پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی مبارک زندگی کے آخری حج کے موقع پر غدیر خم کے میدان میں سوا لاکھ حاجیوں کے درمیان بحکم خداوند ایک تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اپنی تئیس سالہ تبلیغی زحمتوں کا ماحصل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دین مبین اسلام کی کشتی کو ایک ایسے ناخدا کے سپرد کیا جس نے اس کشتی کو بناتے، اسے سجھاتے سنوارتے اور کفر و نفاق کے سمندر میں دشمنوں کے گزند سے آج تک محفوظ رکھنے میں قدم بقدم پیغمبر اکرم (ص) ساتھ دیا۔
اس خطبے کے اھم موضوعات جن کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) نے اس میدان غدیر تپتی دھوپ کے نیچے اونٹوں کے کجاووں سے بنوائے ھوئے منبر پر کھڑے ھو کر گفتگو فرمائی: خدا کی حمد و ثنا، ایک اھم حکم خداوندی کا بیان، بارہ اماموں کی امامت اور ولایت کا قانونی اعلان، پیغمبر اکرم (ص) کے ھاتھوں پر میرالمومنین علیہ السلام کا تعارف، مسئلہٴ امامت پر امت کی توجہ پر زور دینا، منافقوں کی کار شکنیوں کی طرف اشارہ، اھل بیت علیھم السلام کے پیروکار اور ان کے دشمن، حضرت مھدی عج اللہ فرجہ الشریف، بیعت کی وضاحت، حلال و حرام، واجبات اور محرمات، قانونی طور پر بیعت لینا۔
خدا کی حمد و ثنا
ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو اپنی یکتائی میں بلند اور اپنی انفرادی شان کے باوجود قریب ہے وہ سلطنت کے اعتبار سے جلیل اور ارکان کے اعتبار سے عظیم ہے وہ اپنی منزل پر رہ کر بھی اپنے علم سے ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اپنی قدرت اور اپنے برہان کی بناء پر تمام مخلوقات کو قبضہ میں رکھے ہوئے ہے ۔
وہ ہمیشہ سے قابل حمد تھا اور ہمیشہ قابل حمد رہے گا، وہ ہمیشہ سے بزرگ ہے ایسی بزرگی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں، وہ ابتدا کرنے والا اور پلٹانے والاہے اور ہر کام کی باز گشت اسی کی طرف ہے بلندیوں کا پیدا کرنے والا ،فرش زمین کا بچھانے والا،آسمان و زمین پر اختیار رکھنے والا، پاک ومنزہ ،پاکیزہ ،ملائکہ اور روح کا پروردگار، تمام مخلوقات پر فضل وکرم کرنے والا اور تمام موجودات پر مہربانی کرنے والا ہے وہ ہر آنکھ کو دیکھتا ہے، اگر چہ کوئی آنکھ اسے نہیں دیکھتی ۔
وہ صاحب حلم وکرم اور بردبار ہے ،اسکی رحمت ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اسکی نعمت کا ہر شے پراحسان ہے انتقام میں جلدی نہیں کرتا اور مستحقین عذاب کو عذاب دینے میں عجلت سے کام نہیں لیتا ۔
اسرار کو جانتا ہے اور ضمیروں سے باخبر ہے ،پوشیدہ چیزیں اس پر مخفی نہیں رہتیں ،اور مخفی امور اس پر مشتبہ نہیں ہوتے ،وہ ہر شے پر محیط اور ہر چیز پر غالب ہے ،اسکی قوت ہر شے میں اسکی قدرت ہر چیز پر ہے ،وہ بے مثل ہے اس نے شے کو اس وقت وجود بخشا جب کو ئی چیز نہیں تھی اوروہ زندہ ہے، ہمیشہ رہنے والا،انصاف کرنے والا ہے ،اسکے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے ،وہ عزیز و حکیم ہے ۔
نگاہوں کی رسائی سے بالاتر ہے اور ہر نگاہ کو اپنی نظر میں رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی، کوئی شخص اسکے وصف کو پا نہیں سکتا اور کوئی اسکے ظاہر و باطن کی کیفیت کا ادراک نہیں کرسکتا مگر اتنا ہی جتنا اس نے خود بتا دیا ہے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ ایسا خدا ہے جس کی پاکی و پاکیزگی زمانہ پر محیط ہے اور جسکا نور ابدی ہے۔
اسکا حکم کسی مشیر کے مشورے کے بغیر نافذ ہے ،اور نہ ہی اس کی تقدیر میں کوئی اسکا شریک ہے، اور نہ اس کی تدبیر میں کوئی فرق ہے ۔
جو کچہ بنایا وہ بغیر کسی نمونہ کے بنایا اور جسے بھی خلق کیا بغیر کسی کی اعانت یا فکر ونظر کی زحمت کے بنایا۔ جسے بنایا وہ بن گیا اور جسے خلق کیا وہ خلق ہو گیا۔ وہ خدا لا شریک ہے جس کی صنعت محکم اور جس کا سلوک بہترین ہے ۔وہ ایسا عادل ہے جو ظلم نہیں کرتا اور ایسا کرم کرنے والا ہے کہ تمام کام اسی کی طرف پلٹتے ہیں ۔
میں گو اہی دیتا ہوں کہ وہ ایسا بزرگ و برتر ہے کہ ہر شے اسکی قدرت کے سامنے متواضع، تمام چیزیں اس کی عزت کے سامنے ذلیل، تمام چیزیں اس کی قدرت کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں اور ہر چیز اسکی ہیبت کے سامنے خاضع ہے۔
وہ تمام بادشاہوں کا بادشاہ، تمام آسمانوں کا خالق، شمس و قمر پر اختیار رکھنے والا، یہ تمام معین وقت پرحرکت کر رہے ہیں، دن کو رات اور رات کو دن پر پلٹانے والا ہے کہ دن بڑی تیزی کے ساتھ اس کا پیچھا کرتا ہے، ہرمعاند ظالم کی کمر توڑنے والا اور ہر سرکش شیطان کو ہلاک کرنے والا ہے ۔
نہ اس کی کوئی ضد ہے نہ مثل، وہ یکتا ہے بے نیاز ہے ن ہ اسکا کوئی باپ ہے نہ بیٹا، نہ ہمسر۔ وہ خدائے واحد اور رب مجید ہے، جو چاہتا ہے کرگزرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے پورا کردیتا ہے وہ جانتا ہے پس احصا کر لیتا ہے ،موت و حیات کا مالک، فقر وغنا کا صاحب اختیار، ہنسانے والا، رلانے والا، قریب کرنے والا ،دور ہٹا دینے والا عطا کرنے والا، روک لینے والا ہے، ملک اسی کے لئے ہے اور حمد اسی کے لئے زیبا ہے اور خیر اسکے قبضہ میں ہے ۔وہ ہر شے پر قادر ہے ۔
رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے ۔اس عزیز و غفار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے ،وہ دعاؤں کا قبول کرنے والا، بکثرت عطا کرنے والا، سانسوں کا شمار کرنے والا اور انسان و جنات کا پروردگار ہے ،اسکے لئے کوئی شے مشتبہ نہیں ہے۔ وہ فریادیوں کی فریاد سے پریشان نہیں ہوتا ہے اور اسکو گڑگڑانے والوں کا اصرار خستہ حال نہیں کرتا ،نیک کرداروں کا بچانے والا، طالبان فلاح کو توفیق دینے والا مومنین کا مولا اور عالمین کا پالنے والاہے ۔اسکا ہر مخلوق پر یہ حق ہے کہ وہ ہر حال میں اسکی حمد وثنا کرے ۔
ہم اس کی بے نہایت حمد کرتے ہیں اورہمیشہ خوشی ،غمی، سختی اور آسائش میں اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ،میں اس پر اور اسکے ملائکہ ،اس کے رسولوں اور اسکی کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں، اسکے حکم کو سنتا ہوں اور اطاعت کرتا ہوں ،اسکی مرضی کی طرف سبقت کرتا ہوں اور اسکے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوں چونکہ اسکی اطاعت میں رغبت ہے اور اس کے عتاب کے خوف کی بناء پر کہ نہ کوئی اسکی تدبیر سے بچ سکتا ہے اور نہ کسی کو اسکے ظلم کا خطرہ ہے ۔
ایک اھم کام کے لئے خداوند عالم کا حکم
میں اپنے لئے بندگی اور اسکے لئے ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں اوراپنے لئے اس کی ربوبیت کی گواہی دیتا ہوں اسکے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا ہوں کہیں ایسا نہ ہوکہ کوتاہی کی شکل میں وہ عذاب نازل ہوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ ہواگر چہ بڑی تدبیر سے کام لیا جائے اور اس کی دوستی خالص ہے۔ اس خدائے وحدہ لا شریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا جو اس نے علی کے متعلق مجھ پرنازل فرمایا ہے تو اسکی رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اس نے میرے لئے لوگوں کے شر سے حفاظت کی ضمانت لی ہے اور خدا ہمارے لئے کافی اور بہت زیادہ کرم کرنے والا ہے ۔
اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ہے :<بِسم اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحیمِ،یٰااٴَیُّھاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰااُنزِلَ اِلَیکَ مِنْ رَبِّکَ( فی عَلِیٍّ یَعْنی فِی الْخِلاٰفَةِ لِعَلِیِّ بْنِ اٴَبی طٰالِبٍ) وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰا بَلَّغْتَ رِسٰالَتَہُ وَاللہ یَعْصِمُکَ مِنَ النّٰاسِ>[سورہ،مائدہ آیت/۶۷]
خدا کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے۔ اے رسول!جوحکم تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے اوپر (یعنی علی بن ابی طالب کی خلافت کے بارے میں) نازل کیا گیا ہے،اسے پہنچادو،اوراگرتم نے ایسانہ کیا تو رسالت کی تبلیغ نہیں کی اوراللہ تمہیں لوگوں کے شرسے محفوظ رکھے گا “
ایھا الناس! میں نے حکم کی تعمیل میں کوئی کوتا ہی نہیں کی اور میں اس آیت کے نازل ہونے کا سبب واضح کردینا چاہتا ہوں :
جبرئیل تین بار میرے پاس خداوندِ سلام و پروردگار(کہ وہ سلام ہے) کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ میں اسی مقام پرٹھہر کر سفید وسیاہ کو یہ اطلاع دے دوں کہ علی بن ابی طالب (ع) میرے بھائی ،وصی، جانشین اور میرے بعد امام ہیں ان کی منزل میرے لئے ویسی ہی ہے جیسے موسیٰ کے لئے ہارون کی تھی ۔فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا،وہ اللہ و رسول کے بعد تمہارے حاکم ہیں اور اس سلسلہ میں خدا نے اپنی کتاب میں مجھ پر یہ آیت نازل کی ہے :
اِنَّمٰاوَلِیُّکُمُ اللہ وَرَسُوْلُہُ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْاالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلاٰةَ وَیُوٴْتُوْنَ الزَّکٰاةَ وَھمْ رٰاکِعُونَ [سورہ ما ئدہ آیت/۵۵]
”بس تمہارا ولی اللہ ہے اوراسکا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اورحالت رکوع میں زکوٰة ادا کرتے ہیں “علی بن ابی طالب(ع) نے نماز قائم کی ہے اور حالت رکوع میں زکوٰة دی ہے وہ ہر حال میں رضاء الٰہی کے طلب گار ہیں۔
میں نے جبرئیل کے ذریعہ خدا سے یہ گذارش کی کہ مجھے اس وقت تمہارے سامنے اس پیغام کو پہنچانے سے معذور رکھا جائے اس لئے کہ میں متقین کی قلت اور منافقین کی کثرت ،فساد برپا کرنے والے ،ملامت کرنے والے اور اسلام کا مذاق اڑانے والے منافقین کی مکاریوں سے با خبر ہوں ،جن کے بارے میں خدا نے صاف کہہ دیا ہے کہ”یہ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہے، اور یہ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں حالانکہ پروردگارکے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے “۔اسی طرح منافقین نے بارہا مجھے اذیت پہنچائی ہے یہاں تک کہ وہ مجھے ”اُذُنْ“”ہر بات پرکان دہرنے والا“کہنے لگے اور ان کا خیال تھا کہ میں ایسا ہی ہوں چونکہ اس (علی ) کے ہمیشہ میرے ساتھ رہنے،اس کی طرف متوجہ رہنے،اور اس کے مجھے قبول کرنے کی وجہ سے یہاں تک کہ خداوند عالم نے اس سلسلہ میں آیت نازل کی ہے:
<وَمِنْھمُ الَّذِیْنَ یُوْذُوْنَ النَّبِیَّ وَیَقُوْلُوْنَ ھوَاُذُنٌ،قُلْ اُذُنُ ]عَلَی الَّذِیْنَ یَزْعَمُوْنَ اَنَّہُ اُذُنٌ-[خَیْرٍلَکُمْ،یُوٴمِنُ بِاللّٰہِ وَ یُوٴْمِنُ لِلْمُوٴْمِنِیْنَ>[سورہ توبہ آیت/ ۶۱]
”اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو رسول کو ستاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بس کان ہی (کان) ہیں (اے رسول )تم کہدوکہ (کان تو ہیں مگر)تمہاری بھلائی (سننے )کے کان ہیں کہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور مو منین( کی باتوں) کا یقین رکھتے ہیں “.
ورنہ میں چاہوں تو ”اُذُنْ “کہنے والوں میں سے ایک ایک کا نام بھی بتاسکتا ہوں، اگر میں چاہوں تو ان کی طرف اشارہ کرسکتا ہوں اور اگرچاہوں توتمام نشانیوں کے ساتھ ان کا تعارف بھی کراسکتا ہوں ،لیکن میں ان معاملات میں کرم اور بزرگی سے کام لیتا ہوں ۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود مرضیٴ خدا یہی ہے کہ میں اس حکم کی تبلیغ کردوں جو علی کے بارے میں خدا نے نازل کیا ہے۔
یٰااٴَیُّھاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰااُنزِلَ اِلَیکَ مِنْ رَبِّک (فِیْ حَقِّ عَلِیْ )وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰابَلَّغْتَ رِسٰالَتَہُ وَاللہ یَعْصِمُکَ مِنَ النّٰاسِ [سورہ مائدہ آیت/۶۷]
”اے رسول!جوحکم تمہاری طرف علی (ع) کے سلسلہ میں نازل کیا گیا ہے،اسے پہنچادو،اوراگرتم نے ایسانہ کیا تو رسالت کی تبلیغ نہیں کی اوراللہ تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا “
بارہ اماموں کی امامت اور ولایت کا قانونی اعلان
لوگو! جان لو(اس سلسلہ میں خبردار رہواس کو سمجھواور مطلع ہوجاؤ) کہ اللہ نے علی کو تمہارا ولی اور امام بنا دیا ہے اور ان کی اطاعت کو تمام مہاجرین، انصار اورنیکی میں ان کے تابعین اور ہر شہری، دیہاتی، عجمی، عربی، آزاد، غلام، صغیر، کبیر، سیاہ، سفید پر واجب کردیا ہے۔ ہر توحید پرست کیلئے ان کا حکم جاری،ان کا امر نافذ اور ان کا قول قابل اطاعت ہے ،ان کا مخالف ملعون اور ان کا پیرو مستحق رحمت ہے۔ جو ان کی تصدیق کرے گا اور ان کی بات سن کر اطاعت کرے گا اللہ اسکے گناہوں کو بخش دے گا۔
ایھا الناس ! یہ اس مقام پر میرا آخری قیام ہے لہٰذا میری بات سنو، اور اطاعت کرو اور اپنے پروردگار کے حکم کو تسلیم کرو۔ اللہ تمہارا رب، ولی اور پروردگار ہے اور اس کے بعد اس کا رسول محمد(ص) تمہارا حاکم ہے جو آج تم سے خطاب کر رہا ہے۔ اس کے بعد علی تمہارا ولی اور بحکم خدا تمہارا امام ہے اس کے بعد امامت میری ذریت اور اس کی اولاد میں تمہارے خدا و رسول سے ملاقات کے دن تک باقی رہے گی ۔
حلال وہی ہے جس کو اللہ، رسول اور انہوں(بارہ ائمہ) نے حلال کیا ہے اور حرام وہی ہے جس کو اللہ، رسول اور ان بارہ اماموں نے تم پر حرام کیا ہے ۔ اللہ نے مجھے حرام و حلال کی تعلیم دی ہے اور اس نے اپنی کتاب اور حلال و حرام میں سے جس چیز کا مجھے علم دیا تھا وہ سب میں نے ان(علی) کے حوالہ کر دیا ۔
ایھا الناس! علی (ع) کو دوسروں پر فضیلت دو، خداوندعالم نے ہر علم کا احصاء ان میں کر دیا ہے اور ک ئی علم ایسا نہیں ہے جو اللہ نے مجھے عطا نہ کیا ہو اور جو کچہ خدا نے مجھے عطا کیا تھا سب میں نے علی کے حوالہ کر دیا ہے۔ وہ امام مبین ہیں اور خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :
وَکُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنَاہُ فِیْ اِمَامٍ مُبِیْنٍ [سورہ یس آیت/۱۲]”ہم نے ہر چیز کا احصاء امام مبین میں کردیا ہے “
ایھا الناس! علی (ع) سے بھٹک نہ جانا، ان سے بیزار نہ ہو جانا اور ان کی ولایت کا انکار نہ کر دینا کہ وہی حق کی طرف ہدایت کر نے والے، حق پر عمل کرنے والے ، باطل کو فنا کر دینے والے اور اس سے روکنے والے ہیں، انہیں اس راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہیں ہوتی ۔
وہ سب سے پہلے اللہ و رسول پر ایمان لا ئے اور اپنے جی جان سے رسول پرقربان تھے وہ اس وقت رسول کے ساتھ تھے جب لوگوں میں سے ان کے علاوہ کوئی عبادت خدا کرنے والا نہ تھا انہوں نے لوگوں میں سب سے پہلے نماز قائم کی اور میرے ساتھ خدا کی عبادت کی ہے میں نے خداوند عالم کی طرف سے ان کو اپنے بستر پر لیٹنے کا حکم دیا تو وہ بھی اپنی جان فدا کرتے ہوئے میرے بستر پر سو گئے ۔
ایھا الناس! انہیں افضل قرار دو کہ انہیں اللہ نے فضیلت دی ہے اور انہیں قبول کرو کہ انہیں اللہ نے امام بنایا ہے ۔
ایھا الناس! وہ اللہ کی طرف سے امام ہیں اور جو ان کی ولایت کا انکار کرے گا نہ اس کی توبہ قبول ہوگی اور نہ اس کی بخشش کا کوئی امکان ہے بلکہ اللہ یقینا اس امر پر مخالفت کرنے والے کے ساتھ ایسا کرے گا اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بدترین عذاب میں مبتلا کرے گا۔ لہٰذا تم ان کی مخالفت سے بچو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جہنم میں داخل ہو جاوٴ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جس کو کفار کے لئے مہیا کیا گیا ہے ۔
ایھا الناس! خدا کی قسم تمام انبیاء علیہم السلام و مرسلین نے مجھے بشارت دی ہے اور میں خاتم الانبیاء والمرسلین اور زمین و آسمان کی تمام مخلوقات کے لئے حجت پروردگار ہوں جو اس بات میں شک کرے گا وہ گذشتہ زمانہ ٴ جاہلیت جیسا کافر ہو جائے گا اور جس نے میری کسی ایک بات میں بھی شک کیا اس نے گویا تمام باتوں کو مشکوک قرار دیدیا اورجس نے ہمارے کسی ایک امام کے سلسلہ میں شک کیا اس نے تمام اماموں کے بارے میں شک کیا اور ہمارے بارے میں شک کرنے والے کا انجام جہنم ہے ۔
ایھا الناس! اللہ نے جو مجھے یہ فضیلت عطا کی ہے یہ اس کا کرم اور احسان ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور وہ میری طرف سے تا ابد اور ہر حال میں اسکی حمد و سپاس ہے ۔
ایھا الناس! علی (ع) کی فضیلت کا اقرار کرو کہ وہ میرے بعد ہر مرد و زن سے افضل و بر تر ہے جب تک اللہ رزق نازل کررہا ہے اور اس کی مخلوق باقی ہے۔ جو میری اس بات کو رد کرے اور اس کی موافقت نہ کرے وہ ملعون ہے ملعون ہے اور مغضوب ہے مغضوب ہے ۔ جبرئیل نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ پروردگار کا ارشاد ہے کہ جو علی سے دشمنی کرے گا اور انہیں اپنا حاکم تسلیم نہ کرے گا اس پر میری لعنت اور میرا غضب ہے۔ لہٰذا ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل کے لئے کیا مہیا کیا ہے ۔اس کی مخالفت کرتے وقت اللہ سے ڈرو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ راہ حق سے قدم پھسل جائیں اور اللہ تمہارے اعمال سے با خبر ہے ۔
ایھا الناس! علی (ع) وہ جنب اللہ ہیں جن کاخداوند عالم نے اپنی کتاب میں تذکرہ کیا ہے اور ان کی مخالفت کرنے والے کے بارے میں فرمایا ہے:<اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یَاحَسْرَتَاعَلیٰ مَافَرَّطَّتُ فِیْ جَنْبِ اللّٰہِ >[سورہ زمر آیت/۵۶]ہائے افسوس کہ میں نے جنب خدا کے حق میں بڑی کوتا ہی کی ہے“
ایھا الناس! قرآن میں فکر کرو، اس کی آیات کو سمجھو، محکمات میں غوروفکر کرو اور متشابہات کے پیچھے نہ پڑو ۔ خدا کی قسم قرآن مجید کے باطن اور اس کی تفسیر کو اس کے علاوہ اور کوئی واضح نہ کرسکے گا۔
جس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے اور جس کا بازو تھام کر میں نے بلند کیا ہے اور جس کے بارے میں یہ بتا رہا ہوں کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہے ۔ یہ علی بن ابی طالب میرا بھائی ہے اور وصی بھی ۔ اس کی ولایت کا حکم اللہ کی طرف سے ہے جو مجھ پر نازل ہوا ہے ۔
ایھا الناس! علی اوران کی نسل سے میری پاکیزہ اولاد ثقل اصغر ہیں اور قرآن ثقل اکبر ہے۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی خبر دیتا ہے اور اس سے جدا نہ ہوگا یہاں تک کہ دونوں حوض کوثر پر وارد ہوں گے۔ جان لو! میرے یہ فرزند مخلوقات میں خدا کے امین اور زمین میں خدا کے حکمران ہیں۔
آگاہ ہو جاوٴ میں نے ادا کر دیا میں نے پیغام کو پہنچا دیا۔ میں نے بات سنا دی، میں نے حق کو واضح کر دیا، آگاہ ہو جاوٴ جو اللہ نے کہا وہ میں نے دھرا دیا۔ پھر آگاہ ہو جاوٴ کہ امیرالمومنین میرے اس بھائی کے علاوہ کوئی نہیں ہے اور اس کے علاوہ یہ منصب کسی کے لئے سزاوار نہیں ہے ۔
پیغمبر اکرم (ص) کے ھاتھوں پر امیرالمومنین علیہ السلام کا تعارف
اس کے بعد علی (ع) کو اپنے ہاتھوں سے بازو پکڑکر بلند کیا یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت علی علیہ السلام منبر پر پیغمبر اسلام(ص) سے ایک زینہ نیچے کھڑے ہوئے تھے اور آنحضرت (ص) کے دائیں طرف مائل تھے گویا دونوں ایک ہی مقام پر کھڑے ہوئے ہیں۔
اس کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے اپنے دست مبارک سے حضرت علی علیہ السلام کو بلند کیا اور ان کے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایااورعلی (ع) کو اتنا بلند کیا کہ آپ (ع) کے قدم مبارک آنحضرت(ص) کے گھٹنوں کے برابر آگئے۔ اس کے بعد آپ (ص) نے فر مایا :
ایھا الناس! یہ علی (ع) میرا بھائی اور وصی اور میرے علم کا مخزن اورمیری امت میں سے مجھ پر ایمان لانے والوں کے لئے میرا خلیفہ ہے اور کتاب خدا کی تفسیر کی رو سے بھی میرا جانشین ہے یہ خدا کی طرف دعوت دینے والا ،اس کی مرضی کے مطابق عمل کرنے والا ،اس کے دشمنوں سے جہاد کرنے والا، اس کی اطاعت پر ساتھ دینے والا، اس کی معصیت سے روکنے والا ہے۔
یہ اس کے رسول کا جانشین اور مومنین کا امیر، ہدایت کرنے والا امام ہے اورناکثین( بیعت شکن ) قاسطین (ظالم) اور مارقین (خارجی افراد) سے جہاد کرنے والا ہے ۔
خداوند عالم فرماتا ہے : مٰایُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ [سورہ ق آیت/۲۹] ”میرے پاس بات میں تبدیلی نہیں ہوتی ہے “ خدایا تیرے حکم سے کہہ رہا ہوں۔ خدایا علی کے دوست کو دوست رکھنا اور علی کے دشمن کو دشمن قرار دینا ،جو علی کی مدد کرے اس کی مدد کرنا اور جو علی کو ذلیل و رسوا کرے تو اس کو ذلیل و رسوا کرنا ان کے منکر پر لعنت کرنا اور ان کے حق کا انکارکرنے والے پر غضب نا زل کرنا ۔
پروردگارا ! تو نے اس مطلب کو بیان کرتے وقت اور آج کے دن علی کو تاج ولایت پہناتے وقت علی کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:
الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَرَضیتُ لَکُمْ الاِسْلاٰمَ دیناً [سورہ ما ئدہ آیت /۳]
”آج میں نے دین کو کامل کر دیا، نعمت کو تمام کر دیا اور اسلام کو پسندیدہ دین قرار دیدیا“
وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَالاِسْلاٰمِ دیناًفَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَھوَفِی الْآخِرَةِ مِنَ الْخاسِرینَ [سورہ آل عمران آیت/ ۸۵]
”اور جو اسلام کے علاوہ کوئی دین تلاش کرے گا وہ دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ شخص آخرت میں خسارہ والوں میں ہو گا “
پروردگارا میں تجھے گواہ قرار دیتا ہوں کہ میں نے تیرے حکم کی تبلیغ کر دی ۔
مسئلہٴ امامت پر امت کی توجہ پر زور دینا
ایھا الناس! اللہ نے دین کی تکمیل علی کی امامت سے کی ہے ۔لہٰذا جو علی اور ان کے صلب سے آنے والی میری اولاد کی امامت کا اقرار نہ کرے گا ۔اس کے دنیا و آخرت کے تمام اعمال بر باد ہو جائیں گے وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ ایسے لوگوں کے عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہو گی اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی ۔
ایھا الناس! یہ علی ہے تم میں سب سے زیادہ میری مدد کرنے والا، تم میں سے میرے سب سے زیادہ قریب تر اور میری نگاہ میں عزیز تر ہے ۔اللہ اور میں دونوں اس سے راضی ہیں ۔قرآن کریم میں جو بھی رضا کی آیت ہے وہ اسی کے با رے میں ہے اور جہاں بھی یا ایہا الذین آمنوا کہا گیا ہے اس کا پہلا مخاطب یہی ہے قرآن میں ہر آیت مدح اسی کے بارے میں ہے ۔ سورہ ہل اتیٰ میں جنت کی شہادت صرف اسی کے حق میں دی گئی ہے اور یہ سورہ اس کے علاوہ کسی غیر کی مدح میں نا زل نہیں ہوا ہے ۔
ایھا الناس! یہ دین خدا کا مدد گار، رسول خدا سے دفاع کرنے والا ، متقی ، پا کیزہ صفت ، ہادی اور مہدی ہے ۔تمہارا نبی سب سے بہترین نبی اور اس کا وصی بہترین وصی ہے اور اس کی اولاد بہترین اوصیاء ہیں ۔
ایھا الناس! ہر نبی کی ذریت اس کے صلب سے ہوتی ہے اور میری ذریت علی کے صلب سے ہے۔
ایھا الناس! ابلیس نے حسد کر کے آدم کو جنت سے نکلوا دیا لہٰذا خبردار تم علی سے حسد نہ کرنا کہ تمہارے اعمال برباد ہو جا ئیں، اور تمہا رے قدموں میں لغزش پیدا ہو جا ئے ،آدم صفی اللہ ہو نے کے باوجود ایک ترک اولیٰ پر زمین میں بھیج دئے گئے تو تم کیا ہو اور تمہاری کیا حقیقت ہے ۔تم میں دشمنان خدا بھی پا ئے جا تے ہیں۔ یاد رکہو علی کا دشمن صرف شقی ہو گا اور علی کا دوست صرف تقی ہو گا اس پر ایمان رکھنے والاصرف مومن مخلص ہی ہو سکتا ہے اور خدا کی قسم علی کے با رے میں ہی سورہ عصر نا زل ہوا ہے ۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْر [سورہ عصر آیت/۱]
”بنام خدائے رحمان و رحیم ۔قسم ہے عصر کی ،بیشک انسان خسارہ میں ہے “مگر( علی) جو ایمان لائے اور حق اور صبر پر راضی ہوئے ۔
ایھا الناس !میں نے خدا کو گواہ بناکر اپنے پیغام کو پہنچا دیا اور رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔
ایہا الناس! اللہ سے ڈرو، جو ڈرنے کا حق ہے اور خبردار! اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک اس کے اطاعت گذار نہ ہو جاؤ۔
منافقوں کی کار شکنیوں کی طرف اشارہ
ایھا الناس! ”اللہ ، اس کے رسول اور اس نور پر ایمان لاوٴ جو اس کے ساتھ نا زل کیا گیا ہے ۔قبل اس کے کہ خدا کچھ چہروں کو بگاڑ کر انہیں پشت کی طرف پھیر دے یا ان پر اصحاب سبت کی طرح لعنت کرے “[ سورہ نساء آیت/ ۴۷]
خدا کی قسم اس آیت سے میرے اصحاب کی ایک قوم کا قصد کیا گیا ہے کہ جن کے نام و نسب سے میں آشنا ہوں لیکن مجھے ان سے پردہ پوشی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔پس ہر انسان اپنے دل میں حضرت علی علیہ السلام کی محبت یا بغض کے مطابق عمل کرتاہے ۔
ایھا الناس !نور کی پہلی منزل میں ہوں میرے بعد علی اور ان کے بعد ان کی نسل ہے اور یہ سلسلہ اس مہدی قائم تک بر قرار رہے گا جو اللہ کاحق اورہمارا حق حاصل کر ے گا۔ چو نکہ اللہ نے ہم کو تمام مقصرین ،معاندین ،مخالفین ،خائنین ،آثمین اور ظالمین کے مقابلہ میں اپنی حجت قرار دیا ہے ۔
ایھا الناس! میں تمہیں با خبر کرنا چا ہتا ہوں کہ میں تمہا رے لئے اللہ کا نما ئندہ ہوں جس سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں ۔ تو کیا میں مر جا وٴں یا قتل ہو جا ؤں تو تم اپنے پرا نے دین پر پلٹ جا وٴ گے ؟ تو یاد رکہو جو پلٹ جا ئے گا وہ اللہ کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دینے والا ہے ۔آگاہ ہو جاوٴ کہ علی کے صبر و شکر کی تعریف کی گئی ہے اوران کے بعد میری اولاد کو صابر و شاکر قرار دیا گیا ہے۔ جو ان کے صلب سے ہے ۔
ایھا الناس! مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکہو بلکہ خدا پر بھی احسان نہ سمجھو کہ وہ تمہارے اعمال کو نیست و نابود کر دے اور تم سے ناراض ہو جائے ،اور تمہیں آگ اور”پگلے ہوئے “تانبے کے عذاب میں مبتلا کردے تمہارا پروردگار مسلسل تم کو نگاہ میں رکھے ہوئے ہے ۔
ایھا الناس! عنقریب میرے بعد ایسے امام آئیں گے جو جہنم کی دعوت دیں گے اور قیامت کے دن ان کا کوئی مدد گار نہ ہو گا۔ اللہ اور میں دونوں ان لوگوں سے بیزار ہیں ۔
ایھا الناس! یہ لوگ اور ان کے اتباع و انصار سب جہنم کے پست ترین درجے میں ہوں گے اور یہ متکبر لوگوں کا بد ترین ٹھکانا ہے ۔آگاہ ہو جاوٴ کہ یہ لوگ اصحاب صحیفہ ہیں لہٰذا تم میں سے ہر ایک اپنے صحیفہ پر نظر رکھے ۔
( راوی کہتا ہے :جس وقت پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی زبان مبارک سے ”صحیفہ ٴ ملعونہ “کا نام ادا کیا اکثر لوگ آپ کے اس کلام کا مقصد نہ سمجھ سکے اور اذہان میں سوال ابھرنے لگے صرف لوگوں کی قلیل جماعت آپ کے اس کلام کا مقصد سمجھ پائی ۔)
ایھا الناس! آگاہ ہو جاوٴ کہ میں خلافت کو امامت اور وراثت کے طورپر قیامت تک کے لئے اپنی اولاد میں امانت قرار دے کر جا رہا ہوں اور مجھے جس امر کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا میں نے اس کی تبلیغ کر دی ہے تا کہ ہر حاضر و غائب، موجود و غیر موجود ، مولود و غیر مولود سب پر حجت تمام ہو جائے ۔ اب حاضر کا فریضہ ہے کہ قیامت تک اس پیغام کوغائب تک اورماں باپ اپنی اولاد کے حوالہ کرتے رہیں ۔
میرے بعد عنقریب لوگ اس امامت(خلافت) کو بادشاہت سمجھ کرغصب کرلیں گے ،خدا غاصبین اور تجاوز کرنے والوں پر لعنت کرے ۔یہ وہ وقت ہوگا جب اے جن و انس تم پر عذاب آئے گا آگ اورپگہلے ہوئے تانبے کے شعلے بر سائے جائیں گے جب کوئی کسی کی مدد کرنے والا نہ ہو گا ۔
ایھا الناس! اللہ تم کو انہیں حالات میں نہ چھو ڑے گا جب تک خبیث اور طیب کو الگ الگ نہ کردے۔
ایہا الناس! کوئی قریہ ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ اللہ (اس میں رہنے والوں کو آیات الٰہی کی تکذیب کی بنا پر) ہلا ک کر دےگا اور اسے حضرت مہدی کی حکومت کے زیر سلطہ لے آئے گا یہ اللہ کا وعدہ ہے اوراللہ صا دق الوعد ہے۔
ایھا الناس! تم سے پہلے اکثر لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور اللہ ہی نے ان لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور وہی بعد والوں کو ہلاک کرنے والا ہے ۔خداوند عالم کا فرمان ہے :
اٴَلَمْ نُھلِکِ الْاٴَوَّلینَ،ثُمَّ نُتْبِعُھمُ الْآخِرینَ،کَذٰلِکَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمینَ،وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبینَ [سورہ مرسلات :آیات /۱۶۔۱۹]
”کیا ہم نے ان کے پہلے والوں کو ہلاک نہیں کردیا ہے پھر دوسرے لوگوں کو بھی انہیں کے پیچھے لگا دیں گے ہم مجرموں کے ساتھ اسی طرح کا برتاوٴ کرتے ہیں اور آج کے دن جھٹلانے والوں کے لئے بربادی ہی بربادی ہے “
ایھا الناس! اللہ نے مجھے امر و نہی کی ہدایت کی ہے اور میں نے اللہ کے حکم سے علی کوامر ونہی کیا ہے۔ وہ امر و نہی الٰہی سے با خبر ہیں۔ ان کے امر کی اطاعت کرو تاکہ سلامتی پاوٴ ، ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاوٴ ان کے روکنے پر رک جاوٴ تاکہ راہ راست پر آجاوٴ ۔ان کی مرضی پر چلو اور مختلف راستے تمہیں اس کی راہ سے منحرف کردیں گے ۔
اھل بیت علیھم السلام کے پیروکار اور ان کے دشمن
میں وہ صراط مستقیم ہوں جس کی اتباع کا خدا نے حکم دیا ہے۔ پھر میرے بعد علی ہیں اور ان کے بعد میری اولاد جو ان کے صلب سے ہے یہ سب وہ امام ہیں جو حق کے ساتھ ہدایت کرتے ہیں اور حق کے ساتھ انصاف کرتے ہیں ۔
اس کے بعد آنحضرت (ص) نے اس طرح فرمایا :<بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، الحمد للہ رب العالمین ۔۔۔> سورہ الحمد کی تلاوت کے بعد آپ نے اس طرح فرمایا :
خدا کی قسم یہ سورہ میرے اور میری اولاد کے با رے میں نا زل ہوا ہے ، اس میں اولاد کےلئے عمومیت بھی ہے اور اولاد کے ساتھ خصوصیت بھی ہے ۔ یہی خدا کے دوست ہیں جن کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن ! یہ حزب اللہ ہیں جو ہمیشہ غالب رہنے والے ہیں ۔
آگاہ ہو جاوٴ کہ دشمنان علی ہی اہل ِ تفرقہ، اہل تعدی اور برادران شیطان ہیں جواباطیل کو خواہشات نفسانی کی وجہ سے ایک دوسرے تک پہونچاتے ہیں ۔
آگاہ ہو جاوٴ کہ ان کے دوست ہی مومنین برحق ہیں جن کا ذکر پروردگار نے اپنی کتاب میں کیا ہے:
لَاتَجِدُ قَوْماًیُوٴمِنُوْنَ بِاللہِ والْیَوْمِ الْآخِرِیُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّاللہَ وَرَسُوْلَہ وَلَوْ کَانُوْااٰبَائَہمْ اَوْاَبْنَائَہمْ اَوْاِخْوَانَہمْ اَوْعَشِیْرَتَہمْ ،اُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہم الاِیْمَانَ ۔۔۔ [سورہ مجادلہ آیت /۲۲]
”آپ کبھی نہ دیکھیں گے کہ جوقوم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی ہے وہ ان لوگوں سے دوستی کر رہی ہے جو اللہ اور رسول سے دشمنی کرنے والے ہیں چاہے وہ ان کے باپ دادا یا اولاد یا برادران یا عشیرة اور قبیلہ والے ہی کیوں نہ ہوں اللہ نے صاحبان ایمان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے “
آگاہ ہو جاوٴ کہ ان (اہل بیت )کے دوست ہی وہ افراد ہیں جن کی توصیف پروردگار نے اس انداز سے کی ہے :< الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَلَمْ یَلْبَسُوْااِیْمَانَہمْ بِظُلْمٍ اُوْلٰئِکَ لَہمُ الْاَمْنُ وَہمْ مُہتَدُوْن>[سورہ انعام آیت/۸۲]
” جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا انہیں کے لئے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں “
آگاہ ہو جاؤ کہ ان کے دوست وہی ہیں جو ایمان لائے ہیں اور شک میں نہیں پڑے ہیں ۔
آگاہ ہوجاوٴ کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جوجنت میں امن و سکون کے ساتھ داخل ہوں گے اور ملائکہ سلام کے ساتھ یہ کہہ کے ان کا استقبال کریں گے کہ تم طیب و طاہر ہو، لہٰذا جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کےلئے داخل ہو جاوٴ “
آگاہ ہو جاوٴ کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جن کے لئے جنت ہے اور انہیں جنت میں بغیر حساب رزق دیاجائیگا ۔
آگاہ ہو جاوٴ کہ ان (اہل بیت) کے دشمن ہی وہ ہیں جوآتش جہنم کے شعلوں میں داخل ہوں گے۔
آگاہ ہو جاوٴ کہ ان کے دشمن وہ ہیں جوجہنم کی آواز اُس عالم میں سنیں گے کہ اس کے شعلے بھڑک رہے ہوں گے اور وہ ان کو دیکھیں گے ۔
آگاہ ہو جاوٴ کہ ان کے دشمن وہ ہیں جن کے بارے میں خداوند عالم فرماتا ہے:
<کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَعَنَتْ اُخْتَہا۔۔۔>[سورہ اعراف آیت /۳۸ ]
” (جہنم میں) داخل ہونے والاہر گروہ دوسرے گروہ پر لعنت کرے گا ۔۔۔ ‘ ‘
آگاہ ہو جاوٴ کہ ان کے دشمن ہی وہ ہیں جن کے بارے میں پروردگار کا فرمان ہے:
< کُلَّمَا اُلْقِیَ فِیْہا فَوْجٌ سَاٴَلَہمْ خَزْنَتُہااَلَمْ یَاتِکُمْ نَذِیْرٌ. قَالُوْابَلَیٰ قَدْجَاءَ نَانَذِیْرٌفَکَذَّبْنَاوَقُلْنَامَانَزَّلَ اللہُ مِنْ شَیْءٍ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّافِیْ ضَلَالٍ کَبِیْرٍ.۔۔۔اَلَا فَسُحْقاًلِاَصْحَا بِ السَّعِیْرِ>[سورہ ملک آیات / ۸۔۱۱]
” جب کوئی گروہ داخل جہنم ہو گا تو جہنم کے خازن سوال کریں گے کیا تمہا رے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟ تو وہ کہیں گے آیا تو تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلا دیا اور یہ کہہ دیا کہ اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہے تم لوگ خود بہت بڑی گمراہی میں مبتلا ہو۔۔۔آگاہ ہوجاؤ تو اب جہنم والوں کے لئے تو رحمت خدا سے دوری ہی دوری ہے“.
آگاہ ہو جاوٴ کہ ان کے دوست ہی وہ ہیں جو اللہ سے از غیب ڈرتے ہیں اور انہیں کےلئے مغفرت اور اجر عظیم ہے ۔
ایا الناس!دیکھو آگ کے شعلوں اوراجر عظیم کے ما بین کتنا فاصلہ ہے ۔
ایا الناس!ہمارا دشمن وہ ہے جس کی اللہ نے مذمت کی اور اس پر لعنت کی ہے اور ہمارا دوست وہ ہے جس کی اللہ نے تعریف کی ہے اور اس کو دوست رکھتا ہے ۔
ایا الناس! آگاہ ہو جاوٴ کہ میں ڈرانے والا ہوں اور علی بشارت دینے والے ہیں ۔
ایا الناس! میں انذار کرنے والا اور علی ہدایت کرنے والے ہیں۔
ایا الناس! میں پیغمبر ہوں اور علی میرے جانشین ہیں ۔
ایا الناس! آگاہ ہو جاوٴ میں پیغمبر ہوں اور علی میرے بعد امام اور میرے وصی ہیں اوران کے بعد کے امام ان کے فرزند ہیں آگاہ ہو جاوٴ کہ میں ان کا باپ ہوں اور وہ اس کے صلب سے پیدا ہون گے۔
حضرت دی عجل اللہ فرجہ الشریف
یاد رکہو کہ آخری امام ہمارا ہی قائم مہدی ہے، وہ ادیان پر غالب آنے والا اور ظالموں سے انتقام لینے والا ہے، وہی قلعوں کو فتح کرنے والا اور ان کو منہدم کرنے والا ہے، وہی مشرکین کے ہر گروہ پرغالب اور ان کی ہدایت کر نے والا ہے ۔
آگاہ ہوجاؤ وہی اولیاء خدا کے خون کا انتقام لینے والا اور دین خدا کا مدد گار ہے جان لو کہ وہ عمیق سمندر سے استفادہ کرنے والا ہے ۔
وہی ہر صاحب فضل پر اس کے فضل اور ہر جاہل پر اس کی جہالت کا نشانہ لگانے والا ہے۔
آگاہ ہو جاوٴ کہ وہی اللہ کا منتخب اور پسندیدہ ہے، وہی ہر علم کا وارث اور اس پر احاطہ رکھنے والا ہے۔
آگاہ ہو جاؤ وہی پروردگار کی طرف سے خبر دینے والا اورآیات الٰہی کو بلند کرنے والا ہے۔ وہی رشید اور صراط مستقیم پر چلنے والا ہے اسی کو اللہ نے اپنا قانون سپرد کیا ہے ۔
اسی کی بشارت دور سابق میں دی گئی ہے ۔ وہی حجت باقی ہے اور اس کے بعد کوئی حجت نہیں ہے ، ہر حق اس کے ساتھ ہے اور ہر نور اس کے پاس ہے، اس پر کوئی غالب آنے والا نہیں ہے وہ زمین پر خدا کا حاکم، مخلوقات میں اس کی طرف سے حَکَم اور خفیہ اور علانیہ ہر مسئلہ میں اس کا امین ہے ۔
بیعت کی وضاحت
ایھا الناس! میں نے سب بیان کر دیا اور سمجھا دیا ،اب میرے بعد یہ علی تمہیں سمجھائیں گے
آگاو ہو جاوٴ ! کہ میں تمہیں خطبہ کے اختتام پراس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ پہلے میرے ہاتھ پر ان کی بیعت کا اقرار کرو ،اس کے بعد ان کے ہاتھ پر بیعت کرو ، میں نے اللہ کے ساتہ بیعت کی ہے اور علی نے میری بیعت کی ہے اور میں خداوند عالم کی جانب سے تم سے علی کی بیعت لے رہا ہوں (خدا فرماتا ہے):<اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَایُبَایِعُوْنَ اللہَ یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیْدِیْہمْ فَمَنْ نَکَثَ فَاِنَّمَایَنْکُثُ عَلیٰ نَفْسِہ وَمَنْ اَوْفَیٰ بِمَاعَاہدَ عَلَیْہُ اللہَ فَسَیُوْتِیْہِ اَجْراًعَظِیْماً>
” بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کر تے ہیں وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کر تے ہیں اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ ہی کا ہا تھ ہے اب اس کے بعد جو بیعت کو توڑ دیتا ہے وہ اپنے ہی خلاف اقدام کرتا ہے اور جو عہد الٰہی کو پورا کر تا ہے خدا اسی کو اجر عظیم عطا کر ے گا “
حلال و حرام، واجبات اور محرمات
ایھا الناس! یہ حج اور عمرہ اور یہ صفا و مروہ سب شعائر اللہ ہیں (خدا وند عالم فرماتا ہے:
فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِعتَمَرَفَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھمَا۔۔۔ [سورہ بقرہ آیت / ۱۵۸]
”لہٰذا جوشخص بھی حج یا عمرہ کرے اس کےلئے کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ ان دونوں پہا ڑیوں کا چکر لگائے “
ایھا الناس!خانہ ٴ خدا کا حج کرو جو لوگ یہاں آجاتے ہیں وہ بے نیاز ہو جاتے ہیں خوش ہوتے ہیں اور جو اس سے الگ ہو جاتے ہیں وہ محتاج ہو جاتے ہیں ۔
ایھا الناس!کوئی مومن کسی موقف(عرفات ،مشعر ،منی ) میں وقوف نہیں کرتا مگر یہ کہ خدا اس وقت تک کے گناہ معاف کر دیتا ہے ،لہٰذا حج کے بعد اسے از سر نو نیک اعمال کا سلسلہ شروع کرنا چاہئے۔
ایھا الناس! حجاج کی مدد کی جاتی ہے اور ان کے اخراجات کا اس کی طرف سے معاوضہ دیا جاتا ہے اور اللہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے ۔
ایھا الناس! پورے دین اور معرفت احکام کے ساتھ حج بیت اللہ کرو، اور جب وہ مقدس مقامات سے واپس ہو تو مکمل توبہ اور ترک گنا ہ کے ساتھ۔
ایھا الناس!نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو جس طرح اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ اگر وقت زیادہ گذر گیا ہے اور تم نے کوتا ہی و نسیان سے کام لیا ہے تو علی تمہا رے ولی اور تمہارے لئے بیان کر نے والے ہیں جن کو اللہ نے میرے بعد اپنی مخلوق پرامین بنایا ہے اور میرا جانشین بنایا ہے وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔
وہ اور جو میری نسل سے ہیں وہ تمہارے ہر سوال کا جواب دیں گے اور جو کچہ تم نہیں جانتے ہو سب بیان کر دیں گے ۔
آگاہ ہو جاوٴ کہ حلال و حرام اتنے زیادہ ہیں کہ سب کا احصاء اور بیان ممکن نہیں ہے ۔مجھے اس مقام پر تمام حلال و حرام کی امر و نہی کرنے اور تم سے بیعت لینے کا حکم دیا گیا ہے اور تم سے یہ عہد لے لوں کہ جو پیغام علی اور ان کے بعد کے ائمہ کے بارے میں خدا کی طرف سے لایا ہوں ،تم ان سب کا اقرار کرلوکہ یہ سب میری نسل اور اس (علی) سے ہیں اور امامت صرف انہیں کے ذریعہ قائم ہوگی ان کا آخری مہدی ہے جو قیامت تک حق کے ساتھ فیصلہ کرتا رہے گا “
ایھا الناس! میں نے جس جس حلال کی تمہارے لئے رہنمائی کی ہے اور جس جس حرام سے روکا ہے کسی سے نہ رجوع کیا ہے اور نہ ان میں کوئی تبدیلی کی ہے لہٰذا تم اسے یاد رکہو اور محفوظ کرلو، ایک بار میں پھر اپنے لفظوں کی تکرار کر تا ہوں :نماز قائم کرو ، زکوٰة ادا کرو، نیکیوں کا حکم دو، برا ئیوں سے روکو۔
اور یہ یاد رکھو کہ امر بالمعروف کی اصل یہ ہے کہ میری بات کی تہہ تک پہنچ جاوٴ اور جو لوگ حاضر نہیں ہیں ان تک پہنچاوٴ اور اس کے قبول کرنے کا حکم دو اور اس کی مخالفت سے منع کرو اس لئے کہ یہی اللہ کا حکم ہے اور یہی میرا حکم بہی ہے اور امام معصوم کو چھوڑ کر نہ کوئی امر بالمعروف ہو سکتا ہے اور نہ نہی عن المنکر ۔
ایھا الناس! قرآن نے بھی تمہیں سمجھایا ہے کہ علی کے بعد امام ان کے فرزند ہیں اور میں نے تم کو یہ بھی سمجہا دیا ہے کہ یہ سب میری اور علی کی نسل سے ہیں جیساکہ پروردگار نے فر مایا ہے:
وَجَعَلَھاکَلِمَةً بَاقِیَةً فِیْ عَقَبِہِ [سورہ زخرف آیت / ۲۸۔]
” اللہ نے (امامت )انہیں کی اولاد میں کلمہ باقیہ قرار دیا ہے “اور میں نے بھی تمہیں بتا دیا ہے کہ جب تک تم قرآن اور عترت سے متمسک رہو گے ہرگز گمراہ نہ ہو گے۔
ایھا الناس!تقویٰ اختیار کرو تقویٰ۔ قیامت سے ڈروجیسا کہ خداوندعالم نے فرمایا ہے:
اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ [سورہ حج آیت/۱]
” زلزلہ قیامت بڑی عظیم شیٴ ہے “
موت ، قیامت ،حساب، میزان ،اللہ کی بارگاہ کا محاسبہ ،ثواب اور عذاب سب کو یاد کرو کہ وہاں نیکیوں پر ثواب ملتا ہے اور برائی کرنے والے کا جنت میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔
قانونی طور پر بیعت لینا
ایھا الناس! تمہاری تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ایک ایک میرے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بیعت نہیں کر سکتے ہو ۔لہٰذا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہاری زبان سے علی کے امیرالمو منین ہونے اور ان کے بعد کے ائمہ جو ان کے صلب سے میری ذریت ہیں سب کی امامت کا اقرار لے لوں اور میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ میرے فرزند ان کے صلب سے ہیں۔
لہٰذا تم سب مل کر کہو: ہم سب آپ کی بات سننے والے، اطاعت کرنے والے، راضی رہنے والے اور علی اور اولاد علی کی امامت کے با رے میں جو پروردگار کا پیغام پہنچایا ہے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے ہیں ۔ہم اس بات پر اپنے دل، اپنی روح، اپنی زبان اور اپنے ہاتھوں سے آپ کی بیعت کر رہے ہیں اسی پر زندہ رہیں گے، اسی پر مریں گے اور اسی پر دو بارہ اٹھیں گے ۔نہ کوئی تغیر و تبدیلی کریں گے اور نہ کسی شک و ریب میں مبتلا ہوں گے، نہ عہد سے پلٹیں گے نہ میثاق کو توڑیں گے ۔
اورجن کے متعلق آپ نے فرمایا ہے کہ وہ علی امیر المومنین اور ان کی اولاد ائمہ آپ کی ذرّیت میں سے ہیں ان کی اطاعت کریں گے ۔جن میں سے حسن وحسین ہیں اور ان کے بعد جن کو اللہ نے یہ منصب دیا ہے اور جن کے بارے میں ہم سے ہمارے دلوں،ہماری جانوں ہماری زبانوں ہمارے ضمیروں اور ہمارے ہاتہوں سے عہدوپیمان لے لیاگیا ہے ہم اسکا کوئی بدل پسند نہیں کریں گے ،اور اس میں خدا ہمارے نفسوں میں کوئی تغیر و تبدل نہیں دیکھے گا۔
ہم ان مطالب کو آپ کے قول مبارک کے ذریعہ اپنے قریب اور دور سبہی اولاد اور رشتہ داروں تک پہنچا دیں گے اورہم اس پر خدا کو گواہ بناتے ہیں اور ہماری گواہی کے لئے اللہ کافی ہے اور آپ بہی ہمارے گواہ ہیں ۔
ایھاالناس!اللہ سے بیعت کرو ،علی (ع) امیر المومنین ہونے اور حسن وحسین اور ان کی نسل سے باقی ائمہ کی امامت کے عنوان سے بیعت کرو۔جو غداری کرے گا اسے اللہ ہلاک کردے گا اور جو وفا کرے گا اس پر رحمت نازل کرے گا اور جو عہد کو توڑدے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا اور جو شخص خداوند عالم سے باندھے ہوئے عہد کو وفا کرے گا خدوند عالم اس کو اجر عظیم عطا کرے گا ۔
ایھاالناس !جومیں نے کہا ہے وہ کہو اور علی کو امیر المومنین کہہ کر سلام کرو، اور یہ کہو کہ پروردگارا ہم نے سنا اور اطاعت کی ،پروردگارا ہمیں تیری ہی مغفرت چاہئے اور تیری ہی طرف ہماری بازگشت ہے اور کہو :حمد و شکرہے اس خدا کا جس نے ہمیں اس امر کی ہدایت دی ہے ورنہ اسکی ہدایت کے بغیر ہم راہ ہدایت نہیں پاسکتے تھے۔
ایھاالناس!علی ابن ابی طالب کے فضائل اللہ کی بارگاہ میں اور جواس نے قرآن میں بیان کئے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ میں ایک منزل پر شمار کر سکوں۔ لہٰذا جو بھی تمہیں خبر دے اور ان فضائل سے آگاہ کرے اسکی تصدیق کرو۔
یاد رکہو جو اللہ ،رسول،علی اور ائمہ مذکورین کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی کا مالک ہوگا ۔
ایھا الناس! جو علی کی بیعت ،ان کی محبت اور انہیں امیرالمومنین کہہ کر سلام کرنے میں سبقت کریں گے وہی جنت نعیم میں کامیاب ہوں گے ۔
ایھا الناس! وہ بات کہو جس سے تمہارا خدا راضی ہوجائے ورنہ تم اور تمام اہل زمین بھی منکر ہوجائیں تو اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتے۔
پرودگارا !جو کچہ میں نے ادا کیا ہے اور جس کا تونے مجھے حکم دیا ہے اس کے لئے مومنین کی مغفرت فرما اور منکرین (کافرین) پر اپنا غضب نازل فرما اور ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے ۔
غدیر خم میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مکمل خطبے کا اردو ترجمہ
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1941