قوانین کے نفاذ کی ضمانت
اسلام کے سیاسی نظام میں اگر چہ احکام الٰھی کے نفاذ کی زیادہ تر ذمہ داری ملک کے سر براہ پر عائد ھوتی ھے ، لیکن امت کا ھر فرد بھی اس بات کا پابند ھے کہ وہ نفاذ قوانین میں خود کو ذمہ دار سمجھے ، کیونکہ اسلامی نظام میں قوانین محض خشک و جبری ضوابط نھیں ھیں جس سے لوگ اکتا کر بھاگ جائیں بلکہ ان کا شمار ان فرائض میں ھوتا ھے جن کو ایک مسلمان خدا سے لگاؤ اور اس کی خوشنودی اور سعادت حاصل کرنے کے لئے انجام دیتا ھے یھی وجہ ھے کہ اس طرح کے نظام میں قوانین کا نفاذ اسلامی حکومت کے لئے زحمت پیدا نھیں کرتا ، اگر چہ ھر معاشرے میں کچہ ایسے افراد ضرور ھوتے ھیں جو قانون شکنی پر کمر بستہ رھتے ھیں ۔اسلامی حکومت ایسے افراد سے نپٹنے کے لئے قانونی اور شرعی سزائیں دینے کی مجاز ھے اور اسلام کا قانون سزا ایسے ھی افراد کے لئے وضع کیا گیا ھے ۔ اس کے مقابلے میں معاشرے کے وہ افراد بھت نمایاں ھیں جو فکری و عملی طور پر خوشی خوشی اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ھیں :
” انما کان قول المؤمنین اذا دعوا الی اللہ و رسولہ لیحکم بینھم ان یقولوا سمعنا و اطعنا و اولئک ھم المفلحون “ (۴۶)” جس وقت بھی مومنین خدا اور اس کے رسول کی طرف اس غرض سے بلائے جائیں کہ رسول ان کے ما بین فیصلہ کرے توان کا قول اس کے سوا اور کچہ ھوتا ھی نھیں کہ وہ کھتے ھیں کہ ھم نے سنا اور اطاعت کی اور وھی فلاح پانے والے ھیں ۔
” فلا و ربک لا یومنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینھم “ (۴۷)” خدا کی قسم وہ ایمان ھی نھیں لائینگے جب تک کہ اپنے ذاتی اختلافات میں تمھیں حَکَم نہ بنا لیں ۔
اسلامی معاشرے میں تو یھاں تک ھے کہ اگر کوئی مسلمان گروہ جھگڑا تا ھے تو تمام مسلمان اس گروہ کی اصلاح کرنے کے پابند ھیں اور اگر اصلاح طلب کو ششیں کرنے کے با وجود بھی فریق مخالف نہ مانے تو ان کے ساتھ وہ رویہ اختیار کریں جس سے ان کے فساد کا خاتمہ ھو جائے اور تمام اسلامی خطوں میں حق پھیل جائے ۔
” و ان طائفتان من المومنین ․․․․․․․․․ان اللہ یحب المقسطین“ (۴۸)
” اور اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان کے ما بین صلح کرا دو ، پھر اگر ان دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو جو زیادتی کرتا ھے اس سے لڑو تا آنکہ وہ اللہ کے فیصلے کی طرف رجوع کرے ، اس وقت انصاف سے ان دونوں کے ما بین صلح کر دو اور انصاف بر تو ۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے“ ۔
انصاف کے ساتھ صلح کرانے کا یہ مطلب نھیں کہ ھتھیار ڈال دیے جائیں اور مظلوم و ظالم کی پھچان نہ ھو سکے ، بلکہ اگر کسی مسلمان کی عزت و آبرو یا مال پر حملہ ھوتا ھے تو ظالم کو سزا ملنا چاھئے اور ھر صاحب حق کو اس کا حق ملنا چاھئے ۔ عدل و انصاف کا مطلب غصب شدہ حقوق واپس دلانے کے ھیں اور ان دونوں کا تعلق نا قابل تفکیک ھے ، لھذا صلح و انصاف کو ایک دوسرے کے ساتھ ھم آھنگ ھونا چاھئے تاکہ ظالموں کو سزا ملنے کے بجائے حوصلہ افزائی نہ ھو ۔
بھر حال اسلام کے سیاسی نظام سے وابستہ تمام امور میں قوانین کا ھونا لازمی ھے خواہ داخلی ھوں یا خارجی ،تاکہ اسلامی نظام افرا تفری سے بچ سکے اور امن و امان باقی رھے نیز لوگوں کے فردی و سماجی حقوق پامال نہ ھوں ۔
اب تک جن نکات پر بحث ھوئی ان کی مدد سے یہ بات واضح ھو گئی کہ تین ادارے ( مقننہ ، قضائیہ اور مجریہ ) ھر نظام کے ارکان شمار کیے جاتے ھیں ، اسلام کے سیاسی نظام میں ان اداروں کو قانونی حیثیت کھاں سے حاصل ھوتی ھے ؟ ان کے اغراض و مقاصد کیا ھیں ؟ ان کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کس قسم کا تعلق ھے ؟ اور اس کے مد مقابل عوام کا فرض کیا ھے؟ اس بحث میں آج کل کی سیاست میں منصوبوں اور پروگراموں کے نفاذ پر گفتگو کی جا سکتی ھے لیکن اس کی جزئیات پر بحث سر دست ممکن نھیں ھے ۔
عوام اور حکومت کا ایک دوسرے سے تعلق
اسلام کے سیاسی نظام میں عوام اور حکومت کا ایک دوسرے سے تعلق حاکم و محکوم ظالم و مظلوم اور طاقتور و کمزور جیسا نھیں ھے بلکہ یہ تعلق اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ، عوام کے عزم و استقلال ، محبت ،تعاون اور ایمان و صداقت پر مبنی ھے ۔ یعنی وھی طرز عمل جو پیغمبر اسلام اور اللہ کے دیگر انبیاء و رسول نے اختیار کیا تھا ۔
قرآن کریم نے پیغمبر اکرم کے مقصد بعثت کی وضاحت کرتے ھوئے اس نکتہ پر خاص توجہ دلائی ھے کہ پیغمبر اکرم کی تحریک کا سارا دار و مدار اس پر تھا کہ وہ ان زنجیروں کو توڑ دیں جو اس زمانے کے لوگوں کو غلامی کے بندھن میں جکڑے ھوئے تھیں ۔
” و یضع عنھم اصرھم و الاغلال التی کانت علیھم “ (۴۹)
” یھی ولایت ھے جس کی بنیاد پر پیغمبر اور اولی الامر لوگوں پر حکومت کرتے ھیں “
” النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم “ ” نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ اختیار رکھنے والا ھے “ ۔
” فلا و ربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجد وا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما “ (۵۰)
” تمھارے پروردگار کی قسم یہ لوگ کبھی مومن نہ ھوں گے جب تک کہ ان جھگڑوں میں جو ان کے درمیان ھوتے ھیں تم کو حاکم نہ بنا لیں پھر جو کچہ تم فیصلہ کر دو اس سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں اور اس کو اس طرح تسلیم کر لیں جیسا کہ تسلیم کرنے کا حق ھے ۔
اس طرح کے نظام میں جس کی بنیاد ولایت ، ھم آھنگی اور مشترکہ مقاصد پر استوار و محکم ھے ، نہ صرف عوام اور حکومت ایک دوسرے سے جدا نھیں بلکہ عوام حکومت سے غافل نھیں رھتے ، نتیجةً نظام کی حفاظت اصلی اعتبار سے عوام و امام اور حکومت کے اتحاد پر منحصر ھو تی ھے۔
سیاسی مسائل میں علماء و عوام کی ذمہ داری
علماء دین جو اسلامی معاشرے میں صاحب فکر و نظر اور ھدایت و رھبری کے ذمہ دار سمجھے جاتے ھیں ، سیاسی مسائل میںبھی ان کی ذمہ داری عظیم و موثر ھے۔ قرآن کریم نے اھل کتاب کے مذھبی پیشواؤں میں سے ان افراد کی سخت مذمت کی ھے جنھوں نے مظالم دیکہ کر بھی ظلم کو روکنے کی کوشش نھیں کی ۔ جبکہ قرآن مجید امت مسلمہ کے ھر فرد اور خاص طور پر علماء دین کو امربالمعروف و نھی عن المنکر اور ظلم و ستم و بدعت ختم کرنے کی دعوت دیتا ھے ۔
” لولا ینٰھھم الربانیون و الاحبار عن قولھم الاثم و اکلھم السحت لبئس ما کانو ا یصنعون “(۵۱),, آخر اللہ والے اور علما ء ان کو جھوٹی بات کھنے اور حرام خوری سے کیوں نھیں منع کرتے یقینا جو کچہ وہ کرتے ھیں ‘بھت برا کرتے ھیں ،،
” لعن الذین کفر و امن بنی اسرائیل علی لسان داؤد و عیسیٰ ابن مریم ذالک بماعصوا و کانوا یعتدون ،کانوا لا یتناھون عن منکر فعلوہ لبئس ما کانوا یفعلون “ (۵۲)
” بنی اسرئیل میں سے جو کافر ھو گئے ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبانی لعنت کی گئی ۔ یہ اس لئے کہ وہ نا فرمانی اور زیادتی کیا کرتے تھے اس سے وہ باز نہ آتے تھے ، ضرور جو کچہ وہ کرتے تھے وہ بھت ھی برا تھا “ ۔
مذکورہ آیتیں ، ظلم سے مفاھمت کرنے والوں اور ان علمائے دین کو جو ظلم کے سامنے سکوت اختیار کرتے ھیں ، کافروں میں شمار کرتی ھیں اور خدا و پیغمبر کی لعنت کا مستحق سمجھتی ھیں ۔
مذھبی علماء کی سب سے بڑی ذمہ داری ان جابر و ظالم حکمرانوں کے اعمال پر نظارت اور ان پر قابو پانا ھے ۔ مسند اقتدار پر بیٹھ کر دینی مقدسات اور لوگوں کی عزت و آبرو سے کھیلنے والوں کے سامنے سکوت اختیار کرنا نا قابل معافی جرم اور سخت عذاب کا باعث ھے ۔
عوام کی ذمہ داری
اس اھم مسئلہ میں عوام کی ذمہ داریوں کوبھی معمولی نھیں سمجھنا چاھئے ، الٰھی عذابوں میں سے ایک عذاب لوگوں پر فاسد افراد کی حکومت ھے ، اس بارے میں قرآن مجید کا بیان ھے :
”واذا اردنا ان نھلک قریة امرنا مترفیھا ففسقوا فیھا فحق علیھا القول فد مرنا ھاتد میرا “ ( ۵۳)
” اور ھم جب کسی بستی کو(ان کے اعمال کی بناء پر ) ھلاک کر دینے کا ارادہ کرتے ھیں توھم اس بستی کے عیش پرست افراد کو حکم دیتے ھیں پس وہ نا فرمانی کرنے لگتے ھیں پھر وہ بستی عذاب کی مستحق ھو جاتی ھے اور ھم تھس نھس کر دیتے ھیں “ ۔
ظاھر ھے کہ اللہ تعالیٰ کے انصاف اور حکمت کی بنا پر یہ ” ھلاکت “ جو صاحب اقتدار ظالم و جابر افراد کے ذریعے عملی شکل اختیار کرتی ھے ، اس کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اقدام نھیں کھا جا سکتا ، بلکہ یہ ایک طرح کا عذاب ھے جس کا سامنا لوگوں کو ظلم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور سکوت اختیار کرنے کی وجہ سے کرنا پڑ رھا ھے ۔ جیسا کہ آیتیں بھی اسی طرف اشارہ کرتی ھیں :
” ذالک ان لم یکن ربک مھلک القریٰ بظلم و اھلھا غافلون “ (۵۴)
” (یہ رسولوں کا بھیجنا ) اس لئے ھے کہ تمھارا رب بستیوں کو نا حق بر باد نھیں کرتا درآنحالیکہ ان کے باشندے بالکل غافل و بے خبر ھوں “ ۔
اللہ کا طریقۂ کار یہ ھے کہ شروع میں خبر دار کرتا ھے اور لوگوں کی سیاسی ، عبادی ،سماجی ، اخلاقی ، ثقافتی اور فوجی و دفاعی وغیرہ ذمہ داریوں کو معین کرتا ھے ،پھر نیک حکمراں کو ان پر حکومت کے لئے معین کرتا ھے ۔ اب اگر لوگ ایسے حکمراں کی اطاعت نھیں کرتے تو پھر اللہ ظالم حکمرانوں کو ڈھیل دیتا ھے ، اس طریقے سے اللہ کا عذاب ظالم و جابر افراد کے ذریعے لوگوں پر نازل ھوتا ھے ۔
لھذا لوگوں کو چاھئے کہ وہ اپنا مقدر سنوار نے کی خاطر نیک رھبروں کی قیادت میں استکباری طاقتوں سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ھو جائیں تاکہ اللہ کی حاکمیت جو ایسے ھی نیک افراد کی حاکمیت ھے ، عملی جامہ پھن سکے ، اس لئے کھ:
” و ان الارض یورثھا من یشاء من عبادہ و العاقبة للمتقین “ ” زمین خدا کی ھے ، اپنے بندوں میں سے جسے چاھے وارث بنا سکتا ھے لیکن کامیاب وھی لوگ ھوں گے جو پرھیز گار اور متقی ھوں ۔