14 ویں صدی ھجری کے آغاز سے "سلفیہ" مکتب متعارف ھونا شروع ھو گیا۔ بعض افراد نے اس مکتب کو دین اور مذھب کے طور پر اختیار کر لیا اور خود کو "سلفی" کھلوانے لگے جبکہ بعض دوسرے افراد نے اسے اسلام کی حقیقت تک رسائی کیلئے ایک "فکری اسلوب" قرار دیا۔
سلفی خود کو مکتب "اھل حدیث" کا پیروکار کھتے ہیں۔ یہ مکتب عباسی دور میں معتزلہ، اھل کلام اور شیعہ فرقے سے اختلافات کے بعد معرض وجود میں آیا۔
241 ھجری قمری میں مکتب اھل حدیث کے بانی احمد بن حنبل کی وفات کے بعد حنابلہ میں یہ فکری اسلوب بدستور جاری رھا۔ حنابلہ خود کو اصول، فروع، عقائد اور احکام میں اھلحدیث کا پیرو قرار دیتے ہیں۔ متوکل سے لے کر مقتدر تک عباسی خلفاء نے اس مکتب کو پروان چڑھانے میں بھت اھم کردار ادا کیا۔
305 ھجری قمری میں ابوالحسن اشعری (متوفی 324 ھجری قمری) نے "مکتب اھلحدیث خاص طور پر احمد بن حنبل کے افکار کو زندہ کرنے والے" کے طور پر ایک نئے مکتب کی بنیاد رکھی اور اھلحدیث کے عقائد میں اصلاحات کرنے کی کوشش کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اھلحدیث کے عقائد بھت زیادہ خرافات کا شکار ھو چکے تھے۔
وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ "قرآن قدیم ہے" اور انسان اپنی زندگی میں کوئی اختیار نھیں رکھتا اور خدا ھماری طرح آنکھیں ،ھاتھ پاوں و دیگر اعضاء رکھتا ہے وغیرہ۔
ابوالحسن اشعری نے اس مکتب کی اصلاح کیلئے آواز بلند کی اور ایک حد تک اپنے مقصد میں کامیاب بھی ھوا۔ اشعری مکتب کی تشکیل کے بعد اھلحدیث اور اھلسنت کے اس گروہ کے درمیان ایک بڑی خلیج آ گئی اور ان کے درمیان مسلح جھڑپوں کا سلسلہ شروع ھو گیا۔
اشعری مکتب نے اھلحدیث کے عقائد میں اصلاحات کیں اور اعتقادی مسائل میں خود کو اس سے برتر ظاھر کرنے کی کوشش کی۔ اشاعرہ اور اھلحدیث کے درمیان جنگ و جدال کے اس دور میں ایک بار بھی "سلف" یا "سلفیہ" ایک مکتب یا مذھب کے طور پر متعارف نھیں ھوا۔ اس کا آغاز اس وقت ھوا جب ابن تیمیہ (متوفی 728 ھجری قمری) نے "سلف" کو اپنے مکتب کا نعرہ قرار دیا۔
البتہ وہ بھی "سلفیہ" لفظ کا استعمال نھیں کرتا تھا بلکہ یہ کھتا تھا کہ ھم اھلسنت والجماعت کے تابع ہیں جو پھلی تین صدیوں میں زندگی بسر کرتے تھے۔
ابن تیمیہ کو اپنی زندگی میں زیادہ کامیابی حاصل نہ ھوئی کیونکہ تمام اھلسنت علماء اس کی شدید مخالفت کرتے تھے۔ دوسری طرف ابن تیمیہ نے اھلحدیث کی پیروی کا اعلان کیا جو ایک انتھائی محدود فرقہ تھا۔ اسی طرح ابن تیمیہ کے شاگرد جیسے ذھبی (متوفی 748 ھجری قمری)، ابن قیم (751 ہجری قمری) اور ابن کثیر (متوفی 774 ھجری قمری) بھی اس کے طریقہ کار کو زیادہ رائج نہ کر سکے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ابن تیمیہ نے شام اور مصر میں اپنے مکتب کا پرچار شروع کیا جبکہ اس دور میں یہ دو خطے علم و دانش اور فقاھت کا مرکز جانے جاتے تھے۔
ابن تیمیہ کا طرز تفکر اور اسلوب کچھ صدیوں بعد محمد بن عبدالوھاب (متوفی 1207 ھجری قمری) نے دوبارہ زندہ کیا۔ البتہ اس بار یہ کام نجد کے علاقے سے شروع کیا گیا جھاں اسلامی تھذیب و تمدن کے نمایاں آثار موجود نہ تھے اور معروف علماء دین بھی موجود نہ تھے۔ کچھ ھی عرصے میں یہ طرز تفکر پھلنا پھولنا شروع ھو گیا اور آل سعود کی حمایت سے نجد میں وھابیت کو رسمی مذھب کے طور پر رائج کر دیا گیا۔
جب عالمی استعمار برطانیہ کی حمایت سے آل سعود حرمین شریفین پر قابض ھوئی تو وھاں بھی وھابیت کو تھونپ دیا گیا اور تمام علمی مراکز، یونیورسٹیوں، مساجد، وعظ کے منبر اور جمعہ کے خطبوں پر وھابی علماء کا قبضہ ھو گیا۔
محققین کی نظر میں "سلفیہ" پر مبنی نعرہ سب سے پھلے مصر کی مطبوعات میں متعارف کروایا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب مصر پر برطانیہ کا قبضہ ھو چکا تھا اور عالمی استعمار کے خلاف برسرپیکار علماء جیسے جمال الدین اسدآبادی (متوفی 1316 ھجری قمری) اور شیخ محمد عبدہ (متوفی 1323 ھجری قمری) نے محسوس کیا کہ مغرب کی ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنے اور مغربی تھذیب و تمدن کے فریب میں مبتلا مسلمانوں کو رھائی بخشنے کیلئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کو پھلے دور کے مسلمانوں کی سیرت اپنانے کی طرف دعوت دی جائے۔
لھذا امت مسلمہ کے پھلی صف کے اصلاح پسند علماء اور رھنماوں نے اپنی تحریک کیلئے خوبصورت نعرہ چننے کیلئے "سلفیہ" کا لفظ انتخاب کیا جس کا مقصد یہ ظاھر کرنا تھا کہ ھم ابتدائی صدیوں کے حقیقی اسلام کے پیروکار ہیں۔ اس طرز تفکر اور مکتب کے احیاء سے ان کا ھر گز یہ مقصد نہ تھا کہ وہ دوسروں کی تکفیر کریں یا مسلمانوں کی صفوف میں اختلاف اور تفرقہ ڈالیں بلکہ انھوں نے صحابہ اور تابعین سے خوش گمانی کے پیش نظر اس مکتب کا پرچار کیا۔
1929 عیسوی میں مصر میں جمعیت اخوان المسلمین کی بنیاد رکھی گئی۔ اس گروہ کے رجحانات بھی اسی طرز تفکر اور مکتب کی طرف متمایل تھے۔ ان کی نظر میں ابتدائی دور کے مسلمانوں (صحابہ اور تابعین) کی پیروی ھی امت مسلمہ کی نجات کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن یہ طرز تفکر رکھنے کے باوجود دیگر اسلامی فرقوں سے ان کا رویہ انتھائی برادرانہ تھا۔ ان کی زیادہ تر توجہ سیاسی امور خاص طور پر اسلامی حکومت کی تشکیل پر متمرکز تھی۔ لیکن نجد میں رونما ھونے والی سلفیت جو خود کو محمد بن عبدالوھاب کی وارث قرار دیتی تھی، شدت پسندی اور تند خوئی پر مبنی تھی۔ اس تحریک نے آھستہ آھستہ تمام دیگر اسلامی فرقوں سے وابستہ مسلمانوں کی تکفیر کرنا شروع کر دی۔ بعض اوقات اپنے مخالفین کو چپ کرانے کیلئے شیعہ مسلمانوں کی تکفیر کرتے اور اشاعرہ، صوفیہ اور دیگر مذاھب سے تعلق رکھنے والوں کو "اھل بدعت" قرار دیتے تھے۔
ان کا دعوی تھا کہ حقیقی محمدی (ص) اسلام صرف "سلف" (صحابہ اور تابعین) کے اختیار میں تھا اور کتاب و سنت سے متعلق ان کی فھم اور سمجھ بوجھ تمام مسلمانوں کیلئے حجت ہے اور جو کوئی بھی اس راستے سے منحرف ھو گا وہ بدعت گزار اور اسلام کے دائرے سے خارج ہے۔
سلفی طرز تفکر کی بنیادیں اور ان کا تنقیدی جائزہ
سلفی طرز تفکر کی رو سے دین اسلام عقائد، تعلیمات اور شرعی احکام کا مجموعہ ہے جو انسانی زندگی کے تمام پھلووں میں جاری و ساری ہے اور عمل کے میدان میں قرآن و سنت سے متعلق "سلف" کی فھم اور سمجھ کی بنیاد پر تین مراحل یعنی "آئیڈیالیوجی"، "اسٹریٹجی" اور "ٹیکٹیکس" پر مشتمل ہے۔
مطلب واضح کرنے کیلئے اس مثال پر توجہ کریں: جب ھم خدا کے راستے میں کفار سے جھاد کو سلفی مکتب کے بنیادی ترین افکار میں سے ایک کے طور پر سامنے رکھتے ہیں تو کھتے ہیں: خدا کے راستے میں کفار سے جھاد واجب ہے۔ ھم دیکھتے ہیں کہ یہ حکم کلی ہے اور اسے ایک آئیڈیالوجی کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح جب ھم کھتے ہیں: خدا کے راستے میں جھاد کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لانا ضروری ہے، تو ھم دیکھتے ہیں کہ یہ حکم سابقہ حکم کی حد تک کلی نھیں لیکن اسے ایک "اسٹریٹجی" کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
یا جب ھم کھتے ہیں: میدان جنگ میں بھیمانہ قتل و غارت کے ذریعے کفار کے دل میں رعب اور وحشت ایجاد کرنا چاھئے تاکہ ان کیلئے اور دوسروں کیلئے درس عبرت ھو جائے، تو یہ حکم بھی سابقہ احکام سے مربوط ہے لیکن اس کا دائرہ بھت ھی محدود حد تک ہے لھذا اسے ایک "ٹیکٹیکس" کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
یھاں اھم اور قابل ذکر نکتہ ایک مخصوص آئیڈیالوجی کو قبول کرتے ھوئے اس کے ایسے ضروری دستورات پر عمل پیرا ھونا ہے جو اس آئیڈیالوجی کا لازمہ ہیں۔ لھذا سلفی طرز تفکر کے حامل افراد جس طرح الھی احکام کے زمرے میں نص (کتاب و سنت) کی پیروی میں واحد اور متواتر خبر میں کسی فرق کے قائل نھیں اسی طرح سلفی عقائد اور آئیڈیالوجی کو بیان کرنے والی واحد خبروں کو بھی اپنے لئے حجت سمجھتے ہیں۔
حال ھی میں "عقائد سے متعلق واحد خبر کی حجیت" کے عنوان سے سعودی عرب میں منعقد ھونے والے ایک سمینار میں سب مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ عقائد اور اسلامی تعلیمات سے متعلق ثقہ (سلف صالح) کا قول ھمارے لئے حجت ہے۔
لھذا سلفی وہ شخص ہے جو آئیڈیالوجی (اعتقادات) اور شرعی احکام دونوں میں اسلام کی ابتدائی تین صدیوں میں رھنے والے سلف (صحابہ اور تابعین) کی فھم کو حجت مانتا ہے۔ یعنی 11 ھجری قمری سے 300 ھجری قمری تک۔ اس کے علاوہ کسی شخص کی قرآن و سنت کے بارے میں فھم اور سمجھ بوجھ حجت نھیں اور باطل ہے اور ایسی سوچ رکھنے والا شخص یا تو بدعت گزار ہے یا پھر دین سے خارج ھو چکا ہے اور کافر ھو گیا ہے۔
اسلام کی پھلی نسل کے بھتر ھونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ (صحابہ، تابعین اور تابعین کے تابعین) وحی سے منسلک سلسلے کو تشکیل دیتے ہیں اور اسلام کو بغیر کسی ملاوٹ کے خالص طور پر دریافت کرتے تھے اور اگلی نسلوں تک پھنچاتے تھے۔ لیکن تیسری صدی ھجری کے بعد دین میں بدعتوں کا سلسلہ شروع ھو گیا لھذا اسی وجہ سے پھلی تین صدیوں میں رھنے والے مسلمان ھم سے بھتر ہیں۔
سادہ الفاظ میں یہ کہ ایک سلفی شخص اس کوشش میں مصروف ھوتا ہے کہ عصر اسلام میں رھنے والے افراد کی سوچ اور عمل کی جانب پلٹتے ھوئے خالص دین متعارف کروائے جو آج کے انسان کی دنیوی اور اخروی ضروریات پورا کرنے کیلئے مفید ثابت ھو سکے۔
سلفی سوچ کا دعوی ہے کہ کوئی بھی فرقہ صحیح نھیں اور ھمیں عصر سلف یعنی صحابہ، تابعین اور تابعین کے تابعین کے دور میں واپس پلٹ کر ان کی سوچ کو اپنانا چاھئے۔ یوں وہ صدیوں پر محیط مختلف اسلامی فرقوں کی کاوشوں اور تحقیقات اور ان سے حاصلہ نتائج، مختلف میدانوں میں اسلامی تھذیب و تمدن کے قیمتی اثرات اور ھر زمانے کی ضروریات پر توجہ دینے سے ترقی پانے والی فقہ اسلامی سے چشم پوشی کرتے ھوئے "بے فرقہ اسلام" اختیار کرنے پر زور دیتے ہیں۔
سلفیہ مکتب اپنے نظریے کا پرچار کرتے ھوئے اعلان کرتا ہے: "آئیں اور تمام مسلکوں کو ترک کرتے ھوئے وحدت کی جانب گامزن ھو جائیں"۔ لیکن ساتھ ھی دوسرے ھاتھ میں تکفیر کی تلوار تھامے یہ دعوی کرتا ہے کہ اپنے علاوہ دیگر تمام مسلمانوں کو اسلامی معاشرے سے نکال باھر کر کےاور انھیں کافروں سے ملا کر اسلامی معاشرے میں وحدت قائم کی جا سکتی ہے۔
اس "بے مسلکی" کی طرف دعوت کے پس پردہ ایک قسم کا مسلک نھفتہ ہے کیونکہ یہ دعوت بذات خود ایک فرقہ اور مسلک ہے۔ وہ بھی ایسا مسلک جو شدید تنگ نظری اور جمود کا شکار ہے اور اسلام کو ایک جامد، بے جان، ناقص، کمزور اور ھر قسم کی جذابیت سے عاری دین قرار دیتا ہے اور عمل کے میدان میں شدت پسندی اور تعصب کو ھوا دے کر مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور وحدت کے تمام راستے بند کر دیتا ہے۔ اس فرقے کے دیگر اھلسنت کے فرقوں سے بھی اعتقادی اور کلامی اختلافات ہیں۔
سلفیہ فرقے کے حامی افراد کا عقیدہ ہے کہ حقیقی اسلام میں بدعتوں، خرافات اور اوھام کی ملاوٹ ھو چکی ہے جس کے باعث آج کے مسلمان سلف کی سیرت اپنانے سے قاصر ھو چکے ہیں۔ ھماری نظر میں سلفیت کی اس تلقی کے بارے میں انتھائی اھم اعتراضات پائے جاتے ہیں جن کی جانب ھم عنقریب اشارہ کریں گے۔ اس طرز تلقی کی رو سے ھمیں زندگی کے تمام پھلووں یعنی سماجی، اعتقادی، فقھی اور سیاسی میں سلف کی مکمل پیروی کرنی چاھئے اور ان کی تقلید ھم پر واجب ہے۔
سلفیت کے معنی کے بارے میں ایسی تعبیر کئی اعتبار سے نقص کا شکار ہے۔ اگر ھم سماجی مسائل میں مکمل طور پر سلف کے تابع ھونا چاھیں تو ایسا ھر گز ممکن نھیں چونکہ سلف (صحابہ، تابعین اور تابعین کے تابعین) کا طرز زندگی ایک واحد طرز زندگی نہ تھا بلکہ اس میں اختلافات پائے جاتے ہیں لھذا ھم اسے اپنا رول ماڈل نھیں بنا سکتے۔ خاندانی رویے، روابط، طرز لباس، گھروں کی ڈیزائننگ، پیشوں کی نوعیت وغیرہ سب کے سب آپس میں مختلف تھے جن میں بھت سی تبدیلیاں بھی ایجاد ھوئیں۔ حتی تابعین کا طرز زندگی ثقافتی اور سماجی ترقی کی بدولت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کے طرز زندگی سے بھت مختلف تھا۔ لھذا سماجی اعتبار سے گذشتہ دور کے افراد کی مانند زندگی بسر کرنا بالکل ممکن نھیں۔ اسی طرح اعتقادی میدان میں بھی گذشتہ دور کے مسلمانوں اور محققین کے طریقہ کار کی مکمل پیروی ممکن نھیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں اعتقادی مسائل اتنے پیچیدہ نہ تھے جبکہ جس شخص کے ذھن میں کوئی اعتقادی سوال پیدا ھوتا تھا وہ براہ راست نبی اکرم (ص) سے جا کر پوچھ لیتا تھااور جواب پا لیتا تھا۔ اسی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اسلام صرف سرزمین حجاز تک ھی محدود تھا۔ لیکن جیسے جیسے عالم اسلام کی سرحدیں پھیلتی گئیں اور مسلمان دیگر تھذیبوں کے نت نئے افکار اور اعتقادات سے روبرو ھوئے اور اسلام دشمن عناصر کی جانب سے بھی بے شمار اعتقادی شبھات پھیلائے گئے تو دیگر علوم جیسے فلسفہ وغیرہ کا ان شبھات کا جواب دینے کی غرض سے استعمال کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
فقھی مسائل میں بھی سلف کی مکمل پیروی ممکن نھیں کیونکہ بعض ایسے مسائل ھوتے ہیں جنھیں "مسائل مستحدثہ" کھا جاتا ہے اور وہ ھر زمانے سے مخصوص ھوتے ہیں جو علمی اور سماجی ترقی کے نتیجے میں معرض وجود میں آتے ہیں، مثال کے طور پر جدید میڈیکل مسائل۔ لھذا ایسے مسائل کے بارے میں شرعی حکم ماضی میں گزرے سلف سے مراجعہ کرتے ھوئے حاصل نھیں کیا جا سکتا۔
سیاست کے میدان میں یہ طرز تفکر مزید مشکلات اور مسائل کا شکار ہے۔ چونکہ اھلسنت مسلمانوں کی نظر میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکمران کے انتخاب کا کام خود عوام پر ھی چھوڑ دیا تھا جبکہ وہ پھلا شخص جس نے سیرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف عمل کیا خلیفہ اول تھے کیونکہ انھوں نے خلیفہ دوم کو عوام کی رائے اور مشورہ لئے بغیر خود ھی اپنے جانشین کے طور پر مشخص کر دیا تھا۔ اس کے بعد خلیفہ دوم نے خلیفہ اول کے طریقہ کار کی خلاف ورزی کرتے ھوئے نئے خلیفہ کے انتخاب کیلئے شوری تشکیل دے دی۔ اس کے بعد معاویہ نے خلافت کو وراثتی کر دیا اور گذشتہ تمام خلفاء کی سیرت کے خلاف عمل کیا۔
لھذا یھاں یہ سوال پیدا ھوتا ہے کہ سیاست اور حکومت کے میدان میں کس سلف کے طریقہ کار اور اسلوب کے تحت عمل کیا جائے؟ ٹھیک اسی وجہ سے آج عالم اسلام میں بے شمار سلفی فرقے جیسے تکفیری اور غیرتکفیری، جھادی اور غیرجھادی، سیاسی، تبلیغی وغیرہ معرض وجود میں آ چکے ہیں جن کے بارے میں ھم اگلی فصل میں تفصیل سے جائزہ لیں گے۔ سلفی طرز فکر کی اسی مخصوص خصوصیت کے باعث دنیا کی انٹیلی جنس ایجنسیز اسے ایک کمزوری کے طور پر استعمال کرتے ھوئے نت نئے ناموں والے جدید سلفی فرقے ایجاد کرتی ہیں۔
لیکن سلفیت کے صحیح معنی یہ ہیں کہ ھم حقیقی اسلام کے اصول اور مبادیات میں صالح سلف کے تابع ھو جائیں۔ صالح کی قید اس لئے لگائی ہے کہ ھم امت مسلمہ کے تمام اسلاف کو پیروی کے قابل نھیں جانتے چاھے وہ صحابہ ھوں یا تابعین۔ جیسا کہ قرآن کریم میں بھی خداوند متعال نے بھی بعض صحابہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے کے افراد کو ان کی بعض نافرمانیوں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور بعض موارد میں انھیں لعنت اور نفرین کا حقدار بھی قرار دیا ہے۔
مثال کے طور پر سورہ مبارکہ توبہ کی آیت نمبر 81 میں ارشاد ھوتا ہے: "فرح المخلفون بمقعدھم خلاف رسول اللہ و ۔۔۔۔۔"ترجمہ: "(جنگ تبوک) سے منہ موڑنے والے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت پر خوشحال ھوئے اور وہ اپنے اموال اور جانوں کے ذریعے خدا کے راستے میں جھاد کرنے میں کراھت محسوس کرتے تھے اور ایک دوسرے کو کھتے تھے: اتنی گرمی میں (میدان جنگ کی جانب) نہ جائیں۔ (انھیں) کہہ دو: جھنم کی آگ اس سے بھی زیادہ گرم ہے، اگر تمھیں علم ھو۔" اس کے بعد خداوند متعال ان پر لعنت بھیجتے ھوئے فرماتا ہے: "فلیضحکوا قلیلاً و لیبکوا کثیراً جزاءاً بما کانوا یکسبون۔" ترجمہ: "لھذا انھیں کم ھنسنا چاھئے اور زیادہ گریہ کرنا چاھئے۔"
پس ماضی کے مسلمانوں سے اسلام کے کلی اصول اخذ کئے جانے کے معنی میں سلف صالح کی پیروی میں کوئی حرج نھیں بلکہ بھتر یہ ہے کہ اس عمل کا نام اسلام پسندی رکھا جائے نہ سلفیت۔ لیکن اسلام کے حقیقی احکام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت، اعتقادی اصول اور قرآن کریم کی آیات کی صحیح تفسیر وغیرہ کے اخذ میں صرف صحابہ کا فعل (جب تک اس سے معصوم کا قول حاصل نھیں ھوتا) کوئی حیثیت اور اعتبار نھیں رکھتا لھذا ایسے موارد میں صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اھلبیت اطھار علیھم السلام کا قول، فعل اور تقریر ھی حجت اور معتبر ہے اور اس میں کوئی شک نھیں کہ ان موارد میں سلف صالح سے مراد صرف یھی ھستیاں ہیں۔
تحریر: علی مھدی