www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

099800
سینٹ ویلنٹائن ڈے ایک تصوراتی اور شک و شبہ میں گندھا ھوا کردار ہے۔ جو کہ عیسائیت کی تیسری صدی میں رومنوں کے عھد سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ بھی کھا جاتا ہے کہ ویلنٹائن دو مختلف ادوار میں دو علیحدہ شخص تھے اور یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ ویلنٹائن ایک ھی شخص تھا۔ یوں رومی دور میں پادری تھا اور بعد ازاں تورنی کا بشپ مقرر ھوا تھا۔ اگرچہ برطانیہ کا کوئی چرچ بھی اس نام سے منسوب نھیں ہے۔ تاھم قدیم مصوری میں اسے ایک ایسے سینٹ کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے کہ جس کے قدموں میں ایک مرگی زدہ بچہّ لیٹا ھوا ہے۔ ویلنٹائن کو مرگی کے مرض سے بچاؤ پر ولی بھی تصور کیا جاتا تھا۔ ویلنٹائن کے قتل کا اصل سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ اصنام کی پوجا سے انکاری تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ ویلنٹائن ڈے کی تقریبات کا سینٹ ویلنٹائن سے کسی قسم کا کوئی تعلق نھیں ہے۔ فروری کے ایام میں چونکہ موسم تبدیل ھو جاتا تھا۔ پرندے اور جانور موسم کی مستی سے متاثر ھوتے تھے۔ اس لئے 14 فروری کا دن رومی عقائد کے مطابق پیار و محبت اور رفاقتوں کا دن قرار پایا گیا تھا۔ غالباَ انھیں ایام میں سینٹ ویلنٹائن کو قتل کیا گیا تھا۔
اب یہ بات ثابت ھوچکی ہے کہ ویلنٹائن کا دن کارپوریٹ بزنس سے وابسطہ افراد کی ایک کامیاب ذھنی اختراع ہے، یہ ایک ایسا کاروبار ہے، جس نے ترقی یافتہ ممالک سے کھیں زیادہ ان ملکوں میں دھن سمیٹا ہے، جو ترقی پذیر ہیں۔ یھاں خواندگی کا تناسب شرمناک حد تک کم ہے۔ یھاں کے لوگ ذھنی طور پر پسماندہ اور روایت پرست ہیں۔ صحافتی زندگی سے وابسطہ ھوئے مجھے روبع صدی سے زائد عرصہ ھو رھا ہے۔ میرے سامنے کی بات ہے کہ میرے ملک میں ویلنٹائن ڈے سے بھت کم لوگ آشنا تھے۔ تب پرنٹ میڈیا اس طرح کی بیھودگیوں کو اجاگر نھیں کرتا تھا۔ اخلاقیات کا پابند اور سماجی اصول و ضوابط کا ایک دھیان رکھتا تھا۔ پھر الیکٹرانک میڈیا کا ظھور ھوا اور ریٹنگ کی دوڑ شروع ھوگئی۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا نے سیم و تھور سے بھرے معاشرے میں اپنی جڑیں جمائیں اور یوں ویلنٹائن ڈے ایک جیتی جاگتی حقیقت بن گیا۔ اس دن کے معنی و مفھوم بدل گئے، اس سے ایسی روایات منسوب ھوئیں، جنھیں کسی بھی طور صحت مندانہ قرار نھیں دیا جا سکتا۔
ویلنٹائن ڈے کی مدت سے تاجروں کے ھاتھ میں ہے۔ ھر سال اس دن کی آمد سے قبل کاروباری حضرات اس ادھیڑ پن میں رھتے ہیں کہ 14 فروری کے دن کو کس طرح ایک وسیع تر کاروباری مقاصد کے تحت استعمال کرنا ہے۔ گلاب کے پھول اور ھیرے کی ایک انگوٹھی کی طلب اور خواھش کو کس طرح اس دن کے ساتھ وابسطہ کرنا ہے، انس و چاھت و پیار اور محبت کو غیر محسوس طریقے سے کس طرح کاروباری مقاصد کے تابع کرنا ہے۔
ویلنٹائن ڈے آج ایک ایسی صنعت کی صورت اختیار کرچکا ہے، جس سے ھزاروں لاکھوں افراد کا روزگار بندھ گیا ہے۔ نامی گرامی تجارتی ادارے الفاظ کے ایسے جادو گروں کی مدد حاصل کرتے ہیں، جو ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ان کی پروڈکٹس کو اس طرح پیش کریں کہ انسان ویلنٹائن ڈے کے دن انھیں پانے کی شدید خواھش کرے۔ موبائل فون پر ایسے پیغامات ترتیب دیئے جاتے ہیں کہ جنھیں شئیر کرنے پر ھی موبائل کمپنیاں کروڑوں روپے کما لیتی ہیں۔
بظاھر دیکھا جائے تو دنیا کے ان معاشروں کو جھاں قدریں تلپٹ ھو رھی ہیں، رشتوں کا احترام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ھوچکا ہے اور محرومیوں کا احساس زور پکڑ رھا ہے۔
ویلنٹائن ڈے ایک ایسے معاشروں میں رھنے والوں کو خوش ھوا کا ایک جھونکا محسوس ھوتا ہے، جبکہ یہ خوش ھوا کا جھونکا نھیں، ایک وقتی خط ھوتا ہے، جو پانی کے بلبلے کی طرح نمو دار ھوتا ہے اور لمحے میں معدوم ھو جاتا ہے۔
ویلنٹائن ڈے نے مغرب میں جنم لیتے ھوئے خود کو ان ایام کی فھرست میں نمایاں و ممتاز کروایا تھا، جو کسی نہ کسی موضوع کی یاد آوری کے حوالے سے اھم قرار دیئے گئے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس موضوع کی اھمیت اپنی جگہ ساکت رھتی ہے، جبکہ اسے منانے کے نتیجہ میں جو کاروباری سرگرمیاں متحرک ھوتی ہیں۔ وہ یقیناً حیران کن ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس دن کے اسیر دکھائی دیتے ہیں۔ مغرب کو ان کو منانے کی بات تو سمجھ آتی ہے کہ مغرب کی ترقی اور تھذیبی احساس اساطیر الاولین پر استوار ہے، لیکن اسلامی ممالک میں اس دن کو پذیرائی ملنا یقیناً اچھنمبے اور فکر کی بات ہے۔ اس لئے کہ ان ممالک کے پاس ایک آفاقی پیغام حیات ہے، ایک ٹھوس طرز زندگی ہے اور ایک ایسا نظام ہے کہ جس کی بنیاد ھی محبت و یگانت پر رکھی ھوئی ہے۔
اسلامی ممالک میں سینٹ ویلنٹائن ڈے کی یاد منانا اس قصےّ کی یاد دلاتا ہے، جو قرآن حکیم میں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت موسٰی کی قوم کا آزادی حاصل کرنے کے بعد ایک ایسی بستی سے گزر ھوا، یھاں کے لوگ مختلف اصنام کی پوجا کرتے تھے۔ قوم میں حضرت موسٰی سے اس خواھش کا اظھار کیا کہ وہ ان اصنام میں سے کچھ اپنے ساتھ لیجانا چاھتے ہیں۔ انسانی فطرت کی اسی کمزوری سے مغرب کے تاجروں نے فائدہ اٹھاتے ھوئے ایک ایسے کاروبار کی بنیاد رکھی، جسے دیکھتے ھی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی پکڑ میں لے لیا۔ وطن عزیز میں اس دن کی گھما گھمی ایک کاروباری مشغلہ ھونے کے علاوہ اس ذھنی پسماندگی اور کم علمی کا نتیجہ دکھائی دیتی ہے، جس نے ھماری قوم کو مدت سے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ آزادی کے 70 برس گزرنے کے باوجود آزادی ایک سیراب دکھائی دیتی ہے۔ اس قوم کے مرد و خواتین پر بھاری ذمہ داری عائد ھوتی ہے کہ زندگی کی ریت گھڑی پر وہ گھری نظر رکھیں اور سکتی ریت کے ذرے ذرے کا حساب کریں، نئی نسل کی تعلیم و تربیت کا بالخصوص خیال رکھیں اور زندگی کے حقائق کو اس طرح واضح کریں کہ سینٹ ویلنٹائن کسی بھی روپ میں ان کے سامنے آئے، وہ مرعوب نہ ھوں اور اسلامی کلچر کے تحت اپنی زندگیوں کو استوار کریں۔
تحریر: ایم افضل چوھدری

Add comment


Security code
Refresh