سات اپریل 2017ء کو، جمعۃ المبارک کے دن، مشرقی بحیرہ روم میں تعینات، امریکی بحری بیڑے نے، شام پر کروز میزائلوں سے حملہ کیا، شام کے مقامی وقت کے مطابق جمعے کی صبح 4 بجکر 40 منٹ پر یہ حملہ کیا گیا۔
شام پر امریکی کارروائی کے بعد روس نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے، روسی دفاعی کمیٹی کے سربراہ نے کھا ہے کہ شام میں امریکی فضائی حملہ دھشت گردی کے خلاف مقابلے کی کوششوں کو کمزور کرسکتا ہے۔
دوسری طرف عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب نے شام میں امریکی فضائی کارروائی پر مکمل حمایت کا اظھار کیا ہے اور اسی طرح اسرائیل نے بھی شام پر امریکہ کے حملے کی حمایت کی ہے۔
امریکہ کا شام پر حملہ کرنا اور سعودی عرب و اسرائیل کا حمایت کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل اتحادی ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ اتحادی نھیں ہیں بلکہ ان تینوں ممالک میں سعودی عرب کی حیثیت فقط ایک قربانی کے بکرے کی سی ہے۔
سچ بات تو یہ ہے کہ امریکی اور اسرائیلی اتحاد میں شامل ھونے کی وجہ سے سعودی عرب کی بین الاقوامی حیثیت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اب سعودی عرب جو کام بھی کرتا ہے، وہ دراصل امریکہ کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ھی ھوتا ہے۔ سعودی عرب کے پاس نہ ھی تو کوئی اپنا ایجنڈا ہے اور نہ ھی وہ ایسی پوزیشن میں ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ کندھا ملانے کے بعد اپنے کسی ایجنڈے کا اعلان کر سکے۔
دھشت گردی سے نمٹنے کے لئے سعودی عرب نے جو اسلامی ممالک کا اتحاد بنایا ہے، اس میں بھی صرف وھی ممالک شامل نھیں ہیں، جو امریکہ اور اسرائیل کے ناپسندیدہ ہیں، اسی طرح اس اتحاد کا ایجنڈا اگر اسلامی ممالک کی حفاظت ہے تو یہ اتحاد عالم اسلام کے دیرینہ مسائل مثلاً کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے بھی لاتعلق کیوں ہے!؟
باقی رھا جنرل راحیل شریف کی طرف سے اس اتحاد کی قیادت کرنے کا ایشو، اگرچہ یہ کھا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ وہ عالمی اسلامی فوج کی قیادت کرے۔ یہ اعزاز سر آنکھوں پر، البتہ یہ بات ھمیں یاد رکھنی چاھیے کہ یہ اعزاز ھمیں تبھی حاصل ھوسکتا ہے کہ جب یہ اتحاد واقعتاً اسلامی اتحاد ھو اور دنیائے اسلام کے دفاع کے لئے کام کرے۔ لیکن اگر یہ اتحاد امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے لئے کام کرتا ہے تو ھمیں اعزاز نصیب ھونے کے بجائے مزید ذلت، رسوائی اور عالمی سطح پر تنھائی نصیب ھوگی۔
سعودی حکام کے لئے ھمارا مشورہ یہ ہے کہ اگر یہ اتحاد اسلامی اتحاد ہے تو پھر اس اتحاد کے داعی سعودی عرب کو فوری طور پر چند قدم اٹھانے چاھیے:
1۔ سعودی عرب کو اپنے برادر اسلامی ملک یمن کے خلاف فوج کشی کو فوراً روکنا چاھیے ۔
2۔ بحرین کے مسلمانوں سے جذبہ خیر سگالی کے اظھار کے طور پر شیخ عیسٰی قاسم کو عزت و احترام کے ساتھ تمام مقدمات سے بری کیا جانا چاھیے۔
3۔ قطیف میں مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کو ختم کیا جائے اور ان سے قید و بند کی صعوبتوں کو ھٹایا جائے۔
4۔ عالم اسلام کے قلب یعنی مکۃ المکرمہ اور مدینہ منورہ میں فلسطین کی آزادی کے لئے بین الاقوامی اسلامی کانفرنس بلائی جائے ۔
5۔ سعودی عرب اپنے تمام ھم فکر جھادی گروھوں کو آفیشل طور پر فلسطین کو آزاد کرانے کا حکم صادر کرے۔
6۔ سعودی عرب میں موجود تمام صحابہ کرام اور اھلبیت اطھار کے مزارات کو از سر نو تعمیر کرکے امت مسلمہ کے درمیان وحدت و مواخات کی فضا قائم کی جائے۔
7۔ دھشت گردی کے خلاف فرنٹ رول ادا کرنے والے مسلم ممالک خصوصاً، شام، عراق اور ایران کی خدمات کا اعتراف کیا جائے اور انھیں نظر انداز کرنے کے بجائے ان سے خصوصی مدد لی جائے ۔
8۔ سعودی عرب اس حقیقت کو ھمیشہ مدنظر رکھے کہ امریکہ اور اسرائیل کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں اور ان کا کوئی بھی مستقل دوست نھیں ہے۔ لھذا اگر سعودی عرب حقیقی معنوں میں اسلامی تحاد قائم کرنے کی کوشش کرے تو یہ خود سعودی عرب کی بقا کے لئے بھی ضروری ہے۔
امریکہ کی تاریخ شاھد ہے کہ امریکہ نے طالبان سے فائدہ اٹھایا اور پھر خود ھی ان کا کام تمام کر دیا، صدام سے استفادہ کیا ہے اور پھر خود ھی اسے تختہ دار پر لٹکا دیا، قذافی کو امیرالمومنین بنایا اور پھر خود ھی اسے نشانِ عبرت بنا دیا، حسنِ مبارک کو پٹھو بنایا اور پھر اسے وقت کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔
اگر سعودی عرب نے امریکہ اور اسرائیل سے دوری اختیار نھیں کی تو پھر یہ ٹھیک ہے کہ آج 2017ء میں، سات اپریل کو، جمعۃ المبارک کی صبح مشرقی بحیرہ روم میں تعینات، امریکی بحری بیڑے نے، شام پر کروز میزائلوں سے حملہ کیا، لیکن جب امریکہ نے اپنے مفادات، شام، روس، عراق اور ایران کو خوش کرنے میں دیکھے گا تو پھر طالبان اور صدام کی طرح امریکی میزائلوں کا رخ سعودی عرب کی طرف بھی مڑ سکتا ہے، شاہ فیصل کی طرح، مزید سعودی حکمران بھی قتل ھوسکتے ہیں اور سعودی شھزادے ھی سعودی بادشاھت کو خاک و خون میں غلطاں کر سکتے ہیں۔
یہ سعودی عرب کے لئے انتھائی سنھرا موقع ہے کہ سعودی عرب، امریکہ اور اسرائیل کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے “اسلامی اتحاد” کا نام استعمال کرنے کے بجائے حقیقی معنوں میں اسلامی اتحاد کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ اپنے ھمسایہ ممالک سے کشیدگی ختم کرے، یمن اور بحرین کے خلاف طاقت کے استعمال کو ترک کرے، فلسطین کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے اور امریکہ اور اسرائیل کی ھاں میں ھاں ملانے سے گریز کرے، اسی میں سعودی عرب کی عزت اور مسلمانوں کی بھلائی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکی میزائل اپنے دوست اور دشمن کو نھیں دیکھتے بلکہ اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں۔
تحریر: نذر حافی
امریکی میزائلوں کی سمجھداری
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1372