www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا


اسلامی تعلیمات کے مطابق شیعوں نے جو کچھ سیکھا تھا اس پرمعتقد تھے ۔ جو چیز معاشرے کے لئے سب سے زیادہ اھمیت کی حامل تھی وہ یہ تھی کہ اسلامی تعلیمات اور دینی ثقافت کو واضح کیاجائے اور دوسرے مرحلے میں ان کومعاشرے میں مکمل طورپر نافذ اور جاری کیاجائے ۔
دوسرے یہ کہ ایک دینی حکومت ، حقیقی اسلامی انتظام اور نظم ونسق کو معاشرے میں مضبوط اور محفوظ رکھاجائے اور اسے نافذ کیاجائے اس طرح کہ لوگ خدا کے سواکسی اور کی پرستش نہ کریں اور مکمل آزادی اور انفرادی و اجتماعی انصاف سے بھرہ ور ھوں ۔ یہ دونوں کام اس شخص کے ھاتھوں انجام پائیں جس کی عصمت او ر حفاظت خداوند تعالیٰ کی طرف سے ھو ۔ ورنہ ممکن ھے ایسے اشخاص اقتدار و حکومت اورعلمی رھبری کواپنے ھاتہ میں لے لیں جو اپنے فرائض کی ذمہ داری میں فکری انحراف یاخیانت سے محفوظ نہ ھوں اور اس طرح اسلام کی آزادی بخش عادلانہ حکومت اور ولایت آھستہ آھستہ استبدادی سلطنت اور قیصر و کسریٰ جیسی حکومتوں میں تبدیل ھوکر رہ جائے ۔مقدس دینی علوم او ردیگر معارف میں تبدیلیاں پیداھوجائیں اور بوالھو س و خود غرض دانشوریاعام افراد ان میں اپنی مرضی سے کمی بیشی کردیں۔لھذاایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جس کی تصدیق پیغمبر اکرم نے کی ھو او ر وہ شخص اپنے قول و فعل میں پاک اور پختہ ھو، اس کے طور طریقے کتاب خدا اورسنت رسول کے ساتھ مکمل مطابقت رکھتے ھوں۔ ایسے شخص صرف حضرت علی علیہ السلام تھے ۔(۱)
اگر چہ اکثر لوگ کھتے ھیں کہ اگر قریش حضرت علی علیہ السلام کی خلافت حقہ کے مخالف تھے تو اس صورت میں ضروری تھا کہ مخالفوں کو حق کی اطاعت پر مجبور کیاجاتا اور سرکش لوگوں کو سر اٹھانے کی اجازت نہ دی جاتی نہ کہ قریش کی مخالفت کے ڈر سے حق کو پامال کیاجاتا ، جیسا کہ خلیفۂ اول نے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی تھی جنھوں نے زکوٰة دینا بند کردی تھی لیکن زکوٰة لینے سے چشم پوشی نھیں کی تھی ۔
حقیقت یہ ھے کہ جس چیز نے شیعوں کو انتخابی خلافت کے قبول اور تسلیم نہ کرنے پرابھارا وہ یہ تھی کہ ان کو بعد میں رونما ھونے والے ناگوار اتفاقات و حوادث کاخوف تھا یعنی اسلامی حکومت کے نظام اور طریقوں میں بدعنوانی اور فساد کے نتیجے میں دین مبین اسلام کی بنیادی تعلیمات میں خرابی لازمی نظر آتی تھی ۔ اتفاق سے بعد میں رونما ھونے والے حوادث بھی اس عقیدے یا پیشینگوئی کو تقویت دے رھے تھے۔ جس کے نتیجے میں شیعہ جماعت اپنے عقیدے پر زیادہ سے زیادہ مضبوط ھوتی جارھی تھی یا یوں کھاجائے کہ ظاھری طور پر ایک چھوٹی سی جماعت ایک بڑ ی اکثریت کو اپنے اندر ضم کرنے چلی تھی لیکن باطنی طور پر اھلبیت(ع) سے اسلامی تعلیمات کے حصول اور اپنے طریقے کی طرف لوگوں کو دعوت دے رھی تھی اور اپنے عقائد پرمصر تھی مگر اس کے ساتھ ھی اسلامی طاقت کی ترقی اور حفاظت کے پیش نظر حکومت کے ساتھ اعلانیہ مخالفت بھی نھیں کرتی تھی حتی کہ شیعہ ،اکثریت کے دوش بدوش جھاد پر جاتے اوررفاہ عامہ کے کاموں میں حصہ لیتے تھے اور خود حضرت علی علیہ السلام اسلام کے مفادات کی خاطر لوگوں کی رھنمائی کیا کرتے تھے ۔ (۲)
حوالہ:
۱۔ البدایہ و النھایہ ج/ ۷ ص ۳۶۰۔
۲۔ تاریخ یعقوبی ص/ ۱۱۱ ۔ ۱۲۶ ۔ ۱۲۹۔

Add comment


Security code
Refresh