ھم سب جب آج کی شب سو کر کل سویرے اٹھیں گے تو نئے سال کا نیا دن ھمارا استقبال کر رھا ھوگا، نئے سال سے واضح ہے کہ پچھلے بارہ مھینہ ختم ھو گئے اب آنے والے ان بارہ مھینوں کا آغاز ھو رھا ہے جن کے مجموعہ کو سال کھا جاتا ہے ،نیا سال در حقیقت کلینڈر کی ابتداء کا دن ہے چونکہ ھمارے دور میں گریگوری کیلنڈر یا انگریزی کیلنڈر کے حساب سے شب و روز کے تسلسل کو سمجھا اور جانا جاتا اور اسی کلینڈر پر عمل کیا جاتا ہے اس لئے یکم جنوری ھمارے یھاں نئے سال کا جشن منایا جاتا ہے ۔
جبکہ بھت سی ایسی قومیں بھی ہیں جو یکم جنوری کو سال کا آغاز نھیں سمجھتیں تو اس کے مطابق عمل بھی نھیں کرتیں ۔ مثلا ایران و چین میں سالوں کا الگ ھی مبنیٰ ہے اسی طرح ھندوستان ، میں بعض اقوام مثلاً تیلگو افراد اگادی اور آسامی بیھو مناتے ہیں اور جنوری کو آغاز سال قرار نھیں دیتے ، اسی طرح اسلام میں سال کا آغاز محرم سے ھوتا ہے ۔ عام طور پر ھمارے یھاں ھندو پاک میں نئے سال پر خوشیاں منائی جاتی ہیں لوگ ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں ، خوشیوں کا اظھار کرتے ہیں اورکچھ جگھوں پر رقص و سرود کی شامیں سجتی ہیں ۔
اس دوران ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا نئے سال کا جشن منانا یا نئے سال کی مبارک باد دینا صحیح ہے ، جھاں تک بات شریعت کی ہے تو اس کی رو سے یوں تو کوئی منافات نھیں ہے کہ انسان خوشی منائے یا اپنے ملک میں مختلف مذاھب کے لوگوں کو مبارک دے ،لیکن اس بات کا ضرور دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ ھماری خوشی دینی اصولوں کی پامالی کا سبب نہ بنے ، اور بغیر کسی ضرورت کے ھم بلا وجہ اظھار خوشی نہ کریں۔
بعض افراطی مکاتب فکر میں نئے سال کے موقع پر کسی کو مبارک باد دینا تک حرام ہے [۱] اسی طرح بعض مذاھب میں نئے سال کے موقع پر جشن منانا بھی حرام قراردیا گیا ہے [۲] جبکہ ھمارے یھاں دوسروں کے ساتھ خوشی میں شریک ھونے میں کوئی حرج نھیں ہے گرچہ بعض علماء نے یھاں بھی ضرورت کو پیش نظر رکھا ہے اور بغیر ضرورت کے بلاوجہ دوسروں کی تھذیب کو مطلقا اختیار کرنے کی اجازت ھمیں بھی نھیں دی گئی ہے [۳] البتہ ھمارے یھاں دوسرے ادیان کےماننے والوں کو مبارک باد دینے میں کوئی حرج نھیں ہے [۴] اپنی تھذِیب اور اپنے کلچر کی حفاظت ھماری ذمہ داری ہے لھذا دوسرے مذاھب کے ماننے والوں کے ساتھ اچھا سلوک اپنی جگہ ہے ھمیں اس بات کا خیال بھر حال رکھنا ہے کہ ان کا کلچر اور ان کی تھذیب ھماری تھذیب کی تاراجی کا سبب نہ بنے چنانچہ ھر خوشی کی طرح نئے عیسوی سال کی خوشی میں بھی یہ پہلو پیش نظر رھنا ضروری ہے۔
ھم دین کے دائرہ کے اندر رہ کر بقدر ضرورت خوشی منا رھے ہیں یا اپنی تھذِیب اور اپنے مذھب کی تعلیمات کو یکسر بھلا کر تھذیب نو کے رنگ میں رنگے ہیں ھمارے یھاں اپنے عیسائی اور دیگر ادیان کے ماننے والوں کی عزت افزائی کے طور پر بعض مقامات پر نئے سال کے سلسلہ سے تقاریب منعقد ھوتی ہیں ،اس میں سبھی شریک ھوتے ہیں ، خوشی منانا کوئی بری بات نھیں ہے انسان خوش بھی ھو سکتا ہے اور دوسروں کی خوشی میں شریک بھی یہ دین کا دستور ہے ، کہ دوسروں کی خوشیوں میں شریک رھو اور اپنی خوشیوں میں انھیں شامل کرو لیکن جو بات یھاں قابل غور ہے وہ یہ کہ اس نئے سال کے استقبال میں ھونے والی پارٹیوں میں بسا اوقات ایسا کچھ نظر آتا ہے جو سراسر خلاف دین و شریعت ھوتا ہے، بھت سی ایسی باتیں دیکھنے میں آتی ہیں جن کا تعلق دین و مذھب سے تودور ھمارے قومی تشخص اور مشرقی تھذیب سے بھی ان کا واسطہ نھیں ھوتا ۔اس نئے سال میں آتش بازی جیسی چیزیں بھی دیکھنے میں آتی ہیں جن سے حادثات کا خطرہ رھتا ہے ، اور کھیں کسی کی آنکھ چلی جاتی ہے تو کھیں کسی کے کان میں مشکل ھو جاتی ہے حتی بعض مقامات پر بے احتیاطی کی وجہ سے جان جانے کا بھی خطرہ رھتا ہے ۔ان سب باتوں کے ساتھ فضول خرچی اور وقت کی بربادی کا اپنا حساب ہے جو خدا کو ھمیں دینا ھوگا ۔
نئے عیسوی سال کی حقیقت کیا ہے یہ جنوری سے شروع بھی ھوتا ہے یا نھیں، شروع ھوتا ہے تو کیوں ھوتا ہے یہ سب باتیں اپنی جگہ تفصیل طلب ہیں[۵] لیکن اگر ھم رائج نظریہ اور رسم کو دیکھتے ھوئے اس کو ایک مثبت رخ دینا چاھیں تو یقینا اس طرح دے سکتے ہیں کہ جناب عیسی علیہ السلام کے ماننے والوں کے درمیان یہ سوال پیدا کریں کہ اس نئے سال کی خوشی میں کیا جناب عیسی علیہ السلام جب یمن کی ویران بستیوں کو دیکھتے ھوں گے تو خوش ھوتے ھوں گے ؟ کیا جناب عیسی شام وافغانستان کی حالت کو دیکھ کر خوش ھونگے ، اگر نھیں تو آخر ھم ایسا کچھ کیوں نھیں کرتے کہ نئے سال کی آمد پر انھیں خوش کر سکیں جو دنیا میں امن و سلامتی کے پیغامبر بن کر آئے تھے ۔
جناب عیسی علیہ السلام پیغمبر امن تھے لیکن آج دنیا میں ان کے پیرو کار ھونے کا دعوی کرنے والی بڑی طاقتیں دنیا کو نا امن کرنے کے درپے ہیں یہ ایک افسوس کا مقام ہے ، یمن کی ویرانی ھو ، فلسطین و افغانستان ھوں کہ عراق و شام ھر طرف ان بڑی طاقتوں کے طاقت کے مظاھرے نظر آتے ہیں جو جناب عیسی علیہ السلام کے ماننے پر فخر کرتے ہیں ،اور بڑی عجیب بات یہ ہے کہ یوں تو مسلمان اس جناب عیسی ع کی تصویر سے سخت اختلاف رکھتے ہیں جو عیسائیوں کے یھاں ترسیم کی گئی ہے لیکن بذات خود جناب عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ گرامی جناب مریم کا خاص احترام کرتے ہیں ، جناب مریم کے سلسلہ سے پورا ایک سورہ قرآن کریم میں موجود ہے ، لیکن افسوس کی بات ہے کہ جب عیسائیوں کی بات آتی ہے تو اکثر و بیشتر حضور سرورکائنات کی ذات کو وہ نشانہ بناتے نظر آتے ہیں ، گرچہ بھت ھی کم لوگ ایسے بھی جنھوں نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت کا اعتراف کیا ہے اور ان کی عظمت پر کتابیں بھی لکھی ہیں ، لیکن مسلمانوں اور عیسائیوں کے ما بین دونوں پیغبروں کے سلسلہ سے اظھار رائے کو لیکر بنیادی فرق یہ ہے کہ ایک بھی مسلمان ایسا نظر نھیں آئے گا جو جناب عیسی علیہ السلام کے متعلق منفی نظر رکھتا ھو اور یا ان کے خلاف کوئی غلط بات منسوب کرتا ھو جبکہ اس کے برخلاف رحمۃ للعالمین کے سلسلہ سے عیسائیوں کی دشنام طرازیوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں ۔
دوسری طرف مسلمان نہ صرف جناب عیسی کا احترام کرتے ہیں اور انھیں نبی تسلیم کرتے ہیں بلکہ جناب عیسی علیہ السلام کو ایک مجاھد اوالعزم پیغمبر مانتے ہیں[۶] ۔یھاں پر بھی عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان جناب عیسی علیہ السلام کو لیکر کافی فرق نظر آتا ہے جس احترام و اکرام سے قرآن ان کا تذکرہ کرتا ہے اور جو روحانی ومعنوی شخصیت قرآن پیش کرتا ہے وہ اس شخصیت سے کھیں مختلف ہے جسے عیسائی پیش کرتے ہیں۔
قرآن و انجیل میں جناب عیسی علیہ السلام کی شخصیت :
قرآن کریم میں جناب عیسی کا نام ۲۳ یا اس سے زیادہ مرتبہ عیسی ، اور ۱۱ مرتبہ مسیح اور دو مرتبہ ابن مریم کے طور پر آیا ہے ۔ جناب عیسی کے کاموں کو قرآن کریم اللہ کی جانب منسوب کرتا ہے اور اس طرح نقل کرتا ہے کہ جناب عیسی نے خود کھا کہ میں جو کچھ کروں گا باذن اللہ کروں گا چنانچہ سورہ آل عمران میں جناب عیسی ع کے سلسلہ سے ارشاد ھوتا ہے «وَ رَسُولًا إِلی بَنِی إِسْرائِیلَ أَنِّی قَدْ جِئْتُکمْ بِآیةٍ مِنْ رَبِّکمْ بنی اسرائیل کی جانب آنے والے رسول نے ان سے کھا میں تمھارے لئے تمھارے رب کی جانب سے واضح نشانی) معجزہ (لیکر آیا ھوں پھر آپ نے اپنے معجزے کو یوں بیان کیا «أَنِّی أَخْلُقُ لَکمْ مِنَ الطِّینِ کهَیئَةِ الطَّیرِ فَأَنْفُخُ فِیهِ فَیکونُ طَیراً بِإِذْنِ اللَّهِ میں مٹی سے ایک پرندے کی شکل بناوں گا اور اس میں پھونکوں گا پس وہ پرندہ میں بن جائے گی اللہ کے اذن سے ،یا جب کوڑھ اور برص کے لوگوں کو شفا دینے کی بات آئی تب بھی یھی باذ ن اللہ کی قید ملتی ہے ، جھاں آپ نے فرمایا : وَ أُبْرِئُ الْأَکمَهَ وَ الْأَبْرَصَ وَ أُحْی الْمَوْتی بِإِذْنِ اللَّهِ، شھید مطھری اس مقام پر فرماتے ہیں یھاں جناب عیسی علیہ السلام فعل کی نسبت تو خود کی طرف دیتے ہیں لیکن باذن اللہ کی قید کے ذریعہ [۷] اس سے جناب عیسی علیہ السلام کے وجود کے اندر روح بندگی کا پتہ چلتا ہے ،۔جبکہ انجیل میں جناب عیسی ع کا بڑا معجزہ شراب بنانے کے طور پر بیان ھوتا ہے جو قطعا غلط ہے [۸] شاید اس تحریف کا سبب یہ ھو کہ عیسائیوں کے یھاں جناب عیسی کے وجود میں ھی خدا کو ان کے گوشت اور خون کے طور پر بیان کیا گیا [۹]لھذا عیسی ع کسی بات کے لئے اس حساب سے جوابدہ نھیں ہیں کہ حرام و حلال کی فکر کریں ، نتیجہ میں جو کچھ عیسائیوں کو سمجھ آیا انھوں نے اس میں داخل کر دیا ۔
جناب عیسی علیہ السلام کی ولادت کے سلسلہ سے بھی قرآن بھت ھی نزاکت و خوبصورتی کے ساتھ اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ ان کی ولادت بغیر باپ کے ایک مشرقی مقام پر ھوئی چنانچہ ارشاد ھوتا ہے : «وَ اذْکرْ فِی الْکتابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِها مَکاناً شَرْقِیًّا»[۱۰] اس مقام پر قرآن بھت ھی احترا م کے ساتھ جناب مریم کا تذکرہ کرتا ہے اور ایک مشرقی مقام کا تذکرہ کرتا ہے جھاں جناب عیسی ع کی ولادت ھوئی ، جبکہ اس کے برخلاف انجیل میں جناب مریم کے ساتھ ان کے شوھر یا منگیتر کا تذکرہ ملتا ہے کہ دونوں ساتھ ساتھ تھے جن کا نام یوسف نجار تھا [۱۱]اسی طرح انجیل میں جناب عیسی ع کی ولادت فلسطین کے جنوب میں نقل کی گئی ہے ۔
قرآن کریم جناب مریم کی شخصیت کو ایک باحیا خاتون کے طور پرپیش کرتا ہے اور انھیں اپنی منتخب کنیز بتاتے ھوئے ان کی عصمت پر مھر تصدیق لگاتا ہے [۱۲]، جبکہ انجیل میں جناب مریم کو ایک عام خاتون کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کی ایک مثال یہ ہے مختلف باتوں میں جناب عیسی ع کےساتھ تکرار کا ھونا ہے ۔
قرآن کریم جناب عیسی علیہ السلام کو جناب مریم کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیتا ہے [۱۳] اورانجیل میں جناب عیسی علیہ السلام کا جناب مریم ع سے شراب پر تند لھجے میں خطاب پیش کیا گیا [۱۴] ، قرآ ن کریم نے جناب عیسی ع کو ایک بشارت دینے والے نبی کے طور پر پیش کیا ہے جو آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہے [۱۵] جبکہ انجیل میں اقانیم ثلاثہ کے بیٹوں میں پیش کیا گیا ہے [۱۶]
قرآن کریم نے جناب عیسی ع کے حواریوں کو ان کے مخلص اصحاب اور جانثار و باوفا ساتھیوں کے طور پر پیش کیا ہے جو نیک اور شریف تھے اورآپ پر ایمان رکھتے تھے [۱۷] جبکہ انجیل میں ان کا ناسمجھ کوڑھ مغز اور نادان لوگوں کے طور پر تذکرہ ھوا ہے [۱۸] قرآن جناب عیسی کو ایک مجاھد کے طور پر پیش کرتا ہے جبکہ انجیل جناب عیسی کو کچھ ھی لوگوں کی نجات کے لئے آنے والا نجات دھندہ [۱۹]۔
الغرض جناب عیسی علیہ السلام کی انجیل و قرآن میں ولادت اور اختلافی و مشترکہ مسائل پر بھت کچھ لکھا اور بیان کیا گیا ہے جسے صاحبان فکر معتبر کتابوں میں تلاش کر سکتے ہیں [۲۰] یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر جناب عیسی ع کے بارے میں قرآن کا خاص اھتمام نہ ھوتا تو پتہ نھیں ان کے ماننے والے ان کی کیا تصویر پیش کرتے اور لوگوں کے ذھنوں میں ان کا کیا تصور قائم ھوتا لیکن قرآن کریم نے نہ صرف یہ کہ ان کا تذکرہ بھتر سے بھتر کیا بلکہ ان پر درود و سلام بھیج کر ان کی اھمیت کو پیش کیا چنانچہ قرآن کریم میں دو ایسے انبیاء ہیں جن پر خدا نے تین مرتبہ درود بھیجا ہے ، ولادت کے موقع پر، وفات کے موقع پر اور قیامت کے دن مبعوث ھوتے وقت۔ ان میں سے ایک حضرت یحیی علیہ السلام ہیں جو بنی اسرائیل کے ایک ظالم جابر حاکم کی اقتدار پرستی کا نشانہ بن گئے اور آپ کو ظالمانہ انداز میں شھید کر دیا گیا اور دوسرے نبی حضرت عیسی علیہ السلام ہیں جو باپ کے بغیر پیدا ھوئے اور خدا کی نشانیوں میں سے قرار پائے۔ یہ بات ھم نھیں بلکہ خود مغربی دانشور تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن نے جناب عیسی ع کی صحیح تصویر پیش نہ کی ھوتی تو پتہ نھیں جناب عیسی ع کو کیسے دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا چنانچہ عظیم فلسفی ول ڈورنٹ، مشھور کتاب History of Civlizations میں رقم طراز ہیں :
“قرآن کریم اور مسلمانوں کا عیسائیوں پر ایک بڑا احسان ہے اور وہ یہ کہ ان کے دین اور کتاب میں انجیل اور حضرت عیسی علیہ السلام کو انتھائی عزت اور بزرگی کے ساتھ یاد کیا گیا ہے اور انجیل کی تائید بھی کی گئی ہے۔ اگر ایسا نہ ھوتا تو حضرت عیسی علیہ السلام کے وجود کو ثابت کرنا انتھائی مشکل ھو جاتا کیونکہ ان کی کوئی اولاد نھیں ہے اور نہ ھی ان کا کوئی مزار یا مقبرہ ہے۔،،
سچ ہے اگر نبی خاتم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن کریم کی جانب سے حضرت عیسی علیہ السلام کی تائید نہ ھوتی تو منکر افراد بھت آسانی سے ان کے وجود کا انکار کرسکتے تھے۔
ھم سب کی ذمہ داری ہے کہ جناب عیسی علیہ السلام کی جو شخصیت قرآن نے بیان کی ہے اسے دیکھیں اور جو انجیل نے پیش کی ہے اسے دیکھیں زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا ، اب اگر اس نئے سال کی آمد پر ھلڑ ھنگاموں اور تفریح کے پروگراموں آتش بازیوں سے وقت نکال کر ھم ایسی گفتگو کا اھتمام کر سکیں جس میں مسلمان اور عیسائی دونوں ھی مکاتب فکر کے افراد جناب عیسی علیہ السلام کے تعلیمات پر روشنی ڈالیں اور اس بات پر اظھار خیال ھو کہ جناب عیسی علیہ السلام نے کس مقصد کے تحت زندگی گزاری اور ھم کیونکر ان کے مقاصد کی آبیاری کر سکتے ہیں تو شاید یہ وہ چیز ہے کہ جس کے پیش نظر ھم کہہ سکتے ہیں نئے سال کی واقعی خوشی میں ھم اپنے عیسائی بھائیوں کے ساتھ شریک و سھیم ہیں کہ ھم دونوں کا مقصد دنیا میں امن و بھائی چارہ کی فضا کو فراھم کرنا ہے اور ان طاقتوں کو شکست دینا ہے جو جناب عیسی جیسے پیغمبر امن و صلح کا نام لیتے ہیں لیکن دنیا کو انھوں نے اپنی کرتوتوں سے نا امن کیا ھوا ہے ۔
تو اختلافات کو چھوڑ کر مشترکات کا دامن تھامیں قرآن نے ھم سب کو آواز دی ہے قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ [۲۱] اس آواز پر لبیک کھنے کا یہ بھترین موقع ہے لھذا کسی کو کسی پر فوقیت نہ دیں اللہ کے سوا کسی کو رب قرار نہ دیں اس کی بارگاہ میں اس کی پناہ میں آئیں ، دنیا میں ھونے والی نا انصافیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ھوں اور امن و چین بھائی چارہ سلامتی کے پرچم کو ھاتھ میں لئے ایک ایسی دنیا قائم کریں جس کا آنے والا یہ سال جناب عیسی علیہ السلام کے خوابوں کی تعبیر بن جائے ۔
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
حواشِی:
[۱] ۔ https://www.tabnak.ir/fa/news
[۲] ۔ http://www.afghanpaper.com/nbody.php?id=31121
[۳] ۔http://mahdi.cc/fa/news
https://www.seratnews.com/fa/news
[۴] ۔http://www.ghatreh.com/news
[۵] ۔تفصیل کے لئے رجوع کریں : Anthony Aveni, “Happy New Year! But Why Now?” in The Book of the Year: A Brief History of Our Seasonal Holidays (Oxford: Oxford University Press, 2003), 11–۲۸٫
Tek Web Visuals, Cochina. “New Year’s Day”. World e scan. Retrieved 13 November 2011.
“The Thelemic Holy Season”, 2004
Ben, Tzvi (22 September 2006). “Rosh Hashanah: Prayers, Shofars, Apples, Honey and Pomegranates”. Israelnationalnews.com. Retrieved 13 November 2011.
Rintluanga., Pachuau, (2009). Mizoram : a study in comprehensive geography. New Delhi: Northern Book Centre. p. 9. ISBN 8172112645. OCLC 471671707
[۶] مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسهٔ الوفا، چاپ دوم، ۱۴۰۳ ه. ق، ج۱۱، ص۳۵.ترجمهٔ تفسیر المیزان، جلد ۱۸، ص۳۹
[۷] ۔مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، ج ۴، ۳۹۶٫
[۸] انجیل یوحنا باب دوم.
[۹] شهرستانی، محمدبن عبدالکریم، ملل و نحل، ج ۱، ص ۲۲۲ – ۲۲۴ – ۲۲۵
[۱۰] مریم، آیه۱۶٫
[۱۱] انجیل متی (۱: ۱۸) تا (۱: ۲۵)
[۱۲] وَ أُمُّهُ صِدِّیقَةٌ(مائده، ۷۵)وَ إِذْ قالَتِ الْمَلائِکةُ یا مَرْیَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفاک وَ طَهَّرَک وَ اصْطَفاک عَلی نِساءِ الْعالَمینَ
(آل عمران،۴۲)
[۱۳] وَ بَرًّا بِوالِدَتی وَ لَمْ یَجْعَلْنی جَبَّاراً شَقِیًّا؛مریم،۳۲
[۱۴] ۔ انجیل یوحنا باب دوم.
[۱۵] وَ مُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَأْتی مِنْ بَعْدِی اسْمُهُ أَحْمَدُ(صف، ۶)
[۱۶] ۔ توفیقی، حسین، آشنایی با ادیان بزرگ، ص ۱۵۰٫ سلیمانی، عبدالرحیم، سیری در ادیان زنده جهان.
[۱۷] ۔ آل عمران، ۵۲-۵۳٫
[۱۸] انجیل متی، باب ۲۰ آیه ۱۷؛ لوقا باب ۲۵ آیه
[۱۹] ۔ لوقا» باب۱۲، آیه ۴۹ تا ۵۳٫
[۲۰] بنیاد مدرسه ی نظرآزمایی”( Forum Schulstiftung ) صفحات ۳۹ تا۶۲ ، شماره ی ۴۵، سال انتشار: دسامبر ۲۰۰۶
[۲۱] ۔۶۴ آل عمران ۔
نیا عیسوی سال اور ھم
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 2247