حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت باسعادت یکم رجب ستاون ھجری میں ھوئی ، کربلا کے پورے واقعہ میں آپ شریک تھے ، اس وقت آپ کی عمر مبارک چار سال تھی ۔
امام محمد باقر علیہ السلام کے بچپن میں ھی معاویہ، یزید اور مروان جیسے ظالم بادشاھوں کا وقت گزرتا ہے تو عبدالملک جیسے ظالم شخص اور اس کے چار ظالم بیٹوں کے زمانے میں بھی زندگی گزارتے ہیں۔
امام باقر علیہ السلام کے زمانہ امامت میں مختلف منحرف، گمراہ افراد اور فرقے مسلمانوں کے عقائد کو خراب کرتے ہیں، امام (ع) ان کا مقابلہ کرتے ہیں بلکہ ان سے مناظرہ کرکے ان کے بطلان کو ثابت کرتے ہیں۔
امام (ع) کے مناظرے خوارج کے ساتھ، معتزلہ کے ساتھ اور مرجئه کے ساتھ سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔ آج اس زمانے میں بھی داخلی اور خارجی ھر طرف سے شیعیان حیدر کرار کے سامنے چیلنجز ہیں کہ جن کا مقابلہ کرنے کے لئے سب اور خصوصاً طلاب دینیہ کو ھمیشہ تیار رھنا چاھیے۔
آیا پاکستان کے طلاب دین دنیا اور خصوصاً پاکستان میں دشمن کی تمام سازشوں کو ناکام کرنے کے لئے تیار ہیں یا دشمن ھی کی سازش کا شکار ھو کر سستی و کاھلی اور اپنے ھی مراکز، مدارس اور علماء حق کی تضعیف کا سبب بن رھے ہیں۔
امام باقر علیہ السلام علماء کا احترام کرنے کا حکم دیتے اور ظالم سے نفرت کی تلقین کرنے کے ساتھ اس سے قطع تعلق کا حکم دیتے ہیں، کھیں ایسا نہ ھو کہ ھم ظالم سے نفرت کرنا تو کجا خود ظالم بن بیٹھیں۔
عقبہ بن بشیر نامی ایک شیعہ امام باقر علیہ السلام کے پاس آیا اور اپنے قبیلہ میں اپنے بلند مقام کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کھنے لگا: ھمارے قبیلہ میں ایک عریف (حکومت کی طرف سے منظور شدہ کسی قوم کا ترجمان یا سردار) تھا، جو مر چکا ہے۔ قبیلہ کے لوگ چاھتے ہیں کہ مجھے اس کی جگہ عریف بنا دیں۔ آپ اس بارے میں کیا کھتے ہیں؟
امام نے فرمایا: کیا تم اپنے حسب اور نسب کا ھم پر احسان جتاتے ھو؟ اللہ تعالٰی مومنوں کو ان کے ایمان کی وجہ سے بلند مقام دیتا ہے، حالانکہ لوگ اسے معمولی سمجھتے ہیں اور کافروں کو ذلیل کرتا ہے جبکہ لوگ اسے بڑا سمجھتے ہیں اور یہ جو تم کہہ رھے ھو کہ تمھارے قبیلہ میں ایک سردار تھا، جو مرچکا ہے اور قبیلہ والے تجھے اس کی جگہ پر رکھنا چاھتے ہیں، تو اگر تجھے جنت بری لگتی ہے اور وہ تجھے ناپسند ہے تو اپنے قبیلہ کی سرداری کو قبول کرلے، کیونکہ اگر حاکم نے کسی مسلمان کا خون بھایا تو تو اس کے خون میں شریک سمجھا جائے گا اور شاید تجھے ان کی دنیا سے بھی کچھ نہ ملے۔
یہ روایت بتاتی ہے کہ امام کس طرح سے اپنے شیعوں کو حکومت میں کسی بھی مقام حتٰی کہ عریف بننے سے بھی روکتے تھے، جس کی کوئی خاص حیثیت بھی نھیں ھوتی تھی اور اس کی دلیل یہ تھی کہ لوگوں پر حکمرانوں کے ظلم و ستم اور ان کے گناھوں میں شیعہ شریک نہ ھوں۔
کیا ھم نے کبھی غور کیا کہ باقر العلوم علیہ السلام کے ماننے والوں کے دلوں میں ظالم اور خود ظلم سے کتنی نفرت ھونی چاھیے۔؟ کیا ھم نے کبھی غور کیا کہ باقر العلوم کے ماننے والوں کے دلوں میں ناجائز اور غلط لوگوں سے کتنی نفرت ھونی چاھیے۔؟ کیا ھم نے کبھی غور کیا کہ باقر العلوم کے ماننے والوں کا علم سے کتنا تعلق ہے۔؟ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے شیعہ و سنی طلاب کہ جن میں برادران و خواھران ھر دو شامل ہیں، کی تعداد چونسٹھ لاکھ ہے، جن میں سے باب مدینۃ العلم اور امام باقر العلوم کے ماننے والوں کی تعداد صرف بیس ھزار ہے۔ یہ رپورٹ تقریباً دس سال پھلے کی ہے اور ان دس سالوں میں سنی اور دیوبندی طلاب کی تعداد تقریباً دو برابر ھوچکی ہے جبکہ شیعہ طلاب کی تعداد کم ھو کر چودہ ھزار تک رہ گئی ہے۔ ان چودہ ھزار طلاب کی علمی کیفیت کو خود مدارس میں رھنے والے طلاب ھی اچھی طرح سے درک کرسکتے ہیں۔
حوزہ علمیہ قم اور حوزہ علمیہ نجف میں بھی پاکستانی طلاب کی علمی استعداد جو ہے، اس سے بھی کوئی اور آگاہ ھو یا نہ ھو، خود طلاب اچھی طرح سے آگاہ ہیں کہ انھیں آئندہ پانچ کروڑ پاکستانی شیعہ قوم کا رھبر بننا ہے یا علمی، اخلاقی اور اعتقادی و فکری صلاحیت سے خالی، فقیر، گداگر بن کر دوسروں کا غلام بننا ہے۔ اس بات کا فیصلہ بھی باقرالعلوم کے ماننے والے طلاب کرام نے خود کرنا ہے۔
یہ بات بھی باقر العلوم کے ماننے والے سب طلاب کو ھمیشہ ذھن نشین کرنی اور یاد رکھنی چاھیے کہ دنیا میں اسلام اور خصوصاً مکتب اھلبیت (ع) سے لوگوں کو دور رکھنے پر وھابیت اور استعماری طاقتیں دن رات ایک کئے ھویے ہیں، مکتب اھلبیت (ع) کی حقیقی تفسیر بتانے والے علماء حق سے باقی لوگ کیا خود شیعہ کو بھی ھٹایا جا رھا ہے۔
ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت نوجوان نسل کو علماء اور مدارس دینیہ کے مقابلہ میں لا کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی رھی ہے اور ساتھ ساتھ ذاکروں و بے عمل مقررین و خطیبوں کو ترجیح دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان تمام حالات کا مقابلہ کرتے ھویے طلاب اور علماء حق کو معصومین (ع) کے نقش قدم پر چلتے ھوئے حکمت عملی کے ساتھ تمام حالات کا مقابلہ کرنا ہے، اس لئے کہ آج جس امام محمد باقر (ع)کی ولادت باسعادت کا دن ہے، وہ صاحبان علم کی شان میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:"ایک نفع پھنچانے والا عالم ستر ھزار عابدوں سے بھتر ہے، عالم کی صحبت میں تھوڑی دیر بیٹھنا ایک سال کی عبادت سے بھتر ہے، خدا ان علماء پر رحم و کرم فرمائے جو احیاء علم کرتے اور تقویٰ کو فروغ دیتے ہیں۔" کیا ھم خود عالم ہیں؟ اگر عالم نھیں تو کیا نفع پھنچانے والے عالم کی محفل میں یٹھنا سعادت سمجھتے ہیں یا شیطانی وسوسوں میں مبتلا ھو کر ایسے علماء سے دور بھاگتے ہیں۔ اللہ ھم سب کو امام محمد باقر(ع) کی ولادت کے صدقہ میں اھل علم بننے اور اھل علم کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
تحریر: محمد اشرف ملک
امام باقر العلوم علیہ السلام اور حوزہ علمیہ کے طلاب
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1480