www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

رسول مقبول (ص) مسجد مدینہ میں داخل ھوئے تو ان کی نگاہ مسلمانوں کے ان دو گروھوں پر

پڑی جو حلقہ بنائے ھوئے کسی کام میں مشغول تھے ۔ ان میں سے ایک جماعت عبادت اور ذکر الٰھی میں مصروف تھی اور دوسرا گروہ تعلیم و تعلم اور سیکھنے سکھانے میں سر گرم تھا ۔ پیغمبر اسلام (ص) دونوں جماعتوں کو دیکہ کر بھت خوش ھوئے اور اپنے قریب کھڑے ھوئے اصحاب کو مخاطب کرتے ھوئے کھا :” یہ دونوں گروہ نیک کام میں مصروف ھیں اور اس میں کوئی شک نھیں کہ دونوں گروہ میں شامل افراد نیکی اور سعادت پر گامزن ھیں “۔ اس کے بعد آنحضرت (ص) نے اپنی گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھاتے ھوئے ارشاد فرمایا: لیکن میں لوگوں کی تعلیم دینے اور انھیں عقلمند بنانے کے لئے بھیجا گیا ھوں ۔ یہ جملہ ادا کرتے ھوئے رسول مقبول (ص) اس جماعت کی طرف بڑہ گئے جو تعلیم و تعلم اور سیکھنے سکھانے میں مصروف تھی ۔ وھاں پھونچ کرآپ (ص)بھی ان لوگوں کے ساتھ پوری طرح سر گرم ھو گئے ۔

 ۱۔صدر اسلام میں مسجد مدینہ کا استعمال صرف فریضہ نماز کی ادائیگی ھی کے لئے نھیں کیا جاتا تھا بلکہ اس دور کے مسلمانوں کی جملہ سماجی اور مذھبی سر گرمیوں کا مرکز یھی مسجد تھی ۔ جس وقت ضرورت محسوس ھوتی کہ کسی قسم کا اجتماع کیا جائے تو لوگوں کو اسی مسجد میں جمع ھونے کی دعوت دیدی جاتی تھی اور لوگ وھاں جمع ھو کر ھر قسم کی اھم اطلاعات حاصل کر لیا کرتے تھے ۔ھر طرح کے نئے فیصلے اسی مسجد میں کئے جاتے تھے اور اس کے بعد اس کا اعلان بھی کر دیا جاتا تھا تاکہ لوگ اس سے آگاہ ھو جائیں ۔ مسلمان جب تک مکہ میں رھے ھر قسم کی سماجی سر گرمی اور آزادی سے پوری طرح محروم تھے ۔ نہ مذھبی اعمال و فرائض کو آزادی کے ساتھ انجام دے سکتے تھے اور نہ ھی انھیں دینی تعلیمات حاصل کرنے کی آزادی تھی ۔ یہ صورت حال کافی دنوں تک قائم رھی یھاں تک کہ اسلام نے عربستان کے ایک دوسرے علاقے پر اپنا اثر جما لیا جس کا نام یثرب تھا اور جو بعد میں مدینة النبی یعنی نبی کے شھرکے نام سے مشھو ر ھو گیا ۔رسول مقبول (ص) نے شھر مدینہ کے لوگوں کی تجویز پر اور ان کے عھد و پیمان کو مد نظر رکھتے ھوئے مکہ سے ھجرت اختیار کر لی ۔ دھیرے دھیرے سارے مسلمان ھجرت کر کے مدینہ آگئے اور اسی وقت سے مسلمانوں کو اس بات کی آزادی مل گئی کہ وہ اپنی مذھبی سر گرمیوں میں کھل کر حصہ لیں۔ شھر مدینہ پھونچنے کے بعد رسول مقبول (ص)نے سب سے پھلا کام یہ کیا کہ ایک معقول جگہ کا انتخاب کر کے اپنے اصحاب کی مدد سے اس مسجد کی تعمیر کا کام پورا کیا ۔(۲۔منیة المرید ، چاپ بمبئی ،ص۱۰)

ایک شخص جو مدد کا طالب تھا وہ جب کبھی اپنے ماضی پر نگاہ ڈالتا تو اسے فوراً ھی یاد آجاتا تھا کہ اس نے کس قدر تلخ اور مصائب میں ڈوبے ھوئے دن بسر کئے ھیں۔ یہ وہ برے دن تھے جب اس کی اتنی بھی حیثیت نہ تھی کہ اپنے بیوی بچوں کو پیٹ بھر غذا فراھم کر سکے اور اس کے معصوم بچے بھوک کی آگ میں جھلستے رھے تھے ۔پھر وہ دل ھی دل میں اس ایک جملے کے بارے میں غور و فکر کیا کرتا تھا جو اس کی ذھنی بیداری کا سبب قرارپایا ،وہ ایک جملہ جس نے اس کی روح کو غیر معمولی قوت عطا کر دی تھی، وہ ایک جملہ جس نے اس کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا اور اس کی زبوں حالی حوشحالی میں تبدیل ھو گئی ۔ کل جو گھرانہ انتھائی فقر و فاقہ اور بے سروسامانی کی شرمناک زندگی بسر کرنے پر مجبور تھا وہ آج اس ایک جملے کی برکت سے انتھائی پر سکون زندگی بسر کرنے لگا تھا۔

وہ شخص کوئی اور نھیں بلکہ رسول مقبول (ص) کا ایک صحابی تھا ۔ فقیری اور تنگدستی اس پر پوری طرح غالب تھی ۔ ایک روز جب وہ دنیاوی پریشانیوں سے بھت تنگ آگیا تو اس کی بیوی نے اسے مشورہ دیا کہ تم اپنی زبوں حالی کا تذکرہ رسول مقبول (ص) سے کرو ۔ چنانچہ اس نے طے کیا کہ وہ رسول (ص) کی خدمت میں اپنا پورا حال کھہ سنائے گا اور ان سے مالی امداد بھی طلب کرے گا ۔

چنانچہ اس ارادے کے ساتھ وہ خدمت رسول (ص) میں حاضر ھوا لیکن طلب حاجت سے قبل ھی اس نے رسول مقبول (ص) کی زبان سے یہ جملہ سنا :” جو شخص ھم سے مدد کا طالب ھو گا ھم یقینا اس کی امداد کریں گے لیکن اگر کوئی شخص کسی مخلوق کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بے نیازی اختیار کرتا ھے تو خالق کائنات اس کو واقعی بے نیاز کر دیا کرتا ھے ۔ یہ جملہ سننے کے بعد وہ شخص رسول مقبول (ص) کی خدمت میں کچہ نہ عرض کر سکا اور واپس لوٹ آیا ۔ گھر پھونچکر کیا دیکھتا ھے کہ پھلے ھی جیسا فقر و فاقے کا ماحول طاری ھے ۔ مجبوراً دوسرے دن اسی ارادے کے ساتھ وہ خدمت رسول (ص) میں پھر حاضر ھوا ۔ اس دن بھی اس نے رسول مقبول (ص) کی زبان سے وھی جملہ سنا کہ ”جو شخص ھم سے مدد کا طالب ھو گا ،ھم یقینا اس کی مدد کریں گے لیکن اگر کوئی شخص کسی مخلوق کے سامنے دست سوال پھیلانے سے بے نیازی اختیار کرتا ھے تو خالق کائنات اس کو واقعی بے نیاز کر دیا کرتا ھے ۔“ اس بار بھی وہ اپنی حاجت بیان کئے بغیر گھر واپس لوٹ آیا لیکن گھر پر چھائی ھوئی بے سروسامانی اور غیر معمولی مصائب روزگار نے اسے اس بات پر مجبور کر دیا کہ دوبارہ طلب حاجت کا ارادہ لئے ھوئے خدمت رسول (ص) میں پھونچ گیا ۔ اس بار پھر رسول مقبول (ص) کے ھونٹ حرکت میں آئے اور انھوں نے اپنے پھلے جیسے لھجے میںو ھی جملہ پھر دھرایا ۔

اس بار رسول مقبول (ص) کے جملے کو سن کر اس شخص کو غیر معمولی سکون ملا اسے ایسا محسوس ھوا جیسے یہ جملہ ھی اس کی تمام پریشانیوں کو دور کرنے کی کنجی ھے ۔ اس دفعہ جب وہ خدمت رسول (ص) سے اٹہ کر جانے لگا تو اسے بے پناہ سکون کا احساس ھو رھا تھا ۔ وہ نھایت اطمینان کے ساتھ قدم بڑھاتا ھوا اپنے گھر کی طرف قدم بڑھانے لگا ۔ وہ اپنے دل میں یہ سوچتا چلا جا رھا تھا کہ اب آئندہ کسی شخص کے سامنے ھاتہ نھیں پھیلائے گا ۔ اگر سوال ھی کرنا ھے تو اپنے پروردگار سے کروں گا اور اسی پر بھروسہ کرتا ھوا اس قوت بازو سے کام لوں گا جو اس نے ھمیں عطا کر رکھی ھے ۔ اس کے بعد اپنے پروردگار سے دعا کروں گا کہ وہ مجھے میرے کام میں کامیابی عطا کر ے اور مجھے ھر طرح سے بے نیاز بنا دے ۔

اس کے بعد اس شخص نے غور کرنا شروع کیا کہ آخر میں کیا کام کر سکتا ھوں ؟ فوراً ھی اس کے دل میں یہ خیال پیدا ھوا کہ وہ جنگل سے لکڑیاں لا کر اسے بازار میں فروخت کر دیا کرے ۔ اس نے پڑوسی سے کلھاڑا ادھار مانگا اور جنگل کی طرف چل پڑا ۔ تھوڑی محنت کے بعد اس نے بھت سی لکڑیاں اکٹھا کر لیں اور اسے لا کر بازار میں فروخت کر دیا ۔ اس طرح اسے اپنی محنت کا پھل بھت اچھا معلوم ھوا ۔ چنانچہ آئندہ بھی اس نے اپنا یہ کام جاری رکھا ۔ دھیرے دھیرے اس نے اپنی آمدنی سے ایک کلھاڑا خرید لیا ۔ پھرکچہ دنوں کی آمدنی سے اس نے کچہ جانور اور دیگر گھریلو سامان بھی خرید لئے لیکن وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اسے فروخت کرنے برابر جاتا رھا اور کچہ ھی عرصے بعد وہ ایک مالدار تاجر بن گیا اور غلام وغیرہ بھی رکہ لئے ۔

ایک روز رسول مقبول (ص) اس شخص کے پاس گئے اور مسکراتے ھوئے کھا میں نے نھیں کھا تھا کہ جو شخص ھم سے مدد چاھے ،ھم اس کی مدد ضرور کریں گے لیکن اگر کسی شخص نے بے نیازی سے کام لیا تو پروردگار عالم اسے یقینا بے نیاز بنا دے گا ۔(۱اصول کافی ، ج۲،ص ۱۳۹۔باب القناعة ۔ سفینة البحار مادھٴ ”قنع“)

 

Add comment


Security code
Refresh