سانپ! جسکے تصور سے ھی بدن میں جھرجھری آجاتی ہیں اور اگر یہ نظروں کے سامنے آجائے تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اگر ڈس لے۔۔۔۔ تو پھر کیا؟ موت یقینی!!! کہ اسکا انگ انگ زھرِ ھلاھل سے بھرپور ھوتا ہے۔
لیکن حقیقت بعض اوقات کچھ اور ھوتی ہے۔ ماھرین کھتے ہیں کہ اکثر سانپ زھریلے نھیں ھوتے۔ ماھرین کی تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر سانپوں کے ڈسے افراد خوف کی وجہ سے جان سے ھاتھ دھو بیٹھتے ہیں، وگرنہ بروقت علاج میسر آجائے تو جان بچانا مشکل نھیں۔
اردو زبان میں اسکا استعمال محاوروں میں بھی اکثر ملتا ہے۔ سب سے زیادہ مشھور محاورہ "سانپ سونگھ جانا " ہے، جسکا مطلب خوف کی کمال حالت تک پھنچ جانا ہے، جھاں منہ سے الفاظ تک ادا نھیں ھوپاتے۔ یعنی اتنی دھشت کہ سونگھنا ھی کافی ہے، چہ جائیکہ کچھ مزید کیا جائے!!! امام علی علیہ السلام "دنیا" کی مذمت کرتے ھوئے اسے سانپ کے مماثل قرار دیتے ہیں۔ یعنی خوفناک اور دھشتناک۔۔۔
خدا نے جمادات و نباتات کے برعکس حیوانات کو اپنی مرضی سے حرکت کرنے کی آزادی اور قوت عنایت کی ہے۔ اس قوت کا اظھار ایک، دو، تین یا بیک وقت تینوں ذرائع سے ممکن ہے۔ یہ تین ذرائع دراصل خدا کے عطا کردہ تین جسمانی اعضاء ھاتھ، پیر اور جبڑہ یا منہ ہیں۔ چوپایوں میں چونکہ انکے پیر ھی انکے ھاتھ ھوتے ہیں، اس لئے وہ اپنے پیروں اور منہ کا استعمال اپنے فائدے کے لئے کرتے ہیں۔ چاھے وہ چلنا پھرنا بھاگنا دوڑنا ھو یا کھانا پینا اور شکار یا دفاع کرنا۔
اسی طرح پرندوں کو خدا نے پروں کی صورت میں بازو عطا کئے ہیں، جن سے وہ پرواز کرتے ہیں۔ جن کو شکار کی جبلت سے نوازا ہے، وہ اپنے پیروں سے شکار اور خورانی کے عمل میں اپنے پیروں سے ھاتھوں کا کام لیتے ہیں اور انکا منہ دیگر حیوانات کی طرح انکی غذا کو پیٹ تک لیجانے کا سبب بنتا ہے۔
انسان خدا کی وہ واحد حیوانی مخلوق ہے کہ جس کو اس نے ھاتھ، پاؤں اور منہ ۔۔۔ تینوں اعضاء اپنے اپنے امور انجام دینے کے لئے عطا فرمائے ہیں۔ پیروں سے وہ چلتا پھرتا ہے، ھاتھوں سے چیزوں پر گرفت کرتا ہے اور منہ کے ذریعے اپنی خوراک کو اپنے معدے تک پھنچا کر دیگر اعضاء و جوارح کی قوت اور صحت کا اھتمام کرتا ہے۔
لیکن جب اسی انسان پر اس کے اندر چھپی حیوانیت یا باھر سے کوئی دشمن غالب آجائے تو یھی انسان طاقت کے ان تینوں ذرائع کا بیک وقت استعمال کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
خدا کی کھرب ھا کھرب محلوقات میں میرے خیال میں "سانپ" وہ واحد مخلوق ہے، جو سراسر منہ ھی منہ ہے۔ چلنا ھو تو اسے پیروں کی ضرورت نھیں، پکڑنا ھو تو بازو اور ھاتھ بے معنی! صرف منہ، دھانہ۔۔۔ وہ بھی سیدھے سیدھے بھت سارے دانتوں کے بغیر، صرف دو قوس نما دانت ۔۔۔ یہ منہ کھلے تو سامنے کی چیز نگل جائے اور اگلے تو زھر کے سوا کچھ نھیں۔ لچک اتنی کہ چھوٹی سے چھوٹی جگہ میں بھی سما جائے اور بڑی سے بڑی چیز بھی نگل جائے۔
یھی وجہ ہے کہ یہ جانور خوف، دھشت، وحشت اور ھیبت کا نشان ہے۔ لیکن اسکی یہ خصوصیات شاید ھمارے خطے میں زیادہ مشھور ہیں کہ ھمیں نسل در نسل بچپن سے ھی اس سے ڈرایا گیا۔ کبھی قصے کھانیوں میں، کبھی فلموں ڈراموں میں اور کبھی روایات و حکایات میں اور یہ بات مصدقہ ہے کہ جس چیز کا خوف ایک مرتبہ دل میں بیٹھ جائے، انسان ساری زندگی اسکے بارے میں سوچنا بھی پسند نھیں کرتا۔ وگرنہ سانپ کے بارے میں اگر تھوڑا مطالعہ کیا جائے تو بھت دلچسپ باتیں بھی جاننے کو ملتی ہیں۔
سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق رینگنے والے جانوروں کے خاندان کے اس جانور کی کم و بیش ساڑھے تین ھزار اقسام اس کرہء ارضی کے چھ بر ھائے اعظم پر قریباً ایک سو بارہ ملین سالوں سے پائی جاتی ہیں، جن میں سے ھمیں محض شیش ناگ (Cobra)، پائیتھن (Python)، ریٹل (Rattle snake)، وائپر (Viper)، اینا کونڈا (Anaconda) یا دو چار اور قسم کے سانپوں کے بارے میں علم ہے۔ خوف و دھشت کی علامت یہ جانور فطری طور پر خود ڈرپوک ہے، جو زیادہ تر وقت اپنے بِل میں چھپا رھتا ہے۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق (مرحوم) اپنی شھرہ آفاق تصنف "دو قرآن" کے سمندری علوم کے باب میں سانپوں کا تذکرہ کرتے ھوئے ان کی کچھ اقسام کے بارے میں بتاتے ہیں کہ "1848ء میں ڈیڈالس نامی بحری جھاز کے کپتان نے سمندر میں ایک سانپ دیکھا، جو 60 فٹ لمبا تھا جبکہ 1872ء میں سِسِلی کے پاس اوسبورنی جھاز کے کپتان نے پچاس فٹ لمبا اور پندرہ فٹ چوڑا سانپ دیکھا۔ 1870ء میں امریکی جھاز ڈرِفٹ کے ملاحوں نے کیپ کاڈ کے مقام پر ایک سانپ کو دیکھا جو پانی سے ابھرا اور چالیس فٹ تک سیدھا کھڑا ھوگیا۔"
چالیس کی دھائی میں جب مغربی تحقیقات کے نتیجے میں ڈاکٹر صاحب نے ھزاروں واقعات میں سے محض ان چند باتوں کا ذکر کیا تو مقامی لوگوں نے دیگر باتوں کی طرح ان باتوں کا بھی مذاق ھی اڑایا۔ لیکن آج جب ھم جنگلی حیات کے چینلز دیکھیں تو یہ سب باتیں سچی ثابت ھوتی نظر آتی ہیں۔ پوری پوری گائے، ھرن، زیبرا۔۔۔ حتٰی کہ انسان کو نگلتا ھوا اژدھا تو اکثر نے ھی دیکھا ھوگا۔ ۔۔۔ آج کل تو اژدھے کو گھر میں پالنا بھی ایک خاص طبقے میں فیشن بن چکا ہے۔ لوگوں نے بڑے بڑے شیشے کے مرتبانوں میں اسے گھر میں سجایا ھوتا ہے، جبکہ چڑیا گھروں میں بچے اسے گلے میں ڈالے تصویریں کھنچواتے ہیں۔
ماھرین کی تحقیقات سے یہ معلوم ھوا ہے کہ سب سے زیادہ اقسام کے سانپ افریقہ کے جنگلوں، سمندروں اور صحراؤں میں اپنی مست زندگیاں بسر کر رھے ہیں جبکہ انٹارکٹکا، نیوزی لینڈ اور آئرلینڈ میں انکا وجود ھی نھیں۔ قدیم یونان میں سانپوں سے مختلف امراض کا علاج کیا جاتا تھا اور اسکے زھر سے دوائیں تیار کی جاتی تھیں۔ مریض کو رینگتے ھوئے سانپوں کے درمیان چھوڑ دیا جاتا تھا جو اسکے جسم سے لپٹ کر مرض کو کھینچ نکالتے تھے۔ یہ طریقہء علاج Snake Therapy کھلاتا ہے۔ (تصور کریں! اگر ھمارے ساتھ ایسا کچھ ھو تو مرض کا تو پتہ نھیں، البتہ جسم سے روح ضرور نکل جائے گی۔)
یھی وجہ ہے کہ تین سو سال قبل از مسیح کے قدیم یونان سے لیکر آج تک، شفا کے دیوتا "اسکلیپئیس" کے عصا سے لپٹا سانپ شفا اور شفا خانوں کی علامت ہے اور آج کی جدید تحقیق میں سانپ کے زھر سے لاعلاج امراض کی دوائیں تیار کی جا رھی ہیں۔
چپٹی آنکھوں والے باشندوں کے ممالک مثلاً چین، جاپان، تھائی لینڈ اور کوریا وغیرہ میں دیگر حشرات کی طرح اسے ایک مرغوب غذا کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ قدیم مصری تھذیب کی تصاویر اٹھا کر دیکھیں تو فراعین کے تاجوں میں بھی طاقت اور دھشت کا یہ نشان واضح نظر آتا ہے۔ عیسائی اور یھودی روایات میں سانپ شر اور برائی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ زبور و انجیل کی روایات کے مطابق شیطان نے سانپ کے روپ میں ھی آدم و حوا کو ممنوعہ درخت کی جانب مائل کیا تھا۔ جب پانچویں صدی عیسوی میں عیسائیت کی تبلیغ کے نتیجے میں سارا آئرلینڈ مسیحی ھوگیا تو سینٹ پیٹرک نے پورے ملک کو شیطنت کے اس نشان سے پاک کر دیا۔ شاید یھی وجہ ہے کہ اب آئرلینڈ میں ڈھونڈے سے بھی سانپ نھیں ملتا، جبکہ قرآن میں سامری کے جادوئی سانپوں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصائی اژدھے کا قصہ تفصیلاً بیان ھوا ہے۔
قدیم فارسی تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں تو تین ھزار قبلِ مسیح سے شروع ھونے والی ایرانی بادشاھت کے اوائل میں ایک بادشاہ "ضحاک" نامی ملتا ہے۔ وہ اپنے کندھوں پر ھمہ وقت دو پالتو سانپوں کو سجائے پھرتا تھا۔ یہ سانپ انسانی مغز کھاتے تھے، سو انکی غذا کی خاطر روزانہ دو انسانوں کو قربان کیا جاتا تھا۔ دارالخلافہ میں "کاوہ" نامی ایک آھن گر تھا، جسکے دو بیٹے تھے۔ ایک جوان بیٹا بادشاہ کے ایک سانپ کی غذا بن چکا تھا۔ جب شاھی اھلکار دوسرے بیٹے کی جانب بڑھے تو کاوہ بھڑک اٹھا۔ اپنی بھٹی کی پھنکنی کو ضحاک کی سفاکیت کے خلاف علمِ بغاوت بنا کر اٹھا لیا۔ علاقے کے پسے ھوئے سارے عوام بھی خوف کی چادر اتار کر اسکے پیچھے کھڑے ھوگئے۔ زبردست جنگ ھوئی اور ضحاک ماراگیا۔
یھی "درافشِ کاویانی" یعنی "کاوہ کا پرچم" ایران کا قومی نشان اور ظلم کے خلاف جدوجھد کی ضرب المثل بن گیا، جس پر ضحاک سے نجات دلانے والی پھنکنی بنی ھوئی تھی۔ بعد ازاں لوگوں نے ایک شریف اور رحمدل عرب "فریدون" کو اپنا بادشاہ منتخب کرلیا۔ کبھی اچھے اور کبھی برے بادشاھوں کی اس بادشاھت کا سلسلہ کم و بیش اڑھائی ھزار سال تک جاری رھا۔
بالآخر رضا شاہ پھلوی کے دور میں خدا نے ایرانیوں کو امام خمینی (رہ) جیسا بے باک و بے لوث رھبر عطا فرمایا، جنکی سرکردگی میں ایک ضحاک ھی کیا، پچیس سو سال راج کرنے والے سارے بادشاھوں کی بادشاھتیں تاراج ھوگئیں۔ سب سانپ، سنپولے، سپیرے عوام کے لشکر تلے کچلے گئے۔ ایران میں خدا کا نظام رائج ھوا اور اسکے پرچم پر خدا ھی کا نام ھمیشہ کے لئے ثبت ھو کر سربلند ھوگیا۔
اسکے علاوہ بھی دیگر تمام تاریخوں، تھذیبوں اور دنیا کے مختلف خطوں میں سانپ کی اپنی ایک اھمیت ہے۔ ھندوستان جھاں دنیا میں دیگر حوالوں سے مشھور ہے، وھیں اسکی ایک وجۂ شھرت سانپ بھی ہیں، کیونکہ ھندو دھرم میں سانپ کو دیوتا کا درجہ حاصل ہے۔ قدیم ھندو روایات کے مطابق یہ ناگ دیوتا ھی ہیں، جنھوں نے اس پرتھوی کو اپنے سر پر اٹھا رکھا ہے۔ بھگوان شِو کو دیکھیں تو وہ بھی ناگ دیوتا کو اپنی گردن کے گرد لپٹا کر کندھے پر بٹھائے، ایک ھاتھ میں ترشول تھامے اور دوسرے ھاتھ سے نور کی شعاعیں ساطع کرتے ھوئے اتم شکتیوں کا منبع نظر آتے ہیں۔ ھم خوف سے مرے جاتے ہیں جبکہ ھندو پجاریوں کا یہ عالم ہے کہ جھاں سانپ دِکھا، وھیں سجدے میں گِر گئے۔ کبھی ھاتھ جوڑے مِنتیں کر رھے ہیں تو کبھی آنکھیں موندھے مَنتیں مان رھے ہیں۔
ھندوستان میں منعقد ھونے والے سالانہ ناگ پنچمی میلے میں تو حد ھی ھوجاتی ہے۔ پجاری سارے ھندوستان سے ناگ دیوتا پکڑ پکڑ کے دودھ کے پرساد سے وہ خدمت مدارت کرتے ہیں کہ اب حیوانی حقوق کی تنظیموں نے اس میلے پر پابندی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ان کا کھنا ہے کہ پجاری اپنے دیوتاؤں کو اتنا دودھ پلا دیتے ہیں، جو ان سے ھضم ھی نھیں ھوپاتا، بالآخر وہ بیمار ھو کر دم توڑ دیتے ہیں۔ ھندوستانی فلمیں۔۔ اور وہ سانپ کے بغیر مکمل ھوں۔۔۔ ایسا کم کم ھی ھوتا ہے۔
برِصغیر میں چونکہ جھالت کا طویل راج رھا ہے، اس لئے دنیا کے سائنسی محققین کا یہ موضوع یھاں ھمیشہ سے ان پڑھ اور جاھل جوگیوں اور سپیروں کے ھاتھ رھا ہے۔ ان کے پاس اس جنس کے متعلق ھزاروں بے سروپا اور لغو و بکواس کھانیاں موجود ہیں۔ مثلاً یہ سو سال بعد انسان بن جاتا ہے۔ بھت سارے جوگیوں کو اس قسم کے سانپوں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ھوچکا ہے۔ یہ جوگی ان سانپوں کو ِبین کی لَے پر رقصاں کرنے کا ایسا گر بھی جانتے ہیں کہ فنِ رقص میں "ناگن ناچ" ایک باقاعدہ صنف کا حامل ہے۔ منکا، گیدڑ سنگھی، دانت، کینچلی ۔۔۔ اور ان چیزوں سے متعلق نجانے کیا کیا فضولیات مشھور ہیں، جو ان جوگیوں کی حکایات ہیں۔ آج بھی یہ جوگی گلی گلی گھوم کر بچوں کو سانپ کے تماشے دکھا کر اور بڑوں کو بے تکے قصے سنا کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ ادب میں بھی اس بے ادب حیوان نے اپنی اھمیت کو منوا رکھا ہے۔ یہ کئی سبق آموز کھانیوں کا مرکزی کردار رھا ہے۔
ایک کھانی تو بھت زیادہ مشھور ہے، جس میں ایک راھگیر سردی میں جمے ایک سانپ پر رحم کھا کر اسے اپنے گھر اٹھا لاتا ہے اور انگیٹھی کے پاس رکھ دیتا ہے۔ آگ کی تپش سے اسکے جسم میں جان لوٹ آتی ہے۔ نیکدل انسان اسکے سامنے دودھ کا پیالہ رکھ دیتا ہے۔ دودھ پی کر جیسے ھی سانپ کی توانائی بحال ھوتی ہے، وہ اپنی سرشت کے ھاتھوں مجبور ھو کر اپنے محسن کو ھی ڈس لیتا ہے۔
اور ھم سب تو بچپن کے ان دنوں سے ھی سانپ سے واقف ہیں جب ھم لوڈو کھیلا کرتے تھے۔ لوڈو کی پچھلی جانب سانپ سیڑھی کا کھیل لوڈو سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جب آپ چھکے کے بتائے ھوئے اعداد کی روشنی میں قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہیں تو ایک سانپ صورت دشمن آپکو ڈسنے کے لئے تیار بیٹھا ھوتا ہے، جسکے نتیجے میں آپ کئی خانے پیچھے چلے جاتے ہیں۔ پھر ترقی کا زینہ طے کرتے ھوئے عروج کے سفر پر ھوتے ہیں تو دوبارہ سے اسی موذی کا سامنا ھوتا ہے۔ کبھی کبھی تو ننانوے یعنی کامیابی کے آخری دھانے پر بھی یہ اپنا دھانہ کھولے بیٹھا ھوتا ہے اور آپکو منہ کے بل صفر پر لاگراتا ہے۔
سانپ سیڑھی کے اس کھیل کو ایجاد کرنے والے نے شاید زندگی کو بھت گھرائی سے تجربہ کیا ھوگا۔ یہ کھیل ھماری روزمرہ کی زندگیوں کا بھترین عکاس ہے، جھاں ایک ایک قدم کی محنت کو کوئی طاقتور حاسد ضائع کر دیتا ہے۔ بڑی مشکلوں سے قسمت ترقی کے زینے تک لاتی ہے تو پھر بدقسمتی کسی دشمن کے در پر لا پھینکتی ہے اور کبھی کبھی ساری زندگی کی مشقت کے بعد منزل سامنے ھوتی ہے تو پھر کوئی دشمن منہ کے بل پاتال میں پھینک دیتا ہے۔
سانپ کی تمام اقسام، خصوصیات، سائنسدانوں کی تحقیقات، افسانے، کھانیاں، حکایات، کھیل، فلمیں، ڈرامے اور حقائق اپنی جگہ ۔۔۔۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ شیطنت، دشمن، برائی، وحشت اور دھشت کی علامت ہے۔
ایک عام آدمی کو اس سے کچھ لینا دینا نھیں کہ یہ دیوتا کی کوئی قسم ہے، زھریلا ہے یا بے زھر کا ہے، ڈسے گا یا نھیں، سمندری ہے یا صحرائی، ڈرپوک ہے یا نھیں۔ اس کے لئے یہ صرف اور صرف سانپ ہے۔۔۔ دھشت کی علامت۔۔۔ سانپ یعنی دھشت گرد!!! جیسے سانپ، سانپ ھوتا ہے۔؛ بالکل اسی طرح دھشت گرد، دھشت گرد ھوتا ہے۔ دھشت گروں کے ماھرین اگر انھیں داعش کا نام دیں، دولتِ اسلامیہ کھیں، ISIS کھیں، ISIL کھیں، Islamic State کھیں، طالبان کھیں، افغان طالبان کھیں، پاکستانی طالبان کھیں، پنجابی طالبان کھیں، پختون طالبان کھیں، جنوب پنجابی طالبان کھیں، اچھے طالبان کھیں، برے طالبان کھیں، القاعدہ کھیں، النصرۃ کھیں، سپاہِ صحابہ کھیں، لشکرِ جھنگوی کھیں، اھلِ سنت والجماعت کھیں، جیشِ محمد کھیں، جنداللہ کھیں، بوکو حرام کھیں یا کچھ اور نام دے دیں ۔۔۔ عام آدمی کے لئے یہ صرف دھشت گرد ہیں۔
چاھے آپ نے انھیں کسی "مریض" کے علاج کے لئے پالا ھو یا کسی کو سیدھا کرنے کے لئے، یہ آپکے دیوتا ھوں اور آپ ان کے پجاری، آپ ان سے رقص کروائیں یا گلے میں بانھیں ڈالے تصویریں کھنچوائیں، ان سے کسی کو ڈرائیں یا شو کیس میں سجائیں۔۔۔۔
جناب! یہ آپکی مھارت کے میدان کا موضوع ہیں۔ ایک عام آدمی ان سے صرف خوفزدہ ہے۔ اسے اس سے کچھ سروکار نھیں کہ انکو کس نام سے پکارا جائے۔ اپنے بلوں میں چھپ کر بیٹھنے اور بے سھارا و نھتے عوام کی زندگیوں سے کھیلنے والے یہ سانپ بلاشبہ بزدل ترین لوگ ہیں۔
لیکن عام آدمی کے لئے یہ صرف دھشت، وحشت، خوف، ظلم اور بربریت کی علامت ہیں۔ عام آدمی تو درکنار، یہ تو اپنے محسنین کے لئے بھی موت کا پیغام ہیں۔ کبھی کبھی میرے دل سے یہ دعا نکلتی کہ کاش خدا ھمارے اندر بھی کوئی کاوہ پیدا کر دے، جو ھمارے بچوں کو ان استعماری ضحاکوں کے پالتو سانپوں کی غذا بننے سے بچا لے۔ کچھ وقت کے لئے ھی سھی، کوئی رحمدل فریدون ھی ھم پر حاکم بن جائے۔ یھاں تک کہ خدا لشکرِ خمینی کے اس حقیقی علمبردار (عج) کو اذنِ ظھور دے دے، جو آج کے ضحاک، اسکے شاھی لاؤ لشکر اور اسکے سانپوں کو کچلے ھوئے انسانوں کے پیروں سے کچل ڈالے۔ خدا کے نام والے پرچم کو زمین میں گاڑ کر اسے آسمانوں میں لھرا دے۔ ظلم و جور، سفاکیت، بربریت، وحشت اور دھشت سے بھری اس زمین پر خدا کا نظام نافذ کر دے۔ خدایا! وارثِ موسٰی (عج) کو بھیج دے، جو حال کے سامری کو بے بس کر دے اور آج کے فرعون کے بے تاج سر میں پلنے والے سانپوں کو بھی نگل لے۔ اللھم عجل لولیک الفرج۔ آمین۔
تحریر: سید قمر رضوی
سانپ
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 3811