www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

401522
حضرت زینب بنت علی (ع) پنجم یا ششم ھجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ھوئیں۔ باپ مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی (ع) ہیں, اور مادر گرامی خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا ہیں۔ گیارہ ھجری تک نانا محمد مصطفی ﷺ اور مادر گرامی کی شفقت و محبت کو درک کیا۔ ۱۱ ھجری سے چالیس ھجری تک اپنے بابا کے دور امامت میں ان کے ساتھ ھونے والے تمام حالات کو بھی دیکھا۔ چالیس ھجری سے پچاس ھجری تک مولا امام حسن (ع) کے دور امامت میں بسر کئے، اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں ظلم و ستم کی جو داستانیں رقم کی جا رھی تھیں اور تاریخ اسلام کو جو مسخ کیا جا رھا تھا، اسے بھی دیکھ رھی تھیں۔ آپ پچاس ھجری سے ساٹھ ھجری تک امام حسین (ع) کی امامت میں گزارتے ھوئے اکسٹھ ھجری کو کربلا و کوفہ و شام کی تمام منزلیں طے کرنے کے بعد ۱۵ رجب کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔
سدہ زینب سلام اللہ علیھا اور موقعیت شناسی:
اسلام نے عورت وہ شرف عطا کیا ہے جو اسلام سے پھلے کسی اور دین میں نہ تھا اور نہ ھو سکتا ہے۔ جس اسلام نے عورت کو بھت بلند مقام عطا کیا آج اسی اسلام کے اصول و فروع کا مقابلہ کرنے کے لئے عورتوں ھی کو استعال کرنے کی کوشش کی جا رھی ہے۔ تمام خواتین کو یاد رکھنا چاھیئے کہ کوئی کام بھی انسان کے اپنے ارادہ و اختیار اور فیصلہ کے بغیر ممکن ھی نھیں ھوتا اور کوئی دوسرا اسے اس کے ارادہ کے بغیر کوئی کام نھیں کروا سکتا۔ انسان کو موقع شاس ھونا چاھیئے اور اس کے مطابق ھی عمل کے اثرات کا تجزیہ و تحلیل کر کے میدان عمل میں قدم رکھنا چاھیئے۔
سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے تاریخ کے اندر دین کے دفاع اور اھلبیت (ع) کی حقیقی تفسیر کے لئے جو کارنامے انجام دیئے ہیں اگر ان کو دقت نظری سے دیکھا جائے تو وہ صرف عورتوں کے لئے ھی نھیں بلکہ مردوں کے لئے بھی ھدایت کے روشن مینار ہیں۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا موقعیت شناس تھیں، امام حسین (ع) کے کربلا جانے سے پھلے کی موقعیت، میدان کربلا کی موقعیت اور واقعہ کربلا کے بعد کی موقعیت ھر ایک کی اچھے طریقہ سے اپنے ذھن میں تجزیہ و تحلیل کرتیں اور پھر ہر ایک کے بارے میں مناسب فیصلہ کرتی تھیں۔ ھر موقعیت کے مقابل میں مناسب اقدام ھی انسان کو بلند کرتا ہے اور یھی مناسب اقدامات ھی تھے کہ جنھوں نے زینب کو اتنا بلند کیا کہ قیامت تک کا مسلمان حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی قربانیوں کا ھی مرھون منت ہے۔
جب امام حسین (ع) نے مدینہ ترک کیا تو حضرت عبداللہ سے اجازت لیکر صرف خود تیار نھیں ھوتیں بلکہ اپنے بیٹوں کو بھی ھمراہ لے لیتی ہیں جبکہ اسی مدینہ اور اسی مکہ میں اور کافی صاحب نام افراد موجود ہیں کہ جو ظاھرا حالات کی سنگینی کو صحیح طریقہ سے جب درک نھیں کرتے اور جو اقدام کرنا چاھیئے اس سے بھت دور تھے، تو امام حسین نے شخصا ان کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی لیکن انھوں نے کوئی نہ کوئی بھانہ پیش کر دیا۔
سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے یھاں پر جو فیصلہ کیا یہ دین کے دفاع کے لئے تھا، امامت کی شناخت اور معرفت کروانے کے لئے تھا۔ کیا بی بی کی ماننے والی ھر کنیز کے سامنے اور ماننے والے ھر مرد کے سامنے ایسے حساس معاملات میں دین کے دفاع کے لئے اپنے اپنے زمانے کے رھبر کی آواز پر لبیک کھتے ھوئے اپنا سارا سرمایہ قربان کرنے کے لئے تیار ھونا چاھیئے یا اس کا ساتھ دینا تو کجا اس کے مقابلہ میں سینہ تان کر کھڑا ھونا چاھیئے۔ جن افراد نے موقعیت کی صحیح شناخت کی ان کا نام بھی تاریخ میں ثبت ہے اور جنھوں نے اپنی ذاتی خواھشات کی بنیاد پر امام حق، رھبر حق کا ساتھ نھیں دیا ان کے ناموں کو بھی تاریخ نے آنے والی نسلوں کے لئے باعث عبرت بنا دیا ہے۔ تاریخ دھرائی تو جاتی ہے لیکن تاریخ سے سبق حاصل نھیں کیا جاتا، کاش تاریخ کے گزرے ھوئے مھم ترین واقعات سے سبق حاصل کیا جاتا۔
سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کا انسانیت کیلئے سخت ترین بحران میں نمونہ عمل ھونا:
جب انسان پر مشکل آتی ہے تو اس وقت اپنے آپ پر قابو پا کر اس مشکل کا مناسب حل سوچنا اور پھر اس کے مطابق عمل کرنا ھر انسان کا کام نھیں ہے۔ انسان جس مشکل میں ھی کیوں نہ ھو اسے اس سے کامیاب ھو کر نکلنے کے لئے علی (ع) کی بیٹی کو نمونہ بنانا چاھیئے اس لئے کہ یہ وہ بی بی ہیں کہ جن کی آنکھوں کے سامنے تمام مرد شھید ھو چکے تھے، عصر عاشور کو خیام میں امام سجاد کے علاوہ کوئی مرد نھیں بچا اور خود امام سجاد علیہ السلام بھی بعض اوقات غشی کی حالت میں چلے جاتے ہیں۔ مستورات اور بچے ہیں اور باھر دشمن ہیں جو خوشیاں منا رھے ہیں۔ خیموں کے اندر جھاں بھوک اور پیاس کا غلبہ ہے تو خیموں کے باھر شھداء کی لاشیں بے گوروکفن زمین پر پڑی ہیں۔ ان میں کوئی بھائی ہے، کوئی بیٹا ہے، کوئی شوھر ہے، حضرت سکینہ کے بھائی بھی ہیں، چچا بھی ہیں اور حسین جیسا کائنات کا مھربان ترین باپ بھی ہے۔ ان تمام حالات میں ضرورت ہے کہ کوئی ایک فرد آئے جو ان بچوں کو اکٹھا کرے اور سب کو تسلی دے، وہ ایک فرد بھی علی (ع) کی بیٹی زینب کے علاوہ کوئی اور نھیں ہے۔ زینب خود وہ ہیں کہ جن کے اپنے بھائی، بیٹے شھید ھو چکے ہیں، بنی ھاشم کے اٹھارہ جوانوں کی اور اصحاب باوفا کی لاشیں بھی ان سب کے ساتھ زمین کربلا پر پڑی ہیں۔ ان تمام حالات میں اپنے حواس پر کنٹرول رکھ کر سب بچوں اور مستورات کو تسلی دینا اور ان کو سنبھال کر رکھنا حتٰی مشکل ترین حالات میں امام سجاد کے لئے بھی سپر بن کر رھنا سیدہ زینب کا کام ہے۔ شام غریباں کی سختی کو درک کرنا اور اللہ کی رضا و دین کی بقاء کے لئے قاتلین حسین کے ساتھ کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں عظمت اھلبیت کو منوا کر واپس مدینہ آنا، باب مدینۃ العلم کی عالمہ غیر معلمہ، عقیلہ بنی ھاشم بیٹی حضرت زینب سلام اللہ علیھا کا کام ہے۔
ان تمام واقعات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موقع کی مناسبت سے عورت کو انزوا کا شکار ھونے کی بجائے حوادث کے عیں متن، تاریخ کے عین متن میں رہ کر دفاع اسلام کرنا ہے۔ ممکن ہے کہ دشمن ظاھرا طاقتور ھو، تمام امکانات اس کے پاس ھوں، تخت ھو، بادشاھت ھو، فوج ھو اور ھر طرح کا اسلام و حق کو مٹانے کا انتظام کر چکا ھو ،قدرت اور حکومت کے نشہ میں باطل کو حق اور حق کو باطل دکھانے کے لئے اھل حق پر زندگی تنگ کر دے بلکہ ان سب کو ایک کھلے آسمان کے نیچے اپنی قدرت دکھانے کے لئے تہ تیغ کر دے خواتیں کو قیدی بنا کر دربار میں پیش کرنے کے لئے اپنی رعایا اور پبلک و عوام کو بھی بازاروں میں بلکہ مکان کی چھتوں پر بھی ان اھل حق کا تماشا دکھانے کے لئے بلا چکا ھو تو اس وقت بھی ان تمام حالات کے باجود ظالم اور باطل کو ذلیل و رسوا کرنے کا تاریخ کے اندر انسانیت کو حوصلہ، ھمت، جرات و شجاعت عطا کر کے ان تمام حالات سے عزت و طاقت کے ساتھ کامیاب ھو کر سامنے آنے کا درس و سبق بھی جو شخصیت عطا کرتی ہے وہ سید الشھداء امام حسین کی بھن ہے کہ جس کا نام گرامی زینب ہے۔
خطبات زینب سلام اللہ علیھا اور آج کے خطبات:
حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے بازار کوفہ میں جو خطبہ دیا ہے وہ اس حالت میں نھیں ہے کہ پھلے سے ایک مجمع بیٹھا ہے اور سننے کی انتظار میں ہے اور حضرت سیدہ زینب ایک خطیب کی طرح وھاں پر بڑھ کر بیان کرنا شروع کریں، اصلا انسان کے بس میں نھیں ہے کہ علی (ع) کی بیٹی کی اس کیفیت کو درک کرے کہ جس میں اس نے یہ خطبہ بیان کیا ہے، یہ وھی کوفہ تھا کہ جس میں بابا کے زمانہ حکومت میں رہ چکی تھیں، یہ وھی کوفہ اور کوفہ کے لوگ تھے کہ جو امام حسین کو خط لکھ کر بلاتے تھے۔ یہ وھی کوفہ ہے کہ جس کی ھدایت کے لئے حسین نے مسلم ابن عقیل کو بھیجا، یہ وھی کوفہ کے لوگ ہیں کہ جنھوں نے بیوفائی کی اور مسلم کو ابن زیاد کے حوالے کر کے شھید کیا اور کروایا۔ یہ لوگ زینب سلام اللہ علیھا کا استقبال نھیں بلکہ تماشا دیکھنے کے لئے یھاں بلائے گئے تھے، زینب کی آواز کو لوگوں تک پھنچنے سے روکنے کے لئے ھر کوشش کی گئی، ماحول بھی ایسا تھا لیکن حیدر کرار کی بیٹی اپنے بابا کے لب و لھجہ میں فرماتی ہے کہ: اسکتوا کہ ساکت ھو جاو تو وہ لوگ تو کیا جانوروں کے گلوں کی گھنٹیاں بھی ساکن ھو جاتی ہیں۔
یھاں پر اسلام، قرآن، دین، رسول کی ۔۔۔بلکہ رسولوں کی، شریعت کی۔۔۔۔ بلکہ شریعتوں کے محافظ لوگوں کو ان کی غلطی کی طرف، ان کی پستی کی طرف، ان کی بزدلی و بی بصیرتی کی طرف متوجہ کرتی ہیں کہ گویا تم آزمائش میں حق و باطل کی تمیز جب نھیں کر سکے تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جگر گوشہ بتول نوک نیزہ پر اس حالت میں بلند ہے۔ بعض لوگ بی بی کی حالت اور بیان کو دیکھ کر روتے ہیں تو علی (ع) کا جگر و دل اپنے وجود میں رکھنے والی بیٹی فرماتی ہے کہ: يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ يَا أَهْلَ الْخَتْلِ وَالْغَدْرِ وَالْخَذْلِ أَلَا فَلَا رَقَأَتِ الْعَبْرَةُ وَلَا هَدَأَتِ الزَّفْرَةُ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ كَمَثَلِ الَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكاثاً تَتَّخِذُونَ أَيْمانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ هَلْ فِيكُمْ إِلَّا الصَّلَفُ وَالْعُجْبُ وَالشَّنَفُ وَالْكَذِبُ ۔۔۔۔۔ دربار کوفہ یا دربار شام میں یھی علی (ع) کی بیٹی کے خطبات ھی تو تھے جنھوں نے طاغوت کی ظاھری اور جھوٹی عزت کو خاک میں ملا دیا۔ کیا آج ممبر حسینی سے لوگوں کی ھدایت کے لئے ادا کئے جانے والے خطبات اور تقاریر اسی طول میں ہیں کہ جس طول کی بلندی کا سرا خطبہ سیدہ زینب سے ملتا ہے یا اھداف و مقاصد میں یزید کے درباری خطیب سے جا کر ملتا ہے۔ کیا آج ھمارا عمل، ھماری زحمات، ھماری کوششیں، ھماری تقریریں، ھماری سوچ و فکر اور ھمارے سب پروگرام اسی سمت میں ہیں کہ جن کے لئے سیدہ زینب نے اپنا سب کچھ ایک سرباز اسلام بن کر قربان کر دیا، یہ سوچنے کا مقام ہے۔
خداوند سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کے صدقہ میں ھم سب کو اپنے مشکل سے مشکل اور بحرانی حالات کے حل اور مقابلہ میں شخصی، قومی و ملی اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر کردار عقیلہ بنی ھاشم کو اجاگر کرنے کی قوت عطا فرمائے۔ آمین
تحریر: محمد اشرف ملک

Add comment


Security code
Refresh