جاثیہ تجزیاتی ویب سائٹ کے مطابق، سید حسین شیرازی کی گرفتاری کے بعد شیرازی طرز فکر کی جانب سے سامنے آنے والا رد عمل سب سے زیادہ دیکھی جانے والی خبروں کی صورت میں سر فھرست قرار پایا ،چنانچہ شیرازیت کی جانب سے ھونے والے رد عمل کی خبروں کو سب سے زیادہ فالو کیا گیا جو خود متعدد جوابی کاروائیوں کا سبب بنا ، شیرازیوں کا تعلق عراق کے ایک ایسے اصیل و تاریخی خاندان سے ہے جو حکیم ، خوئی ، خلخالی، صدر، کاشف الغطاء و دیگر خاندانوں کی طرح عراق میں ھمیشہ اثر انداز رھا ہے اور کھا جا سکتا ہے کہ عراق کی تاریخ میں موثر سرچشموں میں ایک خاندان شیرازی بھی ہے ۔
لیکن محمد شیرازی کے ایران آنے کے بعد شیرازی طرز فکر حوزہ علمیہ میں اسلامی حکومت کے لئے ایک چیلنج کی صورت سامنے آیا، سید محمد شیرازی کے جنگ کے سلسلہ سے متنازعہ فتوی، اور ان کی جانب سے اختیار کئے جانے والے موقف کے چلتے اس طرز فکر کا اسلامی نظام سے تقابل شدید تر ھوتا گیا ، بظاھر گزشتہ کچھ دنوں میں سید حسین شیرازی کی گرفتاری کے بعد اس طرز فکر کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر جو رد عمل ظاھر ھوا ہے اس کے پیش نظر کھا جا سکتا ہے کہ یہ اپنے ابال و اُپھان سے نزدیک ھو گیا ہے ۔
کھانی یھاں سے شروع ھوتی ہے کہ ایران میں رواں سال جنوری میں ایران میں ھونے والے اعتراضات کے درمیان بیت شیرازی سے وابستہ رسمی چینل نے ولایت فقیہ کی تخریب پر مشتمل ایک کلپ کو نشر کیا جس میں سید حسین شیرازی نے ولایت فقیہ کے نظریہ کی تخریب کے ساتھ ایران و عراق کے مابین ھونے والی آٹھ سال کی طولانی جنگ کے یاد گار ھفتہ ، ھفتہ دفاع مقدس پر بھی سوال اٹھائے ، یاد رھے کہ ولایت فقیہ اور ھفتہ دفاع مقدس دونوں ھی اسلامی نظام کے سرخ خطوط شمار ھوتے ہیں ،جس کے نتیجہ میں انھیں دو بار عدالت میں حاضر ھونے کا حکم جاری ھوا اور اس کی حکم عدولی کی بنیاد پر انھیں گرفتار کر لیا گیا ، جس کے بعد عراق میں کچھ لوگوں نے مظاھرے کئے ، اور گزشتہ چند دنوں میں پلیس کی موجودگی میں لندن میں واقع ایران کے سفارت پر حملہ کیا گیا اور ایران کے پرچم کو سر نگوں کر کے خدام المھدی نامی تنظیم کا پرچم چڑھا دیا گیا اور اس پوری کاروائی کو فدک چینل نے براہ راست نشر کیا۔
ان تمام حاشیوں سے صرف نظر کرتے ھوئے اگر واقعات کی تہہ تک پھنچنا ھو تو ڈاکٹر جفری ھالورسن(۱) کے اس مقالہ پر ایک نظر ڈالی جا سکتی ہے جو انھوں نے حکومت ایران کے مقابل ایک روایتی دشمن کے عنوان کے تحت لکھا ہے ۔ ھالورسن نے ایزونا یونیورسٹی کے اسٹراٹیجک مطالعہ کی سائٹ پر اپنے اس مقالہ کو نشر کیا ہے:
مقالے کے کچھ اھم نکات : ۔
۔ انکا ماننا ہے کہ اسلامی جمھوریہ ایران کی حکومت کا تختہ پلٹنے اور اس کے نظام کو گرانے کے لئے ھرگز سختی اور تندی کی پالیسی کام نھیں آسکی ہے
۔ ھاولورسن، دیگر سلامتی و تحفظاتی اسٹراٹجیکل پالسییوں کی طرح نرم رویہ کو اپناتے ھوئے کولڈ وار کے ذریعہ ایران کے خلاف اپنی رائے کو نرم انداز میں حکومت کا تختہ الٹنے کی پالیسی کو تجویز کرتے ہیں
۔ وہ کھتے ہیں کہ حکومت ایران کے مقابلہ کے لئے ضروری ہے کہ روایتِ کربلا کو کربلا کے بالکل برعکس و برخلاف ایک دشمن کی صورت میں تبدیل کر دیں
۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ھم اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ھوئے ایران کی حکومت کو یزیدی حکومت کے طور پر پیش کریں اور اسی سلسلہ سے اپنے وسائل کا استفادہ کریں کہ ایرانی حکومت کو یزیدی ثابت کیا جا سکے
۔ روایت کربلا کو منحرف انداز میں ھمیں اس طرح پیش کرنا ہے کہ ھمارا محور ، شیرازیت ھو جس سے ھم اسلامی جمھوریہ ایران کی حکومت میں فائدہ اٹھا سکیں
وہ آگے لکھتے ہیں :
ایسی چیز جو ایک حقیقی روایت کو اس کے بالکل برخلاف پیش کر سکے ، اسکے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے:
۔ اصلی و واقعی ماجرا کو توڑ مروڑ کے پیش کیا جائے اور قیاسات کی نئی تشکیل ھو ، نیز تشابھات کو نشر کیا جائے اور پھر اسکا نفوذ ھو
۔ اس کی حقانیت کے بارے میں شک پیدا کیا جائے { ظاھرا مراد یہ ہے کہ واقعہ کربلا کو بنیاد بنا کر نظام کی حقانیت پر سوال کھڑے کئے جائیں }
۔ ان تمام چیزوں کی جگہ کو ایک بڑی روایت یا بڑے واقعہ سے بدل دیا جائے
انجام کار وہ یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ کربلا کی روایت مذکورہ بالا تنیوں نکتوں کے تحقق کی صلاحیت کو اپنے اندر رکھتی ہے جسے ایران کی موجودہ رژیم کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
ھالورسن کا ماننا ہے کہ شیرازی طرز فکر امام حسین علیہ السلام کی طرفداروں کا رول پلے کرنے کے لئے ایک بھترین آپشن رھے گا جو جعلی یزید یعنی اسلامی جمھوریہ کے مقابلہ کے لئے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے ۔
سیکورٹی سے متعلقہ اس صاحب نظر شخصیت نے تجویز کئے گئے اپنے طریقہ کار کے مناسب ھونے کے اثبات میں متعدد دلائل ذکر کئے ہیں :
ا۔ اس طرز فکر کی قیادت کا سید ھونا
۲۔ اس طائفہ کے اکثر طرفداروں کا اھل کربلا ھونا
۳۔ اسلامی حکومت کا ناقد و مخالف ھونا
انجام کار ھالورسن نے ان باتوں کے نشر کرنے کا بھترین موقع اور اپنی تجویز کو عملی کرنے کی بھتر فرصت ،اپنے پیغامات کو پھونچانے کا بھترین وقت ماہ محرم اور عاشور سے نزدیک ایام کو قرار دیتے ھوئے آگے لکھا ہے : یہ وہ وقت ہے کہ جب شیعہ مسلمان ، جذبات و معنویت سے سرشار ھوتے ہیں ، اور کربلا سے آگاہ بھی اور اس واقعہ سے نزدیک بھی ، ایسی صورت میں اس پیغام کو پھچائے جانے کے سلسلہ سے جو بھی رکاوٹ کھڑی کی جائے گی یا اس کے نشر کو روکنے کے سلسلہ سے جو بھی اقدام ھوگا ،وہ ھمارے حق میں ھوگا حتی شیرازیوں کو اگر سرکوب کیا جائے گا تو یہ سبب بنے گا کہ روایت کربلا کا یہ عنصر غالب آئے کہ ایرانی رژیم یزید کا کردار ادا کر رھی ہے اور جتنا بھی اس کی جانب سے سیاسی دباو بڑھایا جائے اتنا ھی ستم گر یزید کا رنگ و روپ سامنے آئے گا اور یزیدی کردار واضح و آشکار ھوگا جو ھمارا مطلوب ہے۔
ھالورسن نے اپنے مقالہ کے اختتام میں امریکی سینٹ کو پیش کی گئی ایک تجویز کا ذکر کرتے ھوئے کھا ہے کہ اس طرز فکر کی مدد کےلئے ضروری ہے کہ اجتماعی روابط عامہ کے وسائل جیسے سٹلائٹ چینل ، انٹر نیٹ ، اور مختلف سائٹس وغیرہ کل ملا کر ھر وہ چیز جو انسانی افکار پر اپنا اثر چھوڑتی ہے سب کے سب ان کی مدد کے لئے آمادہ ھونا چاھیے، اور اس کے لئے شیرازی طرز فکر ایک بھترین آپشن ہے۔
گزشتہ چند دنوں میں شیرازی طرز فکر کے منصوبوں کے کھلنے اور ان کی جانب سے ھونے والی کاروائی کو اگر دیکھا جائے تو ھم کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ کچھ دنوں میں جو بھی ھوا ہے وہ چیخ چیخ کر کہہ رھا ہے کہ یہ وھی سب کچھ ہے جسے ھالورسن نے بیان کیا ہے اور اسی منصوبہ کا حصہ ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔
اپنی بات کے ثبوت میں ھم کہہ سکتے ہیں:
مثلا یزیدی حکومت ، کا اشاریہ وھی ہے جس سے اس طرز فکر کے حامی ایران کے نظام کے خلاف استعمال کر رھے ہیں،
دوسری طرف مظلومیت کی عنصر پر تاکید کرنا اور اپنی مظلومیت کا اثبات اسی پروجیکٹ کا ایک ایسا حصہ ہے جس سے آگے بڑھ کر اس خبیث منصوبہ کی تکمیل کی جا سکتی ہے ، چنانچہ سید محمد شیرازی کے ھارٹ اٹیک کے چلتے گزر جانے کے بعد ھالورسن کا اشارہ یہ ہے کہ ان کی مظلومیت کو پیش کیا جائے اور ان کے قتل کی افواھوں کو لوگوں میں پھیلایا جائے، جس پر ابھی ھی عمل ھوا اور سید حسین شیرازی نے اس مظلومیت کو اپنی تقریر میں پیش کرنے کی کوشش کی اور عجیب بات یہ ہے کہ شیرازی طرز فکر اپنے چینلز کے سلسلہ سے یہ یوں تو کوشش کرتا ہے کہ جھاں جھاں ان کے چینلز ہیں وھاں کی حکومت کی پالسییوں کا لحاظ کیا جائے اس ملک کے قوانین کا احترام کیا جائے جھاں سے یہ اپنے خدمات پیش کر رھے ہیں لیکن جب بات اسلامی جمھوریہ ایران کے قوانین کی آتی ہے تو بارھا نہ صرف اپنے ملحوظات کو نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ اسلامی جمھوریہ کے قوانین کو پیروں تلے روند کر اپنے مقاصد کی تکمیل کی جاتی ہے ۔
تبرائی اسلام پر افراط کی حد تک تاکید وہ مفروضہ ہے جو طولانی مدت اسکتباری منصوبہ میں اسکتبار کی اس علاقہ میں تعاون و مدد کا سبب ہے ، اس وقت جبکہ اسلامی جمھوریہ ایران کی کوشش ہے کہ برادران اھل سنت کے اختلافات کو سمجھتے ھوئے ان کے ساتھ ایک محترمانہ تعلقات کی داغ بیل ڈالی جائے چنانچہ ایران سےاندر اور باھر رھنے والے برادران اھل سنت کے ساتھ مل کر علاقے کے توازن کو اپنے حق میں کرتے ھوئے دشمن سے مقابلہ کے لئے مل جل کر آگے بڑھنے کی خاطر جھاں ایران کوششیں کر رھا ہے جھاں ایران کی کوشش ہے کہ برادران اھل سنت کو مشترکہ دشمن سے مقابلہ کی سمت لے جایا جائے وھیں اس شیرازیت کی شکل میں تبرائی فکر اختلافات کو بھڑکانے کے ساتھ علاقے میں شیعوں اور اھل سنت کے ما بین علاقائی جنگ کا سبب ہے۔
(1) ڈاکٹر جفری ھالورسن Jeffry R.. Halversoj ، پی ایچ ڈی اسکالر، ساحل کیرولینا یونیورسٹی {Coastal Carolina University} کے فلسفہ اور مذھبی مطالعہ کے محکمہ میں مذھبی مطالعہ (اسلامی مطالعات) کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں. انھوں نے پیشر ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی Arizona State University میں انسانی مواصلات کے ھگ ڈیوس سکول میں اسسٹنٹ ریسرچ پروفیسر کے طور پر خدمت کی ہے . ھالورسن نے سنی اسلام ،مسلم عدم تشدد اور اسلام کا مستقبل ،اسلام پسند انتھا پسندی اور مغرب میں اسلام ،جیسی تحریروں اور کتابوں کے مصنف رھے ہیں ، ان کے معروف آثار میں : Modern Sunni Islam in the Middle East and North Africa, Sunni Theology, Islamic Nonviolence, Islam in America کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
شیرازی فرقے کو اپنے حق میں استعمال کرنے پر امریکن پروفیسر کا قابل غور تجزیہ
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1326