www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 قرآنی نقطۂ نظر سے سیاسی نظام کے بنیادی مقاصد و نتائج

کسی حکومت یا سیاسی نظام کی تشکیل اور اسے قانونی درجہ حاصل ھونے کے ھدف کو نظام خلقت اور کائنات کے سارے نظام سے علیحدہ نھیں سمجھا جا سکتا ۔  انسانی زندگی سے وابستہ تمام مسائل کے ساتھ ساتھ ھم حکومت کے مقاصد کا تعین بھی کر سکتے ھیں ۔

جس حکومت کی بنیاد مادیت یا اس کے نتائج پر مبنی ھو ، اس کے اغراض و مقاصد استکبار ، تسلط ، جاہ طلبی ، ھوا و ھوس اور زیادہ سے زیادہ عیش و عشرت کے سوا اور کچہ نھیں ھوتے ۔ قرآن کریم فرعونی حکومت اور اس کی سیاست کے متعلق حسب ذیل وضاحت پیش کرتا ھے :

” ان فرعون علافی الارض و جعل اھلھا شیعا یستضعف طائفة منھم یذبح ابناء ھم یستحی نساء ھم انہ کان من المفسدین “ (۲۶)

فرعون نے روئے زمین پر بلندی اختیار کی اوراس نے اھل زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا کہ ایک گروہ نے دوسرے گروہ کو بالکل کمزور بنادیا ۔

فرعونی سیاست کے اصول

 ۱۔ تکبر و غرور ،جو اپنی ذات کو مرکز سمجھنے کا نتیجہ اور جس کی غرض جاہ طلبی کی خواھش کو پورا کرنا ھے ۔

۲۔ جس امت میں اتحاد کی تاکید کی گئی تھی اس کے اتحاد کو ختم کرنا فرعونی سیاست کا نصب العین ھے۔

 ۳۔ مستکبر اور صاحب جاہ و جلال افراد کی عیش و عشرت اور آرام کی خاطر ان محروموں اور مستضعفوں کو غلام بنا نا جن کی زندگی فرعون کے ھاتھ میں تھی ۔

۴۔ لڑکوں کو اس خوف کی وجہ سے قتل کرنا کہ کسی دن یہ بغاوت نہ کردیں ۔

۵۔ لڑکیوں کی عزت و آبرو سے کھیلنا  ۔

۶۔ ھر طرح کے سیاسی ، فکری ، اعتقادی ، اقتصادی ، اخلاقی ، فردی اور سماجی انحطاط اور فساد کو فروغ دینا ۔

مذکورہ چہ نکاتی اصولوں کو ان ظالم و جابر حکمرانوں کی اسٹراٹیجک سیاست کا نچوڑ سمجھا جا سکتا ھے ، جو ماضی سے لیکر آج تک انسانوں پر حکومت کرتے چلے آئے ھیں ۔ انسانی تھذیب و تمدن ، آبادی اور ملکوں کے وسیع ھونے کے نتیجہ میں ان کی ظالمانہ سیاست دن بدن رنگ لاتی رھی ، یھاں تک کہ آج کی سیاست فرعونیوں کے زمانے سے کھیں زیادہ تباہ کن اورافسوسناک صورتحال اختیار کر چکی ھے ۔ اس موضوع پر یہ ایک آیت ھردور کی فرعونی سیاست کے رویے اور اس کے مقاصد و نتائج کی فھرست مرتب کرنے کے لئے کافی ھے ۔

 خلافت الٰھی ، وراثت زمین اور امامت مستضعفین

 قرآن مجید میں حکمت الھیہ کی بنیادوں پر حکومت کے اغراض و مقاصد اور اسکے مطلوبہ نتائج اسطرح بیان کیے گئے ھیں :

” و نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلھم ائمة و نجعلھم الوارثین “ (۲۷)

اور ھم یہ ارادہ رکھتے ھیں کہ ان لوگوں پر جو اس سر زمین میں کمزور کر دیے گئے ھیں احسان کریں اور ان کولوگوں کا پیشوا بنائیں اور ان کو زمین کا وارث قرار دیں ۔ اس سے قبل آیت میں فرعون اور اس کے ساتھیوں کی سیاست بیان ھوئی ھے اوریہ آیت حضرت موسیٰ (ع)کا مقصد بعثت بیان کررھی ھے ۔ حضرت موسیٰ (ع)اس لئے مبعوث ھوئے کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کی حکومت ختم کر کے مستضعفین کو اس کے ظلم و ستم سے نجات دلائیں اور اس سر زمین کے اصلی مالکوں کو ان کا حق دلائیں ۔ مستقبل کے لئے صاحب اختیار امام و رھبر کا انتخاب کریں اور بنی اسرائیل کے مظلوم عوام کے طبقے سے نکلنے والے رھنما کے ذریعے خدا کے پیام اور الٰھی فلسفے کی حفاظت کریں ۔ حضرت موسیٰ (ع)کی رسالت کا تقاضا یھی تھا ۔

 اس آیت کو حضرت موسیٰ (ع)اور بنی اسرائیل ھی تک محدود نھیں سمجھنا چاھئے ۔ اس لئے کہ فعل( نرید ان نمن ) صیغۂ مضارع میں استعمال ھواھے جواستمرارپردلالت کرتاھے ،یعنی خدا وند کریم کا ارادہ ھمیشہ سے یھی رھا ھے کہ وہ انسانوں کی امامت و رھبری اور زمین کی وراثت ، ظالم و غاصب افراد سے چھین کر ان لوگوں کے سپرد فرماتا ھے جو نیک اور صالح ھوں ، یہ سیاست الھیہ دنیا کے قائم رھنے تک جاری ھے اور اس کی مکمل کامیابی اسی وقت ھو گی جب دنیا میں مستبد اور مستکبروں کے آثار باقی نہ رھیں اور زمین پر امامت ، امت مسلمہ کے نیک افراد اور الٰھی ولائق رھبروں کے سپرد ھو جائے ، یہ قرآن مجید اور پیغمبر اکرم  کی بیان کی ھوئی وھی خوشخبری ھے جس کے مسلمان منتظر ھیں اور جس کو عملی جامہ پھنانے کی انھیں کوشش کرنا چاھئے ۔

عدل اور اس کے نفاذ کی ضمانت

”لقد ارسلنا رسلنا بالبینات ․․․․․․․․․ان اللہ قوی عزیز“(۲۸) ”بے شک ھم نے اپنے رسولوںکو کھلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ھم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا تاکہ لوگ عدالت پر قائم ھو جائیں اور ھم نے ( خاص )لوھا نازل کیا جس میں سخت خوف ( بھی ) ھے اور لوگوں کے لئے منافع (بھی ) اوراس لئے تاکہ اللہ یہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی بغیر دیکھے کون مدد کرتا ھے ، بے شک اللہ صاحب قوت و غلبہ اورعزیز ھے “ ۔

یہ آیت انبیا کی بعثت کا اصل مقصد واضح کرنے کے علاوہ ھمیں چند اصول اور بتاتی ھے مثلا :

(الف) تمام پیغمبر عدل و مساوات قائم کرنے کے ذمہ دار ھیں اور یہ کام معاشرے کی باگ ڈور سنبھالے بغیر ممکن نھیں ۔ لھذا ملک و ملت کی تدبیرا ور سیاست کی ذمہ داری پیغمبروں کا اولین فرض ھے ۔

(ب) اس ھدف کا عملی ھونا اس قانون کی بنیاد پر ھے جو آسمان سے انسانوں کے لئے نازل ھوا ھے ۔ یعنی وہ قانون جو حق و انصاف اور حکمت کے اصولوں پر قائم ھو اور سیاست مداروں کی افراط و تفریط اور تحریف سے دور ھو ۔

(ج) اگر حکمت و نصیحت کا کوئی اثر نہ ھو اور حملہ آور افراد اسی طرح اپنے حملوں کو جاری رکھیں تو اس لوھے سے بنے ھوئے ھتھیاروں سے انھیں کچل دینا چاھئے تاکہ فتنہ و فسادکا خاتمہ ھوجائے ۔

(د) اس آیت میں جھاں سیاست کے بنیادی اصول ، حکمراں ، قانون اور نفاذ کا ذکر ھوا ھے ، وھاں ان کا مبداٴ غیب اور خالق کائنات سے تعلق کا ذکر بھی موجود ھے ۔ اس طرح عوام کا حکومت سے فکری و اعتقادی تعلق بھی ھونا چاھئے ۔ یہ مرحلہ افراد و معاشرہ ٴ انسانی کے لئے آزمائش کا مرحلہ ھے ۔ آیت کا آخری حصہ جو اللہ تعالیٰ کی قدرت و عزت کی نشاندھی کرتا ھے اسی کے ساتھ یہ اشارہ بھی ملتا ھے کہ چونکہ قدرت ، عزت ، مالکیت اور ملوکیت صرف خدا کو زیب دیتی ھے لھذا انسان کسی اور ذریعے سے عزت و طاقت حاصل کرنا چاھے تو وہ ایک غلط اور نا زیباطریقہ ھے اوروہ تکبر وغرور کا راستہ اختیار کر کے ظالم اور جابر افراد کی طرح مجرم قرار پاتا ھے ۔ جبکہ انبیاء و رسل کی راہ اور الٰھی سیاست کی روش یہ نھیں ھے ۔

 عدل و مساوات قائم کرنے کے بارے میں تاکید اگر چہ انبیاء و رسل کے عام پروگراموں میں شامل رھی ھے لیکن پیغمبر اسلام  نے اس پر خاص توجہ فرمائی ھے ۔

قرآ ن مجید میں ان فرائض کی نشاندھی کی گئی ھے :

” و امرت لا عدل بینکم “ (۲۹) ” مجھے یہ حکم دیا گیا ھے کہ تمھارے ما بین عدل قائم کروں “ ” فاحکم بینھم بالقسط “ (۳۰)” لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو!“

مومنین سے خطاب ھے:

کونوا قوامین للہ شھدا ء بالقسط(۳۱)” ُخداکیلئے انصاف کے ساتھ گواہ بننے کیلئے تیار ھو “

عدل و انصاف قائم کرنا الٰھی حکومت کا مقدس فریضہ ھے اور یہ فریضہ انبیاء، ائمہ علیھم السلام اور امت مسلمہ کی ھر فرد پر عائد ھوتا ھے کہ اپنی طاقت و توانائی کے مطابق اسے پورا کرنے کی جد و جھد کرے ۔ ظلم کا خاتمہ اور ظالموں کو ان کے اصلی ٹھکانے تک پھنچانے میں ذرہ برابربھی تامل نھیں کرنا چاھئے ۔ ظالموں کا ٹھکانا جھنم ھے ۔

” و اما القاسطون فکانوا لجھنم حطبا “ ( ۳۲) ” اور رھے نا فرمان ، تو وھی جھنم کے کندے بنے ۔“

 مکتب فکر اور قیادت کے تحت اتحاد

اسلامی حکومت کے دوسرے مقاصد و فرائض میں امت مسلمہ کے اتحاد کو مستحکم کرنا اور اس کی حفاظت کرناھے ۔

” کان الناس امة واحدة فبعث اللہ النبیین مبشرین و منذرین و انزل معھم الکتاب بالحق  لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیہ و ․․․․․․“ (۳۳)

” ابتدا میں سب لوگ ایک ھی حال پر تھے ۔ پھر خدا نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے انبیا ء بھیجے اور ان کے ساتھ بر حق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان جس بارے میں اختلاف ھے اس کا فیصلہ کریں ،،۔

بشریت کے اتحاد سے اختلاف و انتشار کے خطرے کو دو چیزیں دور کر سکتی ھیں، ایک مکتب فکر اور دوسری قیادت ۔ ان دونوں کا ذکر قرآن میں موجود ھے ۔ مکتب فکرسے مراد وہ دبستان و اسلوب فکر و عمل ھے جس کا ماخذ قرآن مجید اور وحی الٰھی ھے ۔ اور قیادت سے مراد پیغمبروں اور صالح افراد کی قیادت ھے ۔ امت مسلمہ کے درمیان اختلاف پیدا کرنے میں غیر صالح رھبروں کا دخل رھا ھے اور آج بھی امت مسلمہ کو اس افسوسناک المیہ کا سامنا کرنا پڑ رھا ھے ۔ حالانکہ اس وقت ایک ارب مسلمان دنیا میں موجود ھیںاور یہ افراد متحد ھوکر دنیا کے خونخوار دشمنوں کے مقابلے میں ایک عظیم الشان طاقت بن سکتے ھیں ۔ یہ امت اپنی ذاتی  قوت، اپنی اسٹراٹیجک سیاسی و جغرافیائی حیثیت ، سونے، تیل کے زیر زمینی ذخائر اور اسلام پر بھروسہ کر کے دنیا کے تمام کاروبار کی باگ دوڑ اپنے ھاتھ میں لے سکتی ھے ۔ اس راہ میں ایک مشکل حکمران ھیں جو انسانی معاشرے میں فساد کی جڑ اور ممالک کےلئے کینسر بن چکے ھیں ۔ قرآن کے حکم کے مطابق اس طرح کی حکومتوں کی بیخ کنی کرنا چاھئے تاکہ امت متحد ھو کر ایک صالح قیادت کے تحت اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کر سکے ۔ یہ قرآن کی ھدایت ھے۔ ” فقاتلوا ائمة الکفر ۔۔۔۔۔(۳۴) وقاتلوھم حتی لا تکون فتنة “ ۔(۳۵)

ارتقائے انسانیت

زندگی کی اصلی غایت انسان کی ارتقا ھے اوراگر شریعت کی تشریع اور پیغمبروں کی بعثت اسی مقصود کو عملی جامہ پھنا نے کے لئے ھوئی ھے تو یقینی طور پر اس غرض کو پورا کرنے میں حکومت کا کردار نا قابل انکار ھے ۔

 ملکوں کی تباھی اور انسانوں کی گمراھی زیادہ تر ظالم و جابر حکام کے زیر نگرانی ھوئی ھے اور یھی وجہ ھے کہ قرآن مجید بار بار ان کا ذکر کرتا ھے ۔

” و لقد ارسلنا موسیٰ بآیاتنا و سلطان مبین الیٰ فرعون و ملائہ فاتبعوا امر فرعون و ما امر فرعون برشید ، یقدم قومہ یوم القیامة فاوردھم النار و بئس الورد المورود “(۳۶)

” اور بے شک ھم نے موسیٰ (ع)کو اپنی نشانیوں اور کھلی دلیلوں کے ساتھ فرعون اوراس کے سرداروں کے پاس بھیجا پھر ان سب نے فرعون ھی کے حکم کی تعمیل کی ۔ حالانکہ فرعون کا حکم سچائی سے موافق نہ تھا ۔ قیامت کے دن فرعون اپنی قوم کے آگے آگے آئے گا اور ان سب کو جھنم میں پھنچا دے گا اور وہ کیسی بری اترنے کی جگہ ھو گی جھاںوہ اتریں گے “

طاغوتی حکام انسانی ارتقا میں رکاوٹ ڈالتے ھیں ،انھیں روکنا ٹوکنا چاھئے ۔ ” فمن یکفر بالطاغوت و یوٴمن باللہ فقد استمسک بالعروة الوثقیٰ لاانفصام لھا “ (۳۷)” جو طاغوت کا انکارکرے اورخداپر ایمان لائے اس نے خدا کی ایسی مضبوط رسی کوپکڑلیا ھے جو ٹوٹنے والی نھیں ھے ۔

خدا پر ایمان اور طاغوت کاانکار ، مکتب توحید کی پھلی شق ھے : ” و لقد بعثنافی کل امة رسولا ان اعبدو اللہ و اجتنبوا الطاغوت “ (۳۸)

” اور ھم نے ھر قوم کے لئے ایک رسول بھیجا ، جوان سے کھے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت ( شیطان ) سے دوری اختیار کرو “

در اصل ارتقاء و وحدت ، صالح افراد کی حاکمیت یعنی قانون ، سیاست اور دینی ثبات ھی کے زیر سایہ ممکن ھے ، اور کفر ، ضلالت اور تباھی طاغوتی سر براھوں کا وہ پیشہ ھے جس سے وہ باز نھیں آسکتے ۔لھذا اصلاح طلب افراد کا ایمانی و انسانی فریضہ ھے کہ انسانی ارتقا کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے عناصر کو فناکے حوالے کر دیں ، تاکہ انسانیت بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کر سکے ۔ اس کے لئے یہ ضروری ھے کہ جس طرح سے حضرت ابراھیم (ع)،موسیٰ ، حضرت محمد مصطفیٰ  اور اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء و اولیاء نے عمل کیا اسی طرح عمل کیا جائے ۔ خاتم انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ  نے اپنی اعلانیہ دعوت کے دوران تمام ممالک کے سربراھوں کو پیغام روانہ کیے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر ظلم و ستم ڈھانے سے باز آکر تسلیم حق ھو جائیں یا مکے کے قبائلی سرداروں ، ثروت مندوں اور سود خواروں کو تنبیہ کی تھی کہ وہ محروم افراد کے استحصال سے باز آجائیں ۔ آپ پیش قدمی کرتے رھے یھاں تک کہ ان علاقوں ، حکومتوں اور قبائلی سرداروں کے افکار و خیالات میں موجود فساد کی جڑوںکو ریشہ کن کر کے ایسی اسلامی حکومت کی سنگ بنیاد رکھی جو خدا پر ایمان اور انسان کی قد ر وقیمت کی قائل ھے ۔ ” کما ارسلنا فیکم رسولا منکم یتلوا علیکم آیاتنا و یزکیکم و یعلمکم الکتاب و الحکمة و یعلمکم ما لم تکونوا تعلمون “ (۳۹)

” جیسے ھم نے تم ھی میں سے ایک رسول بھیجا جو ھماری آیتیں تم کو پڑھ کر سناتا ھے،تم کو پاکیزہ کرتا ھے، تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ھے اور تم کو وہ سب کچہ سکھاتا ھے جو کچہ تم نھیں جانتے تھے “ ۔

قرآن مجید تربیت اور تزکیہ کے لحاظ سے رھبروں کی ذمہ داری کو مزید وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ھے ۔

” الذین ان مکنا ھم فی الارض ․․․․․․․․․․وللہ عاقبة الامور“ (۴۰)

”یھی وہ لوگ ھیں جن کو ھم نے زمین میں اقتدار دیاتوانھوں نے نمازقائم کی اور زکوٰة ادا کی ،اور نیک کاموں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور تمام کاموں کا انجام اللہ ھی کے ھاتھ میںھے ۔

 اس لحاظ سے سیاسی رھبروں کی ذمہ داری محض یھی نھیں ھے کہ ملک کے اقتصادیات، سیاست اور امن و امان ھی کو بحال کریں ، بلکہ اخلاق ، ایمان ، عمل ، تقویٰ ، احسان کوبحال کرنے اور فساد و منکر کو اپنی حکومت کے دائرے سے ختم کرنے کی ذمہ داری اس سے بڑھ کر ھے ، در حقیقت یہ بڑی خصوصیت ھے جو اسلام کے سیاسی نظام کو دوسرے سیاسی نظاموں پر فوقیت عطا کرتی ھے ۔

Add comment


Security code
Refresh