پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ظلم و بربریت کی نابودی تھی ۔اس وقت پوری دنیا میں اور خصوصا عرب کے حالات اس قدر دگر گوں اور بد حال تھے کہ لوگ انساینت کا درد نھیں سمجھ رھے تھے ۔ اپنی ننھی کلی اورخاندان کے چشم و چراغ کو زندہ در گور کردیتے تھے ۔لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغ نے مردہ دلوں کوجلابخشی ۔لوگ پروانہ کی طرح شمع اسلا م کے گرد جمع ھوگئے ...! ان نو مسلم میں افراد میں کچھ توایسے تھے جو اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ نچھا ور کرنے کو ھمہ وقت آمادہ رھتے تھے ۔مگر انھیں کے درمیان کچھ ایسے نام نھاد مسلمان بھی تھے جن کے ظاھر سے اسلام کی بو آتی تھی لیکن باطن میں نفاقی زھر ھلاھل رکھتے تھے اور سرکار ختم المرسلین کی وفات کے بعد انھوں نے خانہ وحی پر آگ و لکڑیاں لے کر جمع کیں ...۔جناب سیدہ سلام اللہ علیھا پر ظلم و ستم کے پھاڑ توڑ دیئے اور باغ فدک کو بھی اپنی ملکیت بنا لیا۔
باغ فدک ایک وسیع و عریض علاقہ تھا جو سر سبز و شاداب درختوں سے گھنا ھوا تھا ۔یہ ایک قیمتی خزانہ کی حیثت رکھتا تھا۔کیوں کہ خلیفہ اول نے جناب فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا کے فدک کے مطالبہ پر یھی جواب دیاتھ کہ فدک رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامال نہ تھا بلکہ یہ عام مسلمانوں کی ملکیت تھی جس کی آمدنی کی حضور ،مجاھدوں اور راہ خدامیں خرچ کرتے ۔اس کی آمدنی کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جاسکتا ہے کہ جب معاویہ حاکم ھواتو اس نے فدک کو مروان بن حکم ،عمر ابن عثمان اور اپنے فرزند یزید کے درمیان تقسیم کردیا ۔(شرح ابن ابی الحدید جلد١٦ صفحہ ٢١٦﴾
ظھوراسلام سے قبل یہ وسیع ترین علاقہ یھودیوں کے قبضہ میں تھا۔لیکن اسلامی کی پیش رفتی دیکھ کرانھوں نے اسے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنگ کئے بغیر دے دیاتھا ۔دین اسلام کے قوانین کی رو سے جو زمین بغیر جنگ کے ھاتھ آئے وہ خالص اللہ کے رسول کامال ھوتاہے ۔آپ نے''وآت ذی القربیٰ حقہ ''(سورہ اسراء ٢٦) نازل ھونے کے بعد اسے جناب فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا کو بطور ھبہ عطاکر دیاتھا۔اس سلسلے میں بھت سی روایات ہیں ۔منجملہ :
ابو سعید کھتے ہیں کہ جب یہ آیت 'وآت ذی القربیٰ حقہ '' نازل ھوئی تو بنی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا کوبلایا اور فدک عطا فرمادیا ۔(ینابیع المودة جلد ١ ۔٣صفحہ ١٤٢،منشورات :موسسة الاعلمی للمطبوعات ،بیروت ،لبنان ﴾
امام رضاعلیہ السلام فرماتے ہیں :جب مذکورہ آیت نازل ھوئی تو نبی خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب سیدہ سلام اللہ علیھا سے فرمایا:یہ فدک میں نے تمھارے اختیار میں قراردیدیا۔(مذکورہ حوالہ ﴾
طولانی تحریر سے پرھیز کرتے ھوئے صرف دو ھی روایات کا سھار الیا گیا ہے ۔مزید معلومات کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں کی طرف رجوع کریں ۔
﴿کشف الغمہ جلد ٢صفحہ ١٩٤،ناشر :الطباعة والنشر للمجمع العالمی لاھل البیت ،بیروت ،لبنان ٢٠١٢ء ،فاطمة بھجة قلب المصطفیٰ ٣٩٦،طبع :موسسة البدر للتحقیق و النشر ١٤١٠ھ اورمسند ابو یعلیٰ جلد ٢ صفحہ ٧٥وغیرہ ﴾۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت ھوتے ھی شیطان اپنے پرانے ھم خیالوں کے دل و دماغ پر پھر سے حاوی ھوگیا اور حاکم وقت نے احکام اسلامی کاگلادبوج کر فدک کوجناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی ملکیت سے خارج کردیا ۔جب آپ کو یہ خبر ملی کہ باغ فدک سے میرے کارندوں کونکال دیا گیا ہے تو آپ سراپا احتجاج بن کر مسجد النبی تشریف لے گئیں ...۔خلیفہ وقت نے الٹے سے آپ سے گواہ طلب کرلئے جبکہ قانون عدالت کے مطابق صدیقہ کوگواہ مانگنے چاھئے تھے ۔
بھر کیف،آپ اپنے دو گواھوں:مولائے کائنات اور ام ایمن کے ھمراہ دربار خلافت تشریف لے گئیں ۔لیکن رسول کی جعلی حدیث کاسھارالے کر اس نے فدک واپس نھیں کیا ...۔حالانکہ تینوں شخصیات (جناب فاطمہ زھرا ،امام علی اور جناب ام ایمن )کے کردار روز روشن کی طرح درخشان ہیں ۔
حضرت فاطمہ زھرا علیھا السلام اورامام علی علیہ السلام کی عصمت اورپاکیزگی کی ضمانت خود اللہ نے لے رکھی ہے ۔جیسا کہ اللہ کا ارشاد ھوتا ہے :''انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطرکم تطھیرا ''
بس اللہ کاارادہ یہ ہے کہ اے اھل بیت کہ تم سے ھر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کاحق ہے ۔(سورہ احزاب ٣٣﴾
شیعہ اورسنی دونوں فرقوں کے علماء کرام نے اس بات کوتحریر کیاہے کہ مذکورہ آیت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،حضرت امام علی علیہ السلام ،حضرات حسنین علیھما السلام اورجناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کی شان میں نازل ھوئی ہے۔
جناب عائشہ سے روایت ہے کہ ایک روز حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کندھے پر سیاہ اون کا بنا ھواکپڑا ڈالے بیت الشرف سے نکلے۔اس کے بعد حسن ،حسین ،فاطمہ اورعلی علیھم السلام آئے اور اس کپڑے میں داخل ھوگئے ۔تب آپ نے فرمایا: ''انما یرید اللہ...(تفسیر در منثور جلد ٥ صفحہ ١٩٨،طبع :المکتبةالاسلامیة و مکتب جعفری ،طھران ،شارع بوذر جمھری و مکتبة اعتماد ،عراق ،کاظمیة ... ﴾
جناب ام ایمن کی گواھی تنھاکافی تھی چونکہ آپ نے خلیفہ اول سے کھاتھا کہ تمھیں خدا کی قسم دیتی ھوں کہ کیا تم جانتے ھوکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سلسلے میں فرمایاتھا:''ام ایمن امراة من اھل الجنة ''ام ایمن خواتین جنت میں سے ایک ہیں ؟
جناب نے جواب دیا :ھاں ! اسی وقت بلافاصلہ آپ نے گواھی دی کہ جب یہ آیت ''وآت ذی القربیٰ حقہ ''نازل ھوئی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک جناب فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا کوھبہ کر دیاتھا۔(فاطمہ چہ گفت ؟مدینہ چہ شد ؟صفحہ ٦٣٩،ناشر :سروش پریس ،تھران ٢٠٠٢ء ﴾
...آخر کار فد ک اپنے حقیقی مالک تک پھونچ سکا اور خلیفہ اول نے بالکل عجیب سی روایت کاسھارا لیاکہ :''انا معاشر الانبیاء لانورث ماترکناہ صدقة ''(ناسخ التواریخ جلد ٣ صفحہ ١٢٣،ناشر :کتابفروشی ،تھران ،ایران ﴾
حدیث غربت یا حدیث رسول اعظم؟
اگر حدیث ،رسول کی ھوتی تو اھل بیت علیھم السلام کے نزدیک اس کاتذکرہ ضرور پایاجاتا اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا ،امام علی علیہ السلام اور ام ایمن کے ھمراہ اپنے حق کامطالبہ نہ کرتیں ۔ اگرحدیث صحیح السند ھوتی توخلیفہ کو صدقہ کے عنوان سے اس کے مستحقین تک پھونچانے میں کوئی قدم اٹھانا چاھئے تھا۔
مذکورہ حدیث کے غلط ھونے پر ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آیت قرآنی سے موافق نھیں ہے اور خود رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاارشاد گرامی ہے کہ اگر میری کوئی حدیث قرآن سے ٹکراجائے تو اسے دیوار دے مارو۔
پرور دگا ر عالم ارشاد فرماتا ہے :''وورث سلیمٰن داود'' اور پھر سلیمان دائود کے وارث ھوئے ۔(سورہ نمل ١٦﴾
دوسرے مقام پر حضرت زکریا علیہ السلام اللہ سے یوں دعا گوہیں :''فھب لی من لدنک ولیا یرثنی ویرث من آل یعقوب واجعلہ رضیا''تو اب مجھے ایک ایسا ولی اوروارث عطا فرمادے جو میرااور آل یعقوب کا وارث ھو اورپروردگار اسے اپنا پسندیدہ بھی قرار دینا ۔(سورہ مریم ٥اور٦﴾
اب دو ھی صورتیں نظر آتی ہیں یا تو مذکورہ حدیث کوطاق نسیاں کے حوالہ کردیں کیونکہ وہ آیات قرآنی سے موافقت نھیں رکھتی یا پھر سید الانبیاء کی احادیث میں تضاد اورٹکراوٴ کے قائل ھوجائیں جبکہ ایسا ممکن ھی نھیں چونکہ آپ بغیر وحی الٰھی کے کوئی کلا م ھی نھیں کر تے ۔
اب!اگر حادیث کے الفاظ حضر ت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ھوتے تووھاں موجود مھاجر اورانصار اس کی تائید تو کرتے ...!
چونکا دینے والی بات تو یہ ہے کہ ابھی یھی کوئی دوھفتہ کی بات ہے کہ ھونے والے خلیفہ دوم نے اپنے لئے صرف کتاب الٰھی کوکافی جاناتھا جس کی تائید میں خود خلیفہ اول بھی خاموش رھے اورچند روز میں عقیدہ بدل ڈالا...!!!
ان تمام باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ فدک حضرت فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا کی ملکیت میں تھی جسے حاکم وقت نے حکومت کے بل بوتے پر اپنے قبضہ میں تو لے لیا لیکن زندگی کے آخری لمحات تک یہ احساس جرم رھا کہ اے کاش ! دختررسول کے ساتھ عادلانہ رویہ سے پیش آتا اور ان کے غیض وغضب کا شکار نہ ھوتا...۔(صحیح مسلم ،جلد ٣ باب کلام النبی ''انا لانورث کے ذیل میں ﴾
لیکن
عمر تو ساری کٹی عشق بتانے میں مومن
آخری وقت میں کیاخا ک مسلمان ھوں گے
تمام تاریخی گواھوں اورثبوتوں کے بعد اب !!!
آپ کی عدالت آپ کافیصلہ !
بقلم؛ عظمت علی
فدک اور آپ کی عدالت
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 2147