تاریخ بشریت میں چند خواتین ایسی آئی ہیں، جنھوں نے تاریخ رقم کی ہے۔ جناب مریم، جناب آسیہ، جناب خدیجہ، جناب فاطمۃ الزھراء کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیھا ھی وہ عظیم ھستی ہیں کہ چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود آج تک آپ کا کوئی ثانی نھیں۔ اس میں جھاں آپ کے نسب کا اثر ہے تو ساتھ ھی حسب بھی بے مثل ہے۔
آپ کی ولادت باسعادت کے بارے میں کئی اقوال ہیں ان میں سے سب سے مشھور 5 جمادی الاوّل 6ھجری ہے۔ آپ کا نام بھی آپ کے جد نامدار حضرت محمدؐ نے “زینب” رکھا؛ یعنی باپ کی زینت۔
آپ کے مختلف القابات میں سے “عقیلہ” سب سے مشھور ہے۔ آپ ماں باپ دونوں طرف سے ھاشمی ہیں۔ وراثت، نسب، حافظہ، معاشرہ اور ارادے سے مربوط تمام عوامل جو ایک انسان کی تقدیر ساز حیثیت کی حامل ہیں، بطور اتم آپ میں موجود تھے۔
یھی وجہ ہے کہ آپ حیا میں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی مانند، عفت میں اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا جیسی اور فصاحت و بلاغت میں اپنے والد گرامی کی شبیہ تھیں، حلم اور غیر معمولی صبر میں آپ اپنے بھائی حسنؑ سے مشابھت رکھتی تھیں اور بھادری و قوت قلبی میں آپ حسینؑ کی مانند تھیں۔ آپ نے ایک ایسے معاشرے میں پرورش پائی، جو مرکز عظمت و کمال کی حیثیت رکھتا تھا۔ پورے معاشرے کو ان کی فضیلت نے پاکیزگی اور سچائی سے بھر دیا تھا۔
آپ کی نشو و نما مدینے میں حضرت علیؑ، حضرت فاطمہؑ، حضرت حسنؑ اور حضرت حسینؑ کے ھاں انجام پائی۔ ابتدا میں آپ نے رسول خدا ﷺ کے نور کے سائے میں پھر حضرت فاطمہؑ و حضرت علیؑ کے یاروں اور خاندان نبوت کی ممتاز خواتین اور ان کی شاگردوں کے زیر سایہ پرورش پائی۔ بنابرایں آپ نے رسالت و امامت کے گھرانے میں آنکھ کھولی اور آپ نبوی، علوی اور فاطمی خصائص و کمالات کی وارث قرار پائیں۔ آپ کے جد امجد محمد مصطفٰی ﷺ مالک کون و مکان ہیں۔
آپ کی نانی ام المؤمنین حضرت خدیجہ کبریٰ ہیں، آپ ھی وہ خاتون ہیں کہ جو سب سے پھلے پیغمبر اسلام پر ایمان لائیں، دین اسلام کو قبول کیا اور سب سے پھلے رسول اکرم ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھی، آپ کے والد بزرگوار علی مرتضٰی حق و باطل کی شناخت کا معیار اور مؤمن و منافق کی پھچان کا پیمانہ ہیں، آپ کی والدہ ماجدہ زھراء مرضیہ زنان عالم کی سربراہ اور آپ کے دو بھائی حسنؑ و حسینؑ بھشت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ اس طرح حضرت زینبؑ کی شخصیت ایک باکردار اور شخصیت ساز گھرانے میں تشکیل پائی۔ آپ کے بارے میں حضورؐ کا ارشاد پاک ہے کہ “اس بیٹی کا احترام کیا کرو، کیونکہ یہ خدیجہ کبریٰ کی مانند ہیں۔” حضرت خدیجہؑ میں جتنی خصوصیات پائی جاتی تھیں، وہ تمام خصوصیات کامل طور پر حضرت زینبؑ میں بھی پائی جاتی تھیں۔ آپ کے والد بزرگوار نے آپ کی شادی آپ کے چچازاد بھائی، سخاوت کے دریا جناب عبد اللہ بن جعفر طیار سے کی۔
شادی کے بعد حضرت علیؑ ھر روز آپ کے دیدار کے لئے جناب عبد اللہ کے ھاں تشریف لے جایا کرتے تھے اور آپؑ جناب عبداللہ اور حضرت زینبؑ کے ساتھ نھایت شفقت و محبت سے پیش آتے تھے۔ جو سلوک آپؑ اپنے دو صاحبزادوں حضرت حسنؑ اور حضرت حسینؑ سے روا رکھتے، وھی رویہ جناب عبد اللہ بن جعفر سے بھی روا رکھتے تھے۔ جب بھی حضرت زینبؑ اپنے جد نامدار حضرت رسول خداؐ کی زیارت کے لئے مسجد کا رخ کرتیں، تب امام حسنؑ ایک طرف اور امام حسینؑ دوسری طرف ان کے ساتھ تشریف لے جایا کرتے تھے۔ امیر المؤمنینؑ کسی کو مسجد کی طرف بھیجتے، تاکہ وہ مسجد کی لائٹوں کو بند کرے کہ کھیں کسی نامحرم کی نظر اس مخدرہ عصمت پر نہ پڑے ۔ جناب عبداللہ سے شادی کے بعد خداوند متعال نے آپ کا دامن متعدد موتیوں سے بھر دیا۔
ابن سعد کے قول کے مطابق آپ کے پانچ بچے تھے: علی، عون، عباس، محمد اور ام کلثوم۔ انسان کی کامیابی کا راز خواہ وہ مرد ھو یا عورت، اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں وقت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے پر منحصر ہے۔ ان خواتین کو ایک خاص امتیاز اور کامیابی نصیب ھوگی، جو اپنے بچے کو بااخلاق اور مھذب بنا کر ایک بھترین ماں ھونے کا ثبوت دیں۔ آپ نے اپنی مادر گرامی کی سیرت کو اپناتے ھوئے ان دونوں پھلوؤں کی طرف خصوصی توجہ دی۔ در نتیجہ آپ ایسے بچوں کی تربیت کر گئیں کہ حضرت عون و محمد کربلا میں امام حسینؑ کے ساتھ شھید ھوئے۔ آپ کی ایک صاحبزادی امّ کلثوم تھی۔ ان کی شان میں کھا گیا ہے کہ آپ حسن و جمال، کمالات معنویت، عقلمندی اور تیز فھم ھونے میں معصومینؑ کے علاوہ باقی خواتین میں بے مثل تھیں۔ لٰھذا تمام مسلم خواتین کو آپ کی مانند اپنے بچوں کی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ آپ اپنے گھر کا سارا کام خود انجام دیا کرتی تھیں۔ آپ کے شوھر حضرت عبداللہ صاحب استطاعت اور صاحب جاہ و حشم کے مالک ھونے کے باوجود بھی آپ نے ان کو کبھی گھر میں خدمت گار رکھنے نہ دیا اور تمام گھریلو امور عبادت سمجھ کر آپ خود انجام دیتی رھیں۔ یوں آپ قیامت تک آنے والی خواتین کے لئے نمونہ عمل قرار پائیں۔ آپ نے اس حقیقت کو عملی جامہ پھنا کر دکھا دیا کہ عفت کے پردے میں رہ کر گھریلو امور کو انجام دینا نہ صرف معیوب نھیں بلکہ بھترین عبادت ہے۔
اخلاق اور روحانی زاویے سے بھی آپ اعلٰی مقام پر فائز تھیں۔ آپ خضوع و خشوع اور عبادت و بندگی کے اعتبار سے اپنے پدر بزرگوار اور مادر گرامی کی حقیقی وارث تھیں۔ اکثر راتوں میں آپ تھجد کی حالت میں صبح کرتیں۔ آپ ھمیشہ قرآن کی تلاوت کیا کرتی تھیں۔ آپ کی شب بیداری اور تھجد کا سلسلہ پوری زندگی میں کبھی قطع نھیں ھوا۔
حضرت سجادؑ فرماتے ہیں کہ محرم الحرام کی گیارھویں کی شب بھی ان تمام دلسوز مصائب و آلام اور تھکاوٹ کے باوجود بھی میں نے اپنی پھوپھی جان کو جائے نماز پر مشغول عبادت پایا۔ روایات کے مطابق آپ کی ایک عظیم خصلت ایثار ہے۔ عاشور کے بعد بھی آپ ایثار کا پیکر بن کر اپنے حصے کا کھانا بچوں میں بانٹ دیا کرتیں اور خود بھوکی رھتی تھیں۔ آپ اپنی عفت اور حجاب کے لحاظ سے یگانہ تھیں، کیونکہ اپنے والد بزرگوار اور بھائیوں کی زندگی میں عاشور کے دن تک آپ پر کسی نامحرم کی نظر نھیں پڑی تھی۔
یحیٰی مازنی کا کھنا ہے کہ “میں نے کافی مدت مدینے میں حضرت علیؑ کی ھمسائیگی میں زندگی گزاری۔ خدا کی قسم ! میں نے اس طولانی مدت میں کبھی بھی زینبؑ کو نھیں دیکھا اور نہ ھی آپ کی کوئی آواز ھمارے کانوں سے ٹکرائی۔” صبر کی تو آپ پھاڑ تھیں۔ یھی وجہ ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد جب آپ اسیر ھوکر ابن زیاد کے دربار میں پھنچیں تو اس نے طنزیہ لھجے میں کھا کہ تمھارے خدا نے تمھارے ساتھ کیا کیا؟ تب آپ نے دو ٹوک الفاظ میں کھا: “میں نے خدا سے اچھائی کے سوا کچھ نھیں دیکھا۔” آپ نے بھایئوں اور بیٹوں کو خدا کی راہ میں شھید ھوتے دیکھا، صبر کیا، اموال کو غارت ھوتے دیکھا، صبر کیا۔ شھداء کے بچے بچیوں کو پایا اور ان کو اسیر ھوتے دیکھا، صبر کیا۔ بھوک، پیاس، قتل و غارت گری، توھین، اسیری اور شھداء کے بدن کو بے گور و کفن دیکھا، ان کے سروں کو نیزے پر بھی دیکھا، ان تمام مواقع پر بھی صبر کیا۔ عام انسانوں کے لئے ایسے وقائع کا تصور کرنا بھی مشکل ھوتا ہے اور اس کا جگر خون ھو جاتا ہے۔
آپ مقام رضا پر فائز تھیں، یھی وجہ ہے کہ جب آپ اپنے بھائی کی لاش پر پھنچیں، تب اس خون میں لت پت لاش کو سینے سے لگا کر خدا سے دعا کرتی ہیں: “خدایا! ھماری طرف سے اس قلیل قربانی کو اپنی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ عطا فرما۔” حضرت زینبؑ کی طینت، طینت رسول اللہ ہے اور آپ نے جھاد بالنفس کے ذریعے لذائذ حیوانی کو ترک کرکے ایک ایسا مقام حاصل کیا جسے “عصمت صغریٰ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ عصمت صغریٰ کا مقام اولیائے الٰھی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ عصمت مجاھدۂ نفس اور لذائذ حیوانی کو ترک کرکے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اسی قول کو آیت اللہ تبریزی اور آیت اللہ خوئی دونوں نے قبول کیا ہے۔ یھاں سے معلوم ھوتا ہے کہ آپ ائمہ معصومینؑ کے بعد ایسی باعظمت ھستی ہیں، جو عصمت کے دوسرے درجہ پر فائز ہیں اور دوسرے تمام نیکو کاروں اور پرھیزگاروں پر برتری رکھتی ہیں۔ آپ تمام مسلمان خواتین کے لئے مرجع کی حیثیت رکھتی تھیں اور وہ اپنے دینی معاملات میں آپ کی طرف رجوع کیا کرتی تھیں۔ آپ انھیں درس تفسیر دیا کرتیں، حلال و حرام بیان فرماتیں اور ان کے سوالات کے جواب دیا کرتی تھیں۔ آپ نے حلال و حرام کو قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیا اور مشتبہ امور کو ترک کرنے کی تلقین فرمائی۔ فصاحت و بلاغت تو آپ کو اپنے والد گرامی سے ورثے میں ملی تھی۔ جب بھی آپ کسی سے بات کرتیں، تب مخاطب گمان کرتا کہ شاید آپ کے والد بزرگوار ان سے بات کر رھے ہیں۔ آپ نے اپنے منطقی، ولولہ انگیز اور بامعنی خطبوں سے اپنے انقلاب کا آغاز کیا۔ اس کا سب سے پھلا نتیجہ یہ ھوا کہ نبیﷺ کے خاندان کو ایک ایسے خطرناک مرحلے سے نجات دلا دی، جس کی دشمن دھمکی دے رھے تھے۔
کیونکہ ھر لحظہ یہ خطرہ رھتا تھا کہ ابن زیاد کہ جس کا باطن خباثت اور اھل بیتؑ کی دشمنی سے پر تھا، ابھی فتح کے نشے میں مست بیٹھا تھا، کھیں ان کے قتل کا حکم صادر نہ کر دے۔ آپ نے ایسے موثر اور ماھرانہ انداز سے گفتگو کی کہ کوفے کے لوگوں کو مجھول الاصل اولاد زیاد کی حکومت سے کوسوں دور کر دیا۔
آپ نے اپنے خطبوں، بیانات، احتجاجات اور مجالس عزاء کے ذریعے امام حسینؑ کے اھداف کو لوگوں پر واضح کرکے رکھ دیا، امام کے پیغام کو سادہ لوح افراد تک پھنچایا۔ آپؑ نے کوفے میں اسیری کی حالت میں جو خطبے دیئے، ان سے بنو امیہ کے ھاتھوں کربلا میں سیدالشھداء کی شھادت اور دوسرے تمام جرائم کا پردہ چاک ھوا۔ آپؑ نے بنو امیہ کے فریب، دھوکے اور ان کے ظلم و ستم کی حقیقت کو فاش کیا۔ کوفے والوں کو ان کی عھد شکنی اور تاریک مستقبل کی طرف متوجہ کرکے ان کے درمیان انقلاب پیدا کر دیا۔ ظالم، غاصب اور فریب کار حاکموں کی طاقت کی بنیادوں کو ھلا کر رکھ دیا۔ آخر کار واقعہ کربلا اور امام حسینؑ کی شخصیت اور ان کے اھداف اور ان کے مددگاروں کے اھداف کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ شھیدوں کے پیغام کو غفلت اور دھوکے میں پڑے ھوئے افراد پر واضح کر دیا، تاکہ اسیری اور خطبوں کا تسلسل، شھادت اور عاشورا کے پیغام کو دوسرے مراحل تک پھنچانے کا سبب بنیں۔
پس مدینے سے مکہ پھر مکے سے کربلا تک امام حسینؑ کا امتحان تھا، جس میں آپؑ سرخرو ھوئے، عصر عاشور سے حضرت زینبؑ کا امتحان شروع ھوا، کربلا سے کوفہ، کوفے سے شام، شام سے دوبارہ کربلا پھر مدینے سے باعزت نکلنے والا اھل بیتؑ کالٹا ھوا یہ قافلہ تمام بھائی بیٹوں سے محروم ھوکر حضرت امام سجادؑ اور حضرت زینب کی قیادت میں مدینہ پھنچا۔ غرض آپ پیغمبر کربلا ہیں۔ آپ نے زندان شام میں ھی عزاداری امام حسینؑ کا اھتمام کیا، رھائی کا حکم ملتے ھی چند روز تک شام کی خواتین کو امت رسول کی جانب سے آل رسول کے ساتھ ھونے والے سلوک کا تذکرہ کرتی رھیں۔ جب لوگوں میں آگھی بڑھتی گئی اور آل رسول کی معرفت میں اضافہ ھوتا گیا تو یزید کی حکومت کا تختہ الٹنے کا خطرہ لاحق ھوا، پھر اس نے مجبور ھو کر اھل بیت اطھارؑ کو رھا کر دیا۔ یوں تمام مسلمانوں کے لئے عزاداری امام حسینؑ حضرت زینبؑ کی ایک اھم امانت ہے۔ اسی وجہ سے شاعر نے کیا خوب کھا ہے: “کربلا کے واقعے میں رنگ دونوں نے بھرا، ابتدا شبیرؑ نے کی انتھا زینبؑ نے کی۔” آپ کی رحلت اور مدفن کے بارے میں بھی کئی اقوال ہیں۔
مشھور یھی ہے کہ آپ نے 62 ھجری، رجب المرجب کی پندرھویں کو رحلت فرمائی اور آپ کو شام میں دمشق کے مقام پر دفنا دیا گیا۔ جھاں آج بھی ھزاروں لوگ آپ کی زیارت سے شرفیاب ھو رھے ہیں۔(اس آرٹیکل کی تالیف میں “شخصیت حضرت زینبؑ”، سید حسین، سید محمد علی شاہ سے استفادہ کیا گیا ہے﴾
تحریر: ایس ایم شاہ