www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

چالیسواں جلسہ
۱۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر
”اسلامی سیاسی نظریات کی وضاحت“ کے سلسلہ میں ھماری بحث یھاں تک پھنچی تھی کہ اگر اسلامی منابع کے لحاظ سے قوانین اور ضوابط بنانا چاھیں اور ان کو اسلامی اقدار کے مطابق نافذ کرنا چاھیں، تو اس کے لئے ھمارے پاس قرآن وسنت( جو ھمارے اصلی منابع ھیں)؛ کی گھری شناخت اور قابل اعتماد پھچان ھونا ضروری ھے،

تاکہ قانون گذاری کے وقت اسلامی نظریہ کو مدّ نظر رکھیں، اور وہ قوانین وضوابط اسلام کے کلی قوانین کے تحت قرار پائیں، اور اسی طرح قرآن وسنت سے الھام لیتے ھوئے ان کو نافذ کرنے کا طریقہ اپنائیں اس سلسلہ میں کبھی کبھی آیات و روایات سے ھونے والا نتیجہ مختلف ھوجاتا ھے اور بعض آیات و روایات کی مختلف تفسیر و معنی کئے جاتے ھیںنیز بعض روایات سے مختلف استنباط ھوتے ھیں لیکن اس سلسلہ میں بعض لوگ اس قدر آگے بڑہ گئے ھیں کہ انھیں اختلاف کے پیش نظر یہ کھتے ھیں کہ تمام دینی مسائل میں اختلاف جائز ھے، اور کھتے ھیں کہ ھر شخص اسلام سے مخصوص قرائت اور مخصوص نتیجہ حاصل کرسکتا ھے، اور کسی شخص کو یہ حق نھیں ھے کہ وہ اپنے نظریہ کو دوسروں پر تحمیل کرے جیسا کہ اخباروں اور جرائد میں مکرر یہ شعار دیا جاتا ھے کہ کسی کو بھی یہ حق نھیں ھے کہ وہ دین سے اپنے حاصل کردہ نتیجہ کو مطلق گردانے، بلکہ توجہ رھے کہ دوسرے افراد بھی آراء اور نظریات رکھتے ھیں ، اور یہ کہ اسلام کی صرف ایک قرائت نھیں ھے، نیز اسلام کے بارے میں مختلف قرائت کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ دین کی ھر ایک قرائت معتبر اور محترم ھے۔
۲۔ واقع نما اور غیر واقع نما زبانوں کی اھمیت
قارئین کرام ! ھم نے گذشتہ جلسہ میں دینی سلسلہ میں مختلف نظریات کے مطلق نہ ھونے نیز دین کی مختلف قرائت نہ ھونے کے بارے میں بحث کی، اور نظریات کے نسبی ھونے نیز مختلف قرائت کا سر چشمہ تلاش کرتے ھوئے ”نسبیت معرفت“ کے مسئلہ کو بیان کیا اور عرض کیا کہ ”نسبیت معرفت“ کے سلسلہ میں تین نظریات پائے جاتے ھیں اس جلسہ میں دینی نظریات کے مطلق نہ ھونے کے شعار اور دین کی مختلف ھونے کے بارے میں دوسرے دو نظریات کی طرف اشارہ کرتے ھیں، اور وہ دو نظریہ یہ ھیں: ”دین کی زبان“ اور ”ھرمنوٹیک“ "Hermeneutics" کی بحث اور علم تفسیر متون (تحریر کی شرح وتفسیر کرنا) جو کہ عصرِ حاضر میں معرفت کا ایک مھم باب کھلاتا ھے، اور دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں مخصوص ڈیپارٹمینٹ اور مخصوص علمی گروہ اس میں مشغول ھیں لھٰذا ھم اس جلسہ میں انھیں دو چیزوں کے بارے میں گفتگو کرتے ھیں۔
دین کی زبان کے سلسلہ میں بحث، اور دینی معرفت مطلق نہ ھونے والے مسئلہ کا سرچشمہ یہ ھے کہ ان آخری چند صدیوں کے دوران یورپی ممالک میں ”فلسفہ دین اور کلام جدید“ کے سلسلہ میں ایک نئی بحث یہ کی گئی ھے کہ کیا دین کی زبان واقع نما ھے یا دین کی زبان سمبلیک "Symbilec" (رمزی)اور قصہ کھانی اورافسانہ کی زبان ھے اس سلسلہ وضاحت کے طور پر یوں عرض کیا جائے کہ انسان اپنی بات کو سمجھانے کے لئے زبانی اور عرفی محاورات یا علمی اور فلسفی اصطلاحات ، نیز الفاظ اور ان کی ترکیبات کا استعمال کرتا ھے تاکہ دوسروں کو خارجی یا عینی چیزوں کی واقعیت کی طرف متوجہ کرسکے اور کبھی انسان ان الفاظ کے ذریعہ خارجی اور عینی واقعیات کے طرف متوجہ کرتا ھے اور کبھی ان الفاظ کے ذریعہ منطق اور فلسفہ جیسے علم میں ذھنی اور تصوری حقائق کی طرف متوجہ کرتا ھے، مثال کے طور پر کوئی شخص یہ کھے کہ ”فضا روشن ھے“ اس جملہ سے کھنے والے کی مراد یہ ھوتی ھے کہ سننے والے کو اس بات کی خبر دے کہ فضا روشن ھے، اورچراغ کے ذریعہ روشنی کرنے کی ضرورت نھیں ھے بے شک یہ زبان واقع نما ھے اور ایک بیرونی حقیقت کی عکاسی کرتی ھے اور اسی طرح کی زبان ریاضیات ، منطق اور فلسفہ میں بھی استعمال کی جاتی ھے، البتہ یہ زبان علوم دقیقہ (منطق وفلسفھ) اور تجربی علوم میں تھوڑے دخل وتصرف کے ساتھ استعمال کی جاتی ھے اسی وجہ سے کھا جاتا ھے کہ زبان علم اور زبان فلسفہ واقع نما ھوتے ھیں اور بیرونی حقیقت یا ذھنی حقیقت کی عکاسی کرتی ھے۔
لیکن کبھی کبھی کسی بھی زبان کے الفاظ بیرونی یا ذھنی حقیقت کو بیان کرنے کے لئے استعمال نھیں کئے جاتے اگرچہ الفاظ کی ترتیب وھی ھوتی ھے جس کو علوم میں حقیقت نما طریقہ پر استعمال کیا جاتا ھے ، لیکن کھنے والے یا لکھنے والے کا مقصد حقیقت سے باخبر کرنا نھیں ھوتا، مثال کے طور پر افسانہ اور قصہ کی زبان، جس میں کسی بھی طرح کی کوئی واقعیت کا پتہ نھیں دیا جاتا ، لھٰذا اس طرح کی زبان واقع نما نھیں ھے جس وقت قصہ اور کھانیوں کی کتابوں میں ”کلیلہ ودمنھ“ کی داستان بیان کی جاتی ھے تو ھم دیکھتے ھیں کہ ان قصوں میں استعمال ھونے والے الفاظ کسی طرح کی حقیقت کی حکایت نھیں کرتے اگر ان میں جنگلی حیوانات مثلاً شیر، بھیڑیا اور لومڑی وغیرہ کا کے بارے میں باتیں بتائی جاتی ھیں تو موٴلف کا مقصد یہ نھیں ھوتا کہ جنگلی حیوانات میں اس طرح کی گفتگو ھوتی ھے؛ بلکہ موٴلف اس داستان کے ذریعہ حیوانات کی زبان میں غیر مستقیم طور پر بعض مھم باتوں کی طرف متوجہ کرنا چاھتا ھے لھٰذا افسانہ اور قصہ کی زبان غیر واقع نما زبانوں کا ایک حصہ ھے۔
انھی غیر واقع نما زبانوں میں سے: زبان سمبلیک "Symbilec" (رمزی) ھے جو بھت سے علوم میں استعمال کی جاتی ھے ، اسی طرح انسانی معارف کی بھت سی قسموں میں حکایت اور حقائق کے بیان کرنے کے لئے اس زبان سے استفادہ کیا جاتا ھے، جس کا واضح نمونھ؛ علم ھندسہ اور ریاضی کی مثالیں اور فارمولے نیز اختصار کی علامتیں ھوتی ھیں جیسے "y" , "x" ،کیونکہ یہ مثالیں اور فارمولے کسی حقیقت کی حکایت نھیں کرتے، بلکہ بعض علمی حقائق کے لئے صرف ایک علامت ھوتی ھیں، اسی طرح شاعروں کی زبان بھی غیر واقع نما ھوتی ھیں جب شاعر؛ مئے، ساغر اور ساقی جیسے الفاظ کو اپنے شعر میں استعمال کرتا ھے توحقیقت میں اس کی مراد واقعی ساقی اورشراب نھیں ھوتی بلکہ ان الفاظ کو کنایةً استعمال کرتا ھے جب کہ اس کے ذھن میںحقیقی مطلب کچھ اور ھوتا ھے۔
۳۔ دین کی زبان کو غیر واقع نما قرار دینے کا سبب
چنانچہ بعض لوگ کھتے ھیں کہ دین بھی اپنی خاص زبان رکھتا ھے، اور دین کی زبان غیر واقع نما زبانوں میں سے ھے پھلے تو دین کی زبان کا مسئلہ یورپ میں یھودیت اور عیسائیت کے عقائد کے بارے میں بیان ھوا، اسی وجہ سے دانشوروں اور متفکروں نے اپنے نظریہ کی تائید میں یھودیوں اور عیسائیوں کی کتاب مقدس سے مثالیں پیش کیں، اور یہ کھا کہ جب ھم کتاب مقدس کا مطالعہ کرتے ھیں اور اس کے اندر بعض چیزوں کے بارے میں دیکھتے ھیں ، تو ھمارا تصور یہ نھیں ھونا چاھئے کہ یہ مقدس کتاب ھم کو علمی (اور سائنسی) کتابوں کی طرح بیرونی حقائق سے آشنا کر رھی ھے، بلکہ دین نے جو زبان استعمال کی ھے وہ ایک افسانہ کی زبان اور سمبلیک "Symbilec" زبان ھے، (واقع نما نھیں ۔)
عام طور پر زبان کی دو قسم بیان کی جاتی ھے: ایک واقع نما زبان اور دوسری غیر واقع نمازبان،اور بعض لوگ دین کی زبان کو غیر واقع نما زبانوں میں قرار دیتے ھیں، یعنی دین کی زبان حقائق اور واقعیت پر مشتمل نھیں ھوتی بلکہ افسانہ ، قصہ وکھانیوں کی طرح ھوتی ھے لیکن یھاں پر سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ دین کی زبان کو زبان افسانہ قرار دینے کی علت اور وجہ کیا ھے؟ تو اس کا جواب یہ ھے کہ جب یورپ میں سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے پیش نظر ھر روز نئی نئی چیزیں کشف ھوئی، اور زمین ، سورج اور دیگر ستاروں کے بارے میں مغربی دانشوروںجیسے ”کلپر“، ”کپرنیک“، ”گالیلہ“ ؛ نے نئے نئے فرضیہ قائم کئے جو یھودیوں اور عیسائیوں کی مقدس کتاب (توریت اور انجیل) سے ھم آھنگ نہ تھے، جس کی وجہ سے انھوں نے یہ اندازہ لگالیا کہ عصرِ حاضر میں سائنس کی نئی تھیوری اور نظریات؛ کتاب مقدس میں بیان شدہ بعض عقائد کو جھوٹاثابت کرتے ھیں، جس کی بنا پر یھودیت اور عیسائیت کا چراغ گُل ھوجائے گا،کیونکہ جب توریت اور انجیل میں بیان شدہ چیزیں نادرست، بے بنیاد اور جھوٹی ثابت ھوجائیں گی تو پھر یہ دین کیسے باقی رہ سکتا ھے خصوصاً عیسائیت جس کے پیروکاروں کی تعداد بھت زیادہ ھے۔
خصوصاً ”رنسانس“ کے زمانہ کے بعد سے ؛ کتاب مقدس کی اھمیت کو بچانے اور یھودیت و عیسائیت کی دیواریں ھلنے سے روکنے کے لئے راہ حل تلاش کرنے کی فکر ھوئی ، (اور کافی مدت کے بعد اس نتیجہ پر پھونچے کھ) توریت اور انجیل میں بیان شدہ عقائد اور دوسری چیزیں؛ سائنس کے جدید نظریات اور ٹکنالوجی سے اس وقت ھم آھنگ نہ ھوں گی جب ھم دین کی زبان کو واقع نما اور حقائق کی عکاسی کرنے والی زبان کھیں لیکن اگر دین کی زبان کو غیر واقع نما زبان قرار دیدیں اور یہ کھیں کہ دین کی زبان؛ شعراور افسانہ کی زبان ھے جو حقائق اور واقعیت کی عکاسی نھیں کرتی اور توریت و انجیل میں بیان شدہ چیزیں گویا افسانہ اور قصہ کھانیوں کی طرح ھیں اور خاص اغراض ومقاصد کے تحت تنظیم ھوئی ھیں ، تو اس صورت میں سائنس اور دینی باتوں میں کسی طرح کا کوئی اختلاف پیش نھیں آئے گا؛ کیونکہ بنیادی طور پر دونوں زبانوں کا مقصد مختلف ھے اس نظریہ کا خلاصہ یہ ھے کہ توریت اور انجیل میں خدا، وحی، قیامت اور جنت وجھنم کے بارے میںذکر شدہ مطالب صرف عوام الناس کو اچھائیوں اور برائیوںکے سمجھنے کے لئے بیان ھوئے ھیں، تاکہ دیندار افراد نیک کام کرنے اور برے کاموں سے پرھیز کرنے کی کوشش کریں جھوٹ نہ بولیں، غیبت نہ کریں اور دوسرے پر ظلم وستم کو جائز نہ مانیں مثلاً اگر ان میں کھا جاتا ھے کہ جو شخص کسی پر ظلم کرے گا تو آخرت میں اس پر عذاب ھوگا ، تو در حقیقت اس قول سے ظلم کی بُرائی کو مزید مجسم کیا گیاھے ، ایسا نھیں ھے کہ واقعاً آخرت میں کوئی جنت و جھنم موجود ھے، لھٰذا ھمیں دینی مسائل سے اس طرح کا کوئی تصور اور نتیجہ حاصل نھیں کرنا چاھئے۔
کتاب مقدس (توریت اور انجیل) سے عام فھم عوام الناس یھی نتیجہ حاصل کرتے ھیں کہ ان کتابوں میں ذکر شدہ دینی مسائل حقائق پر مبنی ھیں اور بیرونی حقائق کی عکاسی کرتی ھیں، لیکن روشن خیال رکھنے والوں اور دانشوروں کے نزدیک توریت و انجیل میں بیان شدہ مطالب صرف عوام الناس کے لئے تربیتی پھلو رکھتے ھیں یعنی ان کے پیش نظر عوام الناس میں نیک کام کرنے اور بُرے کاموں سے پرھیز کا جذبہ پیدا ھوتا ھے، اس کے علاوہ ان مقدس کتابوں میں بیان شدہ مطالب میں کوئی پیغام نھیں ھے یھاں تک کہ دین کی افسانوی زبان میں خدا کا کوئی وجود ھی نھیں ھے، چنانچہ اگر توریت اور انجیل میں خدا کا ذکر ھے یا انبیاء (علیھم السلام) اور وحی کے بارے میں بیان ھوا ھے، تو اس افسانوی زبان میں یہ صرف خدا کا ایک عکس ھے ورنہ (نعوذ باللھ) نہ تو خدا ھے اور نہ جنت وجھنم اور وحی اور اس عکس کو اس افسانوی زبان میں اس قدر بھترین سلیقہ سے بیان کیا گیا ھے تاکہ عوام الناس میںنیک کام کرنے اور بُرے کام سے پرھیز کرنے کا شوق پیدا ھو،اور انسانی اقدار کا پاس و لحاظ رکھا جائے ان کی یہ کوشش رھے کہ اسی دنیا میں بھترین زندگی گذاریں اور دوسرے کو آزار و اذیت نہ دیں؛ ورنہ تو توریت و انجیل کی ”کلیلہ ودمنھ“ داستان سے زیادہ اھمیت نھیں ھے جس طرح سے یونانی قدیم تمدن اور دوسرے قدیمی معاشروں میں افسانوی خدا ھوتے تھے، یھاں تک کہ ان کی بعض داستانوں میں یھاں تک بیان ھوا ھے کہ وہ خدا ایک دوسرے سے شادی کیا کرتے ھیں، اور کبھی تال میل کرتے ھیں اور کبھی ایک دوسرے سے ناراض ھوجاتے ھیں، اسی طرح دوسرے ادیان کی کتابوں منجملہ توریت اور انجیل میں بھی صرف خیالی اور افسانوی عکس ھوتا ھے جس میں کسی بھی طرح کی کوئی حقیقت نھیں ھوتی۔
قارئین کرام! جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ یھودیت اور عیسائیت کو نابودی سے بچانے کے لئے توریت اور انجیل میں بیان شدہ دینی مسائل کے بارے میں یہ تھیوری اور نظریہ پیش کیا گیا ھے اور یہ نظریہ آھستہ آھستہ مغربی ممالک کے دیندار لوگوں میں بھی رائج ھوتا چلا گیا، اورکتاب مقدس کی توجیہ (اور دلیل) کے عنوان سے اس نظریہ کو بھترین راہ حل مانا جانے لگا لیکن ”رنسانس“ کے زمانہ سے پھلے یھودی اور عیسائی متدین لوگ دینی عقائد اور مسائل کو صادق، حق اور واقع کے مطابق مانتے تھے،اور انھوں نے جب نئی نئی کشفیات اور سائنس کے نظریات کو اپنی کتاب مقدس کے بر خلاف پایا تو کتاب مقدس کے دفاع کرتے ھوئے بعض دانشورں کی سخت مخالفت کی یھاں تک کہ بعض دینی مسائل کے مخالف دانشوروں کو پھانسی دے دی گئی اور بعض کو زندہ آگ میں جلادیا گیا اسی طرح بعض بھت سے دانشوروں کو منجملہ ”گلیلھ“ کو توبہ پر مجبور کیا جس کی بنا پر اس نے اپنے نظریات واپس لے لئے۔

Add comment


Security code
Refresh