سامراجی سیاستدانوں کو بخوبی یہ معلوم تھا کہ اگر عالم اسلام متحد ھوگیا تو اس پرسیاسی اور اقتصادی تسلّط جمانے کا راستہ مسدود ھوجائے گالھذاانھوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ھوا دینے کی ھمہ گیر اور طویل المیعاد کوشش شروع کردی۔
اسلامی اتحاد غدیر کی روشنی میں
رھبر معظم نے مسلمانوں کے درمیان باھمی اتحاد و یکجھتی پر مکمل توجہ رکھنے کو غدیر کا ایک اور عظیم درس قراردیتے ھوئے فرمایا : حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر اسلام نے منصوب کیا تھا لیکن جب انھوں نے یہ دیکھا کہ اپنے حق کا مطالبہ کرنے سے ممکن ہے اسلام کو نقصان پھنچے اور اختلاف پیدا ھوجائے تو آپ نے اس کا نہ صرف دعوی کیا بلکہ وہ لوگ جو اس منصب کے حقدار نہ تھےاورجو زبردستی اور طاقت کے زور پر اسلامی معاشرے پر حکومت کررھے تھے آپ نے ان کے ساتھ مسلسل تعاون کیا کیونکہ اسلام کو اتحاد کی ضرورت تھی اوراسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام نے اس عظيم فداکاری کو انجام دیا ۔
رھبر معظم نے اسی سلسلے میں فرمایا: ایرانی عوام کے پاس آج عالم اسلام میں امامت اور ولایت جیسی قوی ، مضبوط اور مستحکم منطق ہے لیکن وہ اپنے حق کےاثبات کو دوسروں کی نفی میں تلاش و جستجو نھیں کرتی ۔ اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیروی کرتے ھوئے وحدت و یکجھتی کی علمبردار ہے اور تمام اسلامی مذاھب کو اتحاد اور یکجھتی کی طرف دعوت دیتی ہے۔
رھبر معظم نے امت اسلامی کو دشمنوں کے مکروفریب کے مقابلے میں ھوشیار رھنے کی تاکید کرتے ھوئے فرمایا: دشمن عالم اسلام میں اختلاف کا بیج بونے کی ھر ممکن کوشش کررھا ہے ۔اور غدیر کا عظیم درس ، اختلاف اور تفرقہ پیدا کرنے والوں کے خلاف جد وجھد پر مبنی ہے ۔ اور اس عمل کو انجام دینے کے لئے ضروری ہےکہ مسلمان ایک دوسرے کے مقدسات کی اھانت کرنے اور ایک دوسرے کے مذھبی جذبات کو مجروح کرنے سے اجتناب کریں اور جیسا کہ حج کے پیغام میں بیان کیاہے کہ مسلمان مفکرین امت اسلامی کےدرمیان اتحاد اور اسلامی انسجام کو مضبوط و مستحکم بنا کر عالم اسلام " شیعہ اور سنی " کے درمیان اختلاف ڈالنے کے سامراجی طاقتوں کے شوم منصوبوں کو ناکام بنادیں۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلام دشمن عناصراور سامراجی طاقتوں کے مکر وفریب کے بارے میں ایرانی عوام کی آگاھی کو انقلاب اسلامی کی کامیابی کی رمز قراردیتے ھوئے فرمایا: ایرانی عوام کا خداوند متعال کی ذات پر ایمان و توکل ،ذمہ داری کا احساس، دشمن کے ناپاک منصوبوں کے بارے میں مکمل ھوشیاری و آگاھی اورگذشتہ 29 سالوں میں سامراجی طاقتوں کی تمام گھناؤنیسازشوں کے مقابلے میں ایرانی عوام کی کوششوں کوکامیاب قراردیتے ھوئے فرمایا: ان کامیابیوں کو جاری رکھنے کے لئے ھمیں کبھی دشمن کو فراموش نھیں کرنا چاھیے ۔ اور میدان میں اپنے حضور سے غافل بھی نھیں رھنا چاھیے ۔
مسلمانوں میں آپسی دوری دشمن کو اختلاف ڈالنے کا موقع فراھم کرتی ہے
مسلمانوں کی ایک دوسرے سے دوری دشمنوں کو ان کی صفوں میں اختلاف و تفرقہ ڈالنے کاموقع فراھم کرتی ہے امت اسلامیہ مختلف قوموں ، نسلوں اور مذاھب کے ماننے والوں سے تشکیل پائی ہے اور زمین کے حساس اور اھم علاقوں اور الگ الگ جغرافیائی خطّوں میں اس کا آباد ھونا اس کے تنوع اوراس کےعظیم پیکر کے لئے ایک مضبوط نقطہ ثابت ھوسکتا ہے اور اس وسیع و عریض دنیا میں امت اسلامیہ کی مشترکہ ثقافت ، میراث اور تاریخ کو مزید فعال و کارآمد بنایاجاسکتا ہے اور طرح طرح کی انسانی و فطری قابلیتوں و صلاحیتوں کو مسلمانوں کے لئے بروئے کار لایا جاسکتا ہے ۔مغربی سامراج نے اسلامی ملکوں میں داخل ھوتے ہی اسی نکتہ کو مد نظر رکھا اور اس نے تفرقہ انگیز عوامل کو مسلسل اشتعال دلانے کی کوشش شروع کردی ۔
سامراجی سیاستدانوں کو بخوبی یہ معلوم تھا کہ اگر عالم اسلام متحد ھوگیا تو اس پرسیاسی اور اقتصادی تسلّط جمانے کا راستہ مسدود ھوجائے گالھذاانھوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ھوا دینے کی ھمہ گیر اور طویل المیعاد کوشش شروع کردی اوراس خبیثانہ سیاست کی آڑ میں انھوں نے لوگوں کی غفلت اور سیاسی و ثقافتی حکمرانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور اسلامی ملکوں پر اپنا تسلّط جمانا شروع کردیا۔
گذشتہ صدی میں اسلامی ممالک میں حریت پسندانہ تحریکوں کی سرکوبی اور ان ملکوں پر تسلّط جمانے میں سامراجی طاقتوں کی پیشقدمی اور ان میں استبدادی حکومتوں کا قیام یا ان کی تقویت اور ان کے قدرتی ذخائر کی لوٹ کھسوٹ و انسانی وسائل کی نابودی و تباھی اور اس کے نتیجے میں مسلمان قوموں کو علم و ٹیکنالوجی کے قافلے سے پیچھے کردینا یہ سب کے سب سامراجی منصوبے مسلمانوں کےاختلاف و عدم اتحاد کی وجہ سے ممکن ھوئے ہیں جو کبھی کبھی دشمنی ، جنگ و جدال اور برادر کشی پر بھی منتج ھوئے ہیں ۔ اسلامی بیداری کے آغاز سے مغربی سامراج کو سنگین خطرے کا سامنا ھوا ۔ جس کا نقطۂ عروج ایران میں اسلامی جمھوری نظام کا قیام ہے۔
مشرق و مغرب کے سیاسی مکاتب کی شکست اور سامراجی طاقتوں کی اُن اقدار کے غلط ثابت ھونے اور ان کی دھجیاں بکھر جانے سے جنھیں وہ انسانیت کی فلاح و کامیابی کا واحد ذریعہ سمجھتی تھیں مسلمان قوموں کے درمیان اسلامی خود آگھی کی بنیاد مضبوط ھوئی اور اس چراغ الٰھی کو خاموش کرنے اور اس نور کو چھپانے میں استکباری طاقتوں کی پے در پے ناکامیوں نے مسلمان قوموں کے دلوں میں امید کے پودے کو مضبوط و بارآور بنادیا ہے ۔
آج کے فلسطین کو دیکھئے جھاں آج " صھیونی قبضے سے آزادی " کے جامع اصول پر کاربند حکومت بر سر اقتدار آئي ہے اور پھر ماضي میں فلسطینی قوم کی غربت ، تنھائي اور ناتوانی سے اس کا موازنہ کیجئے ، لبنان پر نگاہ ڈالئے جھاں کے دلیر و فداکار مسلمانوں نے اسرائیل کی مسلّح فوج کو شکست دی جسے امریکہ و مغرب اور منافقوں کی پوری مدد حاصل تھی اور پھر اس کا اُس لبنان سے موازنہ کیجئے کہ صھیونی جب چاھتے تھے اور جھاں تک چاھتے تھے کسی مزاحمت کے بغیر آگے تک چلے جاتے تھے ۔
عراق پر نگاہ ڈالئے کہ جس کی غیرت مند قوم نے مغرور امریکہ کی ناک رگڑ دی اور اس کی فوج اور ان سیاستدانوں کو جو کبر و نخوت کے عالم میں عراق پر اپنی مالکیت کا دم بھرتے تھے سیاسی ، فوجی اور اقتصادی دلدل میں پھنسا دیا اور پھر اس کا اس عراق سے موازنہ کیجئے جس کے خونخوار حاکم نے امریکہ کی پشتپناھی سے لوگوں کا جینا حرام کررکھا تھا، افغانستان پر نگاہ ڈالئے کہ امریکہ اور مغرب کے تمام وعدے جھاں فریب اورجھوٹ ثابت ھوئےاور جھاں مغربی اتحادیوں کی غیر معمولی اور بے تحاشا لشکرکشی نے اس ملک کی تباھی و ویرانی اورلوگوں کوغربت زدہ بنانے ان کا قتل عام کرنے اور منشیات کے مافیا گروھوں کو روز بروز مضبوط بنانے کے سواء اور کچھ نھیں کیاہے اور سرانجام اسلامی ملکوں میں جوان معاشرے اور پروان چڑھتی ھوئی نسل پر نگاہ ڈالئے جس میں اسلامی اقدار کا رجحان بڑھ رھا ہے اور امریکہ و مغرب سے نفرت میں روزبروز اضافہ ھورھا ہے ۔
ان تمام واقعات پر نگاہ ڈالنے سے مغربی استکباری طاقتوں اور ان میں سر فھرست امریکہ کی بد بختی اور شکست خوردہ پالیسیوں کی حقیقی تصویر کو مشاھدہ کیا جا سکتا ہے اور یہ تمام واقعات اس بات کی بشارت دے رھے ہیں کہ امت اسلامیہ متحد ھورھی ہے ۔
تفرقہ انگیزی تاریخی گناہ ہے
آج ھر وہ اقدام جو عالم اسلام میں تفرقہ انگیزی کا باعث ھو تاریخی گناہ ہے وہ لوگ جو دشمنانہ طریقے سے مسلمانوں کےایک عظیم گروہ کو بے بنیاد بھانوں سے کافر قرار دے رھے ہیں ، وہ لوگ جو باطل گمان و خیالات کی بنیاد پر مسلمانوں کے کچھ فرقوں کے مقدسات اور مذھبی مقامات کی اھانت کررھے ہیں ، وہ لوگ جولبنان کے ان جانباز جوانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رھے ہیں جو امت اسلامیہ کی سربلندی اور عالم اسلام کے لئے باعث فخرہیں وہ لوگ جوامریکہ اور صھیونیوں کی خوشامد کے لئے ھلال شیعی یا شیعہ بیلٹ کے نام سے موھوم خطرے کی باتیں کررھے ہیں ، وہ لوگ جو عراق میں عوامی اورمسلمان حکومت کو ناکام بنانے کے لئے اس ملک میں بد امنی اور برادر کشی کو ھوا دے رھے ہیں وہ لوگ جو حماس کی حکومت پر ھرطرف سے دباؤ ڈال رھے ہیں جو ملّت فلسطین کی محبوب اور منتخب حکومت ہے وہ لوگ خواہ جانتے ھوں یا نہ جانتے ھوں ایسے مجرم شمار ھوتے ہیں کہ تاریخ اسلام اورآئندہ کی نسلیں ان سے نفرت کریں گی اور انھیں غدار دشمنوں کا پٹھو سمجھیں گی ۔
دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاھئے کہ عالم اسلام کی حقارت و پسماندگی کا دور ختم ھوچکاہے اوراب نئے دور کا آغاز ھوچکا ہے یہ خیال باطل ہے کہ مسلمان ملکوں کو ھمیشہ مغرب کے سیاسی و ثقافتی اقتدار کے پنجہ میں اسیر رھنا ہے اور انفرادی و اجتماعی فکر وگفتار و عمل میں مغرب کی ھی تقلید و پیروی کرنا چاھیے اب خود مغرب والوں کے غرور و تکبرو ظلم و ستم اور انتھا پسندی کی وجہ سے یہ تصور مسلمان قوموں کے ذھنوں سے پاک ھوچکا ہے۔
امت اسلامی کا اتحاد اھم ہے
دوسرانکتہ "ھمارے زمانے میں امت اسلامی کا اتحاد "ہے یہ اھم نکتہ ہے ھم نے نہ صرف انقلاب کے زمانے سے بلکہ انقلاب سے کئی برس قبل شیعہ اور سنی بھائيوں کے دلوں کو نزدیک کرنے اورسب کو اس اتحاد کی اھمیت سے آگاہ کرنے کی غرض سے کوششیں شروع کی تھیں میں نے بلوچستان میں " انقلاب سے برسوں قبل جب میں وھاں شھربدرکرکے بھیجا گياتھا " مرحوم مولوی شھداد کو (جو کہ بلوچستان کے معروف علماء میں سے تھے اور بلوچستان کے لوگ ان کو پھچانتے ہیں،فاضل شخص تھے اس زمانے میں سراوان میں تھے اور میں ایرانشھرمیں تھا)پیغام بھیجا کہ آئيں موقع ہے بیٹھتے ہیں اور اھل سنت و اھل تشیع کے درمیان علمی، حقیقی اور قلبی اور واقعی اتحاد کے اصول بناتے ہیں انھوں نے بھی میری تجویزکاخیر مقدم کیا لیکن بعد میں انقلاب کے مسائل پیش آگۓ،انقلاب کی کامیابی کے بعد ھم نے جو نمازجمعہ کے موضوع پر پھلی کانفرنس کی تھی اس میں مولوی شھداد سمیت اھل سنت کے بعض علماءبھی شریک تھے بحث و گفتگو ھوئي اور ان مسائل پر بھی تبادلہ خیال ھوا۔
تعصبات کی بناپر دوطرح کے عقیدوں کے حامیوں میں اختلاف ھونا ایسا امر ہے جوفطری ہے اور یہ شیعہ و سنی سے مخصوص نھیں ہے خود شیعہ فرقوں اور سنی فرقوں کے مابین ھمیشہ سے اختلافات موجود رھے ہیں تاریخ کا جائزہ لیں دیکھیں گے کہ اھل تسنن کے اصولی اور فقھی فرقوں جیسے اشاعرہ ، معتزلہ جیسے حنابلہ احناف اور شافعیہ کے درمیان اختلاف رھا ہے اسی طرح شیعوں کے مختلف فرقوں کے مابین بھی اختلافات رھے ہیں ،یہ اختلافات جب عام لوگوں تک پھنچتےہیں تو خطرناک رخ اختیارکرلیتے ہیں لوگ دست بہ گریباں ھوجاتے ہیں ،علماء باھم بیٹھتے ہیں گفتگو کرتے ہیں بحث کرتے ہیں لیکن جب علمی صلاحیت سے عاری لوگوں کی بات آتی ہے تو وہ جذبات تشدد اور مادی ھتھیاروں کا سھارالیتے ہیں اور یہ خطرناک ہے ۔دنیا میں یہ ھمیشہ سے ہے مومنین اور خیرخواہ لوگوں نے ھمیشہ کوشش کی ہے کہ اختلافات کاسد باب کریں ،علماء اور سربرآوردہ شخصیتوں کی ھمیشہ یہ کوشش رھی ہے کہ عوام میں تصادم نہ ھونے پائے لیکن حالیہ صدیوں میں ایک اور عامل شامل ھوگیاجو استعمار ہے میں یہ نھیں کھنا چاھتا کہ ھمیشہ شیعہ سنی اختلافات سامراج کی وجہ سے تھے ایسا نھیں ہے مسلمانوں کے جذبات بھی دخیل تھے ،بعض جھالتیں بعض تعصبات بعض جذبات بعض کج فھمیاں دخیل رھی ہیں لیکن جب سامراج میدان میں اترا تو اس نے اختلافات کےحربے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا ۔
اس بناپر آپ دیکھتے ہیں کہ سامراج اور استکبارکے خلاف جدجھد کرنے والی ممتازشخصیتوں نے امت اسلامی کے اتحاد پر بے حد تاکید کی ہے ،آپ دیکھیں سید جمال الدین اسد آبادی رضوان اللہ علیہ المعروف بہ افغانی اور ان کے شاگرد شیخ محمد عبدہ اور دیگرشخصیتوں اور علماءشیعہ سے مرحوم شرف الدین عاملی اور دیگر بزرگوں نے سامراج کے مقابلے میں کس قدر وسیع کوششیں کی ہیں کہ یہ سامراج کے ھاتھ میں یہ آسان وسیلہ عالم اسلام کے خلاف ایک حربے میں تبدیل نہ ھوجائے،ھمارے بزرگ اور عظيم رھنما حضرت امام خمینی(رہ) ابتداء ھی سے امت اسلامی کے اتحاد پر تاکید کیا کرتےتھے سامراج نے اس نقطہ پر آنکھیں جمائے رکھیں اور اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا۔
اختلاف پھیلانے والے نہ شیعہ ہیں نہ سنی
آج عراق میں شیعہ اورسنی کو ایک دوسرے کے خلاف لڑانا چاھتے ہیں پاکستان میں بھی یہ کام کرنا چاھتے ہیں افغانستان میں اگر ممکن ھوتا یہ کام کرنا چاھتےہیں اگر ایران میں انھیں موقع ملے تو ایسا کریں گے جھاں بھی انھیں موقع ملے وہ یہ کام کریں گے ھمیں اطلاع ملی ہےکہ سامراج کے آلہ کار لبنان بھی گۓ ہیں تاکہ شیعہ اورسنی اختلافات پھیلائيں ۔
وہ لوگ جو اختلافات پھیلاتے ہیں وہ نہ شیعہ ہیں نہ سنی، نہ شیعوں سے انھیں کوئي لگاؤ ہے اور نہ سنیوں سے، نہ شیعوں کے مقدسات کو مانتے ہیں اور نہ سنیوں کے ، امریکی صدر بش نے عراق کے شھر سامرا میں حضرت امام علی نقی اور حضرت امام حسن عسکری علیھما السلام کے روضوں میں بم دھماکوں کی طرف اشارہ کرتے ھوئے سلفیوں کو اس کا ذمہ دار قراردیا اور شیعوں کو اس طرح بھڑکایا اور اس میں کامیاب بھی ھوئے ،مقدس روضوں میں بم دھماکے امریکیوں کے سامنے ھوئے تھے ،اسی شھر میں حضرات عسکرییں علیھماالسلام کے روضوں میں بم دھماکے ھوئے تھے جوامریکیوں کے زیرکنٹرول تھے اور امریکہ کی مسلح افواج اس شھرمیں گشت کررھی تھی امریکیوں کی آنکھوں کے سامنے یہ ھوا تھا ،کیا یہ ممکن ہے کہ امریکیوں کی اطلاع کے بغیر امریکیوں کی اجازت کے بغیر اور امریکیوں کی منصوبہ بندی کے بغیر یہ واقعہ ھواھو خود امریکیوں نے یہ کام کیا تھا ۔
واقعہ غدیر، اسلامی اتحاد کا محور؛ رھبر انقلاب کی تقاریر سے اقتباس
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1605