کیا ایسا نھیں ہے کہ جو شخص دنیا کی سب سے خوبصورت موجود کا منتظر ہے، وہ اپنے وجود کو خوبیوں سے آراستہ کرتا ہے اور خود کو برائیوں اور اخلاقی پستیوں سے دور رکھتا ہے؟! نیز انتظار کے لمحات میں اپنے افکار و اعمال کی حفاظت کرتا رھے، اگر ایسا نہ ھو تو انسان آھستہ آھستہ برائیوں کے جال میں پھنس جائیگا اور اس کے اور اس کے امام کے درمیان فاصلہ زیادہ ھوتا جائیگا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو خود خطرات سے آگاہ کرنیوالے امام عليہ السلام کے کلام میں بیان ھوئی ہے: "فَمَا یَحْبِسُنَا عَنھم الاَّ مَا یَتَّصِلُ بِنَا مِمَّا نُکْرِھہْ وَلاٰ نُوُثِرُہُ مِنْھُم"۔ کوئی بھی چیز ھمیں ھمارے چاھنے والوں سے جدا نھیں کرتی، مگر خود ان کے وہ (بُرے) اعمال جو ھمارے پاس پھنچتے ہیں، جن اعمال کو ھم پسند نھیں کرتے اور نہ ھی ایسے کاموں کی ھمیں اپنے شیعوں سے توقع ہے۔
اخلاق، قرآن و حدیث کی روشنی میں:
"وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیمٍ" (سورۂ قلم/٤) رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خطاب کیا جا رہا ہے کہ اے میرے حبیب! آپ خُلق عظیم پر فائز ہیں، اس آیت میں خلق سے مراد "اخلاق اور حسن سیرت" کو لیا گیا ہے۔ اچھا اخلاق، اعلٰی نفسیات کا مالک ہونے کی علامت ہے اور فکر و عقل میں اعلیٰ توازن رکھنے والا ہی اعلیٰ نفسیات کا مالک ہوتا ہے۔ ُخلق عظیم کا مالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عقل عظیم کا مالک ہے۔ اس طرح مخلوق اول، عقل ہو یا نور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، بات ایک ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے: "اِنَّمَا بُعْثِتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ" (مستدرک الوسائل ۱۱: ۱۸۷) میں اخلاق حمیدہ کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ لہٰذا جو ذات اخلاق حمیدہ کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوئی ہے، وہ خود اخلاق حمیدہ ہی کی تکمیل کا مظہر نہ ہوگی بلکہ الٰہی اخلاق کا بھی مظہر ہوگی۔
پروردگار اپنے محبوب کے بارے میں جس طرح گویا ہوا، اللہ کا محبوب اپنی نسل سے آنے والے نجات دھندہ کے اوصاف کو یوں بیان کرتے ہیں: "مہدی میری نسل سے ہے، اس کا نام میرا نام ہے، اس کی کنیت میری کنیت ہے، وہ مجھ سے شکل و صورت اور اخلاق میں سب سے زیادہ مشابہ ہے۔" (فرائد السمطین (شیخ حموئی شافعی) ۲/ ۳۳۵۔۳۳۴ ، ح ۵۸۶، ینابع المودۃ، باب ۹۴ / ۴۸۸۔۴۹۳) اور اللہ اپنے بھیجے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام کے بارے میں اس طرح قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے: "وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡھَوٰی O اِنۡ ھُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی" (سورہ نجم ، ۴۔۳) وہ خواہش سے نہیں بولتا، یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (اس پر) نازل کی جاتی ہے۔
اخلاقی معاشرہ:
مھدویت سے مراد وہ عقیدہ ہے کہ جس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ طاہرین کی روایات کے مطابق امام مہدیؑ دنیا سے ظلم کا خاتمہ کریں گے اور ایک ایسی حکومت قائم کریں گے کہ جس میں عدل و انصاف کی بالا دستی قائم ہوگی، حق کا بول بالا ہوگا، توحید و اخلاص اور عبودیت پرورگار کا پرچم لہرائے گا۔ یعنی ہم ایک ایسی عالمی حکومت کے انتظار میں ہیں، جو اعلٰی اخلاقیات سے بھرپور معاشرہ سے تشکیل پائے گی۔ جس کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: "سود، بدکاری، شراب نوشی اور ریاکاری کا خاتمہ ہوگا۔ لوگ عبادت پر توجہ دیں گے، دین و شریعت کا خیال کریں گے، نماز باجماعت ادا کریں گے۔ ان کی عمریں طولانی ہوں گی، ایک دوسرے کی امانتیں ادا کریں گے، درخت پھلوں سے لدے ہوں گے، برکتیں کئی گناہ ہو جائیں گی، اشرار ہلاک ہو جائیں گے، نیکوکار باقی رہیں گے اور اہل بیت علیہم السلام سے بغض رکھنے والا کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔" (عقد الدرر: باب ۷/ ۱۵۹)۔ اگر ہم ایسے معاشرے کے خواہشمند ہیں تو ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینا ہوگا، یعنی عمل ہی ہے جو انسان کے باطنی اخلاق کو واضح کرتا ہے۔ یعنی دیکھنے والے کو بتانا نہ پڑے کہ میں امام مہدیؑ کا منتظر ہوں بلکہ میرا اخلاق بتائے کہ میں مہدویت کا داعی ہوں۔
حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ہیں: "مَنْ سَرَّہ ان یَکُونَ مِن اصحَابِ القَائِمِ فَلْیَنْتَظِرُ و لْیَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الاَخْلاَقِ وَ ہُوَ مُنْتَظِر" (غیبت نعمانی، باب١١، ح ١٦، ص٢٠٧) جو شخص یہ چاہتا ہو کہ حضرت قائم عليہ السلام کے مدگاروں میں شامل ہو تو اسے منتظر رہنا چاہیئے اور انتظار کے دوران تقویٰ، پرہیزگاری اور اخلاق حسنہ سے آراستہ ہونا چاہیئے۔ اگر ہم مہدویت کا غور سے مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ تصور مہدویت تو اخلاقیت کا ایسا مجموعہ ہے، جس کا عروج خود پیغمبر اکرم ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ عقیدہ مہدویت انسان کی زندگی پر کافی حد تک اثر انداز ہوتا ہے اور جیسے جیسے ہم امام مہدی (عج) کی سیرت اور ان کی عالمی حکومت کے بارے میں قرآن و احادیث اور آئمہ کرام (ع) کے ذریعے جانتے جائیں، اتنی ہی اس کی طرف کشش پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ اخلاق خود اپنے اندر ایک مقناطیسی قوت رکھتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام اتنا تلوار سے نہیں پھیلا، جتنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ سے پوری دنیا میں تیزی سے پھیلا۔ لہٰذا یہ تصور مہدویت کے لیے ضروری ہے کہ اخلاقیات کو ہم اپنا لبادہ بنا لیں اور اس عالمی حکومت کے لیے تیار ہو جائیں۔ ذیل میں ہم کچھ اخلاقی پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جس سے مہدویت کے اخلاق پر اثرات مزید واضح و آشکار ہو جائیں گے۔
خدا اور حجت خدا کی معرفت:
انسان کا نفس اسے اپنے بنانے والے کی طرف کھینچتا ہے، جو کہ اس کا رب ہے، وہی مہربان خدا جس نے ہم پر اپنے کرم کی بنا پر اس زمین کو حجت سے خالی نہیں رکھا، کیا انسان کی گردن پر اس رب کا حق نہیں کہ وہ اس کو اور اس کی حجت کی معرفت اور شناخت حاصل نہ کرے۔ لہٰذا معرفت اور شناخت کے بعد ہی ممکن ہے کہ انسان معاشرے میں اپنے اخلاقی کردار کے ساتھ حجت خدا کے لیے زمینہ ہموار کرے اور حجت خدا کے ساتھیوں میں شمار ہو۔ امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے: "امام مہدی علیہ السلام کے اصحاب کے دلوں میں ذات خدا کے بارے میں کسی قسم کا شک نہیں ہے۔" (بحار، ج۵۲، ص۳۰۷، ح۸۲.)۔ امام سجاد علیہ السلام سے نقل ہونے والی ایک روایت میں غیبت کے دور میں انتظار کرنے والے مؤمنین کی صفات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: "وہ امام زمانہ علیہ السلام کی امامت پر عقیدہ رکھنے والے ہوں گے۔" (کمال الدین، ج۱، ب۳۱، ح۲.) اور اس اعتقاد کا سرچشمہ عقل اور فہم ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے مزید فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل، فہم اور ایسی معرفت عطا کی ہے کہ ان کے نزدیک غیبت مشاہدہ کے قائم مقام ہے۔"
نماز، اخلاق کا منبع:
امام زمانہ علیہ السلام سے صادر ہونے والی توقیع میں آیا ہے: "نماز سے زیادہ کوئی عمل شیطان کی ناک کو خاک میں نہیں رگڑتا، پس نماز پڑھو اور اس کی ناک کو خاک میں رگڑو۔‘‘ (بحارالانوار، ج۳، ص۱۸۲.) ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: "اللہ تعالیٰ کی رحمت، اس شخص سے دور ہے، جو ستاروں کے ظاہر ہونے تک نماز مغرب اور ستاروں کے پوشیدہ ہونے تک نماز صبح میں تأخیر کرتا ہے۔" (بحارالانوار، ج۵۲، ص۱۵، ح۱۳.) امام کی نماز کے بارے اتنی تاکید کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہ برائیوں کی وہ جڑ ہے، جس کی وجہ سے انسان اخلاق کے دائرہ سے کوسوں دُور چلا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں خداوند اس کو یوں بیان فرماتا ہے: "اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ"۔ نماز قائم کریں، یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ (سورہ عنکبوت، ۴۵)
انفرادی اور اجتماعی اصلاح:
امام مھدی ﴿عج﴾ کے ساتھیوں میں شامل ہونے کے خواہشمند کے لیے لازم ہے کہ وہ انفرادی سطح پر اپنے نفس کی اصلاح اور خود کو ناپسند عادات و اخلاق سے پاک کرکے اچھے اور نیک عادات و اخلاق حسنہ سے زینت بخشنا ہے، چونکہ ایک واقعی منتظر ولی خدا کو ہمیشہ حاضر و ناظر دیکھتا ہے اور ہمیشہ اس کوشش میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے عمل و کردار کے ذریعے ان کی تقرب اور رضایت حاصل کرتا ہے، تاکہ اپنے حقیقی محبوب کو راضی کرسکے۔ جب انسان انفرادی سطح پر اپنے نفس کی اصلاح کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے دوسرا مرحلہ کا آغاز ہوتا ہے، اس کو چاہیئے کہ اب وہ اجتماعی سطح پر یعنی معاشرہ کی اصلاح لیے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ امام زمانہ علیہ السلام ایک خط میں فرماتے ہیں: "ہم نے تمہیں بے سہارا نہیں چھوڑا ہے اور تمہیں نہیں بھلایا ہے۔" (بحارالانوار، ج۵۳، ص۱۷۴، ح۷.)
یہ قدرتی بات ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو امام کا پیروکار اور مرید جانتا ہے، اسے چاہیئے کہ وہ امام کی طرح عمل بھی کرے اور ہمیشہ مصلح کُل کے ظہور کے لئے زمینہ فراہم کرنے کی فکر میں ہو اور چونکہ اسے یقین ہے کہ آخرکار اس اطمینان کا مالک و حاکم خدا کے صالح بندے ہوں گے اور قدرت پلٹ کر صاحب قدرت کے ہاتھ آئے گی تو اصلاح کی راہ میں پیش آنے والی دشواریوں اور سختیوں کے سامنے کبھی دلبرداشتہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ظالموں اور طاغوتی طاقتوں کے مقابلہ کرنے میں خوف و ہراس اس کے دل میں بیٹھ سکتا ہے۔ جیسا کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: "مَنْ ثَبَتَ عَلَى مُوَالاَتِنَا فِي غَيْبَةِ قَائِمِنَا أَعْطَاهُ اَللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَجْرَ أَلْفِ شَهِيدٍ مِثْلَ شُهَدَاءِ بَدْرٍ وَأُحُدٍ"؛ جو شخص ہمارے قائم (ع) کی غیبت کے زمانے میں ہماری پیروکاری پر ثابت قدم رہے، خداوند متعال اس کا اجر بدر اور احد کے شہداء کی سطح کے ہزار شہیدوں کے برابر قرار دیتا ہے۔ (الکلینی، الکافی، ج1، ص368-369)؛
اخلاق کی تکمیل:
امام باقر علیہ السلام فرماتےہیں: "ذَا قَامَ قَائِمُنَا وَضَعَ يَدَهُ عَلَى رُءُوسِ اَلْعِبَادِ فَجَمَعَ بِهَا عُقُولَهُمْ وَ أَكْمَلَ بِهَا أَخْلاَقَهُمْ" جب ہمارے قائم قیام کریں گے، اپنا ہاتھ ان کے سروں پر رکھیں گے اور ان کے عقول کو جمع کر دیں گے اور ان کے اخلاق کو کمال تک پہنچا دیں گے۔ (اصول کافی/ترجمہ، جلد 1، ص 40، الشافی فی العقائد و الاخلاق و الاحکام، جلد 1، ص 336)۔ اس کنایہ آمیز تعبیر سے استفادہ ہوتا ہے کہ امام زمان ؑکی حکومت میں عقل اور اخلاق کمال تک پہنچیں گے، یہ وہی وعدہ ہے جو حضرت مہدی (عج) کی حکومت میں پورا ہوگا، جسے کسی حکومت نے انسانیت کو ایسا تحفہ پیش نہیں کیا۔ اس مختصر مقالے میں اس وسیع موضوع کا خلاصہ کرنے کے لیے اگر ہم روایات و احادیث کی روشنی میں امام مہدی علیہ السلام کا بعد از ظہور اپنے ساتھیوں سے لیے گئے وعدے پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں مہدویت کے اخلاق پر ہونے والے اثرات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
حضرت امام مھدی علیہ السلام کی اپنے انصار سے 30 شرطیں:
حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: حضرت مہدی علیہ السلام اپنے 313 انصار سے فرمائیں گے، میں اس وقت تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کروں گا، جب تک تم لوگ ان صفات پر میری بیعت نہ کرو اور اس کی پابندی نہ کرو اور اس میں سے کسی بھی چیز میں رَد و بدل نہ کرو اور تمہارے تعلق سے میرے ذمہ آٹھ (8) باتیں ہیں۔ لوگ کہیں گے: ہم نے آپؑ کی سب شرطیں قبول کیں اے فرزندِ رسولؐ! آپؑ وہ شرائط بیان فرمائیں۔ پھر وہ ان کے ہمراہ کوہِ صفا پر تشریف لائیں گے اور فرمائیں گے۔ وہ شرطیں یہ ہیں: 1۔ رُو گردانی نہیں کرو گے، 2۔ چوری نہیں کروگے، 3۔ بدکاری نہیں کرو گے، 4۔ کسی کو بےجا قتل نہیں کرو گے، 5۔ بُرے کام انجام نہیں دو گے، 6۔ بلاوجہ کسی کو نہیں مارو گے، 7۔ سونا چاندی ذخیرہ نہیں کرو گے، 8۔ گیہوں اور جو ذخیرہ نہیں کرو گے، 9۔ یتیم کا مال نہیں کھاؤ گے، 10۔ جھوٹی گواہی نہیں دو گے۔
11۔ کسی مسجد کو خراب نہیں کرو گے، 12۔ کسی مسلمان کو بُرا بھلا نہیں کہو گے، 13۔ کسی مزدور پر بلا وجہ لعنت نہیں کرو گے، 14۔ شراب نہیں پیو گے، 15۔ سودی کاروبار نہیں کرو گے، 16۔ ناحق خون نہیں بہاؤ گے، 17۔ پناہ گزین کو دھوکہ نہیں دو گے، 18۔ کسی کافر اور منافق کو چھوڑو گے نہیں، 19۔ موٹا کپڑا پہنو گے، 20۔ مٹی کو تکیہ بناؤ گے، 21۔ اس پر رُخسار رکھو گے، 22۔ خدا کی راہ میں جہاد کا حق ادا کرو گے، 23۔ گالی نہیں دو گے، 24۔ گندگی کو ناپسند کروگے، 25۔ معروف کا حکم دو گے، 26۔ اور منکر سے منع کرو گے۔۔۔۔ سب لوگ یک زباں ہوکر کہیں گے: ہم سب راضی ہیں اور ان باتوں پر آپؑ کی پیروی کرتے ہیں۔ـ پھر وہ (امامؑ) ایک ایک سے مصافحہ کریں گے۔ (عقد الدرر: باب۴، فصل ۴، ص ۹۷ ۔ ۹۶)۔ واقعاً جو شخص تقویٰ، عبادت، سادگی، سخاوت، صبر اور تمام اخلاقی فضائل میں اپنے امام کی پیروی کرے تو اس الٰہی رہبر کے نزدیک ایسے شخص کا رتبہ کس قدر بلند ہوگا اور ان کے حضور میں شرفیابی سے کس قدر سرفراز اور سربلند ہوگا؟!
کیا ایسا نہیں ہے کہ جو شخص دنیا کی سب سے خوبصورت موجود کا منتظر ہے، وہ اپنے وجود کو خوبیوں سے آراستہ کرتا ہے اور خود کو برائیوں اور اخلاقی پستیوں سے دور رکھتا ہے؟! نیز انتظار کے لمحات میں اپنے افکار و اعمال کی حفاظت کرتا رہے، اگر ایسا نہ ہو تو انسان آہستہ آہستہ برائیوں کے جال میں پھنس جائے گا اور اس کے اور اس کے امام کے درمیان فاصلہ زیادہ ہوتا جائے گا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو خود خطرات سے آگاہ کرنے والے امام عليہ السلام کے کلام میں بیان ہوئی ہے: "فَمَا یَحْبِسُنَا عَنہُم الاَّ مَا یَتَّصِلُ بِنَا مِمَّا نُکْرِہُہْ وَلاٰ نُوُثِرُہُ مِنْہُم" (بحار الانوار ج٥٣،ص ١٧٧) کوئی بھی چیز ہمیں ہمارے چاہنے والوں سے جدا نہیں کرتی، مگر خود ان کے وہ (بُرے) اعمال جو ہمارے پاس پہنچتے ہیں، جن اعمال کو ہم پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ایسے کاموں کی ہمیں اپنے شیعوں سے توقع ہے۔ اخلاق سے مزّین افراد کی ہمیشہ یہ آرزو ہوگی کہ امام مہدی عليہ السلام کی عادلانہ عالمی حکومت کی تشکیل میں کچھ حصہ ان کا بھی ہو اور اس آخری حجت خدا کی نصرت و مدد کا فخر ان کو بھی حاصل ہو۔ ان شاء اللہ وہ رَب کریم ہم سب کو اُس نجات دھندہ کے انصار ین میں شامل کرے۔(آمین)
تحریر: سید ندا حیدر
مھدویت کا اخلاق پر اثر
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1031