حضرت علی ابن ابی طالب (ع) گھر سے باھر تشریف لائے اور حسب معمول جنگل کی طرف چل پڑے ۔
باغوں میں کام کرنے کی وجہ سے وہ جنگل کے ٹیڑھے میڑھے راستوں سے بخوبی واقف تھے۔ ان کے ساتھ ایک بوجہ بھی تھا ۔ ایک شخص نے پوچھا :” یا علی ! آپ کے ساتھ کیا چیز ھے ؟ آپ نے فرمایا :” انشاء اللہ ، درخت خرما ۔“
اس شخص نے حیرت آمیز لفظوں میں کھا کہ درخت خرما ؟ اس کا لھجہ بتا رھا تھا کہ وہ حضرت علی (ع) کی بات کا مطلب نھیں سمجھ سکا ۔
اس شخص کی حیرت اس وقت بالکل دور ھو گئی جب ایک مدت کے بعد اس نے اور اس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اس روز علی (ع) خرمے کی جو پود اپنے ھمراہ لئے جارھے تھے اور جس کے بارے میں یہ خواھش بھی ظاھر کی تھی کہ آئندہ یہ تناور درخت خرما کی شکل اختیار کریںگے ، وہ آج ایک سبز و شاداب نخلستان کی شکل اختیار کر چکے ھیں ۔ اور حضرت علی (ع) نے کل خرمے کے پودے لگائے تھے اور آج وہ تمام پودے ایک تناور اور نھایت عمدہ درخت بن چکے ھیں ۔ (وسائل الشیعہ ،ج۲،ص ۵۳۱، بحار الانوار ، ج۹، ص ۵۹۹)