۶۰ ھجری میں معاویہ فوت ھوگیا اور اس کے بیٹے یزید نے اس بیعت کے مطابق جو اس کے باپ نے اس کے لئے عوام سے حاصل کی تھی ، اسلامی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ۔
تاریخی شواھد کے مطابق یزید کوئی دینی شخصیت نہ رکھتا تھا ، وہ ایک ایسا جوان تھا جو حتیٰ کہ اپنے باپ کی زندگی میں بھی اسلامی قوانین و اصول کوقابل اعتنا نھیں سمجھتا تھا بلکہ عیاشی ، لاقانونیت اور شھوت رانی کے سوا اسے کوئی کام ھی نہ تھا ۔ اس نے اپنی تین سالہ حکومت کے دوران ایسی تباھی اوربربادی مچائی اورایسے جرائم کامرتکب ھوا جن کی مثال تاریخ اسلام میں ھرگز نھیں ملتی ، اگرچہ اسلامی تاریخ میں اس سے پھلے بھت سے فتنے منظر عام پر آچکے تھے مگر یزید ان سب پر بازی لے گیا تھا ۔
اس نے اپنی حکومت کے پھلے سال میں حضرت حسین ابن علی(ع)جو پیغمبر اکرم کے نواسے تھے ، کوان کے اصحاب و اولاد ، بچوں اور عورتوں سمیت بڑی بے دردی اور بے رحمی سے شھید کردیا تھا اورحرم اھلبیت(ع) کوشھیدوں کے سروں کے ساتھ شھر بشھرپھرایا تھا ۔(۱)
پھر دوسرے سال اس نے مدینہ منورہ میں قتل عام کیا جھاں عوام کے مال وجان کوتین دن تک کے لئے اپنی افواج پر حلال کردیاتھا۔ (۲)تیسرے سال خانۂ کعبہ کوگرا کرآگ لگادی تھی ۔ (۳) یزید کے بعد بنی امیہ کے خاندان آل مروان نے حکومت اپنے ھاتھوں میں لی جیسا کہ تاریخ میں اس کی تفصیل موجود ھے ۔ اس خاندا ن کے گیارہ حکمرانوں نے تقریبا ً ۷۰/سال تک حکومت کی ۔ انھوں نے مسلمانو ںاور اسلام کے لئے بدترین اور مشکل ترین حالات پیدا کردئے تھے ۔ لھذا اس زمانے میں اسلامی ممالک میں ایک استبداد ی اور ظالمانہ بادشاھت وجود میں آگئی تھی جس کواسلامی خلافت کانام دے دیاگیاتھا اور اس دوران حالات یھاں تک پھنچ گئے تھے کہ خلیفہ ٴوقت جوپیغمبر اکرم کا جانشین اوردین مبین کا حامی سمجھا جاتا تھا ، نے یہ فیصلہ کیاکہ خانۂ کعبہ کے اوپر ایک بارہ دری بنائے تاکہ زمانہ حج میں وھاں بیٹھ کر خاص طور پر عیاشی کر سکے ۔ (۴)
خلیفہٴ وقت نے قرآن مجید کو تیرکا نشانہ بنایا اورقرآن مجید کے متعلق ایک نظم لکھی جس میں کھا گیا تھا :”اے قرآن ! قیامت کے دن تو اپنے خدا کے حضور میںحاضرھوگا تو اس وقت خدا سے کھنا کہ خلیفہ نے مجھے پھاڑ دیا تھا ۔“(مروج الذھب جلد ۳ ص ۲۳۸)
شیعہ جو اھلسنت سے بنیادی طور پر خلافت اور دینی رھبری کے مسائل میں اختلاف نظر رکھتے تھے ، اس تاریک دور میں سخت حالات میں زندگی گزاررھے تھے لیکن اس زمانے کی حکومتوں کے ظلم و ستم اورلا قانونیت نیز دوسری طرف ائمہ اطھار(ع) کی مظلومیت ، تقویٰ وپاکیزگی وغیرہ ان کو اپنے عقائد میں مضبوط اور مستحکم کررھی تھی خصوصاً تیسرے امام حضرت حسین علیہ السلام کی دلخراش شھادت شیعوں کی افزائش کا باعث بنی خاص کر مرکز خلافت (دارالخلافہ)سے دور ۔دراز علاقوں مثلا ً عراق ، یمن اور ایران میں ۔
اس دعوے کا ثبوت یہ ھے کہ کے پانچویں امام کے زمانۂ امامت میں جبکہ پھلی صدی ھجری ابھی ختم نھیں ھوئی تھی اور تیسرے امام کی شھادت کو چالیس سال بھی نھیں ھوئے تھے ، اموی حکومت میں کمزوری اور ضعف کے باعث شیعہ ، اسلامی ممالک کے کونے کونے سے پانچویں امام کے اردگر د جمع ھونا شروع ھوگئے تھے تاکہ علم حدیث اور علم دین حاصل کرسکیں ۔(۵)ابھی پھلی صدی ھجری اختتام کو نھیں پھنچی تھی کہ حکومت کے چند اعلیٰ عھدیداروں نے ایران میں شھر قم کی بنیاد رکھی اور اس شھر میں شیعوں کو لا کرآباد کیا (۶)لیکن اس کے باوجود شیعہ چھپ چھپا کراوراپنے مذھب کا اعلان کئے بغیر زندگی گذارتے رھے ۔اس دوران کئی بارعلوی سادات نے اپنے اپنے زمانے کی حکومتوں کے ظلم و ستم اوردباؤ کے خلاف تحریکیں شروع کیں لیکن ان کو ھر بار شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور آخر کار اس راہ میں اپنی جان کی بازی لگاتے رھے۔ اس وقت کی حکومتوں نے ان کے جان ومال کو پامال کرنے میں کوئی کسر اٹھانھیں رکھی تھی ۔ حضرت زید بن علی(ع) جوشیعہ زیدیہ کے اما م تھے ، کی لاش کو قبر سے نکال کر سولی پرچڑھا یا گیا اور یہ لاش تین سال تک سولی پر لٹکی رھی۔ اس کے بعد لاش کوسولی سے اتار کر آگ میں جلا دیا گیا اور راکہ کو ھوا میں اڑا دیا گیا ۔ (۷)یھاں تک کہ اکثر شیعہ جوچوتھے اور پانچویں امام کے معتقد اور پیروکار تھے، بنی امیہ کے ھاتھوں زھر دے کر شھید کردئے گئے اسی طرح امام دوم اور امام سوم کی شھادت بھی انھی کے ھاتھوں ھوئی تھی ۔
امویوں کے ظلم و ستم اس قدر واضح اور زیادہ تھے کہ اکثر اھلسنت اگرچہ عام طور پر خلفاء کی اطاعت کو اپنا فرض سمجھتے تھے لیکن ان کے ظلم و ستم کی وجہ سے مجبور ھوگئے تھے کہ خلفاء کو دوگروھوں میں تقسیم کردیں یعنی ایک طرف خلفائے راشدین جو پھلے چار خلفا ء تھے اور پیغمبر اکرم کی وفات کے بعد آپ کے جانشین بنے (ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی(ع) ) اور دوسری طرف خلفائے راشدین کے علاوہ دوسرے خلفاء جو معاویہ سے شروع ھوتے ھیں ۔
اموی خاندان اپنی حکومت میں ظلم و ستم اور بیداد گردی ولا قانونیت کی وجہ سے لوگوں کے لئے باعث نفرت بن چکا تھا ۔ امویوں کی شکست اوراس خاندان کے آخری خلیفہ کے قتل کے بعد خلیفہ کے دو بیٹے اپنے خاندان کے ھمراہ دارالخلافہ سے بھاگ کھڑے ھوئے ۔ وہ جھاں کھیں بھی جاتے ان کو پناہ نھیں ملتی تھی ۔آخر کار پریشانی اورسرگردانی کی حالت میں نوبہ ، حبشہ اور بجادہ کے میدانوں اور صحراؤں میں اس خاندان کے اکثر افراد بھوک و پیاس سے ھلاک ھوگئے ۔جو افراد بچے وہ یمن کے جنوبی حصے میں پھونچ گئے تھے اور لوگوں سے راستے کا خرچ حاصل کرنے کے لئے گداگری کیا کرتے تھے ۔آخرکار ذی حمالان شھرسے مکہ کی طرف روانہ ھوئے اوروھاں جاکر لوگوں کے درمیان روپوش ھوگئے ۔(۸)
حوالہ:
۱۔ تاریخ یعقوبی ج / ۲ ص / ۲۱۶ ، تاریخ ابو الفداء ج / ۱ ص / ۱۹۰ ، مروج الذہب ج / ۳ ص / ۶۴۔
۲۔ تاریخ یعقوبی ج / ۲ ص / ۲۴۳ ، تاریخ ابو الفداء ج / ۱ ص / ۱۹۲ ، مروج الذہب ج / ۳ ص /۷۸۔
۳۔ تاریخ یعقوبی ج / ۲ ص / ۲۲۴ ، تاریخ ابو الفداء ج / ۱ ص / ۱۹۲ ، مروج الذہب ج / ۳ ص / ۸۱۔
۴۔ ولید بن یزید ۔ تاریخ یعقوبی ج / ۳ ص / ۷۳۔
۵۔ بحث امام شناسی ،مروج الذہب ج / ۳ ص / ۲۲۸۔
۶۔ معجم البلدان ، مادہٴ قم۔
۷۔ مروج الذہب ج / ۳ ص / ۲۱۷ ۔۲۱۹ ، تاریخ یعقوبی ج / ۳ ص / ۶۶۔
۸۔ تاریخ یعقوبی ج/۳ص/۸۴۔
بنی امیہ کی سلطنت کاقیام
- Details
- Written by admin
- Category: شیعوں کے عقائد
- Hits: 899