www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

306554
15 شعبان کی رات کو شب برات سے تعبیر کیا جاتا ہے، یہ شب مختف ممالک میں مسلمان اپنے اپنے انداز میں مناتے ہیں۔ اس شب مختلف مقامات پر جشن کا انعقاد و مختلف اعمال انجام دیئے جاتے ہیں۔ اس تحریر میں ھم برات کے مفھوم، اس میں انجام دیئے جانے والے مختلف اعمال اور اس شب کی حقیقت پر بحث کریں گے۔
برأت کے لغوی معنی:
"برأت" کے لغوی معنی بیزاری و دوری کے ہیں، جب انسان کو کسی شئی کی ھمراھی قابل قبول نا ھو تو وہ اس سے بیزاری و دوری کا اعلان کرتا ہے..۔۔۔۔
برأت کے اصطلاحی معنی:
ھر اس عمل، فکر، فرد، معاشرہ، گروہ، راہ و نظام سے بیزاری و دوری اختیار کرنا جو پروردگار عالم و اس کے مبعوث شدہ انبیاء و آئمہ کے پیش کردہ آئین و دستور سے ھٹ کر کوئی آئین و دستور زندگی و تفکر پیش کرے۔ دین اسلام نے اس لفظ کو لیا اور اسے اپنے معانی پھنائے، وہ دین جو بشریت کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت ھو اس کے لئے نظام رکھتا ہے،جو کہ درحقیقت خالق کائنات کی طرف سے آئین و منشور زندگی ہے۔
برأت حکم قرآنی:
پروردگار عالم نے مسلمانوں و مومنین کو تاکید کی ہے کہ وہ مشرکین، کفار و اھل کتاب سے بیزاری و دوری اختیار کریں، پس ھم پر لازم ہے کہ مفھوم برأت کو درست سمجھیں وگرنہ ایسا نا ھو کہ شب برأت منانے کے باوجود ھم خود اس صف میں کھڑے ھوں کہ جن سے برات کی یہ شب ہے اور اس خوش فھمی میں ھوں کہ ھم بھی اھل شب برات میں سے ہیں اور درحقیقت معصیت پروردگار میں مبتلا ھوں...
تولی و تبری:
تولی و تبری فروع دین میں سے ہیں، تولی کا مطلب یعنی داعیان حق سے محبت و تبری سے مراد داعیان باطل سے دوری و بیزاری کا اظھار، البتہ یہ محبت و دوری کا اظھار فقط زبانی نا ھو بلکہ یہ ھماری زندگی و اس سے متعلقہ امور میں بھی نظر آئے۔ تبری سے مراد گالم گلوچ یا مسلمانوں کے درمیان فتنہ ایجاد کرنے کا نام نھیں ہے جو کہ ھمارے معاشرے میں رائج ہے بلکہ راہ و نظام، عمل و رھبران باطل سے دوری و نظام حق کی برپائی و اس کے قیام کے لئے زمینہ سازی کرنا ہے۔
آیت برأت:
ھجرت کے نویں سال اللہ تعالی نے آیات برات نازل فرمائیں، اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و مسلمین کو یہ حکم دیا کہ وہ مشرکین، کفار، اھل کتاب و منافقین سے لاتعلقی و دوری اختیار کریں... "بَرَاءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ" (سورہ توبہ آیہ 1) ان آیات کے نزول کی متعدد وجوہات تھیں جن میں سے دو کا ھم ذکر کریں گے۔
1۔ مسلمانوں کی وحدت کو حفظ کرنا و تازہ مسلمانوں کو ان تبلیغات سے پاسداری کرنا تھا جو منافقین و مشرکین اسلام کی بابت کرتے تھے۔
2۔ مشرکین و اھل کتاب کا بار بار پیمان و عھد شکنی کرنا ایک وجہ تھی ان آیات کے نزول میں، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ سے قبل عربوں کے مختلف قبائل و اھل کتاب کے ساتھ صلح و جنگ نا کرنے کا معاھدہ کیا تھا، جس پر انھوں نے بارھا پیمان شکنی کی۔ ھم جو شب برات بعض اعمال انجام دیتے ہیں ان میں سے دو کا ذکر کریں گے..
١۔ پٹاخے پھاڑنا:
اس رات ھمارے ہاں پٹاخے بازی کی جاتی ہے جو کہ ایک مذموم عمل ہے بجائے یہ کہ ھم اس دن روح شب برات کو زندہ کریں، اس طرح کی الٹی سیدھی حرکات انجام دیتے ہیں جو بجائے اس کے کہ ھمیں کوئی فائدہ نھیں پھنچاتیں اور صرف پیسوں کا زیاں ہیں، یہ عمل دوسروں کے لئے بھی اذیت و ناراحتی کا باعث بنتا ہے جو کہ گناہ ہے، حقوق العباد ھمیں اس بات کی اجازت نھیں دیتے کہ اس طرح کی بے تکی حرکات انجام دیں جس کی کوئی شرعی و عقلی سند نا ھو۔
۲۔ عریضہ نویسی:
ہم اس پر بحث نھیں کریں گے کہ یہ کرنا درست ہے کہ نھیں ہے، بس صرف اس طرف توجہ مبذول کروانا ہے کہ ہم اپنے امام سے کن چیزوں کا تقاضا کرتے ہیں، عموما جو لوگ نامہ لکھتے ہیں وہ اپنی ذاتی خواھشات کی برآوری کی درخواست کرتے ہیں، کسی کو بچہ نھیں ھو رھا تو وہ بچے کی درخواست، پسند کی لڑکی یا لڑکے کے مل جانے کی درخواست، ملازمت کے حصول کی درخواست، مقام و مرتبے کی درخواست یا اور اسی طرح کی خواھشات کا اظھار کرتے ہیں۔ اسی چیز سے ھماری معرفت کا اندازہ ھو جاتا ہے کہ ہم معرفت کے اعتبار سے کس مقام پر ہیں۔ بجائے اس کے کہ امام کی نصرت کا وعدہ کرنے، ان کے ظھور کے لئے زمینہ سازی و معاشرے کو آمادہ کرنے، باطل نظاموں کی سرکوبی و نظام الٰھی کے نفاذ کا ارادہ کرنے کے ھم اپنی ذاتی خواھشات پیش کرتے ہیں، زیارات آئمہ معصومین علیھم السلام پر بھی جاتے ہیں تو ہم یھی تقاضے دھراتے ہیں جبکہ وہ مقامات شعور کے مراکز ہیں، جھاں سے بابصیرت انسانوں کو شعور ملتا یے، لیکن ھم فقط اپنی خواھشات کا تذکرہ کرتے ہیں۔
مناجات و عبادات:
اس روز مختلف اعمال و مناجات ذکر ھوئیں ہیں، غسل کرنا، نماز، دعا و استغفار کرتے ھوئے شب بیداری کرنا، دعائے کمیل کا پڑھنا، زیارت امام حسین علیہ السلام کا پڑھنا و مختلف دعائیں و اعمال جو مفاتیح میں ذکر ہیں۔
فلسفہ شب برأت:
پروردگار نے اس رات کو ھمارے لئے ایک فرصت قرار دی ہے تاکہ ہم ان اعمال سے بیزاری و دوری کا اظھار و ارادہ کریں جو تعلیمات اسلامی کے منافی ہیں، ہر اس سوچ و تفکر سے دوری کا اعلان کریں جو مکتب اسلام کے مخالف ہیں، ہر اس نظام و حاکم سے اظھار لاتعلقی کریں جو نظام و حاکم الٰھی نہیں ہے۔
اس رات ھم اپنے امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف سے عھد کریں کہ ھم آج سے نظام امامت و ولایت کے پوری دنیا پر نافذ کرنے کے لئے زمینہ سازی کرنے کو آمادہ ہیں، وگرنہ فقط چند رسومات انجام دینا یا جشن کا انعقاد کرنا کافی نھیں بلکہ اس شب کی روح کو احیاء کرنا حقیقی شب برات ہے۔ خالق جھان سے دعاگو ہیں کہ وہ ھمیں اس شب کی معرفت عطا فرمائے و اسے حقیقی طور پر احیاء کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین﴾
تحریر: مظفر حسین کرمانی

Add comment


Security code
Refresh