حقیقت انتظار میں ایک اور خصوصیت شامل کر دی گئی ہے اور وہ خصوصیت یہ ہے کہ انسان موجودہ صورت حال پر، اس وقت تک حاصل ھونے والی پیشرفت پر ھی قانع نہ ھو جائے بلکہ روز بروز اس ترقی میں اضافہ، ان حقائق اور روحانی و معنوی صفات کو اپنے اندر اور معاشرے کی سطح پر نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ یہ انتظار کی لازمی باتیں ہیں۔
’’امام زمانہ علیہ السلام سے متعلق عقیدے کا جھاں تک تعلق ہے تو پندرہ شعبان (امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت کی تاریخ) کے قریب ھونے کی وجہ سے اس موضوع پر گفتگو کرنا بھی مناسب معلوم ھوتا ہے، اس سلسلے میں بس اتنا عرض کرنا ہے کہ دینی عقائد اور معارف کی چند اھم ترین بنیادوں میں ایک یہی عقیدہ ہے، جیسے عقیدہ نبوت ہے۔ امام مھدی علیہ السلام سے متعلق عقیدے کی اھمیت اسی طرح کی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ عقیدہ جس چیز کی نوید دیتا ہے وہ وھی شئے ہے جس کے لئے تمام انبیاء و رسل کو مبعوث کیا گیا۔ یہ نصب العین ہے انسان کو اللہ تعالی کی ودیعت کردہ تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ھوئے انصاف کی بنیاد پر توحیدی معاشرے کی تشکیل۔
امام زمانہ علیہ السلام کے ظھور کا زمانہ انھی خصوصیات کا حامل زمانہ ہے۔ یہ توحیدی معاشرے کا زمانہ ھوگا، یہ یکتا پرستی کی بالادستی کا زمانہ ھوگا یہ انسانی زندگی کے گوشے گوشے میں دین و روحانیت کی حقیقی فرمانروائی کا زمانہ ھوگا، وہ انصاف کے مکمل قیام کا زمانہ ھوگا۔ ظاھر ہے کہ انبیائے کرام کو اسی ھدف کے تحت بھیجا گیا تھا۔
میں نے بارھا یہ بات کھی ہے کہ انسانیت نے ان گزشتہ صدیوں کے دوران انبیائے الھی کی تعلیمات کے زیر اثر جو کچھ کیا ہے وہ در حقیقت اس شاھراہ کی جانب بڑھنے کی کوشش ہے جو حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے زمانہ ظھور میں انسانیت کو اعلی اھداف کی جانب لے جائے گا۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے انسانوں کا ایک گروہ پھاڑی راستوں، دشوار گزار پھاڑیوں، دلدلوں، کانٹوں اور رھزنوں سے بھرے راستوں سے کچھ خاص ھستیوں کی تعلیمات کے سھارے آگے بڑھ رھا ہے کہ کسی صورت سے خود کو اس شاھراہ تک پھنچا دے۔ جب یہ کارواں شاھراہ پر پھنچ جائے گا تو پھر راستہ بالکل سیدھا، واضح اور ھموار ھوگا اور اس پر آگے بڑھنا آسان ھوگا۔ کارواں آسودہ خاطر ھوکر اس شاھراہ پر اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے۔ ایسا نھیں ہے کہ شاھراہ پر پھنچ جانے کے بعد سفر ختم ھو جائے گا۔ جی نھیں، اس مرحلے پر پھنچنے کے بعد ھی تو اعلی الھی اھداف کی سمت برق رفتاری سے سفر کا آغاز ھونے والا ہے۔ کیونکہ انسان کی استعداد کبھی نہ ختم ھونے والی استعداد ہے۔
ان گزشتہ صدیوں میں انسانی قافلہ مختلف راستوں، دشوار گزار اور سخت وادیوں سے گزرا ہے، مختلف رکاوٹوں اور مشکلوں سے دوچار ھوا ہے، زخمی بدن اور لھولھان قدموں کے ساتھ ان راستوں پر چلا ہے کہ کسی صورت خود کو شاھراہ پر پھنچا دے۔ یہ شاھراہ وھی امام زمانہ علیہ السلام کے زمانہ ظھور کی شاھراہ ہے۔ ظھور کا زمانہ ھی در حقیقت بشر کے ایک نئے سفر کا نقطہ آغاز ہے۔ اگر مھدویت کا عقیدہ نہ ھو تو اس کا مطلب یہ ھوگا کہ انبیائے الھی کی تمام تر سعی و کوشش، یہ دعوت حق، یہ بعثت رسل، یہ طاقت فرسا جفاکشی، سب کا سب سعی لاحاصل تھا، بے سود تھا۔
بنابریں مھدویت کا عقیدہ ایک بنیادی معاملہ ہے۔ بنیادی ترین الھی معارف کا جز ہے۔ یھی وجہ ہے کہ تمام ادیان الھی میں جھاں تک ھمیں اطلاع ہے ماحصل اور نصب العین کا درجہ رکھنے والے اس عقیدے کا وجود ہے اور وھی حقیقت میں عقیدہ مھدویت ہے۔
البتہ اس عقیدے کی شکلیں الگ الگ اور تحریف شدہ ہیں، اس میں واضح طور پر اس عقیدے کو بیان نھیں کیا گيا ہے۔ اسلام میں امام زمانہ علیہ السلام سے متعلق عقیدہ مسلمہ عقائد میں ہے، یعنی یہ صرف شیعوں سے مختص نھیں ہے۔ تمام اسلامی مکاتب فکر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ سرانجام دنیا میں حضرت مھدی (علیہ الصلاۃ و السلام و عجل اللہ فرجہ ) کے ھاتھوں عدل و انصاف کی حکمرانی قائم ھوگی۔ مختلف حوالوں سے پیغمبر اسلام اور دیگر عظیم ھستیوں کی روایات اس سلسلے میں نقل کی گئی ہیں۔ بنابریں اس میں کسی شک و شبھے کی کوئی گنجائش نھیں ہے۔
اس درمیان شیعوں کا ایک خاصہ یہ ہے کہ مھدویت کا عقیدہ ان کے یھاں ذرہ برابر ابھام سے دوچار نھیں ہے، ان کے نزدیک ایسا پیچیدہ عقیدہ نھیں ہے جو لوگوں کے لئے قابل فھم نہ ھو۔ یہ بالکل واضح اور عیاں مسئلہ ہے جس کا بالکل واضح مصداق ہے۔ ھم اس مصداق کو جانتے ہیں، اس کی خصوصیات سے ھم واقف ہیں، اس ھستی کے آباء و اجداد سے ھم واقف ہیں، ان کے خاندان کو ھم جانتے ہیں، ان کی تاریخ ولادت ھمیں معلوم ہے، اس کی تفصیلات سے ھم آگاہ ہیں۔ اس تعارف میں بھی صرف شیعہ علماء کی روایات نھیں ہیں، غیر شیعہ راویوں کی روایات بھی ہیں جو ان علامات کو واضح کرتی ہیں۔ دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو چاھئے کہ ان روایات پر توجہ دیں تاکہ حقیقت ذھن نشین ھو جائے۔ تو اس عقیدے کی اھمیت کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں دوسروں سے پھلے خود ھمیں گھرا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں محکم اور مدلل علمی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔
﴿امام مھدی کے ظھور کے) انتظار کا مسئلہ بھی مھدویت کے عقیدے کا لازمی جز ہے اور یہ بھی منزل کمال کی سمت امت مسلمہ کی عمومی و اجتماعی حرکت اور حقیقت دین کو سمجھانے میں بنیادی حیثیت رکھنے والے مفاھیم میں ہے۔ انتظار یعنی توجہ، انتظار یعنی ایک یقینی حقیقت پر نظر رکھنا۔ یہ ہے انتظار کا مفھوم۔ انتظار یعنی یہ مستقبل جس کے ھم منتظر ہیں یقینی ہے۔ بالخصوص اس لئے بھی کہ یہ انتظار ایک جیتے جاگتے انسان کا انتظار ہے۔ یہ بھت اھم بات ہے۔ ایسا نھیں ہے کہ کوئی شخص پیدا ھونے والا ہے، منصب وجود پر ظھور پذیر ھونے والا ہے۔ نھیں، وہ ایسی ھستی ہے جو موجود ہے، لوگوں کے درمیان موجود ہے۔
روایتوں میں منقول ہے کہ لوگ انھیں دیکھتے ہیں اور حضرت بھی لوگوں کو دیکھتے ہیں لیکن لوگ آپ کو پھچانتے نھیں۔ بعض روایات میں حضرت یوسف سے تشبیہ دی گئی ہے کہ حضرت یوسف کے بھائی انھیں دیکھ رھے تھے حضرت یوسف ان کے سامنے تھے، ان کے قریب جاتے تھے لیکن وہ انھیں نھیں پھچان پاتے تھے۔ آپ کا وجود اس طرح کی نمایاں، واضح اور حوصلہ افزاء حقیقت ہے۔ یہ حقیقت، انتظار کا صحیح مفھوم سمجھانے میں مدد کرتی ہے۔ بشر کو اس انتظار کی ضرورت ہے اور امت اسلامیہ کو تو بدرجہ اولی اس کی احتیاج ہے۔ یہ انتظار انسان کے دوش پر کچھ فرائض ڈال دیتا ہے۔
جب انسان کو یقین کامل ہے کہ اس طرح کا مستقبل آنے والا ہے، چنانچہ قرآن کی آیات میں بھی اس کا ذکر ہے «و لقدكتبنا فى الزّبور من بعد الذّكر انّ الارض يرثها عبادى الصّالحون. انّ فى هذالبلاغا لقوم عابدين»(1) جو لوگ بندگی پروردگار سے مانوس ہیں، سمجھتے ہیں انھیں چاھئے کہ خود کو آمادہ کریں، منتظر رھیں اور نظر رکھیں۔ انتظار کا لازمہ ہے خود کو آمادہ کرنا۔ اگر ھمیں علم ہے کہ کوئی بڑا واقعہ رونما ھونے والا ہے اور ھم اس کے منتظر ہیں تو کبھی ھم یہ نھیں کھیں گے کہ ابھی تو بڑا طویل عرصہ باقی ہے اس واقعے کے رونما ھونے میں اور نہ ھی ھم یہ کھیں گے کہ یہ واقعہ بالکل نزدیک ہے اور عنقریب رونما ھونے والا ہے۔ ھمیں ھمیشہ منتظر رھنا ھوگا، ھمیشہ نظر رکھنی ھوگی۔
انتظار کا تقاضا یہ ہے کہ انسان خود کو اسی وضع قطع میں ڈھالے اور وھی اخلاق و انداز اختیار کرے جو اس زمانے کے لئے مناسب ہے جس کا اسے انتظار ہے۔ یہ انتظار کا لازمہ ہے۔ جب اس زمانے میں عدل و انصاف کی بالادستی قائم ھونے والی ہے، حق کا بول بالا ھونے والا ہے، توحید و اخلاص و عبودیت پروردگار کا پرچم لھرانے والا ہے، ان خصوصیات کا حامل دور آنے والا ہے تو ھم جو اس کے انتظار کی گھڑیاں گن رھے ہیں خود کو ان صفات سے متصف کرنے کی کوشش کریں۔ ھمیں چاھئے کو عدل و انصاف کے حامی بنیں، خود کو انصاف کے لئے تیار کریں، خود کو حقانیت تسلیم کرنے کے لئے آمادہ کریں۔ انتظار اس طرح کی حالت پیدا کر دیتا ہے۔
حقیقت انتظار میں ایک اور خصوصیت شامل کر دی گئی ہے اور وہ خصوصیت یہ ہے کہ انسان موجودہ صورت حال پر، اس وقت تک حاصل ھونے والی پیشرفت پر ھی قانع نہ ھو جائے بلکہ روز بروز اس ترقی میں اضافہ، ان حقائق اور روحانی و معنوی صفات کو اپنے اندر اور معاشرے کی سطح پر نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ یہ انتظار کی لازمی باتیں ہیں۔
بحمد اللہ اس وقت انتظار کے موضوع پر عالمانہ انداز میں کام کیا جا رھا ہے۔ انتظار کے مسئلے میں باریک بینی کے ساتھ عالمانہ انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں عامیانہ اور جاھلانہ باتوں سے بھت سختی سے پرھیز کرنا چاھئے۔ جو چیزیں خطرناک ھو سکتی ہیں ان میں یھی عامیانہ، جاھلانہ، معرفت سے عاری اور معتبر سند کے بغیر امام زمانہ علیہ السلام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سلسلے میں بحث کرنا ہے۔ کیونکہ اس طرح مھدویت کے جھوٹے دعویداروں کے لئے زمین ھموار ھوتی ہے۔ غیر عالمانہ، غیر معتبر، پختہ دلائل اور سند سے عاری بحث در حقیقت وھم و خیال ہے۔ اس طرح کی باتیں لوگوں کو حقیقی انتظار سے دور کر دیتی ہیں اور دجال صفت دروغگو لوگوں کے لئے راستہ کھل جاتا ہے۔ لھذا ان باتوں سے سختی کے ساتھ اجتناب کرنا چاھئے۔
تاریخ میں بھت سے دعویدار پیدا ھوئے ہیں۔ یہ دعویدار ظھور کی کسی ایک علامت کو اپنے اوپر یا کسی اور پر منطبق کر لیتے تھے۔ یہ سراسر غلط عمل ہے۔ بعض باتیں جو ظھور امام زمانہ علیہ السلام کی علامات کے طور پر بیان کی جاتی ہیں حتمی نھیں ہیں۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو معتبر روایات میں مذکور نھیں ہیں۔ ضعیف روایتوں میں ان کا ذکر ضرور ملتا ہے لھذا ان پر اعتبار نھیں کیا جا سکتا۔ جو علامتیں معتبر ہیں ان کے لئے بھی صحیح مصداق کی تلاش کرنا کارے دارد۔
تاریخ میں مختلف ادوار میں کچھ لوگ شاہ نعمت اللہ ولی کے اشعار کو مختلف لوگوں پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ چیز تو میں نے خود بھی دیکھی ہے۔ یہ درست نھیں ہے۔ یہ گمراہ کن باتیں ہیں، یہ غلط راستے پر لے جانے والے کام ہیں۔ جب انحراف اور گمراہ کن باتیں شروع ھو جاتی ہیں تو حقیقت متروک ھوکر رہ جاتی ہیں، مشتبہ ھو جاتی ہیں۔ عوام الناس کے اذھان کی گمراھی کا راستہ ھموار ھوتا ہے۔ لھذا عامیانہ کاموں سے اجتناب، عامیانہ افواھوں پر سکوت سے اجتناب بھت ضروری ہے۔ عالمانہ، مدلل، معتبر سند پر استوار کام جو اھل فن کا کام ہے، ھر کسی کے بس کی بات نھیں ہے، اس کے لئے اھل فن کی ضرورت ھوتی ہے، علمائے حدیث کی ضرورت ھوتی ہے، علم رجال کے ماھر افراد کی ضرورت ھوتی ہے جو سند کو پھچانتے ھوں، اھل نظر ھوں، باخبر لوگ ہیں، حقائق سے آشنا ھوں، ایسے لوگ ھی اس وادی میں قدم رکھ سکتے ہیں اور علمی تحقیق کر سکتے ہیں۔
اس پھلو کو جھاں تک ممکن ہے زیادہ سے زیادہ سنجیدگی اور توجہ سے انجام دیا جائے تا کہ لوگوں کے لئے راستہ کھلے۔ دل اس عقیدے سے جتنے محرم ھوں گے، مانوس ھوں گے، حضرت کا وجود مبارک ھمارے لئے جو زمانہ غیبت میں زندگی بسر کر رھے ہیں جتنا زیادہ قریب اور قابل ادراک ھوگا، حضرت سے ھمارا رابطہ جتنا زیادہ قوی ھوگا ھماری دنیا کے لئے، اعلی اھداف کی جانب ھماری پیش قدمی کے لئے اتنا ھی زیادہ بھتر ھوگا۔
مختلف زیارتوں میں ھم جو توسل کا انداز دیکھتے ہیں جن میں بعض کی سند بھی بھت معتبر ہے، ان کی بھت اھمیت ہے۔ حضرت سے توسل، آپ کی سمت توجہ، آپ سے انسیت۔ اس انسیت سے مراد یہ نھیں ہے کہ کوئی یہ کھے کہ میں تو حضور کو دیکھتا ھوں، آپ کی صدائے مبارک کو سنتا ھوں۔ ھرگز نھیں، ایسا نھیں ھوتا۔ اس طرح کی باتیں جو کھی جاتی ہیں ان میں بیشتر یا تو جھوٹ پر مبنی ھوتی ہیں یا وہ شخص جھوٹ نھیں بول رھا ھوتا ہے بلکہ اپنے تصورات اور تخیلات کے زیر اثر اس طرح کی باتیں شروع کر دیتا ہے۔ ھم نے ایسے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے جو جھوٹ بولنے والے انسان نھیں تھے بلکہ اپنی خیالی باتوں کے زیر اثر تھے۔ اپنی ان خیالی باتوں کو لوگوں کے سامنے حقیقت کے طور پر پیش کرتے تھے۔ ان باتوں سے متاثر نھیں ھونا چاھئے۔ صحیح راستہ منطقی اور دلیلوں کا راستہ ہے۔ توسل اور امام سے راز و نیاز کا جھاں تک سوال ہے تو یہ عمل، انسان دور سے انجام دیتا ہے۔ امام علیہ السلام اسے سنتے ہیں اور التجا کو قبول بھی کرتے ہیں۔ ھم اپنے مخاطب سے جو ھم سے دور ہے کچھ حال دل بیان کرتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نھیں ہے۔
اللہ تعالی سلام کرنے والوں اور پیغام دینے والوں کا پیغام اور سلام حضرت تک پھنچاتا ہے۔ یہ توسل اور یہ روحانی انسیت فعل مستحسن اور لازمی امر ہے۔ دعا کرتا ھوں کہ اللہ تعالی حضرت کے ظھور کو زیادہ سے زیادہ نزدیک کر دے۔ ھمیں ان بزرگوار کے ناصرین میں قرار دے۔ زمانہ غیبت میں بھی اور زمانہ ظھور میں بھی، ھمیں حضرت کی قیادت میں جھاد کرنے والوں میں قرار دے اور اسی جھاد میں جام شھادت نوش کرنے والوں میں ھمیں شامل فرمائے‘‘۔
انتظار کا صحیح مفھوم، امام خامنہ ای کی نگاہ میں
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1525