انسان کی زندگی میں زبان کا اھم کردار ہے۔ یہ انسان کی پیدائش سے لے کر لحد تک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔انسان کی شخصی اور اجتماعی عروج و زوال میں بھی زبان کا بھت ھی اھم کردارھوتا ہے۔
زبان کی تعریف:
"زبان" فارسی کا لفظ ہے جس کو عربی میں "لسان" کھاجاتا ہے جیساکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام اللہ تعالی سے دعا کرتے ھوئے فرماتے ہیں :" وجعل لی لسان صدق فی الآخرین" میرے لئے آئندہ انے والوں میں تحسین والی زبان قراردے[i] اور انگلش میں tongue ،اور بولی کو language کھا جاتا ہے۔
لغت میں زبان سے مراد:اللسان جمع السن "ھوجسم لحمی مستطیل متحرک ، یکون فی الفم و یصلح للتذوق و البلغ واللنطق" یعنی لسان کی جمع السن ہے ، یہ ایک مستطیل گوشت کا متحرک حصہ ہے، جو منھ کے اندر ھوتا ہے ،اور جو زائقہ چکھنے ، غذا نگلنے اور بات کرنے کا ذریعہ ہے[ii].دوسرے الفاظ میں منھ کے اندر کا وہ عضو جس میں قوت ذائقہ ھوتی ہے اور نطق کا آلہ ہے زبان کھتے ہے۔
اصطلاح میں اس سے مراد:۔انسان کا روزمرہ انداز بیان ، بات کرنے کا ڈھنگ،یا بولی جس کے ذریعے انسان تکلم یا تحریر کی صورت میں اپنے خیالات اور جذبات ظاھر کرتا ہے۔
مولانہ محمد حسین آزاد جو ماھر لسانیات ہے کھتے ہیں" زبان اظھار کا وہ وسیلہ ہےکہ جو متواتر آوازوں کے سلسلے میں ظاھر ھوتا ہے جنھیں تقریر یا سلسلہِ الفاظ یا بیان یا عبارت کھتے ہیں ،جن میں ھمارے خیالات سوار ھو کر دل سے نکلتے ہیں اور کانوں کے راستےاوروں کے دماغوں میں پھنچتے ہیں"[iii]
زبان کی اھمیت:
اللسان ھو وسیلۃ اعلان مافی داخل الانسان ومافی قلبہ" یعنی انسان کی زبان اس کے باطن اور قلب میں موجود شی کے اظھار کا ایک وسیلہ ہے، انسان کی عقل میں موجود خیالات اور تفکرات کے اظھار کا واحد ذریعہ لسان ہے، جس طرح انکھ اور کان شناخت کا ایک ذریعہ ہے اسی طرح زبان بھی ایک ذریعہ ہے۔
زبان ھی سے چکھ کر چار زائقے یعنی مٹھاس ، ترش،نمکین اور کڑواھٹ کی شناخت ھوتی ہے۔ان تمام چیزوں کی شناخت دیکھنے سے یا چھونے سے ممکن نھیں ھوتا بلکہ قوۃ زائقہ زبان ھی کی مدد سے ان چیزون کی شناخت ممکن ھوتی ہے۔
لیکن ان تمام چیزون سے بالا صفات قوۃ گویائی ہے جو زبان ھی سے ممکن ھوتا ہے۔ دنیا میں انسانوں کی پھچان بھی اس کی بیان سے کرتا ہے ۔ آیت اللہ جعفر سبحانی فرماتے ہیں "انسان اپنی زبان اور قوت گویائی ھی کے توسط سے گفت و شنید ، سوال و جواب اور بحث و تمحیص کے مراحل سے گزر کراپنی شخصیت میں گھرائی پیدا کرسکتا ہے"[iv]اور اسی طرح تعلیم و تربیت کے ذریعے انسان کی ذھنی اور فکری ارتقاء اور نمو کا وسیلہ بھی زبان ہے ۔اگر دیکھا جائے تو انسانی فکر اور ذھن ایک محفوظ اور چھپا ھوا خزانہ ہے تو اس کی کنجی اس کی زبان ہے ، جب تک اس خزانے کا در نہ کھولا جائے انسان کا صحیح مقام و مرتبت اور حیثیت کا اندازہ نھیں ھوسکتا۔جیساکہ نھج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے" تکلموا تعرفوا،فان المرءمخبوء تحت لسانہ"بات کرو تاکہ پھچانے جاو،کیونکہ انسان کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے چھپی ھوئی ہے۔[v]
آیۃ اللہ مکارم شیرازی فرماتے ہیں " زبان انسان کے لئے دوسرے انسانوں سے ارتباط اور ایک قوم دوسرے قوم اور ایک نسل دوسری نسل کی طرف اطلاعات اور معلومات کے نقل اور مبادلہ کا ایک اھم ترین ذریعہ ہے،اگر یہ ارتباط کا ذریعہ نہ ھوتا تو انسان ھرگز بھی علم و دانش اور مادی تمدن اور معنوی مسائل میں اس حد تک ترقی نہ کرسکتا" [vi]
مطلب یہ زبان اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے،بندہ اس کاکما حقہ شکر ادانھیں کرسکتا۔یہ انسان کی پیدائش سے لے کر مرتے دم تک ساتھ دیتی ہے۔
یہ ھماری ملکیت نھیں بلکہ ایک امانت الھی ہے۔تو پھر اس امانت کو رضایت الھی کے مطابق استعمال کرنا چاھئے۔ زبان کی حفاظت اور اس کا صحیح استعمال انتھائی ضروری اور لازمی ہے، قرآن و سنت میں اس کی بڑی تاکید کی گئی ہے.
علامہ طباطبائی فرماتے ہیں"بیان قدرت برسخن از اعظم نعمت الھی است کہ برای بشر موقف انسانیتش راحفظ نمودہ،بہ سوی ھر خیری ھدایتش می کند" [vii] صاحب تفسیر المنیر فرماتے ہیں:الانسان، علمہ النطق والتعبیر عما فی نفسہ، لیتخاطب مع غیرہ و یتفاھم مع ابناء مجمعہ، فیتحقق التعاون والتالیف والانس و بذالک اکتملت عناصر التعلیم ،الکتاب والمعلم،ھماالقرآن والنبی،والمتعلم ھو الانسان، و طریق التعلیم و کیفیتہ و البیان"
یعنی اللہ سبحانہ و تعالی نے انسان کو نطق اور تعبیر کی تعلیم دی تاکہ دوسروں کے ساتھ اور اپنی بچوں کے ساتھ گفتگو کرسکیں جس کے نتیجے میں آپس میں تعاون اور انس و محبت قائم ھوتے ہیں،اسی لئے اللہ تعالی نے تعلیمی عناصر کو مکمل کیا کتاب اور معلم کی صورت میں یعنی قرآن اور پیغمبر اسلام اور متعلم انسان ہے اور طریقہ تدریس اور انداز، بیان یعنی انسان کی بولی ہے۔[viii]
زبان کی اقسام
زبان کی کوالیٹی یعنی خصوصیات اور کوانٹیٹی کے اعتبار سے ھم دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے
حصہ اول: دنیا میں رائج زبانوں کی تعداد یعنی کوانٹیٹی کے اعتبار سے: دنیا میں زبانوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہیں کہ صحیح طور پر شمار نھیں کیا جاسکتا کیونکہ زمانہ گزرنے کا ساتھ ساتھ نئی نئی زبانیں اور لغتیں بتدریج تشکیل پاتی رھتی ہیں اور کچھ زبانین معدوم ھورھی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی تعداد کے بارے میں صحیح اندازہ نھیں لگایا جاسکتا۔لیکن بعض محقیقن کھتے ہیں کہ زبان کی تعداد سات ھزار ہیں کچھ کا نظریہ ہے کہ زبانوں کی تعداد چھ ھزار ہیں ۔
حصہ دوم : کوالیٹی کے اعتبار سے زبان کی تقسیم۔ اس اعتبار سے زبان کی چار اقسام ہیں۔
1- قسم ھو ضرر محض، وہ زبان جس میں نقصان کے علاوہ کچھ بھی نھیں، مثلا جھوٹ، غیبت،گالی گلوج وغیرہ
2- قسم ھو نفع محض، جس میں نفع ھی نفع ہے، مثلا ؛ تلاوت قران، سچائی،وغیرہ
3- قسم ھو ضرر و منفعۃ، اس قسم میں نفع و ضرر دونوں ہیں۔مثلا؛حصول مال کےلئے جھوٹ بولنا
4- قسم لیس فیہ ضرر ولا منفعۃ، جس میں نہ نفع ہے اور نہ ضرر۔ بے مقصد کلام کرنا
اما القسم الاول فھول فضول والاشتغال بہ تضییع زمان و ھو عین الخسران، فلابد من السکوت عنہ وکذالک مافیہ ضرر و منفعۃ لاتفی بالضرر۔ یعنی ان اقسام میں سے قسم الاول وقت کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ بھی نھیں ہے یھی خسارہ ہے ،پس ایسی کلام سے خاموشی اختیار کرنی چاھئے۔اسی طرح جس میں نفع اور نقصان دونوں ھو ایسی کلام سے بھی اجتناب کرنا چاھئے۔ قرآن مجید میں قسم دوم کے علاوہ باقی تمام قسم کے کلام سے منع کیا ہے۔
قرآن میں زبان کی حیثیت:
زبان کی بھت سی ذمہ داریاں ہیں، ان تمام ذمہ داریوں کو بطریق احسن انجام دیتے ھوے انسان ارتقائی منازل طے کرسکتے ہیں ۔اور اگر ان کی ادائیگی میں سستی کا مظاھرہ کرے تو انسان تنزلی کی طر ف جاتے ہیں۔
قرآن مجید زبان کی ایک ذمہ داری یعنی بات کرنے اور بیان کرنے کی کی صلاحیت کو مورد نظر رکھتا ہے، اور زبان کو صرف اسی زاوئے سے دیکھتے ہیں۔زبان میں بیان کی یہ قوت اس قدر اھمیت کی حامل ہے کہ باقی تمام صفات پر یہ غالب اگئے۔ زبان کی اسی اھمیت کو مورد نظررکھتے ھوے قرآن مجید انسان کی خلقت کے بعد زبان کی تعلیم کا ذکر کرتے ہیں۔ الرحمن علم القرآن ،خلق الانسان ،علمہ البیان ،[ix] خداے رحمن جس نے اپنے رسول کو قرآن سیکھایا انسان پیدا کیااور اس کو بیان کی تعلیم دی۔ اسی طرح سورۃ بلد میں ارشاد رب العزت ہے، الم نجعل لہ عینین ولسان وشفتین [x]
کیا ھم نے انسان کے لئے دو آنکھیں ،ایک زبان اوردو ھونٹ نھیں بنائے ۔ اس آیت میں خداوند عالم کی عظیم نعمتوں کا تذکرہ ھورھا ہے، ان سے ایک زبان ہے جو ذمہ داری زبان کو سونپی گئی ہے ایسی کسی اور عضو کو نھیں سونپی گئی،گفتگو کی صلاحیت اور استعدادجس کی مدد سے انسان اپنے مافی الضمیر کو دوسروں کو منتقل کرسکتا ہے اسی زبان کے ذریعے، جس کے استعمال سے ابھی تک ھزاروں زبانیں معرض وجود میں آئی ہیں۔اوراس آیت میں لسان کے بعد دو ھونٹوں کا تذکرہ ھوا ہے ،جس کے بارے میں علامہ طبرسی نے ایک روایت نقل کی ہے اپنی تفسیر میں، ایک حدیث نبوی میں ہے کہ اللہ تعالی انسان سے فرماتا ہے " یابن آدم ان نازعک لسانک فی ماحرمت علیک فقد اعنتک بطبقتین" اے فرزند آدم ؛ اگر تیری زبان تجھے گناہ پر اکساے تو اسے قابو میں رکھنے کے لئے میں نے تجھے دو ھونٹ دئیے ہیں ایسی حالت میں اپنے ھونٹوں کو بند کرلے" [xi]
زبان انسان کی شخصیت کو نکھارنے میں کلیدی کردار اداکرتی ہے ۔ جیساکہ اللہ تعالی فرماتا ہے ؛ فلما کلمہ قال انک الیوم لدینا مکین امین۔[xii] یعنی جب اس نے حضرت یوسف علیہ السلام سے گفتگو کی تو ان سے کھا تم آج سے ھمارے یھاں خاص اھمیت رکھتے ھو اور معتبر ھو" جب حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ مصر کی خواب کا تعبیر بتادیئے اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ تجاویز بھی دے دی( ان میں گوداموں میں غلہ جمع کرنا تاکہ قحط کے ایام میں لوگوں کےلئے کوئی مشکلات پیش نہ آے) تو بادشاہ کی نگاھوں میں ان کی اعالیٰ شخصیت نمایاں ھوئی،جس کے نتیجے میں آپ کو وزیر بنایا۔
اگر حضرت یوسف اپنے زبان کو اس انداز میں استعمال نہ کرتا تو قید خانے میں ھی زندگی گزرجاتے۔ اس سے اندازہ ھوتا ہے کی زبان انسان کی شخصیت کونکھارنے میں اھم کردار ادا کرتی ہے۔اسی لئے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾کا ارشاد گرامی ہے"تکلمواتعرفوا" بات کرو تاکہ پھچانے جاو۔[xiii]
فانما یسرنٰہ بلسانک لتبشر بہ المتقین و تنذربہ قوما لدا۔[xiv](اے محمد﴿ص) پس ھم نے یہ قرآن آپ کی زبان میں یقینا آسان کیا ہے تاکہ آ پ اس سے صاحبان تقویٰ کو بشارت دیں اور جھگڑالو قوم کی تنبیہ کرین-
یعنی خداوند عالم پیغمبر﴿ص﴾ اسلام کی ذات کو یہ بشارت دے رھے ہیں کہ ھم نے اپنے پیغاموں کو آپ کی زبان پر آسان کردیا کہ ان کے ذریعے آپ متقین کو بشارت دیں اور جو لوگ آپ ﴿ص﴾ اور اسلام کے دشمن ہیں ان کو ڈرائیں۔اسی طرح زبان کے بارے میں کچھ آیات اور ترجمہ پیش خدمت ہے۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام اللہ تعالی سے دعا کرتے ھوے فرماتے ہیں :" وجعل لی لسان صدق فی الآخرین" میرے لئے ائندہ انے والوں میں تحسین والی زبان قراردے۔[xv]
ووھبنا لھم من رحمتنا و جعلنا لھم لسان صدق علیا، [xvi]حضرت یعقوب اور اسحاق نبی علیھما السلام کے بارے میں خداوند عالم فرماتے ہیں کہ ان کو ھم نے اپنی رحمت سے بھرہ ور فرمایا اور لوگوں کی زبان پر ھم نے ان کو نیک نام اور بلند کیا۔
حضرت موسی علیہ السلام اللہ تعالی سے دعا کرتے ھوے فرماتے ہیں: وحلل عقدۃ من لسانی، یفقھوا قولی۔[xvii] خدایا میری زبان کی گرہ کھول دےتاکہ وہ لوگ میری بات کو سمجھ سکیں۔
پیغام رسائی میں زبان کا کردار کلیدی ہے ، اس کے بغیر کوئی بھی پیغام چاھے آسمانی ھو یا زمینی بطریق احسن نھیں پھنچا سکتا۔زبان ھی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے پیغام رسائی ممکن ھوتی ہے، اس کے علاوہ انسان کے اندر موجود خصلتین اور صفات اسی زبان سے ظاھر ھوتاہے ،جیساکہ حضرت علی علیہ السلام فرماتاہے" ان فی الانسان عشر خصال یظھرھا لسانہ: انسان میں دس خاصیت ایسی ہیں جو زبان سے ظاھر ھوتی ہیں۔
شاھد یخبرعن الضمیر، یہ ایک شاھد ہے جو باطن کی خبر دیتی ہے۔
وحاکم یفصل بین الخطاب ۔ایک قاضی ہے جو حق و باطل کو جدا کرتی ہے
وناطق يرد به الجواب۔ وہ ایک ترجمان ہے جو سوالات کا جواب دیتی ہے۔
وشافع يدرك به الحاجه۔ وہ ایک شفاعت کرنے والی ہےجس کے ذریعے مقاصد کا حصول ھوتا ہے.
وواصف يعرف به الاشياء، وہ ایک توصیف گر ہے جو چیزوں کی اوصاف بیان کرتی ہے
وامير يعرف بالحسن۔ وہ حاکم ہے جو نیکیوں کی طرف دعوت دیتی ہے
وواعظ ينهى عن القبح۔ وہ ایک واعظ ہے جو برائیوں سے روکتی ہے
ومعز تسكن به الاحزان۔وہ ایک تسلی دینے والی ہے جس سے حزن کی شدت کم ھوجاتی ہے
وحاضر تجلى به الصغائن، وہ ایک تعریف کرنے والی ہے، جو دشمنی اور عداوت کے زنگ کو دورکردیتی ہے
ومونق تلذ به السماع، وہ ایسی ھنر مند ہے جو کانوں کی لذت کا سامان فراھم کرتی ہے"[xviii]
گویا کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے انسانوں پر ایک عظیم نعمت ہے، اور یہ انسان کی خوبصورتی اور حسن و جمال بھی ہے ، جیساکہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہے" الجمال فی اللسان والکمال فی العقل" انسان کا حسن وجمال اس کی زبان میں ہے اور اس کا کمال عقل ہے۔[xix]
خلاصہ :انسانی زندگی میں زبان کا اھم کردار ھوتی ہے۔ یہ انسان کی پیدائش سے لے کر لحد تک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔انسان کی شخصی اور اجتماعی عروج و زوال میں بھی زبان کا کرار بھت ھی اھم ھوتا ہے۔ایک اچھی اور تربیت بافتہ گفتگو شخصی زیبائی کے ساتھ ساتھ معاشرتی حسن و جمال کو بھی دوام بخشتی ہے ،اور لوگوں کے لئے ایک مثالی سماج بن جاتا ہے ،کہ جس میں سچائی ،خوش اخلاقی اور مروت سے مذین گفتگوھوتی ہیں۔
اس کے برعکس اسی زبان کو اگر بے ھودہ ،اور بے مقصد تکلم میں استعمال کرے تو انفرادی یا شخصی تذلیل کے ساتھ ساتھ سماج کے ماحول کو بھی متاثر کرتی ہے ۔ اسی حساسیت کی بنا پر شریعت اسلامی میں اس کی اھمیت ، موارد استعمال اور استعمال سے متعلق بھت سے قوانین مرتب کئے ہیں۔ایک مسلمان ھونے کی حیثیت سے اگراپنی زبان کو قرآن وسنت کی روشنی میں استعمال کرے تو دینا و آخرت میں بھلائی ھوگی۔
لیکن اگر اس کو غیر شرعی امور میں استعمال کیا تو غذاب الھی کا موجب بنے گی۔ اللہ تعالی ھم سب کو اپنی زبان قرآن اور فرامین معصوم علیھم السلام کے مطابق استعمال کرنے کی توفیق عنایت فرمائں ،آمین
بقلم: محمد عسکری کریمی اسلام آباد
منابع وماخذ
1۔ شعراء 114
[ii]- معجمع للغات العربیہ،ج1، ص 87
[iii]- محمد حسین آذاد، سخن دان فارس،قومی کونسل براے فروع اردو زبان،لکھنو،انڈیا
[iv]- منشور خاور، جعفر سبحانی ،ج1-2، ص200
[v]- نھج البلاغہ ،کلمات قصار،نمبر148
[vi]- تفسیرنمونہ،ناصرمکارم شیرازی،ج27،ص41
[vii]- المیزان، طباطبائی،ج19،ص159، انتشارات اسلامی ،قم،ایران
[viii]- تفسیر المنیر فی العقیدۃ ولشریعہ ولمنھج، دلدکتور وھبۃ الزحیلی،ج 27-28،ص197، دارلفکر،بیروت،لبنان
[ix]- الرحمن،1-4
[x]- البلد، 7-9
[xi]- مجمع البیان /طبرسی،ج10،ص494۔علم الاخلاق،مکارم شیرازی،ج1،ص262،مصباح القرآن ،لاھور،پاکستان
[xii]- سورہ یوسف 54
[xiii]- قرآن کا دائمی منشور،ایۃ اللہ جعفرسبحانی،ج1،ص 202، مصباح القرآن،لاھور،پاکستان
[xiv]- سورہ مریم،97
[xv]- شعراء 114
[xvi]- سورۃ مریم ،50
[xvii]- شعراء 13
[xviii]- اصول الکافی/شیخ کلینی،ص20۔بحوالہ علم الاخلاق،سیدشیرازی،ج1،ص264
[xix]- بحارالانوار، علامہ مجلسی ،ج75،ص80
قرآن کی نظر میں بنی نوع انسان کی زندگی میں زبان کا کردار
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 2349