لندن کی ایک شاھراہ پر ایک برطانوی فوجی کے قتل کی ویڈیو فلم اور خبر کی اشاعت ، برطانیہ میں بڑھتی ھوئی اسلام ستیزی پر مسلمانوں کی تشویش میں اضافہ کا باعث بنی ہے۔
برطانیہ کے اسلامی حقوق انسانی کمیشن نے اس برطانوی فوجی کے قتل کے نتیجہ میں اسلام مخالف تشھیرات کو ھدف تنقید بناتے ھوۓ مسلمانوں کےخلاف آتش نفرت بھڑکانے کے عمل کو روکنے کامطالبہ کیا ، حقوق انسانی کی اس کمیٹی نے لندن کے پولیس چیف برنارڈ ھوگن ھاؤ۔ کے نام ارسال کردہ ایک خط میں تاکید کی کہ جو لوگ اس واقعہ سے غلط فائدہ اٹھاکر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا رھے ہیں ان کاپیچھا کیا جاۓ ، اور پولیس کو چاھیےکہ ان انتھا پسند اور نسل پرست گروھوں کے خلاف کہ جو قتل کے اس واقعہ سے فائدہ اٹھانے کے درپے ہیں ٹھوس موقف اختیار کرے،برطانیہ کے اسلامی حقوق انسانی کمیشن نے اسی طرح اپنے اس خط میں لندن کے پولیس چیف سے درخواست کی کہ لندن میں مساجد اسکولوں اور دیگر اسلامی تنظیموں کے اطراف حفاظتی تدابیر سخت کردیں ، اس کمیشن نے اس امر پر زور دیا کہ ان دشوار حالات میں مسلمانوں کے خلاف منفی رد عمل ، معاشرے کے خلاف شدید خطرہ شمار ھوتاہے۔ برطانوی میڈیا میں اس برطانوی فوجی کے قتل کاوسیع پیمانے پر انعکاس ، اور مسلمانوں کی طرف اس قتل کی نسبت دینا، اس امر کا باعث بناہے کہ بعض علاقوں میں مسلمانوں کو، گزشتہ دو دنوں سے انتہا پسند اور نسل پرست گروہوں کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑ رھاہے ۔ پچیس سالہ برطانوی فوجی ، لی ریگبی، کو کل شام لندن کے جنوب مشرق میں واقع وولویچ، کے علاقے میں چاقو سے حملہ کر کے قتل کردیاگیا، اس واقعہ میں دو حملہ آوروں نے سڑک پر آنے جانے والوں کی نظروں کے سامنے اس برطانوی فوجی کوچاقوسے ضربیں لگاکر قتل کردیا ،یہ برطانوی فوجی 2009،میں افغانستان کے صوبہ ھلمند میں تعینات تھا، اور بعد میں لندن لوٹ آیاتھا، برطانوی میڈیا نےقتل کے اس واقعہ کے بعد، دو مسلمان جوانوں کواس واقعہ میں ملوث قرار دیااور گزشتہ گھنٹوں کے دوران مسلمانوں کے خلاف منفی رپورٹیں نشر کیں، ویڈیو تصویر میں ایک مشتبہ شخص نےاس قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ھوۓ اس قتل کی وجہ یہ بتائی ہے کہ برطانوی فوجیوں کے ھاتھوں ھر روز مسلمانوں کا قتل واقع ھوتاہے اور یہ اقدام ایک قسم کاانتقام ہے ، قتل کے اس واقعہ کے بعد برطانوی وزیر اعظم جو فرانس کے دورے پر تھے ، اپنا دورہ نامکمل چھوڑ کر لندن واپس لوٹ آۓ اور کابینہ کے ھنگامی اجلاس میں شرکت کی کیمرون نے اس واقعہ پر رد عمل ظاھر کرتے ھوۓ واضح الفاظ میں کھا کہ اس جرم کی ذمہ داری فقط اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں پر عائد ھوتی ہے کسی خاص اقلیت اور دین کوھدف تنقید نھیں بنانا چاھیے ، کیمرون نے کھا کہ ھر ثقافت ومذھب کے برطانوی عوام اس واقعہ کی مذمت کرتے ہیں ، انھوں نے تاکید کے ساتھ کھا کہ یہ اقدام فقط برطانیہ اور اس ملک کے عوام اوران کےشیوۂ زندگی پر حملے کے مترادف نھیں ہے ، بلکہ اسلام اور برطانوی مسلمانوں کے ساتھ خیانت ہے ، اور اسلام نےاس قسم کے وحشیانہ اقدامات کی کوئی توجیہ پیش نھیں کی گئی ہے برطانیہ کی مختلف اسلامی انجمنوں ، خاص طور پر برطانیہ کی سب سے بڑی مسلمانوں کی تنظیم ، مسلم کونسل نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے گرینویچ اسلامی سنٹر نے اس قتل کی مذمت کرتے ھوۓ اعلان کیاہے کہ گرینویچ کے مسلمانوں کے ، اس علاقے کے تمام معاشروں کے افراد کے ساتھ ھمیشہ اچھے تعلقات رھے ہیں، اور اس علاقے کے مسلمان اس طرح کے شیطانی اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہیں، اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لۓ قرار واقعی سزا کے خواھاں ہیں، لندن کے میر ،بوریس جانسن نے کھا ہے کہ اس انفرادی اقدام میں مسلمانوں کو ملوث نھیں قرار دینا چاھیے دوسری جانب بعض انتھاپسند اور نسل پرست گروھوں کے اراکین نے کل رات وولویج کے علاقے میں جمع ھوکر مسلمانوں کے خلاف نعرے لگاۓ یاد رھے کہ برطانیہ اور بعض دیگر یورپی ملکوں میں حالیہ برسوں میں اسلام دشمنی میں شدت پیداھوئی ہے۔