کلی طور پر یہ نھیں کھا جا سکتا کہ جو چیز پرانی ھو جائے اسے چھوڑ دینا چاھیے۔ ھمیشہ قومیں اپنے آثار قدیمہ کو محفوظ رکھتی ہیں اور ان کی حفاظت پر
فخر کرتی ہیں۔ کیا انسان کے ماں باپ جب پرانے ھو جاتے ہیں تو انھیں چھوڑ دیتا ہے اور نئے اور ماڈرن ماں باپ تلاش کر لیتا ہے؟
مگر ھر چیز گھر یا گاڑی کی طرح ہے کہ جب وہ پرانی ھو جائے تو اسے پھینک کر یا توڑ پھوڑ کر نئی خرید لیں یا نئے طرز کا گھر بنا لیں؟ لھذا یہ بات معقول نھیں ہے کہ ھر پرانی چیز بیکار اور بے فائدہ ھوتی ہے اسے چھوڑ دینا چاھیے۔
چودہ سو سال پھلے کے لوگ آج کے لوگوں کے ساتھ کیا فرق رکھتے ہیں؟ وہ بھی ھماری طرح کے انسان تھے۔ ان کے بھی احساسات و عواطف بعینہ ھماری طرح تھے۔
حجاب سماجی فضا کو سالم رکھنے کے لیے ہے۔ اگر حجاب کا مقصد سماج کی فضا کو گناھوں کی آلودگیوں سے پاک رکھنا ہے تو اس میں آج اور کل میں کوئی فرق نظر نھیں آتا۔ جن وجوھات کی بنا پر اس زمانے میں حجاب واجب تھا وہ وجوھات آج بھی ھمارے سماج میں پائی جاتی ہیں۔ مگر یہ کھا جائے کہ اس زمانے کے مرد زیادہ شھوت پرست تھے اور آج کے مرد نھیں ہیں!
دین اسلام ایک کامل، جامع اور ھر زمانے کا دین ہے اس کے قوانین گذر زمان کے ساتھ پرانے نھیں ھوتے۔ اس لیے کہ اس کے قوانین کو اس خداوند عالم نے مقرر کیا ہے جو سب سے زیادہ عاقل، سب سے زیادہ عالم، اور ھر زمانے اور ھر دور کے سماج کی ضرورتوں سے آگاہ ہے۔
حجاب کی رعایت کا حکم قانون الھی ہے جو دائمی اور نا قابل تغییر ہے۔
اگر خداوند عالم انسان کو کسی کام سے منع کرتا ہے تو اس فساد کی وجہ سے ہے جو اس کے انجام دینے سے پیدا ھوتا ہے اور اگر کسی چیز کی انجام دھی کا حکم دیتا ہے تو یہ اس خیر و خوبی کی وجہ سے جو اس کے انجام دینے سے حاصل ھوتی ہے ۔