھا نہ لگے تووہ منطق اور دلیل کے ساتھ اس کا جواب دے۔
۶۔ قرآن مجید میں لفظ ” تشدد“ کے ھم معنی لفظ کی تحقیق
قارئین کرام ! ھم یھاں پر ضروری سمجھتے ھیں کہ تشدد کے سلسلہ بیان شدہ باتوں کا خلاصہ کریں: ”تشدد“ عربی لفظ ھے اور فارسی زبان میں بھی استعمال ھوتا ھے، جس کے معنی سختی سے پیش آنے کے ھیں، اس کے مقابلہ میں لفظ ”لیّن“ ھے جس کے معنی ”نرمی “ کے ھیں قرآن مجید میں لفظ ”لیّن“کے مقابلہ میں لفظ ”تشدد“ کا استعمال نھیں ھوا ھے، بلکہ لفظ ”غلظت“ استعمال ھوا ھے؛ جب کہ حقیقت یہ ھے کہ یہ دونوں (تشدد اور غلظت) مترادف (ھم معنی) الفاظ ھیں جیسا کہ فارسی (یا کسی دوسری زبان ) میں مترادف الفاظ ھوتے ھیں، اسی طرح عربی زبان میں بھی بھت سے مترادف الفاظ ھوتے ھیں، قرآن مجید میں کبھی ان دو مترادف الفاظ میں سے ایک لفظ استعمال ھوا ھے اور کبھی کبھی دونوں الفاظ استعمال ھوئے ھیں، اور کبھی دو الفاظ میں سے ایک خاص معنی میں استعمال ھوا ھے، مثال کے طور پر لفظ ”قلب“ سے ایک معنی مراد ھوتے ھیں اور لفظ ”فوٴاد“ سے دوسرے معنی، (جبکہ دونوں کے معنی ”دل“ کے ھیں) اور کبھی کبھی ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ استعمال ھوا ھے قرآن مجید میں لفظ ”لیّن“ (نرمی) کے مقابلہ میں لفظ ”غلظت“ استعمال ھوا ھے، جیسا کہ خداوندعالم نے پیغمبر اکرم سے خطاب فرماتا ھے:
( فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ لِنْتَ لَھمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ ) (۵)
” پیغمبر یہ اللہ کی مھربانی ھے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم رھو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ھوتے تو یہ لوگ تمھارے پاس سے بھاگ کھڑے ھوتے “
فارسی میں لفظ” غلظت “ سختی کے معنی میںاستعمال نھیں ھوتا، بلکہ ھماری زبان میں اس لفظ کو ”بھنے والی “ چیزوں میں استعمال کیا جاتا ھے، مثلاً کھا جاتا ھے کہ خرمے کا رس ”غلیظ“ ھے ، یعنی سخت ھے، اور لفظ ”غلظت“ جس کے مقابلہ میں لفظ ” لیّن“ ھے؛ اس کے ھم معنی لفظ ”تشدد“ ھے جس کے سلسلہ میں ھم نے بحث کی ھے،اور کھاکہ تشدد مطلق طور پر مذموم نھیں ھے، بلکہ بعض مواقع پر نہ صرف یہ کہ مذموم نھیں ھے بلکہ ضروری اور واجب بھی ھے۔
۷۔مغربی اور اسلامی نظر میں تحمل اور ٹولرانس کے معنی
قارئین کرام ! ھم نے آزادی کے سلسلہ میں عرض کیا کہ ھمارے سیاسی اور ادبی معاشرہ میںکئے جانے والے آزدای کے معنی لفظ لبرلیزم " Liberalism" کا ترجمہ ھے جس کا رواج مغربی ممالک میں بھت زیادہ ھے اسی طرح لفظ ”تحمل“ (کسی کی بات کو برداشت کرنا) جو لفظ ”تشدد“ کے مقابلہ میں استعمال کیا جاتا ھے یہ انگلش لفظ ٹولرانس "Toleranec" کے ھم معنی ھیں جس کے معنی تحمل اور برادشت کرنا ھیں بھر حال چونکہ یہ دونوں الفاظ مغربی ممالک میں بھت زیادہ رائج ھیں البتہ اس چیز میں کوئی ممانعت بھی نھیں ھے کہ اگر کسی دوسری زبان کا لفظ واضح اور شفاف معنی رکھتا ھو تو اس کو ”ھو بھو“ یا اس کے ھم معنی کوئی دوسرا لفظ اپنی ادبیات میں شامل کرلیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں البتہ اس نکتہ پر توجہ رھے کہ کبھی کبھی دوسری زبان کے یہ الفاظ بھت سی حد و قید رکھتے ھیں اور خاص الخاص معنی رکھتے ھیںنیز اسی زبان کے ماحول سے اس کے معنی کئے جاتے ھیں یعنی جب کسی زبان میں کوئی لفظ استعمال ھوتا ھے تو اس کے مثبت یا منفی معنی ھوتے ھیں لیکن اگر اسی کو کسی دوسری زبان میں لے جاکر معنی کئے جائیں تو اس کے معنی بدل جاتے ھیں یا اس کے معنی بالکل برعکس ھوجاتے ھیں، مثال کے طور پر:
یھی لفظ ” آزادی“جو مغربی تمدن سے ھماری زبان میں وارد ھوا ھے ؛ مغربی ممالک میں اس کے بھت زیادہ وسیع معنی ھیںاور جنسی مسئلہ میں کسی قسم کی روک ٹوک نہ ھونے کے معنی میں بھی استعمال ھوتا ھے جب کہ ھمارے معاشرہ میں ایسا نھیں ھے، ا ور یہ معنی ھمارے معاشرہ بلکہ دوسرے اسلامی معاشرہ میں بھی قابل قبول نھیں ھیں، لھٰذا ھم اسلامی اور قومی اقدار کی بنا پر مجبور تھے کہ اس آزادی میں کچھ قید وشرط کا اضافہ کریں اور جائز آزادی نیز اسلامی قوانین کے مطابق آزادی کو قبول کرلیں، لھٰذا واضح طور پر یہ اعلان کرتے ھیں کہ ھم ”مطلق آزادی“ کو نھیںمانتے اسی طرح ”تشدد“ کے وہ معنی جو ھماری زبان میں وارد ھوگئے ھیں اور مغربی ممالک میں اس کو مطلقاً قابل مذمت گردانتے ھیں؛ جب کہ ھم اس کو بطور مطلق ضدّ اقدار نھیں سمجھتے، جس طرح سے مطلق آزادی کو نھیں مانتے بلکہ ھم منطق اور اصول سے خالی تشدد جوانسانی اخلاق کے مخالف ھو؛اس کو مذموم مانتے ھیں ، اور ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ بعض مواقع پر تشدد ؛ عقل کا تقاضا اور معاشرہ کے منافع کو پورا کرنے والی ھے، لھٰذا اس وقت اس میں کوئی نقصان بھی نھیں ھے۔
لھٰذا جب لفظ ٹولرانس "Toleranec" انگلش سے نکل کر ھماری زبان میں داخل ھوا ، تواس کو مطلق طور پر قبول کرنے سے پھلے اس کے صحیح معنی پر توجہ کریں اور یہ دیکھیں کہ مغربی ممالک میں اس کے کیا کیا مثبت یا منفی پھلو ھیں، اور اس کے پشت پردہ کیا راز پوشیدہ ھے اور کس مقصد کے تحت ھماری سیاسی ادبیات میں داخل ھوا ھے؟ نیز یہ دیکھیں کہ اس کے منتقل ھونے کے بعد اس کے معنی میں کیا کچھ تبدیلی پیدا ھوئی ھے یا نھیں؟
لفظ ٹولرانس کا مفھوم مغربی ماڈرن تمدن کا ایک تحفہ ھے جو ” رنسانس“کے زمانہ بعد سے آھستہ آھستہ رائج ھوتا چلا گیا ھے اور آج کل مغربی ممالک میں بے دینی تمدن کی ایک واضح پھچان ھے (توجہ رھے کہ ھم نے اس سے پھلے بھی عرض کیا ھے کہ جب ھم مغربی تمدن کا نام لیتے ھیں تو اس سے مراد ان ممالک میں رھنے والے تمام لوگوں کا تمدن نھیں ھے؛ کیونکہ وھاں پر بھت سے دیندار مسلمان بھی موجود ھیں، بلکہ ھماری مراد مغربی ممالک میں حکمراں تمدن ھے جس کے مخالف بھی خودانھیں ممالک میں بھت زیادہ پائے جاتے ھیں۔)
اس لفظ ٹولرانس "Toleranec" کی تحقیق کے سلسلہ میں مزید عرض کرتے ھیں:
اولاً: مغربی ممالک میں حکمراں تمدن میں تمام اقدار (چاھے وہ اخلاقی اقدار ھوں یا اجتماعی اقدار یا حقوقی اور سیاسی) اعتباری امور ھیں اور ان کی کوئی عقلائی اور واقعی حققت نھیں ھے دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ اقدار کا تعلق عوام الناس کی مرضی اور ان کے سلیقہ پر ھوتا ھے کیونکہ کسی چیز پر اعتقاد رکھنا سب کے لئے اور سب جگہ پر اقدار نھیں کھلاتا بلکہ مغربی ممالک کی نظر میں اقدار اس وقت اقدار ھے جب معاشرہ اس کو قبول کرے، لیکن اگر ایک زمانہ میں عوام الناس کا سلیقہ بدل جائے تو یھی اقدار ضد اقدار میں بدل جائے گا۔
ثانیاً : یہ لوگ اسلامی اعتقاد کو اسی اعتباری اقدار کے ھم پلہ قرار دیتے ھیں، اورانسان کو یہ اختیار دیتے ھیں کہ چاھے وہ ان کو قبول کرے یا ترک کردے، گویا دینی عقائد کو بھی ایک سلیقہ کی طرح قرار دیتے ھیں:
جس طرح انسان اپنے سلیقہ کی بنا پر اپنے لباس کا رنگ اختیار کرتا ھے مثلاً کوئی نیلا رنگ پھننا چاھتا ھے اور کوئی کالا رنگ ، جبکہ کسی کو یہ نھیں کھا جاسکتا کہ تم اس رنگ کو کیوں انتخاب کرتے ھو؟! اور نہ ھی اس کے اس کام پر مذمت کی جاسکتی ھے کیونکہ ھر شخص اپنے سلیقہ میں مختار اور آزاد ھے، اسی طرح یہ لوگ دین کوبھی اپنے سلیقہ کی بنا پر اختیار کرتے ھیں، اس کے بارے میں یہ نھیں کھا جاسکتا کہ تو نے اس دین کو کیوں انتخاب کیا اور اس دین کو کیوں انتخاب نھیں کیا، اور کیوں فلاں دینی عقیدہ کی توھین کرتے ھواور اس کو نفی کرنے کی کوشش کرتے ھو اور اس سے بھی بالاتر اگر کسی نے اپنے دینی اعتقادات کوبالائے طاق رکہ دیا اور کسی دوسرے مذھب میں داخل ھوگیا تو اس کی بھی مذمت نھیں کی جاسکتی ، کیونکہ عقیدہ بدلنا بھی ایک سلیقہ کی طرح ھے جو کسی بھی وقت بدلا جاسکتا ھے!
لیکن اسلامی نقطہ نظر سے دینی مقدسات اور اسلامی اقدار ؛جان ومال اور ناموس سے بھی زیادہ مھم ھے وہ اسلام جو ھمیں اس بات کی اجازت دیتا ھے کہ مال کی حفاظت کے لئے جان کی حد تک دفاع کرسکتے ھیں ( یعنی جب تک جان جانے کا خطرہ نہ ھو اس وقت تک اس کی حفاظت ضروری ھے، لیکن اگر مال کی خاطر جان جانے کا خطرہ ھو تو اس وقت اس مال کو جان پر قربان کردیا جائے) کیا وہ اسلام دینی مقدسات کے دفاع کی اجازت نہ دے گا؟ (اگر چہ شورایٰ شھر تھران کے ایک نمائندہ نے اس بات کی بھی اجازت دیدی ھے کہ خدا کے خلاف بھی مظاھرہ کیا جاسکتا ھے) لیکن تمام مراجع تقلید کے فتوایٰ کی بنا پر اور شیعہ و سنی اجماع کی بنا پرتمام مسلمان اس بات پر متفق ھیں کہ اگر کوئی شخص ایک جنگل اور بیابان میں کہ جھاں پر کوئی موجود نہ ھو ؛خدا، رسول ، مقدسات اسلامی اور دین اسلام کی ضروریات کی توھین کرے ، اوراس کو پولیس یا عدلیہ کے حوالہ کرنے کا کوئی امکان نہ ھو تو ھر مسلمان پر واجب ھے کہ اس کو اسلامی مقدسات کی توھین کی بنا پر قتل کردے اور اسی اسلامی نظریہ کی بنا پر حضرت امام خمینی (رہ) نے مرتد سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ صادر فرمایاجس کی تمام شیعہ سنی علماء نے تائید کی مغربی تمدن سے ھمارا نقطہ اختلاف یھی ھے جس کو اسلام قبول کرتا ھے لیکن مغربی کلچر نھیں مانتا۔
ھمارا دینی وظیفہ اور دینی غیرت اس بات کی اجازت نھیں دیتی کہ ھم اسلامی مقدسات کی توھین ھوتے ھوئے خاموش بیٹھے دیکھتے رھیں، اسلام نے دینی مقدسات کی توھین کے مقابلہ کے لئے تشدد کو جائز قرار دیا ھے جب اسلام ھمارے نزدیک اپنی جان و مال اور اولاد سے بھی زیادہ عزیز ھے تو ھم اس کی حفاظت اور دفاع کے لئے اپنی جان کو بھی خطرہ میں ڈال سکتے ھیں لھٰذا اگر کوئی اسلامی مقدسات کی توھین کرے تو ھر انسان اس کو سزا دے سکتا ھے یھاں تک کہ اگر اس کو یہ بھی احتمال ھو کہ کل اسے (اسی قتل کی بنا پر) گرفتار بھی کیا جاسکتا ھے اور اس کے خلاف کاروائی کی جاسکتی ھے کہ تجھے اس قتل کا کوئی حق نھیں تھا ، اور وہ مقتول کے ”مھدور الدم“ ( یعنی قتل جائز )ھونے کو ثابت نہ کرسکتا ھو جس کے نتیجہ میں اس پر قصاص یا سزائے موت کا فیصلہ دیا جائے، تو اس صورت میں بھی وہ اپنے دینی وظیفہ پر عمل کرسکتا ھے اور اسلام کی توھین کرنے والے کو سزائے اعمال تک پھنچا سکتا ھے ، مگر یہ کہ اس کے قتل کرنے سے مزید فساد پھیلنے کا خطرہ ھو۔
حوالے:
(۱) مشروطیت اس شاھی حکومت کو کھتے ھیں جس میں قوانین کے تحت کام کیا جائے (مترجم)
(۲) طرفداران انسانیت، تھذیب ، اخلاق اور انسانی فکری رشداور مذھبی اختلافات کو دور کرنے والوں کو فرامانسون کھا جاتا ھے (مترجم)
(۳( سورہ مائدہ آیت33 .
(۴ ) سورہ انفال آیت60 .
(۵)سورہ آل عمران آیت 159 .