ایک گھر سے ناچ گانے کی آواز بلند ھو رھی تھی ،گھر کے قریب سے گزرنے والے شخص کو
یہ محسوس کرنے میں دیر نہ لگتی تھی کہ اندرون خانہ کیا ھو رھا ھے ؟شراب وکباب اور عیش وعشرت کی محفل گرم تھی۔جام سے جام ٹکرارھے تھے۔اس گھر کی کنیز کوڑا وغیرہ لئے ھوئے باھر نکلی تھی تاکہ اسے ایک کنارے پھینک دے۔اسی اثنا میں ایک شخص ،جس کے چھرے سے عبادت گزاری کے آثار نمایاں تھے اورجس کی پیشانی اس بات کی گواھی دے رھی تھی کہ یقینا یہ کوئی عابد شب زندہ دار ھے ،اس گھر کے قریب سے گزر رھا تھا ،کنیز کو گھر سے باھر آتا ھوا دیکہ کر وہ شخص اپنی جگہ پرٹھھر گیا اورجب کنیز اس کے قریب آگئی تواس سے پوچھا ۔
”اس گھر کا مالک آزاد ھے یا غلام؟“
”آزاد “
”معلوم ھے کہ آزاد ھے۔اگر غلام ھوتا تو یقینااپنے آقا ومالک اور پروردگار عالم کے احکام کی نافرمانی کرتے ھوئے اس قسم کی محفل آرائی سے پرھیز ضرور کرتا ۔“
غرضکہ کنیزاور اس مرد متقی کے درمیان ھونے والی اس گفتگو کی وجہ سے اسے گھر لوٹنے میں کچہ دیر لگی ،جیسے ھی وہ کنیز گھر کے اندر داخل ھوتی تو اس کے مالک نے پوچھا: ”آخر تم نے اتنی دیر کیوں لگائی ۔؟“
کنیز نے پورا قصہ بیان کرتے ھوئے کھا۔”ایک شخص جو شکل وصورت سے بڑا متقی وپرھیزگار معلوم ھو رھا تھا ،میرے گھر کے قریب سے گزرا اور اس نے مجھ سے یہ سوال کیا اور میںنے اس کا یہ جواب دیا،پھر وہ یہ باتیںکھہ کر چلا گیااور میں گھر واپس آگئی ۔“
کنیز کی بات سن کر وہ شخص بھت خوفزدہ ھوگیا اور اس مرد متقی کی بات اور خصوصاًاس جملے پر غور کرنے لگا۔”اگر غلام ھوتا تو یقینااپنے آقا کی خواھش کا احترام کرتا۔“تیر کی طرح یہ بات اس کے دل پر جالگی اور وہ بے تحاشہ ننگے پیر اس آدمی کی طرف دوڑنے لگا جس نے یہ بات کھی تھی۔ بدحواسی کے عالم میں وہ تیز رفتاری کے ساتھ ساتھ دوڑتاھو ا اس شخص کے قریب پھونچ گیا ۔وہ کوئی اور نھیں بلکہ ساتویںامام حضرت موسی ابن جعفر علیہ السلام تھے۔اس شخص نے امام کے سامنے توبہ کی ۔چونکہ توبہ کرتے وقت وہ ننگے پیر تھا لھذا اس نے پھر پاپوش نھیں پھنا اور تمام عمر ننگے پیر چلتا رھا۔توبہ سے قبل وہ شخص بشیر بن حارث بن عبدالرحمن مروزی کے نام سے مشھور تھا،لیکن اس کے بعد وہ پوری عمر ”الحافی“یعنی ننگے پیر والاکے لقب سے یاد کیا جاتارھااور بعد میں بشر حافی کے نام سے مشھور ھوگیااس کے بعد وہ جب تک زندہ رھا اپنے عھد وپیمان پر پوری طرح ثابت قدم رھااور نھایت وفاداری کا ثبوت دیتے ھوئے پھر گناہ کے قریب نھیں گیا۔اس سے قبل وہ علاقے کے ثروتمند اشخاص اوراشراف زادوں میں شمار کیا جاتا تھا،لیکن بعد کی زندگی میں وہ خداپرست متقی اور پرھیزگار لوگوں کی فھرست میں شمار کیا جانے لگا۔(۱الکنی والالقاب محدث قمی جلد۲ذیل عنوان ”الحافی“صفحھ۱۵۳بہ نقل از علامہ در منھاج الکرامہ)۔