www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

323150 418
اصول و ضوابط سے عاری کسی بھی قسم کی طاقت ایک انسان کو درندہ بنا دیتی ہے ۔ تاریخ عالم ایسے انسان نما درندوں کی درندگی سے خون آلود ہے۔اسی درندگی کی کوکھ سے قدیم مطلق العنان ظالم حکمرانوں نے جنم لیا ہے جدید استعماریت بھی اسی گود میں پلی بڑھی ہے۔اور آج پورے جوبن پر پھنچ کر عالمی امن و سکون کو غارت کرنے پر تلی ھوئی ہے۔نشۂ قوت ھی ہے کہ جس نے برطانوی سامراج کے حواسِ خمسہ کو ایک مدت تک معطل کر کے رکھ دیا تھا۔اور اس کا سورج غروب ھوتے ھی امریکی طاغوت اس کی زد میں آگیا۔جب سے امریکی سامراج کا سورج طلوع ھوا ہے اس نے اپنی بے پناہ تمازت سے پورے عالم علی الخصوص عالمِ اسلام کو جھلسا کر رکھ دیا ہے۔
لگتا ہے کہ امریکی استعمار کا یہ سورج آج کل عروج پر ہے۔ اور اسی لحاظ سے اپنے زوال کے بھت قریب بھی۔ کیونکہ کھا جاتا ہے کہ'' ھر کمالے را زوالے و ھر فرعونے را موسیٰ۔''اس زوال آمادگی کے آثار اسی وقت نمایاں ھوگئے جب سے ڈونلڈ ٹرمپ جیسا پست فکر انسا ن امریکہ کے سیاسی افق پر چھا گیا۔
انتخابی مھم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے جن خیالات کا اظھار کیا وہ سراسر نسل پرستی اور سوفسطائی نطریات پر مبنی ہیں۔اور اقتدار پر براجمان ھوتے ھی اس شخص نے اپنی پست سوچ کو عملی جامہ پھنایا۔ظاھر سی بات ہے ایک اعلیٰ عھدے پر پست سوچ انسان کا قابض ھوناکسی المیہ سے کم نھیں ھوتا۔ اس لحاظ سے ٹرمپ کا اس اعلیٰ منصب پر براجمان ھونا عالمی سیاست کے لئے ایک ناقابل تلافی المیہ ہے ۔
گو کہ امریکہ کے سابق حکمران بھی دودھ کے دھلے نھیں ہیں۔نیز امریکہ کا گزشتہ ایک صدی سے سیاسی ریکاڑ بھی ظلم و بربریت سے بھرا پڑا ہے ۔ لیکن موجودہ صدر اور گزشتہ حکمرانوں میں ایک واضع فرق یہ ہے کہ وہ اپنی تسلط پسندانہ پالیسوں کو ایک خوبصورت لبادہ اوڑھ کر پیش کرتے تھے اور اپنے خبث باطن کو عیاری کے پردوں میں ڈھانپ کر پیش کرتے تھے اسطرح عالمی رائے عامہ کے ساتھ ساتھ امریکی عوام کو بھی ورغلانے میں کسی حد تک کامیاب ھوتے تھے۔
عکس العمل اس کے مسٹر ٹرمپ نے اپنی باطنی کدورت کا یکبارگی اور برملا اظھار کیا۔ اس نے وائٹ ھاوس میں داخل ھوتے ھی سات اسلامی ملکوں کے باشندوں کو امریکہ میں داخلے پر پابندی کا حکم نامہ جاری کیا۔ یہ سات اسلامی ممالک ایران ،عراق ،لیبیا ،سوڈان ،صومالیا ،شام ،اور یمن ہیں ۔
واضع رھے مذکورہ تمام ممالک کسی نہ کسی طور امریکی جارحیت کا خمیازہ بھگت چکے ہیں بلکہ اب بھی بھگت رھے ہیں۔ ھونا تو یہ چاھئے کہ امریکہ کی ان ملکوں کے تئیں بے جا مداخلت اور تسلط پسندی پر روک لگ جاتی ۔لیکن یھاں تو گنگا الٹی بھائی جا رھی ہے۔
ٹرمپ نے میکسکو کو الگ تھلگ کرنے کے لئے ایک بڑی فصیل میکسکو کی سرحد پر کھڑی کرنے کے ارادے کو ظاھر کیا ۔اور ساتھ ھی ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ اس کا تمام تر خرچہ میکسکو ھی کو برداشت کرنا پڑے گا۔جس کے رد عمل میں پورے میکسکو میں ھزاروں کی تعداد میں لوگ احتجاج ریلیوں میں شامل ھوئے۔میکسکو کے عوام کا ٹرمپ کے نام واضع پیغام تھاکہ انھیں ''دیوار بد اعتمادی ''کے بجائے آپسی ''اعتمادسازی کے پلوں'' کی ضرورت ہے ۔
امریکی صدر نے شامی پناہ گزینوں کی امریکہ میں داخلے پر بھی خصوصی طور پر پابندی لگا دی۔دوسری جانب مسلم انتھاء پسندی کو ختم کرنے کا راگ الاپنے میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مھم سے ھی کافی پر جوش دکھائی دیتے ہیں۔ یھی وجہ ہے کہ حلف برداری کے بعد اولین فرصت میں یمن کے نھتے عوام پر میزائل حملہ کر کے چند بچوں اور خواتین سمیت سولہ بے گناہ شھریوں کو ھلاک کیا۔
بلاشبہ امریکی صدر کے نسل پرستانہ اور معتصبانہ پالیسی کا بنیادی ھدف ایران ہے۔ نیز ایران دشمنی میں موجودہ صدر سابقہ صدروں سے بھی دو قدم آگے دکھائی دے رھے ہیں۔ یھی وجہ ہے کہ انھوں نے ابتدا سے ھی ایران کے خلاف ڈرانے دھمکانے کا محاذ کھو ل رکھا ہے۔ اور بارھا اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ایران کو سبق سکھائیں گے۔
ایران کے ایٹمی پروگرام کا معاھدہ بھی انھیں ایک آنکھ نھیں بھاتاہے ۔اس معاھدے کی ساکھ کو خراب کرنے پر مسٹر ٹرمپ اپنا سارا زورلگا رھے ہیں۔وہ مسلسل منافرت آمیز زبان اپنے تمام حریفوں علی الخصوص ایران کے خلاف استعمال کر رھے ہیں۔اپنے ایک بیان میں مسٹر ٹرمپ نے کھا کہ ایران کے خلاف تمام تر آپشن بشمول جنگ میز پر موجود ہے۔
ڈونلڈ ترمپ کا مزید کھنا ہے کہ ایران آگ سے کھیل رھا ہے اور ایران کو سمجھ لینا چاھئے کہ سابق صدر مسٹر اوباما نے ان کے ساتھ نرم گوشہ اختیار کر رکھا تھا ۔اب جبکہ اوباما چلے گئے اور ایک نئے صدر آگئے ہیں ایران کو نھایت ھی محطاط رھنا ھوگا۔مگر دوسری جانب ایران نے بھی خم ٹھوک کر حسبِ سابق امریکی دھونس اور دباؤ کو خاطر ھی میں نھیں لایا۔
چنانچہ سپریم لیڈر امام خامنہ ائی نے واضع الفاظ میں کھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایرانی قوم اور لیڈر شب کو ڈرانا چاھتے ہیں لیکن ھم ان سے خوف زدہ ھونے والے نھیں ہے۔اور دشمن کی ھر جارحیت اور تجاوز کا دندان شکن جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔
درایں اثنا ایران نے بیلسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ کر کے اپنے عسکری اور دفاعی عزائم کا اظھار کیا ہے۔جوابی کاروائی کے طور امریکی شھریوں پر ایران میں داخلے پر پابندی کا اعلان کردیا۔ مزید بر آں ایران نے امریکی ڈالر کو چلینج کر کے متبادل کرنسی میں عالمی سطح پر دیگر ممالک کے ساتھ کارو بار کرنے کا اعادہ کر دیا ہے ۔جسے امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی نے ایک خطرناک رخ اختیار کر لیا ہے ۔
الغرض جب سے ٹرمپ امریکہ کے سیاسی منظر نامے پر نمودار ھوا ہے اس کے منہ سے خیرکا ایک لفظ بھی نھیں نکلا۔اس نے ھمیشہ جارحانہ اور نسل پرستانہ زبان کا استعمال کیا۔اس کی احمقانہ حرکتوں کا اندازہ اس رد عمل سے بھی ھو سکتا ہے جو امریکہ اور بیرون امریکہ اس کے خلاف سامنے آرھا ہے چنانچہ عھدہ صدارت سنبھالنے کے بعد جتنے بھی حکم نامے اس نے جاری کئے ہیں ان میں بیشتر حکم نامے عالمی انصاف و قانون کے برعکس ہیں ۔یھی وجہ دنیا بھر میں اس شخص کو لائقِ مذمت و ملات گردانا گیا۔
امریکہ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے احتجاج کیا۔ان احتجاجوں میں ھر طبقے سے وابستہ افراد شامل تھے ۔حتیٰ کہ اپنے ھی صدرکا نامعقول رویہ دیکھ کر حکومت کے اعلیٰ عھدوں پر فائز افراد کا بھی پیمانۂ صبر لبریز ھوا ۔
چناچہ امریکہ کے تیس شھروں سے وابسطہ مئیر بھی اس احتجاجی مھم میں شامل ھوگئے۔قانونی ماھرین،فنکار،دانشور ،سیاست دان،ماھرین تعلیم،صحافی اور وکلاء بھی کافی مشتعل دکھائی دے رھے ہیں۔
لندن میں قریباً ایک لاکھ سے زائد افراد نے امریکی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کیا۔اور پانچ لاکھ افراد نے ایک دستخطی مھم پر دستخط کئے ۔دستخط کنندگان کا مطالبہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا دورہ برطانیہ منسوخ کیا جائے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی سات اسلامی ملکوں کے باشندوں پر امریکہ میں داخلے کی پابندی کے متعلق ٹرمپ نے یہ کہہ کر نھایت ھی بودی توجیہ پیش کی تھی کہ ایکزیکیٹو حکم نامے کا مقصد امریکی قوم کو غیر ملکی دھشت گردوں کی گھس بیٹھ سے تحفظ فراھم کرنا ہے۔مگر امریکہ کی ایک فیڈریل عدالت نے اس توجیہ کو ناقابل اعتنا گردانا۔ اور اس حکم نامے کو معطل کر دیا۔
تجزیاتی نگاہ سے دیکھا جائے تو ٹرمپ نے ایک ھی جست میں عدمِ برداشت،نسل پرستانہ ذھنیت،غیر معقولیت،جنگ طلبی،من مانی،عدمِ رواداری، کی سرحدوں کو عبور کیا۔بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر یہ شخض اسی چال ڈھال سے آگے کی جانب گامزن رھا تو عالمی امن و سکون کو شدید خطرہ لاحق ھو سکتا ہے۔اس خدشہ کا اظھار حالیہ صدارتی انتخاب میںٹرمپ کی مضبوط حریف ھیلری کلنٹن نے بھی کیا ۔ اپنی ایک تقریرمیں ھیلری نے ٹرمپ کے متعلق کھا '' اس کے خیالات اور بیانات ذھنی انتشار پر مبنی ھوتے ہیں اور خطرناک حد تک غیر مربوط بھی۔ ایسے شخص کے ھاتھ ھرگز ھرگز خفیہ نیوکلیر کوڈ نھیں لگنے چاھیئے ۔کیونکہ اس کا عدمِ برداشت ھمیں ایک خطرناک جنگ کی طرف لے جا رھا ہے''ڈیلی انڈیپنڈنٹ کے مطابق یہ بیان محض ایک سیاسی حریف کا دوسرے سیاسی حریف کے رویہ پر تیکھا وار نھیں بلکہ چند ایک امریکی ماھرینِ نفسیات نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے۔
سحر عالمی نیٹ ورک کے مطابق نہ صرف امریکی عوام میں ٹرمپ کے ذھنی توازن کے متعلق چہ مہ گوئیاں ھو رھی ہے بلکہ ریاست کیلیفورنیا سے ایوان نمائندگان کے رکن ڈیدلیو نے کھا ہے کہ ٹرمپ کا ذھنی توازن صحیح نھیں ہے انھوں نے صدرٹرمپ کے غیر منصفانہ اور نسل پرستانہ اقدامات منجملہ سات اسلامی ممالک کے شھریوں پر پاندیوں کے فیصلے پر کھا ہے کہ ٹرمپ کے ذھنی توازن کا چیک اپ ھونا چاھئیے۔
عالمی میڈیا کو صرف نظر کر کے فقط یورپی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ھی نظر دوڑائی جائے تو مذکورہ بالا خبروں اور تجزیہ کے علاوہ بھی اس حوالے سے مواد مل سکتا ہے۔ قریباً تمام موقر اور کثیرالاشاعت اخبارات میں موجودہ صدر کی پالیسیوں کے خلاف کوئی نہ کوئی خبر، رپورٹ،تجزیہ ،تبصرہ یا آرٹیکل مسلسل پڑھنے کو مل رھا ہے۔ان اخبارات و رسائل میں گاڑین،ڈیلی مرر،ڈیلی اندیپنڈنٹ،واشنگٹن پوسٹ،وغیرہ قابل ذکر ہے۔
مغرب کے بیشتر سیاسی رھنماووں نے بھی ٹرمپ کی ابلھی کے متعلق اپنے تشویش کا کھل کر اظھار کیا۔ چنانچہ اسپین کے وزیرِ اعظم ماریا نورخوی اور میکسکو کے صدر آنریکا ینپیا نیتو موجودہ صدر امریکہ کی حارہانہ پالسیوں کے خلاف مشترکہ محاذ کھولنے پر متفق ھو گئے۔
فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے بھی مسٹر ٹرمپ کی جانب سے یورپی یونین پر بے جا دباؤ کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔کنیڈا کے وزیرِ اعظم نے امریکی صدر کے انسانیت سوز اقدامات کا جواب نھایت ھی مدبرانہ انداز میں دیا ہے ۔
حاصل کلام یہ کہ ایسے نا معقول اور مفسد شخص کا حکومت امریکہ کے سب سے اعلیٰ عھدہ پر فائز ھونا پوری دنیا کے لئے نیک شگون نھیں ہے۔وہ بھی ایک ایسی حکومت کہ جسے دنیا کی چودھراھٹ کا خبط لگا ہے۔ اور اسی لحاظ سے عالمی تنازعات اور معاملات میں اسے ایک اھم اور بنیادی فاصلہ ساز کی حیثیت حاصل ہے۔
لھٰذا اس کا خبثِ باطن مشرق و مغرب میں نہ جانے کیا کیا گھل کھلائے گا۔المیہ در المیہ یہ ہے کہ چنگیز خان کا یہ چیلہ جمھوری راہ و روش کے ذریعے اس اونچے مقام تک اپنی پوری پست ذھنیت کے ساتھ آ دھمکا ہے۔
اوربقولِ امام سید علی خامنہ ائی ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی غیر انسانی حرکتوں کے ذریعے امریکی سامراج کا جمھوری پردے کے پیچھے حقیقی چھرہ مھرہ دنیا کو دکھا دیا۔باالفاظ دیگر آج مغربی جمھوریت کا چنگیزی جوھر ٹرمپ کی صورت میں تمام تر پردوں کو چاک کر کے باھر آگیا ہے۔جسے حکیم الامت نے بھت پھلے اس کے پیکر میں دیکھا تھا
تو نے کیا دیکھا نھیں مغرب کا جمھوری نظام
چھرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر
مجلس ملت ھو یا پرویز کا دربار ھو
ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ھو جس کی نظر
یہ سوال بجائے خود مغربی جمھوریت کی آبرو اور اعتباریت کے ماتھے پر کالا کلنک ہے کہ کیا واقعی اس جمھوریت کے بطن سے ایسا آمر بھی پیدا ھو سکتا ہے؟بات جمھوری رتھ پر سوار اس راون تک ھی محدود ھوتی تو معاملہ اس قدر سنگین نوعیت کا نہ ھوتا۔ لیکن اس راون نے جمھوریت کی لنکاکی بنیادوں کو بھی ھلا کر رکھ دیا ہے۔اس دیوِ استبدادنے جمھوری اصولوں کواس انداز میں مسلا کچلا ہے کہ آمرانہ طرز حکومت میں گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے والوں کو بھی جمھوری لباس میں مزین آزادی کی نیلم پری گن محسوس ھوجائے تو غیر متوقع نھیں ھوگا
دیوِ استبداد جمھوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
جمھوریت کے جس بنیادی نقص کو کسی فرنگی دانشور کے حوالے سے علامہ اقبال نے بیان کیا ہے آج پھر ایک بار وہ نقص جمھوریت پسندوں کا منہ چڑا رھا ہے۔اور انھیں اس تصور پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور کر رھاہے کہ بس اور بس جمھوریت ھی واحد نظام حکومت ہے کہ جو بے عیب ہے۔
ٹرمپ کا منتخب ھونا اور پھر اس کے طرزِ فکر پر ان ھی کا واویلا کرنا جنھوں نے انھیں ووٹ دے کر منتخب کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جمھوری عمل میں سروں کو دیکھا جاتا ہے سروں میں چھپا سودا نھیں۔ورنہ بے عیب طرزِ حکومت میں عیوب سے اٹا ھوا شخص منصہ شھود پر کیوں کر آسکتا تھا۔ جو سر کسی ایک سر کو اپنا سردار مقرر کرتے ہیں ۔ ان کے سروں کو تولنے مولنے کا اھتمام دور کی بات یھاں تو اس سر کو دیکھنے بھالنے کا کوئی انتظام نھیں ہے کہ جس پر حکمرانی کا تاج سجھایا جاتا ہے۔یھی وجہ ہے امریکی جمھوریت میں منتخب صدر کی سبک سری اپنی مثال آپ ہے۔بجا کھا ہے علامہ نے
جمھوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نھیں کرتے
تحریر، فدا حسین بالھامی

Add comment


Security code
Refresh