مقدمے کے طور پر یھاں کچھ ایسی باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مسلمات میں سے ہیں ان میں سے ایک یہ کہ انسان کو اچھی زندگی گزارنے کے لیے ایک بھترین قانون اور منظم نظام کی ضرورت ہے اگر کسی سماج میں کوئی نظام اور قانون حاکم نہ ھو تو وہ سماج ایک دن بھی آگے نھیں بڑھ سکتا۔
دوسری بات یہ کہ یہ قانون اور دستورات کون معین کرے خود انسان یا اس کا بنانے والا؟ واضح ہے کہ انسان اپنی ناقص عقل کے ذریعے اپنے لیے مفید قانون نھیں بنا سکتا چونکہ وہ مکمل طور پر اپنے بارے میں نھیں جانتا اور شاید دنیا کو چلانے کے لیے اچھا سے اچھا قانون بنا بھی لے لیکن چونکہ اس کی زندگی اس دنیا میں محدود نھیں ہے بلکہ اگلی دنیا میں بھی جاری ہے اور یہ دنیا اس کے لیے مقدمہ ہے لھذا اس دنیا کے لیے ایسا قانون ھونا چاھیے جس کے سائے میں انسان آنے والی زندگی میں بھی بھتری لا سکے۔ تو ایسا قانون وھی بنا سکتا ہے جو انسان اور اس کی زندگی کے بارے میں سب سے زیادہ آشنا ہے وہ صرف اس کا بنانے والا ھی ہے وھی جانتا ہے کہ انسان کیسا موجود ہے اور اس کے بنانے کا مقصد کیا ہے اسے اس دنیا میں کس طرح سے زندگی گزارنا ہے تاکہ اس کی یہ دنیا بھی سنور جائے اور اگلی دنیا بھی۔
اس وجہ سے اللہ نے انسان کے لیے قانون بنانے اور اس پر چلانے کا اختیار اپنے علاوہ کسی کو نھیں دیا اگر کسی کو دیا ہے تو وہ صرف اپنے مخصوص بندوں کو دیا ہے۔
قرآن نے واضح الفاظ میں فرمایا:" لا حکم الا للہ "۔حکومت کا حق صرف اللہ کو ہے۔ لیکن اللہ چونکہ بنفس نفیس روئے زمین پر ظاھر ھو کر حکومت نھیں کر سکتا اس لیے کہ انسانوں پر حکومت کے لیے ضروری ہے کہ کوئی انھیں کے جیسا جسم و بدن رکھنے والا موجود ھو جو ان کے درمیان نظام قائم کرے اور اللہ اگر مجسم ھو جائے تو وہ خدا نھیں رھے گا اگر دکھائی دے تو وہ خدا نھیں ھو گا اس کا ذاتی کمال یہ ہے کہ وہ نہ مجسم ھو سکتا ہے اور نہ ظاھری آنکھوں سے دکھائی دے سکتا ہے لھذا اس نے روئے زمین پر حکومت کے لیے اپنے نمائندے مقرر کئے لھذا اصلِ حکومت اور ولایت کا سلسلہ اللہ سے شروع ھوا جو اس نے اپنے نبیوں کے حوالے کیا۔
انبیاء کا سلسلہ جب تک رھا انھوں نے حکومت قائم کرنے کی کوشش کی بعض اس راہ میں کامیاب ھوئے بعض ناکام، اسی وجہ سے ھر نبی کی اپنے زمانے کے بادشاہ سے ٹکر رھی۔ انبیاء کا سلسلہ جب ختم ھوا تو ایسا نھیں کہ ولایت اور حکومت کا سلسلہ بھی منقطع ھو جائے چونکہ انسان ابھی موجود ہے اور جب تک انسان ہے اسے نظام اور قانون کی ضرورت ہے۔ اور یہ طے ہے کہ نظام چلانے اور قانون بنانے کا حق صرف اللہ کو ہے یا پھر اس کے نمائندوں کو یہ حق دیا گیا ہے لھذا ولایت اور حکومت کا سلسلہ ختم نھیں ھو سکتا اس وجہ سے انبیاء نے اس سلسلے کو اپنے اوصیاء کی طرف منتقل کیا ائمہ طاھرین علیھم السلام جب تک موجود تھے وھی الھی حکومت کے عھدہ دار تھے اب دنیا کے شرائط نے انھیں حکومت کرنے دیا یا نھیں کرنے دیا یا وہ اپنی سعی میں کامیاب ھوئے یا نھیں ھوئے وہ الگ مسئلہ ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے جب تک وہ زندہ یا ظاھری طور پر موجود تھے حکومت اور ولایت کا حق انھیں کو حاصل تھا عصر غیبت کے شروع ھوتے ھی یہ سوال پیدا ھوا کہ اب یہ حق کس کی طرف منتقل ھونا چاھیے؟
کیا اس الھی نظام حکومت کا سلسلہ ختم ھونا جانا چاھیے یا آگے بڑھنا چاھیے؟ واضح ہے جب اللہ ہے اس کے بندے ہیں تو اس کی حکومت بھی ھونا چاھیے یہ سلسلہ ختم نھیں ھو سکتا۔
لھذا بارھویں امام نے اس سلسلے کو فقھا کی طرف منتقل کیا ؛ فی کتاب اکمال الدین و اتمام النعم عن محمد بن محمد بن عصام عن محمد بن یعقوب عن اسحاق بن یعقوب قال:" سالت محمد بن عثمان العمری ان یوصل لی کتابا قد سالت فیہ عن مسائل اشکلت علی۔ فورد التوقیع بخط مولانا صاحب الزمان(علیہ السلام) اما ما سالت عنہ، ارشدک اللہ و ثبتک ( الی ان قال) و اما الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیھا الی رواۃ حدیثنا۔ فانھم حجتی علیکم و انا حجۃ اللہ علیھم"۔
( کتاب اکمال الدین اور اتمام النعیم میں محمد بن محمد بن عصام بن محمد بن یعقوب بن اسحاق بن یعقوب سے منقول ہے کہ اسحاق بن یعقوب نے حضرت ولی عصر(عج) کو ایک خط لکھ کر اپنی مشکلات کا اس میں ذکر کیا جسے محمد بن عثمان عمری حضرت کے نائب خاص نے، حضرت کو یہ خط پھنچایا۔ اس خط کا جواب خود حضرت نے اپنے ھاتھ سے لکھ کر بھیجا:’’ جو حوادث تم کو پیش آئیں ان میں ان کی طرف رجوع کرو جو ھم سے روایت نقل کرتے ہیں( یعنی علماء و فقھا) کیونکہ وہ تم پر ھماری طرف سے حجت ہیں اور ھم ان پر اللہ کی طرف سے حجت ہیں۔)
یہ حدیث جو تمام اھل تشیع کی حدیثی کتابوں میں موجود ہے میں واضح طور پر امام نے سماج کو پیش آنے والے جدید مسائل میں فقھا کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بات طے ہے کہ حدیث میں ’’حوادث واقعہ‘‘ سے مراد شرعی مسائل نھیں ہیں چونکہ پوچھنے والا یہ جانتا ہے کہ شرعی مسائل کس سے پوچھے جا سکتے ہیں اس لیے کہ ائمہ کے دور میں بھی شرعی مسائل کے لیے ائمہ، فقھا کی طرف لوگوں کو لوٹاتے تھے یھاں پر ڈھکے چھپے الفاظ میں جو ’’حوادث واقعہ‘‘ کی تعبیر استعمال کی جا رھی ہے اس سے مراد سماج کو درپیش سیاسی اور ثقافتی مسائل ہیں جن کی عھدہ دار ایک حکومت ھوا کرتی ہے تو امام نے شیعہ سماج کو تمام سیاسی، اجتماعی اور ثقافتی مسائل میں فقھا کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا اور یہ در حقیقت اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ امام نے اس عھدہ الھی کو جو ولایت الھیہ کا عھدہ ہے اپنے بعد فقھاء کے حوالے کیا اور یہ چیز سب پر عیاں ہے کہ اس دور میں اس طرح کی باتوں کو اسرار و رموز میں بیان کیا جاتا تھا تاکہ دشمن سمجھ نہ سکیں اگر امام واضح الفاظ میں فرما دیتے کہ آج کے بعد عھدہ ولایت کے حامل فقھا ہیں تو دشمن ھر شیعہ فقیہ کو تھہ تیغ کرنا شروع کر دیتے لھذا مبھم تعبیرات استعمال کر کے اس عھدے کو فقھا تک منتقل کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ھر فقیہ ولایت کا عھدہ رکھتا ہے؟ نھیں اس کے بھی شرائط ہیں جو امام حسن عسکری علیہ السلام نے پھلے ھی بیان کر دئے تھے؛ "فاما من کان من الفقهاء: صائناً لنفسه، حافظاً لدینه، مخالفاً علی هواه، مطیع لامر مولاه، فللعوام این یقلدوه"(وسائل الشیعه، ج 27، ص 131)
(فقھا میں سے جو اپنے نفس کا محافظ ھو اپنے دین کا محافظ ھو، اپنی ھویٰ و ھوس کا مخالف ھو اپنے مولا کے امر کا مطیع ھو عوام پر واجب ہے کہ اس کی پیروی کریں)
لھذا ان شرائط نیز حالات حاضرہ سے آشنا جو وقت کی ضرورت ہے اور مینیجمنٹ کی صلاحیت رکھنے والے فقیہ کو حق حاصل ہے کہ وہ انسانی سماج پر اللہ کے قانون کو نافذ کرے۔ اب ان شرائط پر اترنے والے اگر بھت سارے فقھا ھوں تو ظاھر ہے کہ سب ایک ساتھ ولی و سرپرست نھیں بن سکتے بلکہ انھیں اپنے درمیان میں سے کسی ایک کو ھی اس عھدہ کے لیے معین کرنا ھو گا جس میں اس کام کی سب سے زیادہ صلاحیت ھو تاکہ وہ اس نظام کی باگ ڈور کو سنبھال سکے۔ یہ طریقہ مکمل طور پر منطقی اور عقلی ہے۔
اب اگر سر زمین ایران میں جامع الشرائط فقھا کے ایک گروہ نے مل کر کسی ایک کو ولی فقیہ کے عنوان سے منتخب کیا ہے تو وہ تمام شیعہ سماج کا ولی و سرپرست ھو گا اور اسے سب پر حکومت کرنے کا حق حاصل ھو گا اس لیے کہ اھل تشیع کے درمیان ھمیشہ سے ایک ھی فرد کی سرپرستی رھی ہے، دو اماموں کی موجودگی میں ایک سرپرستی کرتا تھا اور دوسرا خاموشی رھتا تھا جس کی مثال امام حسن و حسین علیھما السلام میں موجود ہے دونوں بیک وقت امام ہیں لیکن جب تک امام حسن علیہ السلام کا دور امامت ہے امام حسین علیہ السلام کوئی فیصلہ نھیں لیتے۔ ائمہ کے بعد بھی یہ سلسلہ قائم رھا ھر دور میں صرف ایک ھی جھان تشیع کا مرجع ھوتا رھا ہے حالانکہ دسیوں مجتھد جامع الشرائط موجود ھوتے رھے ہیں۔
امام خمینی(رہ) نے شیعہ حکومت قائم کرنے کے بعد ولایت فقیہ کے نظریے کو جو پھلے سے شیعہ منابع میں موجود تھا اور عصر ائمہ علیھم السلام سے چلا آرھا تھا کو عوام کے سامنے پیش کیا جبکہ گزشتہ علماء بھی اس عھدہ الھی کے حامل تھے صرف انھیں اسے عملی جامہ پھنانے اور نظام قائم کرنے کا موقع نھیں ملا جیسے خود عصر ائمہ میں صرف امیر المومنین نے حکومت قائم کی باقی ائمہ کو موقع نھیں ملا اسی طرح امام خمینی نے جب الھی نظام کا قیام عمل میں لایا تو اس اصطلاح کو بھی شیعہ سماج کے اندر رائج کر دیا اگر چہ شیعہ علماء پھلے سے اس نظریے سے آشنا اور اس کے قائل تھے لھذا چونکہ شیعہ سماج ھمیشہ سے ایک ھی پرچم تلے پروان چڑھتا آیا ہے اور اس کا طرہ امتیاز بھی اسی میں ہے کہ اس کے یھاں بارہ امام ھونے کے باوجود اختلاف نھیں ہے جبکہ دوسروں کے یھاں چار امام سامنے آئے اور چاروں کے آگے چار فرقے بن گئے! بلکہ تشیع کی بقا کا راز بھی یھی ہے کہ ان پر اتنے مظالم ھونے کے باوجود بھی وہ آج دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ تشیع ایک ھی نظام کے تابع ہیں اور وہ ہے ولی فقیہ کے توسط سے قائم الھی نظام لھذا ایک نظام کو ماننے والے ایک ھی ہیں چاھے وہ دنیا کے کسی کونے میں کیوں نہ زندگی بسر کر رھے ھوں۔
رھا دوسرا سوال کہ حدیثوں میں تو یہ ولایت ائمہ طاھرین علیھم السلام سے مخصوص ہے پھر علماء اس کے عھدہ دار کیسے ھو گئے اس سوال کا جواب بھی گزشتہ گفتگو سے واضح ھو جاتا ہے۔
ایک تو یہ کہ جو ولایت ائمہ طاھرین علیھم السلام سے مخصوص ہے وہ ولایت تکوینی ہے ولایت کی دو قسمیں ہیں ولایت تکوینی اور ولایت تشریعی، ولایت تکوینی کی مختصر تعریف یہ ہے کہ کائنات میں تصرف کرنا اللہ کی تخلیق میں تصرف کرنا اور ولایت تشریعی کا مطلب یہ ہے کہ شریعت بنانا اور اسے نافذ کرنا۔
ولایت تکوینی یعنی کائنات میں کسی قسم کا تصرف اللہ، اس کے رسول اور ائمہ طاھرین علیھم السلام سے مخصوص ہے کسی اور کو حق حاصل نھیں ہے۔
لیکن ولایت تشریعی یعنی شریعت بنانے کا حق صرف اللہ، اس کے رسول اور ائمہ کو ہے لیکن اللہ کی شریعت کا نافذ کرنے کا حق علماء کو بھی دیا گیا ہے چونکہ وہ عصر غیبت میں اللہ کی شریعت میں اجتھاد کرتے ہیں اللہ کے احکامات کا استنباط کرتے ہیں اور انھیں سماج میں نافذ کرتے ہیں اور صرف اجتھاد کریں اور نافذ نہ کریں تو شریعت بے معنی ھو جائے گی شریعت ایک تھیوری ھو جائے گی اس کا عملی زندگی سے کوئی ربط نھیں رھے گا لھذا اجتھاد اور استنباط کے ساتھ ساتھ فقھا کی ذمہ داری ہے کہ وہ شریعت الھی کو سماج میں نافذ کریں یہ نافذ کرنا اسی وقت ممکن ہے جب اس کا اختیار انھیں دیا جائے اختیار دینے کا مطلب یہ ہے کہ انھیں یہ عھدہ دیا جائے لھذا ائمہ طاھرین علیھم السلام نے ولایت تشریعی کا یہ عھدہ انھیں دیا کہ وہ شریعت کو خود سمجھیں پھر اسے سماج میں نافذ کریں۔
ولایت فقیہ اسی کو کھتے ہیں اب اس کا دائرہ محدود نھیں ہے ولی فقیہ کو ماننے والے چاھے کسی ملک میں رہ رھے ھوں اس کا حکم ان پر بھی نافذ ہے۔
ولایت فقیہ کا سلسلہ کھاں سے شروع ھوا؟
- Details
- Written by admin
- Category: شرعی مسائل
- Hits: 2009