حضرت امام رضا علیہ السلام اللہ کے نور کا ٹکڑا، اسکی رحمت کی خوشبو اور ائمہ طاھرین علیھم السلام کی آٹھویں کڑی ہیں جن سے اللہ نے رجس کو دوررکھا اوران کو اس طرح پاک وپاکیزہ رکھاجو پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔
مامون نے ائمہ طاھرین علیھم السلام کے متعلق اپنے زمانہ کے بڑے مفکروادیب عبداللہ بن مطرسے سوال کرتے ھوئے کھا: اھل بیت علیھم السلام کے سلسلہ میں تمھاری کیا رائے ہے ؟
عبداللہ نے ان سنھرے لفظوں میں جواب دیا:میں اس طینت کے بارے میں کیاکھوں جس کا خمیر رسالت کے پانی سے تیار ھوااوروحی کے پانی سے اس کو سیراب کیاگیا؟ کیا اس سے ھدایت کے مشک اور تقویٰ کے عنبر کے علاوہ کوئی اورخوشبو آسکتی ہے ؟
ان کلمات نے مامون کے جذبات پر اثرکیا اس وقت امام رضا علیہ السلام بھی موجود تھے، آپ نے عبداللہ کامنھ موتیوں سے بھر دینے کا حکم صادر فرمایا ۔وہ تمام اصلی ستون اور بلند و بالا مثالیں جن کی امام علیہ السلام عظیم سے تشبیہ دی گئی ہے، آپ کے سلوک ، ذات کی ھو شیاری اور دنیا کی زیب و زینت سے رو گردانی کرنا سوائے اُن ضروریات کے جن سے انسان اللہ سے لولگاتا ہے، یہ سب اسلام کی دولتوں میں سے ایک دولت ہے۔ھم ان میں سے بعض خصوصیات اختصار کے طور پر بیان کرتے ہیں:
آپ کی پرورش
امام رضا علیہ السلام نے اسلام کے سب سے زیادہ باعزت وبلند گھرانہ میں پرورش پائی ،کیونکہ یہ گھر وحی کا مرکز ہے ۔یہ امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کا بیت الشرف ہے جو تقویٰ اور ورع وپرھیزگاری میں عیسیٰ بن مریم کے بیت الشرف کے مشابہ ہے ،گویا یہ بیت الشرف عبادت اور اللہ کی اطاعت کے مراکز میں سے تھا، جس طرح یہ بیت الشرف علوم نشرکرنے ا ور اس کو لوگوں کے درمیان شائع کرنے کا مرکزتھا اسی بیت الشرف سے لاکھوں علماء ، فقھاء،اور ادباء نے تربیت پائی ہے ۔اسی بلند وبالا بیت الشرف میں امام رضا علیہ السلام نے پرورش پائی اور اپنے پدر بزرگوار اور خاندان کے آداب سے آراستہ ھوئے جن کی فضیلت ،تقویٰ اور اللہ پر ایمان کے لئے تخلیق کی گئی ہے ۔
آپ کا عرفان اور تقویٰ امام رضا علیہ السلام کے عرفان کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ حق پر پائیدارتھے، اور آپ نے ظلم کے خلاف قیام کیا تھا، اس لئے آپ مامون عباسی کو تقوائے الٰھی کی سفارش فرماتے تھے اور دین سے مناسبت نہ رکھنے والے اس کے افعال کی مذمت فرماتے تھے، جس کی بناء پر مامون آپ کا دشمن ھوگیااور اس نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیااگرامام علیہ السلام اس کی روش کی مذمت نہ کرتے جس طرح کہ اس کے اطرافیوں نے اس کے ھرگناہ کی تائید کی تو آ پ کا مقام اس کے نزدیک بھت عظیم ھوتا ۔اسی بناء پرمامون نے بھت جلد ھی آپ کو زھر دے کر آپ کی حیات ظاھری کا خاتمہ کردیا۔
آپ کے بلند وبالااخلاق
امام رضا علیہ السلام بلند و بالا اخلاق اور آداب رفیعہ سے آراستہ تھے اور آپ کی سب سے بھترین عادت یہ تھی کہ جب آپ دسترخوان پر بیٹھتے تھے تو اپنے غلاموں یھاں تک کہ اصطبل کے رکھوالوں اور نگھبانوں تک کو بھی اسی دستر خوان پر بٹھاتے تھے۔
ابراھیم بن عباس سے مروی ہے کہ میں نے علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام کو یہ فرماتے سنا ہے :ایک شخص نے آپ سے عرض کیا :خداکی قسم آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے ہیں ۔امام علیہ السلام نے یہ فرماتے ھوئے جواب دیا:اے فلاں! مت ڈر،مجھ سے وہ شخص زیادہ اچھا ہے جو سب سے زیادہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اور اس کی سب سے زیادہ اطاعت کرے ۔خدا کی قسم یہ آیت نسخ نھیں ھوئی ہے۔امام علیہ السلام اپنے جدرسول اعظم کے مثل بلند اخلاق پر فائز تھے جو اخلاق کے اعتبار سے تمام انبیاء سے ممتاز تھے ۔
آپ کا زھد
امام رضا علیہ السلام نے اس پرمسرت اورزیب وزینت والی زندگی میں اپنے آباء عظام کے مانند کردار پیش کیا جنھوں نے دنیا میں زھداختیارکیا،آپ کے جدبزرگوارامام امیرالمومنین علیہ السلام نے اس دنیاکو تین مرتبہ طلاق دی جس کے بعد اس سے رجوع نھیں کیاجاسکتا۔
محمد بن عباد نے امام علیہ السلام کے زھدکے متعلق روایت کی ہے :امام علیہ السلام گرمی کے موسم میں چٹائی پر بیٹھتے ، سردی کے موسم میں ٹاٹ پربیٹھتے تھے ،آپ سخت کھر درا لباس پھنتے تھے، یھاں تک کہ جب آپ لوگوں سے ملاقات کے لئے جاتے تو پسینہ سے شرابور ھوجاتے تھے ۔دنیا میں زھد اختیار کرنا امام علیہ السلام کے بلند اور آشکار اور آپ کے ذاتی صفات میں سے تھا،تمام راویوں اور مورخین کا اتفاق ہے کہ جب امام کو ولی عھد بنایاگیا تو آپ نے سلطنت کے مانند کوئی بھی مظاھرہ نھیں فرمایا،حکومت وسلطنت کو کوئی اھمیت نہ دی،اس کے کسی بھی رسمی موقف کی طرف رغبت نھیں فرمائی، آپ کسی بھی ایسے مظاھرے سے شدیدکراھت کرتے تھے جس سے حاکم کی لوگوں پر حکومت وبادشاھت کا اظھار ھوتا ہے چنانچہ آپ فرماتے تھے :لوگوں کاکسی شخص کی اقتداکرنااس شخص کیلئے فتنہ ہے اور اتباع کرنے والے کیلئے ذلت و رسوائی ہے ۔
آپ کے علوم کی وسعت
امام رضا علیہ السلام اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ اعلم اور افضل تھے اور آپ نے ان (اھل زمانہ) کو مختلف قسم کے علوم جیسے علم فقہ،فلسفہ ،علوم قرآن اور علم طب وغیرہ کی تعلیم دی۔
ھروی نے آپ کے علوم کی وسعت کے سلسلہ میں یوں کھا ہے :میں نے علی بن موسی رضا علیہ السلام سے زیادہ اعلم کسی کو نھیں دیکھا، مامون نے متعددجلسوں میں علماء ادیان ،فقھاء شریعت اور متکلمین کو جمع کیا،لیکن آپ ان سب پر غالب آگئے یھاں تک کہ ان میں کوئی ایسا باقی نہ رھا جس نے آپ کی فضیلت کا اقرار نہ کیاھو،اور میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’میں ایک مجلس میں موجود تھا اور مدینہ کے متعدد علماء بھی موجود تھے ،جب ان میں سے کوئی کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھتا تھا تو اس کو میری طرف اشارہ کردیتے تھے اور مسئلہ میرے پا س بھیج دیتے تھے اور میں اس کا جواب دیتا تھا ‘‘۔
ابراھیم بن عباس سے مروی ہے :میں نے امام رضا علیہ السلام کونھیں دیکھامگریہ کہ آپ نے ھر سوال کا جواب دیا ہے ۔،میں نے آپ کے زمانہ میں کسی کو آپ سے اعلم نھیں دیکھااور مامون ھر چیز کے متعلق آپ سے سوال کرکے آپ کا امتحان لیتاتھااورآپ اس کا جواب عطافرماتے تھے ۔
مامون سے مروی ہے :میں اُن (یعنی امام رضا علیہ السلام )سے افضل کسی کو نھیں جانتا۔ بصرہ،خراسان اور مدینہ میں علماء کے ساتھ آپ کے مناظرے آپ کے علوم کی وسعت پردلالت کرتے ہیں ۔دنیاکے جن علماء کو مامون آپ کا امتحان لینے کے لئے جمع کرتا تھا وہ ان سب سے زیادہ آپ پر یقین اور آپ کے فضل وشرف کا اقرار کرتے تھے ،کسی علمی وفدنے امام سے ملاقات نھیں کی مگر یہ کہ اس نے آپ کے فضل کا اقرار کرلیا۔مامون آپ کو لوگوں سے دور رکھنے پر مجبور ھوگیاکہ کھیں آپ کی وجہ سے لوگ اس سے بدظن نہ ھوجائیں۔
حضرت امام رضا علیہ السلام کی سیرت سے چند خوشبوئے حیات
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1409